حج کا سفر۔۔۔منی وعرفات میں (4 )  ۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

11:45AM Fri 16 Jun, 2023

منٰی میں آج دسویں ذی الحجہ كو پہلا كام یہ كرنا تھا كہ آخری شیطان (جمرہ عقبہ ) كو سات كنكریاں ماریں اس كے لیے مسنون وقت قبل زوال ہے اور مباح وقت تامغرب ہے اور بعدمغرب بھی آخری شیطان كو كنكریاں ماریں گے اگر پہلے موقع نہیں ملا ہے مگر مغرب كے بعد كا وقت فقہاء نے مكروہ وقت بتایا ہے ۔

فقہاء كا كہنا ٹھیك ہی ہے لیكن اگر وہ چودہ لاكھ جاجیوں كے درمیان ہوتے تو انہیں كراہت واستحباب كے اپنے فیصلوں پر نظر ثانی كرنا پڑتی ۔

ہم تو دن چڑھے منٰی پہونچ گئے تھے جی چاہتا ہے كہ اپنے ڈرائیوركا جس سے عرفات جاتے ہوئے سخت شكایت پیدا ہوگئی تھی اب شكریہ ادا كریں اس نے بڑا كام كیا كہ ٹھنڈے ہمیں منٰی لے آیا ‏، بعد میں آنے والوں كا حال كیا بتایاجائے كیسے آئے اور كب آئے ؟

ہوا یہ كہ مزدلفہ سے جو ریلا چلا تو ساری ٹریفك جام ہوكر رہ گئی اور پھر جام ہی رہی ‏، دو ایك گھنٹے كی بات نہ تھی ‏، عورتیں ‏، بچے بوڑھے سب لاچار ہوكر ٹیكسیوں كو وہیں چھوڑ كر پیدل منٰی تك چند یا تڑ قادینے والی دھوپ میں آئے كہ كہیں كنكریاں مارنے كا مسنون وقت ہاتھ سے نہ نكل جائے ‏، مگر وہ افراتفری تھي كہ كوئی بھي پیدل آنے والا زوال (مسنون وقت) سے پہلے نہ پہونچ سكا ‏، پہونچے اس بدحواسی كے عالم میں كہ كسی سے بات نہیں كی جاتی تھی ‏، مولانا اویس ندوی اپنی بخار میں مبتلا بیوی كے ساتھ آدھے راستے سے ٹیكسی كو خیرباد كہ كر پیدل منٰی پہونچے ‏، تو ان كی صورت نہیں دیكھی جاتی تھی ‏، كیسے كیسے ناز ونعم میں پلے اور بسم اللہ كے گنبد میں پروان چڑھے آج ہر سختی جھیلتے نظر آرہے تھے ‏، ہمارے لكھنؤ كی بعض خواتین مرحوم جسٹس غلام حسن بٹ كی بیوی جن كے پیروں میں تكلیف بھی تھی ‏، رانی صاحبہ سروھی اپنے دونوں بیٹوں كے ساتھ بیگم اختر اشتیاق عباسی ڈی ‏، آئی ‏، جی مسٹر اسلام احمد كی اہلیہ ان بچاریوں نے كاہے كو كبھی یہ كڑیاں جھیلی ہوں گی ‏، مگر آج اپنے مالك اور مالك كے محبوب بلكہ اپنے محبوب كے حكم پر سب كچھ جھیلاجارہا تھا اور پوری خندہ پیشانی كے ساتھ ۔

وہ لوگ پھر بھی اچھے رہے جو زوال كے بعد ہی سہی ‏، پہونچ توگئے ‏، یہ دوسری بات ہے كہ ان كے بستر جن كو مزدلفہ میں آرام سے گزارنے كے لیے ساتھ لے گئے تھے ان سواریوں پر ہی چھوٹ گئے جو راستے میں پھنسی پڑی تھیں ‏، ان بیچاروں كو دوپہر كو پاؤں پھیلاكر بستروں پر سونے كا موقع تو نہیں ملا مگر مباح وقت میں كنكریاں مارنے كا موقع مل گیا ۔

مسڑ مدحت كامل قدوائی بہت گھبرائے نظر آئے‏، مغرب كی نماز كا وقت قریب تھا ‏، پوچھنے پر انہوں نے بتایا كہ ان كے فرسٹ سكریٹری مسٹر شہاب الدین ابھی تك مزدلفہ سے واپس نہیں آئے ہیں ‏، بہت سے ایسے ہوں گے جو اس وقت تك مزدلفہ سے واپس نہیں ہوئے تھے ‏، گھبراہٹ كی بات یہ تھی كہ مسٹر شہاب الدین كے ساتھ ان كے بیوی ‏، بچے بھی تھے جن میں ایك شیرخوار بچہ بھی تھا ۔

تو ٹریفك كی بدنظمی كا اندازہ كیجئے كہ یہ تین‏،چار میل كی مسافت دس ‏، دس گھنٹے گزرجانے پر بھی طے نہ ہوپائی ‏، شہاب الدین صاحب  اپنے ذاتی موٹر پر تھے ‏، وہ دور ‏، دور كا چكر كاٹ كر كسی نہ كسی طرح بس سورج ڈوبتے پہونچے ‏، اب ان سے كوئی اگر كہے كہ جناب! كنكریاں مارنے كا افضل اور مباح وقت تو گزرگیا‏، اب مكروہ وقت میں آپ كو كنكریاں مارناہوں گی ‏، تو بتائیے وہ كیا جواب دیں گے ؟

ایسے سینكڑوں ہزاروں حاجی تھے جن پر یہی بیتی ‏، بعد كو معلوم ہوا كہ یہ مصیبت اسی سال كی خصوصیت تھی اس سے قبل ایسا كبھی نہیں ہوا ‏، وجہ كیا تھی ؟ پتہ چلا كہ اس سال مشرقِ وسطیٰ كے اكثر ملكوں كے حجاج خاص كر ترك حجاج اپنی آرامدہ (لگزری) بسوں پر آئے تھے ‏، پہلے بھی ایسا ہوتا تھا ؛لیكن یہ بسیں مكہٴ معظمہ كے باہر ایك مقام پر قیام كرتی تھیں اور ان كے مسافر سعودی حكومت كی فراہم كردہ بسوں ‏، یا ٹیكسیوں سے مكہٴ معظمہ سے منٰی ‏، منٰی سے عرفات ‏، عرفات سے مزدلفہ ‏، مزدلفہ سے منٰی ‏، پھر منٰی سے مكہٴ معظمہ جاتے تھے ‏، اب كی سعودی حكومت نے یہ رعایت دے دی كہ حجاج انہیں بسوں پر جاسكتے ہیں جن پر وہ آئے ہیں ‏، نتیجہ یہ ہوا كہ ان راستوں پر بسوں كی ریل ‏، پیل ہوگئی ‏، حجازی ڈرائیور تو عادی ہوتے ہیں وہ اپنی گاڑیوں كو اس انداز سے لے چلتےہیں جوان كے قدیم تجربون نے انہیں سمجھاركھا ہے ‏، دوسرے ڈرائیوروں كو ایسے سابقے كہاں پڑے ہوں گے وہ اس ہل ‏، چل میں آتے ہی ہوش و حواس بھی كھوبیٹھے ہوں گے ‏، بہرحال ان كی گاڑیاں پھنستی تھیں اور حجازی ڈرائیوروں كو پھانس لیتی تھیں۔

خیر ہمیں رمی جمار كرنا تھا اورمسنون وقت میں موقع مل رہا تھا ؛ لیكن تھے ہم سب قافلے والے نئے حاجی اس لیے ایك پرانے حاجی شیخ ذوالفقار اللہ صاحب سابق میئر الہ آبادكے ساتھ قبل زوال آخری شیطان كو (جو منٰی سے آنے والوں كے لیے آخری اور مكہٴ معظمہ سے آنے والوں كے لیے پہلا پڑتا ہے ) كنكریاں مارتے چلے ۔

ہماری قیام گاہ سے جمرہٴ عقبہ تك جسے آج كنكریاں مارنا ہیں جانے كا سیدھا راستہ تھا ‏، كوئی دو فرلانگ كی مسافت ہوگی ‏، جاتے ہوئے پہلے مسجدِ خیف پڑتی  ‏، تھوڑی دور آگے چل كر ہمارا سفارت خانہ جس سے چند گز آگےجاكر پہلا شیطان (جمرہٴ اولٰی) كچھ آگے بڑھ كر دوسرا (جمرہٴ وسطٰی ) اور قدرے آگے جاكر تیسرا شیطان (جمرہٴ عقبٰی) تھا آج دسویں ذی الحجہ كو پہلے اور دوسرے كو چھیڑنا نہ تھا ‏،صرف تیسرا شیطان آج حاجیوں كا نشانہ ہے۔

ایك ہی سیدھی سڑك ہے ‏، بیس ‏، پچیس فٹ چوڑی بغیر فٹ پاتھ كے سڑك كے دونوں عمارتیں مكان ‏، ہوٹل اور دكانیں ہیں‏، سڑك كے كنارے بھی پھیری والوں كی دوكانیں ہیں ‏، اب اس سڑك پر ایك ساتھ لاكھوں انسانوں كا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا جب چلے گا ‏،تو حال كیا ہوگا۔

‘‘ٹھاٹھیں مارنا ’’بے شك پنجابی محاورہ ہے جو ‘‘جوش و خروش’’ كے مرادف ہے ‏، مگر یہاں دانستہ ٹھاٹھیں مارنا سمندر اس لیے لكھا گیا كہ شیطان كو كنكریاں مارنے كے سلسلے میں حاجیوں میں جو جوش و خروش ہوتا ہے اس كا كسی اور طرح بعینہ اظہار ممكن نہیں ‏، كوئی اندازہ نہیں كرسكتا ہے كہ اس وقت حاجیوں كا كیا عالم ہوتا ہے ؟ كنكریاں مارتے ‏، مارتے چپلیں پیروں سے اتار ‏، اتاركر مارنے لگتے ہیں ‏، چپلوں اور جوتوں كے ڈھیرلگ جایا كرتے ہیں ‏، ہمارے سفارتخانے كے فرسٹ سكریٹری مسٹر شہاب الدین جو كئی سال سے جدے میں متعین ہیں كہتے تھے كہ رمی جمار كے موقع پر حاجیوں كے جوش وغضب كی كیفیت جو ہوتی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے كہ مناسك حج مین سب سے زیادہ انہماك حاجیوں كو اسی رمی جمار میں ہوتا ہے ۔

پھر انسانوں كے اس سمندر میں دنیا بھر سے آئے ہوئے انسان پائے جاتے ہیں جن كی نوانائیاں اور برداشتیں باہم متفاوت ‏، جن كے چلنے اور راہ طے كرنےكی عادتیں الگ ‏، الگ ‏، كہیں دھكم پیل روزمرہ كی بات ہے ‏،كہیں بچ بچاكر چلنا دستورِ زندگی ‏، كہیں عورتیں صنفِ نازك سمجھی جاتی ہیں ‏، كہیں وہ ایسی صنفِ قوی ہیں كہ ہم اودھ كے رہنے والے مردوں سے زیادہ قوی ہیكل اور زور آور ‏، اس طرح كا مخلوط مجمع جو ایسے متفاوت القوٰی افراد سے مركب ہو دنیا میں كہاں ہوتا ہوگا ؟ اقوامِ متحدہ میں بھی جہاں دنیاجہاں كے نمائندے رہتے ہیں ‏، مختلف النسل اور مختلف المزاج افراد اكھٹا مل ضرور جائیں گے ‏، مگر ہوں گے وہ سب ایك ہی دستور كے پابند یعنی مغربی تہذیب كے ماننے والے بلااستثناء سب ہی ہوتے ہیں ‏، تو ان كا رہن سہن ‏، اٹھنا ‏، بیٹھنا ‏، چلنا ‏، پھرنا سب ایك ضابطے كے تحت ہوتا ہے ‏، خلافِ ضابطہ اگر كوئی چلےگا ‏، تو ایٹی كیٹ(آداب) كی خلاف ورزی كرنے والا قرار پائے گا ۔

یہاں جو یہ عظیم الشان مجمع ہے اس میں ہر ایك فرد اپنی وضع پر رہنے میں آزاد ہے اور ‘‘آزادوں’’ كے اس جم غفیر میں نازك مزاجانِ لكھنؤ بھی ہیں جو ‘‘پہلے آپ ’’ ‘‘پہلے آپ’’ كہنے پر اسی خیال سے عامل ہیں كہ وہ ادنٰی سی كش مكش كا بھی اپنے كو عادی نہیں بنا پائے ہیں ۔

ایك بات تو ہم نے طے كرلی تھی كہ امی اور پھوپھو جان وغیرہ كو مسنون وقت میں رمی جمار كے لیے لےجاكر خطرہ ہرگز مول نہ لیں گے ‏، مباح وقت مین مجمع كم ہوا ‏، تو خیر ورنہ بعد مغرب لے جائیں گے ‏، فقہاء كےنزدیك وہ وقت مكروہ ہی سہی ‏، حاجی شیخ ذوالفقار اللہ الٰہ آبادی اور ان كے داماد مسٹر فرحت علی(آئی ‏، اے ‏، ایس ) كے ہمراہ ہم زوال سے پہلے كسی نہ كسی طرح تیسرے شیطان تك پہونچ گئے اور خدا كا شكر ہے كہ نہ ہماری چپلیں مجمع میں چھوٹیں اورنہ احرام كی بندش اپنی جگہ سے كھسكی جب كہ بہتوں كو دیكھا كہ نہ صرف جوتے گنواكر بلكہ دو ایك زخم بھی كھاكر واپس لوٹے ہیں ۔

علاوہ حاجیوں كے جوش وخروش كے رمی جمار كے موقعہ پر تنگی راہ سے بھی بڑی سخت زحمت ہوتی ہے ‏، یہ سڑك كے دونوں طرف جو اونچی‏، اونچی عمارتیں كھڑی ہوگئی ہیں وہ انسانوں كے سمندر كو پھیلنے نہیں دیتیں ‏، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منٰی میں تعمیر كی رائے كو مسترد فرمادیا تھا ‏، صحابہ ؓ نے عرض كیا : آ پ كے لیے یہاں ایك مكان نہ ہم لوگ بنادیں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں! منٰی تو پہلے پہونچ جانے والوں كے اونٹوں كے بٹھانے كی جگہ ہے ’’ ‏، محدثین نے آپ كے اس ارشاد كی وضاحت كرتے ہوئے تحریر كیا ہے كہ آپ نے فرمایا كہ منٰی قربانی ‏، رمی جمار اور حلق كے مناسك اداكرنے كی جگہ ہے اور اس مقام پر استحقاق میں سب برابر ہیں ‏، اگر یہاں تعمیر ہوئی تو پھر اس كی دیكھا دیكھی بہت سی تعمیریں ہوجائیں گی ‏، فتضیق علی الناس یعنی یہ جگہ لوگوں كے لیے تنگ ہوكر رہ جائے گی (طیبی) اور امام ابوحنیفہ كا كہنا ہے كہ آنحضرت ﷺ نے حرم كی ساری زمین كو موقوف قراردیا ہے ‏، فلایجوز أن یملكہا أحد یعنی كسی كو جائز نہیں ہے كہ اس پر ملكیت كا تصرف كرے ‏، مگر یہ سب حدیثیں اس كی تو جیہیں اور اس سے مستنبط مسائل ایك طرف اور منٰی میں مكانوں اور دكانوں كی كثرت دوسری طرف حتٰی كہ كرایہ پر یہ مكانات چلائے جاتے ہیں ۔

ادھر رمی جمار كیجئے ‏، ادھر بلاتوقف وہاں سے چل دیجئے ‏، وہاں ٹہرنا ٹھیك نہیں بتایا ہے ‏، فقہاء نے اور پہلی كنكری پھینكنے كے ساتھ تلبیہ ترك كردیجئے ‏، یعنی 8 ذی الحجہ كو احرام باندھ كر مكہٴ معظمہ سے روانہ ہوتے وقت سے جو لبیك أللہم لبیك الخ اب تك كہتے رہے تھے وہ پہلی كنكری مارتے ہی بند كردیا جائے گا ‏، اس كے بعد دوسرا كام ہے ‏، قربانی كرنا ‏، قربان گاہ تك خود جانا اور وہاں جانوروں كی خریداری كرنا ‏، افضل اور اولٰی ہے مگر ہرایك كے بس كی بات نہیں اس لیے معلم صاحبان كا سہارا لینا پڑتا ہے ۔

اس سلسلے مین عام طور پر لوگ معلمین پر مجبوراً بھروسہ كرتے ‏، معلمین كا جو عمومی رویہ اپنے حاجیوں كے ساتھ ‘‘ناخداترسی’’ كا رہا كیا ہے ‏، اس كے پیشِ نظر ان پر نہ اطمینان كرنا ہی حق بہ جانب معلوم ہوتا ہے ‏، ہمارے معلم مو لانا عبد الہادی سكندر قربانی كے لیے جاجیوں سےروپیہ لینے میں اس سے بھی زیادہ محتاط تھے جتنے حاجی روپیہ دینے میں ہوسكتے تھے ‏، انہوں نے كسی ایك سے بھی روپیہ لےكر قربانی كرنے كی ہامی نہیں بھری ‏، ہم اپنے دیرینہ تعلقات كی بنیاد پر ان كے سر ہوگئے ‏، پھر بھی وہ آمادہ نہ ہوئے ‏، ان كے بیٹے عبدالوالی كو گھیرا ‏، وہ اپنے باپ كے تعلقات كا لحاظ كركے تیار ہوگئے ‏، وہ بھی احرام باندھے ہوئے تھے ‏، انہیں بھی اپنی طرف سے اور گھر والوں كی طرف سے قربانی كرنے جانا تھا ‏، ریال حوالے كردیئے كہ سات قربانیاں كردیں ‏، ایك بھیڑ 36 ریال میں پڑی اور فی جانور ایك ریال ذبح كرنے والے كا ہوا ۔

خود ہم مذبح تك نہیں گئے ؛ اس لیے وہاں كا چشم دید حال نہیں كہ سكتے ‏، عارف خیرآبادی عرف ملامیاں دوسرے كے ذریعہ قربانی كرنے كو روا نہ سمجھتے ہوئے خود گئے ‏، اصغرعلی صاحب انصاری اور سیداكرام الحق صاحب كو بھی ہمراہ لے گئے تھے اور سب خیریت كے ساتھ قربانیاں كركے واپس آگئے‏، ورنہ ہم سن چكے تھے كہ گرمی كی دوپہر میں جب پہاڑی پتھر انگارہ ہوتے ہیں ان پر جب جانوروں كا خون بہتا ہے ‏، تو جو بخارات سنگستان سے اٹھتے ہیں ان كی تاب لانا آسان نہیں ہے ‏، جیساكہ چارسال قبل ہمارے عزیز اور رفیق اسلم میاں (لكھنؤ)كے پھوپھو زاد بھائی ظہور میاں كا ہوا ‏، وہ مذبح ہی مین تیوار كر گر پڑے تھے ‏، وہ بھی خود قربانی كرنے كی افضلیت حاصل كرنے وہاں پہونچ گئے تھے ۔

قربانی ہوجانے كی اطلاع ملنے كے بعد اب تیسرا كام یہ تھا كہ سر كے بال كٹوائیں ‏، یا منڈوائیں ‏، جس طرح ہمارے یہاں سڑكوں پر یگے والے حجام نظرآتے ہیں ‏، بالكل اسی طرح منٰی كی سڑك پر بہت سے حجام بیٹھے تھے اور گاہكوں كا ہجوم بھی بیٹھا تھا ‏، لوگ اپنی باری كا انتظار كررہے تھے ‏، ہم بھی اس فكر میں تھے كہ جلد از جلد ‘‘سبك سر’’ ہوكر اس تیسرے فریضے سے سبكدوش ہوجائیں ‏، وہاں ایك حجام اور ہزار طلبگار كا حساب تھا ‏، یہ بھی خیال آتا تھا كہ سڑك پر مگے پر بیٹھ كر آج تك تو حجامت بنوائی نہیں بلكہ جانے بوجھے حجام كے علاوہ كسی اور كے آگے سر بھی كبھی نہیں جھكایا ہے‏، پھر بال ترشوانے اور منڈوانے كے درمیان بھی ذاتی طور پر ہم مذبذب تھے یہ جانتے ہوئے كہ افضل حلق (منڈانا) ہے سوچ رہے تھے كہ استرے سے سابقہ پڑنا ‏، پھر اَن جانے ہاتھوں كے ذریعہ خطرے سے خالی نہ ہوگا ‏، گھوم پھر كر دیكھا ایك صاحب حلق كرارہے تھے اور استرے كی تكلیف سے طرح ‏، طرح  كے منہ بھی بنا رہے تھے اور وحشت ہونے لگی ۔

اچانك متین میاں ایك ادھیڑ عمر كے آدمی كو لیے خیمے كی طرف آتے نظر آئے ان كو كہیں سے اردو بولنے والاصاف ستھرا حجام ہاتھ آگیا تھا ‏، اسے وہ لیے آرہے تھے ‏، یہ لائل پور كا رہنے والاتھا ۔

ہماری والدہ وغیرہ تو عرفات سے واپس آكر چند ہی منٹ خیمے میں ٹہری تھیں كہ مدد بھائی ان كو اپنے یہاں سفارت خانےلےگئے ‏، عظیم بھائی كی بیوی كچھ بیمار ہوگئی تھیں ؛ اس لیے وہ بھی ان كی تیمارداری كے خیال یے سفارتخانے ہی چلے گئے خیمے میں ہم اور متین میاں سامان كی دیكھ بھال كے لیے تھے خیمے كے اندر ہی حجام كو بلالیا ‏، پہلے متین میاں نے حلق كرایا ‏، وہیں پانی خرید كر بالٹیوں میں بھرا اور احرام كی تہ بندباندھے ‏،باندھے ہم تینوں نہائے عرفات كی طرح منٰی میں بھی پانی كے نل لگے ہوئے ہیں جس كا جی چاہے پانی بھر لائے مگر دیكھا كہ ہرایسی جگہ پر جو رفاہ عام كے لیے ہو مسٹنڈوں كی چند ٹولیوں كا مستقل قبضہ رہتا ہے ہركس و ناكس كی ہمت كہاں كہ ان كو بے دخل كركے قبضہ حاصل كرے ‏، وہی قابض رہتے ہیں ‏، یہاں بھی وہی نلوں پر قابض نظر آتے تھے ‏، اسی لیے عموماً لوگوں كو پانی خریدنا ہی پڑتا ہے ‏، یہاں منٰی میں نرخ كم تھا ‏، عرفات میں پانچ ریال فی كنسٹر یہاں دو ریال ‏، یا ڈھائی ریال بس ‏، یہ خیموں اور شامیانوں میں رہنے والوں كی شكل تھی عمارتوں مین رہنے والوں كو غسل خانوں میں لگے ہوئے نلوں سے كم وبیش پانی ملتا رہتاتھا۔

خیر نہاں دھوكر احرام اتارا ‏، كرتا ‏، پائجامہ پہنا اور ٹوپی ؟

انتظامات میں جزئی جزئی باتوں كا خیال نہ ركھنے كا ایك دلچسپ تجربہ منٰی میں اس وقت ہو جب نہاكر كپڑے پہننے لگے ‏، احرام باندھ كر مكہٴ معظمہ سے چلے تھے ‏، ڈھائی دن 8 ‏، 9 اور 10 ذی الحجہ كو جب تك حلق نہ كرالیں احرام ہی باندھے رہنا تھا اس كے بعد كپڑے پہننا تھے 11 ذی الحجہ كو طواف زیارت كے لئے مكہ معظمہ آنا تھا ہی ‏، صرف ایك جوڑا كپڑا ركھ لیا كہ دسویں كی دوپہر سے گیارہویں تك چل جائے گا ‏، پھر مكہٴ معظمہ آكر كپڑے بدل لیں گے ‏، كپڑے بدلنے چلے تو پائجامہ وہ ساتھ لائے تھے جس میں ازار بند كا م آجاتا ‏، اب كیا كریں ‏، تہ بند نہانے میں بھگوچكے تھے ‏، تولیہ باندھے باندھے یہ دن رات كیسے كاٹیں ؟ دیكھا تو ٹوپی بھی ساتھ نہ نہیں آئی تھی ؛اس لیے احرام كی حالت میں سرڈھانكنا مردوں كو منع ہے ‏، ٹوپی كی ضرورت ہی نہ تھی وہ بھی مكہٴ معظمہ میں چھوڑ آئے تھے ‏، ٹوپیاں تو بازار میں بك رہی ہیں ازار بند كا یہاں چلن نہیں معلوم ہوتا لمبے لمبے كرتے كے نیچے عموماً تہ بند باندھے جاتے ہیں ‏، یا نوجوان عرب پینٹ اور قمیص میں نظر آتے ہیں ‏، پڑوس كے خیمے میں بیگم اختر اشتیاق عباسی تھیں ان كے پاس ایك ڈوری نكل آئی اس سے ہم نے ازار بند كا كام لیا ۔

كپڑے پہن كر ننگے سر ٹوپی خریدنے بازار گئے ایك ریال میں كپڑے كی ایك گول ٹوپی خریدی جسے ہم عربی ٹوپی سمجھ رہے تھے ‏، معلوم ہوا كہ وہ ہندوستان كے شہر سورت سے درآمد ہوتی ہیں اور ہزاروں ‏، لاكھوں كی تعداد میں ۔

آج كے تینوں كاموں سے فرصت ہوچكی تھی ‏، اب ملنے ملانے اور باتیں كرنے كی گنجائش بخوبی تھی ‏، جی چاہے بازار گھومیں‏، ہرطرح كا سودا یہاں مل رہا تھا ‏، منٰی قصبہ ہوگا ‏، آج تو بڑے سے بڑا شہر ہے ‏، مكہٴ معظمہ میں اگر كوئی چاہے ٹو سارا وقت حرم كے اندر گزارسكتا ہے ‏، منٰی میں مسجدِ خیف ضرور مگر وہ تو سرائے ہے وہاں یك سوئی سے كوئی چند منٹ بھی بیٹھ نہیں سكتا ‏، زیارت كرنے بس مسجدِ خیف جاسكے اور دو ركعت نفل پڑھ كر چلے آئے ۔

سوائے طواف زیارت  كے لیے مكہ معظمہ جانے اور آنے كے باقی تین دن منٰی ہی میں رہنا اور روزانہ رمی جمار كرنا ہے ‏، رمی جمار میں روزانہ كتنا وقت لگے گا ؟ یہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ باقی وقت لوگ عبادت وتلاوت وغیرہ میں گزارتے ہیں اور خریداری كرنے میں بھی ۔(جاری)

https://www.bhatkallys.com/ur/author/muftiraza/

مکمل سفرنامہ یکجا پڑھنے کے لئے بھٹکلیس ڈاٹ کام کی مذکورہ بالا لنک پر کلک کریں