تبصرات ماجدی۔۔( 4)۔۔۔ خلاصہ فسانہ آزاد۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

06:40PM Sun 16 Aug, 2020

(4)

خلاصہ فسانہ آزاد از ابوتمیم فرید آبادی

 کتب خانہ انجمن ترقی اردو، جامع مسجد دہلی ۔ قیمت 3 روپے۔

سرشار کی فسانہ آزاد اردو ادب و افسانہ کی ایک مشہور کتاب ہے، لکھنؤ کی بیگماتی زبان کا مرقع۔ اب ذرا پرانی البتہ ہوگئی ہے۔ 75 سال کا فاصلہ بڑا ہوا۔ اور پھر ضخیم اتنی کہ بیسویں صدی کے وسط میں آدمی کو اس دفتر کو ختم کرنے کی فرصت کہاں سے لائے۔ سید ابوتمیم فرید آبادی بھی کمال کے مردِ ظریف و صاحبِ ذوقِ لطیف نکلے کہ اس زمانے میں اس دریا کو کوزے میں بند کرنے بیٹھے اور جو سوچتے تھے، اسے کر کے دکھا دیا یعنی بڑی تقطیع کے کئی ہزار صفحوں کی ضخامت کو چھوٹی تقطیع کے تین سو صفحوں ہی کے اندر سمو دیا۔ اور لطف یہ کہ اپنی طرف سے نہ کوئی حرف بڑھایا نہ کوئی لفظ بدلا۔ بس اتنا کیا کہ جا بجا سے عبارتیں چھانٹتے گئے اور جتنا حصہ حشو ومکررات کا تھا، اصل حصہ میں خلل انداز اسے یک قلم نظری کرتے گئے، گویا جہاں جہاں جھول تھا اسے دور کر کے چست کر دیا اور اب کتاب کو بیسویں صدی کے کم فرصت جلد باز ناظرین کے ہاتھ میں جانے کے قابل بنا دیا۔ کتاب پر اگر ایک مقدمہ کا اضافہ ہو جاتا اور جو محاورے اب پرانے ہو گئے ہیں، ان پر جا بجا حاشیے دے دئیے جاتے تو کتاب میں اور بھی چار چاند لگ جاتے۔

(صدق جدید نمبر: 29، جلد: 4، مورخہ 18 جون 1954ء)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    (5)

اشک کنگورے از حیات الله انصاری صاحباا

210 صفحات، مجلدمع گردپوش، قیمت دو روپیہ بارہ آنے،آزاد کتاب گھر، کلان محل، دہلی۔

حیات اللہ صاحب انصاری کی شہرت اس وقت ایک روزنامہ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہو گا  کہ وہ ایک خاصے کہنہ مشق افسانہ نویس بھی ہیں اور پیشِ نظر کتاب ان کے آٹھ افسانوں کا مجموعہ ہے۔ پہلے افسانہ  کا عنوان مجموعہ کا بھی عنوان ہے۔ دو ایک ان میں سے نشر کیے جا چکے ہیں۔

مصنف کا شمار ترقی پسندوں میں ہوتا رہا ہے لیکن یہ مجموعہ تو اس حسنِ ظن یا سوءِ ظن کی زیادہ تائید نہیں کرتا۔ اس لیے کہ ’’ترقی پسندی‘‘ کی علامتیں تو اب تک ہمارے ہاں یہی سمجھی گئی ہیں کہ

(1) مصنف مذہب کا مخالف ہو اور اس پر برابر چوٹیں کرتا رہتا ہو…مذہب پرکوئی چوٹ اس مجموعہ میں نہیں ملتی۔

(2) قدیم مشرقی اور اسلامی قدروں پر حملے ضرور ہوں، مثلا دادا جان اور نانی بی بی کا ذکر جب آئے، تضحیک و تحقیر کے لہجے میں اور برقع پوشوں پرآوازه کشی خوب ہو…کتاب ترقی پسندی کے اس معیار پربھی پوری نہیں اترتی۔

(3)  کھلم کھلا نہ سہی، تو در پرده، روسی نظامِ معاشرت و معیشت کی حمد و ثنا لازمی ہے…کتاب کے صفحات اس پروپیگنڈے سے بھی خالی ہیں۔

(4)  کچھ فحش فقرے ضرور ہوں اور بے حیائی، بے حیائی ہی کی غرض سے ہو… کتاب اس حیثیت سے صفرِ محض ہے۔

(5) گندی گھناؤنی باتوں کا ذکر بھی، جس سے طبیعت مالش کرنے لگے، لوازم میں سے ہے۔ صرف ایک افسانہ بھیک میں اس ہنر کی کچھ جھلکیاں موجود ہیں۔

غرض کتاب اگر ترقی پسندی کی حد میں رکھی بھی جائے تو کچھ یوں ہی سی رہے گی اور شاید تیسرے چوتھے نمبر پر نکلے گی۔ افسانہ نویس کا قلم گاندھی جی کی تحریکات سے خاص طور پر متاثر ہے بلکہ وہ بڑی حد تک انھیں تحریکات کا مبلغ بھی ہے۔ پلاٹ جتنے ہیں سب گھریلو زندگی سے متعلق ہیں۔ سیاسی، اخلاقی، معاشرتی چاشنی پوری طور پر لیتے ہوئے۔

افسانہ ’’ماں بیٹا‘‘ سب سے بڑا ہے، جو 1947ء کے خونریز ہنگاموں اور ہولناک فسادات سے متعلق ہے۔ اور یہی افسانہ فنکار کی بہترین قابلیت کا بھی مظہر ہے اور شاید اس کے معائب کا بھی۔ اس کے بعض حصے اس درجہ موثر ہیں کہ سنگدل انسان بھی انھیں آنسوؤں کے بغیر نہیں پڑھ سکتا اور رقیق القلب عورتیں تو عجب نہیں جو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ یہ تو ہوا اس کا ہنر اور عیب یہ کہ افسانہ نویس خود اپنے جوش تاثر کا شکار ہو کر جا بجا کھلم کھلا واعظ یا مصلح بن گیا ہے۔

مصنف خاص لکھنؤ کے ہیں۔ چاہیے یہ تھا کہ زبان بھی خالص لکھنوی ہوتی۔ خیر ایسا تو نہیں۔ لیکن یہی بہت غنیمت ہے کہ زیادہ ہندیائی ہوئی نہیں۔ عموماً صحیح با محاورہ کہیں کہیں انگریزیت البتہ غالب آگئی ہے، یعنی انگریزی ترکیبیں اور انگریزی محاوروں کے ترجمے اور کہیں کہیں ایسے ایسے خلاف فصاحت محاورے بھی استعمال ہوگئے ہیں جیسے تانیں اڑانا ’’تانیں لینا‘‘  کی جگہ ’’تانیں مارنا‘‘ بھینس کے پڑدے کے بجائے ’’بھینس کا بچھڑا‘‘ توجہ کرنے کے بجائے ’’توجہ دینا‘‘۔

ص:142 پر ایک لڑکی کی شادی کے موقع پر مردانہ کا نقشہ لڑکی کی زبان سے کھینچا ہے۔ یہ کچھ زیادہ مناسب نہ تھا۔ لڑکی کی زبان سے جو دلہن پسینہ میں شرابور ایک کوٹھہری میں منہ ڈ ھکے لیٹی تھی۔ ص: 143، اگر منظرکشی کرناتھی ، تو زنانہ کی کرنا تھی۔ اسے ’’پلاؤ کی دیگ‘‘ اور دودھ کے گھڑے اور مردانہ میں بفاتی اور کلو اور رمضانی کی چیخ پکار کے بجائے اپنی سہیلیوں کی شوخی و شرارت اور نائن اور ڈومنی یا میراسن کی گلخپ اور نصیبن اور رسولن کے چاؤں چاؤں کی تصویر کھینچنی تھی…مصنف کی بصیرت فطرت بشری سے متعلق بہت گہری نہ سہی، پھر بھی کچھ ایسی سطحی بھی نہیں، فی الجملہ بہت غنیمت ہے۔ مصنف اس نکتہ کو بھی خوب سمجھے ہوئے ہیں کہ فسادات کے زخموں کو تازہ رکھنا اور انھیں کریدتے رہنا ہرگز کوئی انسانی خدمت نہیں، ضرورت تو ان پر مرہم رکھنے کی ہے۔ مصنف کی مذہبیت تفریق یا توڑ پھوڑ والی بھی نہیں۔ اصلاحی اور گاندھی جی کے رنگ کی ہے۔

(صدق جد ید نمبر: 31، جلد:6، 22 جون 1956ء)

ناقل: محمد بشارت نواز

https://telegram.me/ilmokitab/