آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... اچھے دن آ گئے!..........مگر کس کے؟! ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

Bhatkallys

Published in - Other

05:29PM Wed 28 May, 2014
haneefshabab@gmail.com لو بھئی! کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے! بالآخر نریندر مودی جی سرکاری طور پر اب ہندوستان کے وزیر اعظم بن ہی گئے۔ایک عرصہ سے ڈنکا بج رہا تھاکہ ’’ وہ آئیں گے!‘‘....’’وہ آتے ہیں!.....‘‘ اور اب آخر کار .....’’.وہ آپہنچے مرے در پر!!!‘‘....والامعاملہ ہو گیا۔الیکشن سے پہلے ، الیکشن کے دوران اور الیکشن کے فوری بعد جیسے بھی مناظر رہے ہوں اور یار لوگوں نے مودی مہاراج کے ’’اچھے دن آنے والے ہیں ‘‘ جیسے شلوگن سے جس قسم کی بھی خوش گمانیاں پال رکھی ہوں، لیکن دل کی آنکھیں اور دماغ کی کھڑکیاں کھلی رکھنے والوں کے لیے کبھی بھی یہ کوئی معمہ نہیں رہا کہ ’’اچھے دن‘‘ کس کے آنے والے ہیں۔ یہ آر ایس ایس کی سرکار ہے ! : اگر کسی کے دل میں یہ وہم ہے کہ یہ بی جے پی کی سرکار ہے، تو سب سے پہلے اسے دور کردینا چاہیے۔ہم سب کو جان لینا چاہیے کہ یہ بی جے پی کی نہیں بلکہ آر ایس ایس یعنی راشٹریہ سویم سنگھ کی سرکار ہے۔ آزادی کے بعدآر ایس ایس نے پہلے جن سنگھ اور پھر بعد میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے ہندوستان پر حکومت کے جو خواب دیکھے، اس کے لیے جس طرح کی جد وجہد کی، جس طرح کے تجربے کیے، ان سب کی فصل اب کاٹی گئی ہے۔یہ ایک سچائی ہے کہ کئی ناکام تجربوں کے بعد اب جاکرسنگھ نے اپنی منزل مقصود پا لی ہے۔جس کے بعداپنے تحفظ اور اپنی بقا ء کے حوالہ سے اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کی تشویش فطری اور لازمی ہوگئی ہے۔یہ بات خوف میں مبتلا کرنے کے لیے نہیں۔ بلکہ حقیقی جائزہ کے طور پر کہی جارہی ہے۔ بی جے پی کی حکومت پہلے بھی تھی : کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ بی جے پی توسنگھ کا سیاسی بازوpolitical wing ہمیشہ سے ہے۔اور اس سے پہلے بھی ماضی میں بی جے پی کی حکومت بن چکی ہے۔ اس دوران تو ملک گیر سطح پرایسی کوئی تشوشناک صورتحال پیدا نہیں ہوئی تھی۔(حالانکہ گجرات کانڈ تو اسی دور میں ہوا تھا!) پھر اب خواہ مخواہ’’بھیڑیا آیا، بھیڑیا آیا‘‘ کا شور مچانے کی ضرورت اور فائدہ کیا ہے؟ .....تو جان لینا چاہیے کہ پہلے بی جے پی اقتدار پر قابض ضرور ہوئی تھی، مگر این ڈی اے کی شکل میں درجنوں پارٹیوں کے اشتراک کے کانٹے میں پھنسی ہوئی تھی ۔ اور اپنا ہندتوا(اینٹی مسلم) کارڈ کھیل نہیں پا رہی تھی۔دوسرے اس وقت اٹل بہاری واجپائی جیسے لوگ قیادت کر رہے تھے جن کی آنکھوں کا پانی ابھی مرا نہیں تھا، اور اگلے وقتوں کی کچھ مروتیں ان میں زندہ تھیں۔ لیکن جن لوگوں کی یادداشت ابھی کمزور نہیں ہوئی ہے، انہیں یہ بات ضرور یاد رہے گی کہ اس وقت بھی بارہا بی جے پی کے اعلیٰ لیڈروں نے کھلم کھلا اس کا اظہار کیا تھا کہ وہ ہندتوا کے ایجنڈے او ر اس سے جڑے اہم ترین ایشیوز مثلاً یکساں سول کوڈcommon civil code،شاندار رام مندر(بابری مسجد کے مقام پر) اورآرٹیکل 370کی منسوخیسے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔سیاسی اشتراک کی مجبوری کے پیش نظراسے صرف ٹھنڈے بستہ میں رکھا گیا ہے۔جب بھی مکمل اکثریت کے ساتھ تنہابی جے پی اقتدار پر آئے گی، تب بیک برنر پر رکھے گئے ان ایشیوز میں ابال ضرور آئے گا۔ سنگھ چاہتا کیا ہے؟ : آر ایس ایس نے جو اپنے انڈے اور چوزے مختلف ٹوکریوں میں رکھتے ہوئے ایک پریوار کی شکل میں زندگی کے تمام محاذوں پر اپنے فداکار تعینات کر رکھے ہیں، اس کا منشاء صرف اور صرف اس ملک میں رام راجیہ قائم کرنااور اسے ایک ہندو راشٹر قرار دینا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ جسے جاننے کے لیے ریسرچ کرنے کی ضرورت ہو۔ سنگھ کے نظریہ ساز ideologueگولوالکر، ساورکر اورہیڈگیوار وغیرہ کی تحریریں اس سلسلہ میں صاف اورواضح نقشہ پیش کرتی ہیں۔اور اس بات پر بھی کوئی پردہ نہیں ہے کہ اس ہندوراشٹر میں اقلیتوں کا مقام کیا ہوگا اور ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ یہ تو ایک دو ٹوک پالیسی کی صورت میں تحریری طور پر موجود ہے۔ فی الحال اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ اس پالیسی کے پس منظر میں آج نہیں تو کل یہاں پر اقلیتیں، اور خاص طورپر مسلمانوں کا دوسرے درجہ کے شہری بن جانا طے ہے۔ پھر قومی تفاخرnational prideکے طور پر جب ہندو کلچراور شخصیات کی سربلندی کا مسئلہ کھڑا ہوگا، تو پھر ماضی کو درست کرنے کے نام پر مسلم کلچر، مسلم شخصیات اور علامات کی جو درگت بننی ہے ، سو وہ الگ ہوگی۔اب یہ جو ’’ سب کی خوشحالی ہو، کسی کی خوشامد نہ ہو‘‘ والا حکومت کا نیا منتر سنایا جارہا ہے، اسے صرف دکھانے کے دانت سمجھئے! ؂ ہر ایک پھول میں میرے لہو کی رنگت ہے مگر اسے ہے یہ دعویٰ کے باغ اس کا ہے انتخابی مہم کا اختتامی پیغام : حالانکہ پوری انتخابی مہم نام نہاد ترقی اورکرپشن فری ہندوستان کی تعمیر کے لالی پاپ دکھا کر چلائی گئی۔ کانگریس کو ملک کی معاشی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے (جوکہ سچ بھی ہے) ، اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کاسبق پڑھایا گیا اور ’’آنے والے اچھے دنوں‘‘کا نشہ ایسا چڑھایا گیا کہ سنہرے خوابوں کا وعدہ ایک طوفان بن گیا، جس کے نتیجہ میں باقی تمام سیاسی کشتیاں بھنور کا شکار ہوگئیں اور سنگھ کی نیّادیکھتے ہی دیکھتے صحیح سلامت اوربڑے شاندار طریقہ سے پار لگ گئی۔لیکن اگر اس انتخابی مہم کا گہرائی سے جائزہ لیں تومحسوس ہوگا کہ اس کا جال بڑی ہی چالبازی اور مکاری سے بنا گیا تھا۔ ایک طرف کانگریس کی گھپلے بازیوں سے عوام تنگ آ چکے تھے، جسے کیش کرنا ضروری تھا۔دوسری طرف ایک سپنوں کا سوداگر تھاجس کی اپنی جھولی میں سانتا کلازکی طرح دل کو بہلانے والے کھلونے اور تحفے ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا تھا، تو ظاہر ہے کہ زندگی کی تلخیوں سے اکتائی جنتا کے بیچ اس کے حق میں ہوا بننی ہی تھی۔ پھرجب یہ ہوا آندھی کا رخ اختیار کرنے لگی، عوام کے ذہنوں کوپوری طرح مسحورmesmeriseکر لیا گیااور پولنگ کا مرحلہ قریب آگیا ، تو اسی ہنگامہ کے دوران کمال ہوشیاری کے ساتھ عوام کو ایک لمحہ کے لیے بھی غور کرنے کا موقع دئے بغیر سنگھ اور بی جے پی کے مختلف گوشوں سے ہندتوا کے اصل ایجنڈے (رام مندر، کامن سول کوڈ ،آرٹکل 370 اور گؤ کشی پر پابندی )پر عمل درآمدکے اشارے دئے جانے لگے۔ اورسیکولر حلقوں سے کسی بھی قسم کا ردعمل سامنے آنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ ّآنے والے دور کی تصویر : آج سے تقریباً بارہ سال قبل گجرات کے ہولناک مسلم کش فسادات کے پس منظر میں بنگلورکے ایک ریسارٹ میں ملک گیر سطح کی ایک میڈیا کانفرنس ہوئی تھی۔ جس میں تیستا ستیلواد، کلدیپ نیر ، مکل سکند، عزیز برنی، پرواز رحمانی، سید شہاب الدین وغیرہ جیسی سیکولرازم اور امن و سلامتی کے لیے جدو جہد کرنے والی ہندوستان کی نامورغیر سیاسی شخصیات اور صحافت کے ستون موجود تھے۔ اس وقت میں نے اوپن سیشن میں اسٹیج پر موجود ان شخصیات سے ایک سوال کیا تھا کہ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ دس پندرہ سالوں میں ہندوستان ، مسلمانوں کے لیے’’فلسطین‘‘ بننے جارہا ہے، اور یہاں کی حکومت اسرائیلی انداز کی ہونے والی ہے، تو اس کا تدارک کیا ہے؟تب مجھے جواب دیا گیا تھا کہ ایسی صورت یہاں پیدا ہونے نہیں دی جائے گی۔کیونکہ سیکولرازم کے لیے آواز اٹھانے والے ہم جیسے لوگ ابھی زندہ ہیں۔ میں نے پلٹ کر پوچھا تھا کہ آپ کی آواز مؤثر کب رہتی ہے۔ وہ کہیں دب کر رہ گئی تو؟اس پر مجھے تسلی دی گئی کہ اس طرح کے خیالات خواہ مخواہ کے وسوسے ہیں۔ یہاں سیکولرازم کا تانا بانا اس قدر مضبوط ہے کہ وہ دن نہیں آئیں گے۔ پھرآگے کیا ہوگا ؟ ! : انتخابی ماحول کے آغاز سے بہت پہلے ہی سے اس بات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ ہندتواکے لیے گجرات ایک لیباریٹری ہے اور وہاں کے کامیاب تجربے کو ملک بھر میں آزمایا جائے گا۔اور کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندتوا کی اس گجرات لیباریٹری کااصل منیجمنٹ اسرائیل اور اس کی خفیہ ایجنسی موساد کے ہاتھوں میں ہے۔بی جے پی کی طرف سے کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ گجرات کی ترقی کا ماڈل ملک بھر کے لیے اپنایا جائے گا، مگر جانکار اس کی خبر بہر حال رکھتے ہیں کہ وہاں کس قسم کی ترقی ہوئی ہے اور یہ کونسے ماڈل کی بات ہورہی ہے۔ مشہور کالم نگار جناب وسعت اللہ خان اپنے مضمون ’’سب مایا ہے‘‘ میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں’’.....دوسری جانب ووٹ بینک کو بڑھانے اور پکا کرنے کے لیے مذہبی شدت پسندی کا سستا ، ٹکاؤ، پائیدار راستہ اختیارکیا گیا، جس کا نتیجہ فروری مارچ 2002 کے عظیم گودھرا بلوہ کی شکل میں نکلا۔ جس طرح نازی جرمنی میں اکثریت کو مصروف رکھنے کے لیے یہودیوں کی شکل میں ایک پنچنگ بیگ فراہم کردیا گیا تھا، اسی طرح گجرات میں مسلمان اقلیت جو کل ریاستی آبادی کا لگ بھگ نو فی صد ہے، شدت پسند تجربات کے لیے پنچنگ بیگ بن گئی۔‘‘اس زاویہ سے اگر دیکھیں توظاہر ہے کہ اب ملک گیر سطح پر مسلمانوں کو پنچنگ بیگ کی شکل میں اکثریت کے آگے رکھ دیا جائے گا۔ خدا نخواستہ کیا ایسا ہوگا؟ : خدا کرے کہ جو خدشہ میں نے ایک دہائی قبل ظاہر کیا تھاوہ اب بھی غلط ثابت ہوجائے، اور ہمار ا ملک امن وسلامتی کے ساتھ پھلے پھولے۔ مگر آ ثار جو نظر آرہے ہیں، وہ خدشات کو کم نہیں کرتے بلکہ نیند اڑانے کا سبب بن جاتے ہیں۔ اب اسی کو لیجیے۔ بی جے پی کے درپردہ آر ایس ایس کے برسر اقتدار آتے ہی چاروں اہم ایشیوز یعنی رام مندر، یکساں سول کوڈ، گؤ کشی پرمکمل پابندی اور آرٹیکل 370کو ختم کرنے کی باتیں تیز ہوگئی ہیں۔جبکہ ان کا براہ راست تعلق مسلمانوں سے ہے۔ فطری طور پر اس کے خلاف آواز اٹھانے ، سڑکوں پر آنے ، احتجاجات کرنے، جیلوں میں سڑنے اور اپنی جانیں گنوانے والے صرف اور صرف مسلم نوجوان ہونگے۔لٹنے اور پٹنے والی پوری مسلم قوم ہوگی۔اس کی شروعات بھی ہوچکی ہے۔ بیجاپور(کرناٹک) میں دنگا، کرناٹک ہی میں مساجد پر حملے، گؤ کشی پر مکمل پابندی اور فجرکی اذان کے لیے مائک کے استعمال پر پابندی کے مطالبات کے ساتھ احتجاجی ریالیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔اور یہ سلسلہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی پھیلنے والا ہی ہے۔ کاش اچھے دن آئیں!: دوسری طرف دہشت گردی کے نام پر پہلے ہی سے مسلم نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ جیلوں میں سڑ رہی ہے۔ سینکڑوں زندگیاں اور درجنوں خاندان برباد ہوچکے ہیں۔اس کے باوجود بھی جن کے دل پسیج نہیں رہے تھے، جن کے کلیجے ٹھنڈے نہیں ہورہے تھے اورجو لگاتار مزید سخت کارروائی اورzero toleranceکی باتیں کر رہے تھے، انہیں کوجب اقتدار اورمنصفی مل گئی ہے توپھرانجام کیا ہونے والا ہے،کیا اس کی تفصیل میں جانے کی کوئی ضرورت ہے؟ بس یقین کیجیے کہ مسلمان پنچنگ بیگ بن کے رہ جائیں گے۔اگر انہوں نے حالات کو سمجھنے اور بدلنے کا سلیقہ نہیں سیکھا، تویوں سمجھ لیجیے کہ اچھے دن یقیناًآ گئے ہیں، مگرفاشسٹ قوتوں کے، اور بدترین دن آ گئے ہیں سیکولرازم کا صرف ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے۔مسلمان تو تب بھی مشق ستم بنا ہوا تھا، اب بھی سایۂ جبر میں ہوگا۔ لیکن کیا اب بھی آپ سمجھتے ہیں کہ اچھے دن عام ہندوستانیوں کے آئے ہیں اور امن و خوشحالی کا موسم لائے ہیں، تو خدا کرے کہ ، آپ کا اندازہ صحیح اورمیرا تجزیہ غلط ہو۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو! ؂ ذہن و دل نہ بہہ جائیں، آنسوؤں کے ریلے میں اب تو یہ جزیرے بھی زیر آب لگتے ہیں