حج کا سفر۔۔۔ کچھ حج کمیٹی کےطریقہ کار کے بارے میں (4) ۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

10:47AM Tue 5 Jul, 2022

سال بہ سال دی جانے والی درخواست بھی نئی درخواست سمجھی جاتی ہے اور اس سے وہی سلوک کیا جاتاہے جو پہلی بار درخواست دینے والے کی درخواست کے ساتھ کیاجاتا ہے اور کبھی یہ اطمینان نہیں ہوسکتا کہ اس سال نہیں تو آئندہ سال یا اس کے بعد ہمیں حج کا موقعہ ضرور مل جائے گا۔

 ہمارے دوست ڈاکٹر ایم ایم ایس سدھو جو پارلیمنٹ کے ممبر ہیں اور اس حیثیت سے ہمارے حلف نامے اور امراض سے محفوظ ہونے کے صداقت نامے پر دستخط کرتے رہے ہیں، کئی بار ہماری ناکامی کاحال معلوم کر کے کہنے لگے "آخر حج کمیٹی یہ کیوں نہیں کرتی کہ اس سال جن کو جگہ نہیں دے سکی ہے ان کو آئندہ سال جگہیں دینے میں ترجیح دے؛ یعنی پرانی درخواستوں کا فیصلہ الگ کرے اور نئی درخواستوں کا الگ"۔

 رائے جتنی صائب اور موزوں ہے اس میں شبہ نہیں؛ لیکن ہم محرومیوں پر جھلائے ہوئے تھے ان کو طعنہ دیا کہ "ہم سے کہہ رہے ہو پار لیمنٹ میں یا وزارت خارجہ کے ذمہ داروں کو یہی مشورہ کیوں نہیں دیتے" ؟

بلاشبہ یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعہ نا کام عازمین حج کی تشفی و تسلی ہوسکتی ہے، اگر اس جائز اور مناسب طریقے کو روا نہ رکھا گیا تو جس طرح بہت سے لوگ غیر صحیح حلف نامے داخل کر کے استحقاق سے پہلے حج کو جانے کی سبیل پیدا کرلیتے ہیں، اسی طرح جگہیں حاصل کر لینے کے بھی نا واجب طریقے لوگ نکال لیں گے اور بلا وجہ ایک مبارک اور مقدس مقصد کے لئے نا مناسب اور نا جائز حرکتیں کرنے کے مرتکب ہوں گے۔

اس میں کیا قباحت ہے کہ اس سال جن کو جگہیں نہیں دی جاسکی ہیں، ان کو نا منظوری کی اطلاع دیتے ہوئے یہ بھی اطلاع دے دی جائے کہ "اگر ارادہ ہو تو آپ کا روپیہ آئندہ سال کے لئے جمع کر لیا جائے ورنہ واپس کردیا جائے"۔

 کچھ لوگ ضرور ایسے ہوں گے جو آئندہ سال حج کو جانے کے لئے حالات سازگار نہ پائیں گے وہ روپیہ واپس منگالیں گے، جو لوگ لکھیں کہ ہمیں آئندہ سال کےلئے امیدوار رکھا جائے تو ان کے ساتھ آئندہ سال جگہ دینے میں ترجیحی سلوک کرنا چاہیے۔

ابھی یہ سرسری تجویز ہے اگر اس کو شرف قبولیت حاصل ہو جائے تو اس کی تفصیلات پر بھی غور کیا جاسکتا ہے اور ایسے ضابطے بنائے جا سکتے ہیں کہ حج کمیٹی یا مغل لائن پر مزید بار ڈالے بغیر دل شکستہ مایوس عازمین حج کی فی الجملہ تسلی کا سامان فراہم ہوجائے۔

بہر حال ہماری اس دفعہ ناکامی کی عمر دراز ہونے نہیں پائی ۔ ہوا یہ کہ مرکزی حج کمیٹی کے صدر مفتی عتیق الرحمان صاحب عثمانی نے ان چند نشستوں میں سے جو خاص حالات میں گھرے ہوئے عازمین حج کو الاٹ کرنے کے لئے انہیں دی گئی تھیں، ہمیں تین نشستیں عین وقت پر دے دیں۔

درخواست دینے والے بحیثیت درخواست دہندہ تو مساوی ہوتے ہیں؛ لیکن دوسرے حالات کے تحت ان میں بڑا تفاوت ہوتا ہے، مثلا ایک درخواست دہندہ ہے جس نے اب تک حج نہیں کیاہے، وہ پہلی دفعہ حج ادا کرنے جارہا ہے، اس کی عمر ساٹھ سال کے لگ بھگ ہے، ظاہر ہے کہ اس بوڑھے درخواست دینے والے کا معاملہ اس درخواست دہندہ سے مختلف ہے جو مثلا پانچ سال پہلے فریضہ حج ادا کرچکا ہے یا مثلا تیس چالیس کا ہے، آخر الذکر کے لئے بظاہر حالات کے انتظار کا موقع ہے جبکہ اول الذکر اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

اب اگر ایسی کوئی سبیل نہیں نکالی جاتی کہ مخصوص حالات میں کس کا حق مرجح ہوسکے تو ناکامی کا صدمہ عظیم صدمہ ہوجائے گا۔

پیش کش: محمد ارشد قاسمی