افطار پارٹیوں کی سیاست۔۔۔یہ خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے! پہلی قسط۔۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

Bhatkallys

Published in - Other

04:42PM Sun 17 Jun, 2018
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  رمضان کا بابرکت مہینہ اپنے سارے تقدس و اکرام کے ساتھ ہم سے رخصت ہوگیا اس کے ساتھ ہی افطار پارٹیوں کی سیاست کاسلسلہ بھی آئندہ گیارہ مہینوں کے لئے تھم گیا۔بے شک روزہ داری اور افطاری رمضان کریم کے دو بنیادی اجزاء ہیں اور اس کے اہتمام کی فضیلت اور اہمیت پر حرف گیری کا کوئی سوال ہی پید انہیں ہوتا۔ افطار کا وقت اللہ تعالیٰ سے قرب اور دعاؤں کے مقبول ہونے کا کتنا حسین اور قیمتی وقفہ ہوتا ہے اس کے بارے ہر مومن باخبر ہوتا ہے۔ لیکن اس ملک میں سرکاری و غیر سرکاری سطحوں پر افطار پارٹیوں کے نام سے جو سیاست کی جاتی ہے ، اسے قابل تحسین کہنا ہمارے خیال میں خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سرکاری افطار پارٹیاں: اس ملک میں سرکاری افطار پارٹیوں کا سلسلہ کافی پرانا ہے۔ صدر ہند کی طرف سے عوامی منتخب نمائندوں اور سفارتکاروں وغیرہ کے لئے راج بھون میں افطار پارٹیوں کا سلسلہ جو برسہا برس سے چلاآرہا تھا اسے موجودہ آر ایس ایس نواز صدر ہندرام ناتھ کووندنے امسال سے منقطع کردیا۔ اس کے لئے انہوں نے سرکاری سطح پر افطار پارٹیوں کو ملک کے سیکیولرازم سے متضاد ہونے کی دلیل دی ہے۔ (حالانکہ وہ جس سویم سیوک سنگھ سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس ملک کو سیکیولر نہ رکھتے ہوئے دھرم پر مبنی’ ہندو راشٹر‘ بنانے کے مشن پر قائم ہے!)پتہ نہیں ہولی ، دیوالی وغیرہ کے تعلق سے صدر موصوف آئندہ کیا موقف اختیار کریں گے۔ا س کے علاوہ چونکہ آزادی کے بعد سے سب سے زیادہ عرصے تک کانگریس ہی مرکزی سطح پر بر سرا قتدار پارٹی رہی ہے ، تو اس کی طرف سے بھی افطار پارٹیوں کا انعقاد معمولات میں شامل رہا ہے۔ 3

سرکاری افطار پارٹی کی ایک یادگار تصویر۔مجاہد آزادی مولانا حسرت موہانی اور ڈاکٹر امبیڈکر

غیرمسلم سیاسی لیڈران کی افطار پارٹیاں: اسی نہج پرصوبائی، شہری اور مقامی سطحوں پربھی سیاسی پارٹیوں اورغیر مسلم سیاسی لیڈران کی طر ف سے افطار پارٹیاں منعقد کرنے کا رواج چل پڑا اور ہر رمضان میں بعض سیاسی لیڈران پابندی کے ساتھ بڑے ہی تزک واحتشام کے ساتھ افطارپارٹیوں کا اہتمام کرنے لگے۔جس میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم پارٹی کارکنان اور لیڈران کثیر تعداد میں شریک ہوا کرتے ہیں۔عام مسلمان بے چارہ بڑا خوش ہوتا ہے کہ غیر مسلم سیاسی شخصیات اس کے روزے اور افطار کی قدردانی کرتے ہیں اور اس کی تکریم کے لئے افطار پارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔جبکہ ان غیر مسلم سیاسی شخصیات اور سیاسی پارٹیوں کے لئے محض ووٹ بینک پالی ٹیکس کے علاوہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔دوسری طرف فرقہ پرست اور فسطائی طاقتیں اس کے خلاف زہر اگلنے اور اسے سیکیولر ازم کے نام پر مسلمانوں کی خوشامد Appeasementقرار دینے کی مہم چھیڑ دیتی ہیں اور عام غیر مسلموں کو ان پارٹیوں سے برگشتہ کرنے کی کامیاب تدابیر کرتی ہیں۔ اب سیکیولر پارٹیاں دامن بچاتی ہیں: سیکیولر پارٹیوں اور خاص کر کانگریس کی طرف سے مسلمانوں کے Appeasementکافسطائی منفی پروپگنڈی ایسا کامیاب ہوگیا کہ اب یہ سیکیولر پارٹیاں افطار پارٹیوں کو اپنے لئے وبال جان محسوس کرنے لگی ہیں۔ لہٰذا باضابطہ طور پرکانگریس پارٹی کی طرف سے دی جانے والی افطار پارٹیوں کو بھی موقوف کردیا گیا۔ دوسری طرف مسلم ووٹوں کے سہارے سیاسی قد بڑھانے والے اور زمام اقتدار سنبھالنے والے ملائم سنگھ یادو اور ان کی پارٹی نے بھی اب افطار پارٹی کی سیاست سے دامن بچالیا ہے۔ شخصی طور پر راہل گاندھی ، سابق وزیر اعظم اورجنتادل کے قومی صدر دیوے گوڈا جی وغیرہ نے تو اس مرتبہ افطار پارٹیوں کا اہتمام کیا لیکن آئندہ ان کا موقف بھی بدل جائے تو حیرت کی بات نہیں ہونی چاہیے کیونکہ مسلم Appeasementکا ٹیاگ لگوانا اور اس کی قیمت چکانا کسی کو بھی راس نہیں آسکتا۔اور یہاں تو ساری تگ و دو کا محور کرسئ اقتدار ہوتا ہے۔اس لئے یہ جوکھم کون اٹھا سکتا ہے! افطار پارٹی کا لالی پاپ: ایک زبردست تزک و احتشام والی افطار پارٹی جو گزشتہ دو تین برسوں سے سرخیوں اور تنازعے کا مرکز بنی ہوئی ہے وہ تلنگانہ میں TRS کی طرف سے دی جانے والی وزیراعلیٰ کے چندرا شیکھر راؤ کی ’ سرکاری افطار پارٹی‘ ہے۔جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس پر کئی کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔سرکاری خزانے کے ’اسراف‘کا حوالہ دے کر اس’ گرانڈ افطارپارٹی‘ پر روک لگانے کے لئے عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود وزیر اعلیٰ چندراشیکھر راؤ اپنی ’مسلم دوستی‘ والے برانڈ کومزید شانداراورمستحکم بنانے کے لئے کسی بھی قسم کی مخالفت کو خاطر میں نہیں لاتے اور افطارپارٹی منعقد کرکے ہی دم لیتے ہیں۔ لیکن جانکاروں کا کہنا ہے کہ یہ ’گرانڈ افطار پارٹی‘ TRSاور وزیرا علیٰ کے چندراشیکھر را ؤکی طرف سے تلنگانہ کے مسلمانوں کے لئے محض ایک ’لالی پاپ‘ ہے اور وہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے مسائل سے متعلق کی گئی وعدہ خلافیوں پر پردہ ڈالنے اور مسلمانوں کا منھ بند رکھنے کا مقصد پورا کرلیتے ہیں۔اس مرتبہ بھی افطار پارٹی کے دوران انہوں نے کئی بڑی بڑی فلاحی اسکیموں کا اعلان کیا ہے۔ بالکل اسی طرح کے افطاری لالی پاپ بہار اور یو پی میں بھی سرکاری اور سیاسی سطحوں پر مسلمانوں کے منھ میں ٹھونسے جاتے ہیں اورخود کا انگھوٹھا مزے مزے لے لے کرچوسنے والے چھوٹے بچوں کی طرح مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ایسے لالی پاپ چوس کر مست مگن رہتا ہے۔ نقوی کی مسلم خواتین کو افطار پارٹی: بی جے پی کے لیڈر اور اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے بھی اس مرتبہ اپنی سرکاری رہائش پر افطار پارٹی کااہتمام کیا ۔مگریہ افطار پارٹی مسلم طبقے سے صرف اور صرف’ مسلم خواتین‘کے لئے خاص تھی۔اور مسلم طبقے سے ان کے مدعوئین خاص میں وہ ’مسلم خواتین‘ شامل تھیں جو مبینہ طور پر اسلام کے تین طلاق والے سسٹم کی ماری ہوئی ہیں ، جن کا سہارا لے کر مودی حکومت نے سپریم کورٹ کے ذریعے تین طلاق پر پابندی حاصل کرنے اور مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کا جواز پیدا کرنے کی سازش رچی ہوئی ہے۔آل انڈیا ویمن مسلم پرسنل لاء بورڈ کی صدر شائستہ عنبر بھی اس بطور خاص اس پارٹی میں شریک تھیں۔ایک رپورٹ کے مطابق300سے زیادہ خواتین نے اس افطار پارٹی میں شرکت کی تھی۔ یہ تماشہ بھی خوب رہا: تماشہ تو یہ ہے کہ افطار پارٹی ’مسلم خواتین کے لئے خاص تھی، مگر اس میں سمرتی ایرانی کے علاوہ بی جے پی کے کئی’ مرد قائدین‘ جیسے ہوم منسٹر راجناتھ سنگھ ،لاء منسٹر روی شنکر پرساد، پرکاش جاوڈیکر،ہر ش وردھن ،ایم جے اکبر وغیرہ بھی شریک تھے۔ظاہر ہے کہ مختار عباس نقوی نے بی جے پی کے اشارے پر ہی ایسا انتظام کیا ہوگا۔ اور اس کا مقصد بھی مسلم طبقے میں خواتین کے ذریعے دراندازی کرنا اور آپس میں انتشار و تفرقہ پیدا کرتے ہوئے اپنی سیاسی دکان چمکانا ہے۔ ادھربہار پٹنہ میں بھی بی جے پی کی طرف سے مسلمانوں کے لئے افطار پارٹی کا انعقاد کیا گیا جس میں بی جے پی لیڈران شاہنواز حسین، روی شنکر پرساداوربہار کے ڈپٹی چیف منسٹر سوشیل کمار مودی نے بھی شرکت کی۔جبکہ آر جے ڈی کی طرف سے تیجیسوی یادو نے جس افطار پارٹی کا اہتمام کیا تھا اس میں پارٹی کے اندر رہ کر اس پر مسلسل تنقید کرنے کے لئے معروف بی جے پی لیڈر شتروگھن سنہا نے شرکت کی تھی اور اپنے ہائی کمان کے سینے پر مونگ دَلنے کی کوشش جاری رکھی تھی۔جس سے محسوس ہوتا ہے کہ :

اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے دامن کے تار اور گریباں کے تار میں

آر ایس ایس کی بھی افطار پارٹی!: کیا عجیب منافقت ہے کہ مسلمانوں کی ازلی دشمنی اور ہندوستان میں اقلیتوں اورخاص کرکے مسلمانوں کی دینی و سماجی حیثیت نیست ونابود کرنے کا ایجنڈہ رکھنے والی تنظیم راشٹریہ سویم سنگھ سے وابستہ اقلیتی مورچے ’مسلم راشٹریہ منچ‘کے پرچم تلے اب افطار پارٹی کی شروعات کی گئی ہے۔ ممبئی کے مالابار ہِل علاقے میں واقع سہیادری گیسٹ ہاؤس میں منعقدہ اس افطار پارٹی میں مسلم ممالک سفیروں اور ڈپلومیٹس کو بطور خاص مدعو کیا گیاتھا۔ایک اندازے کے مطابق افطار کے لئے تقریباً30ممالک کے قونصل جنرل، مسلم طبقے کی 200نمائندہ شخصیات اور100دیگر طبقات کی نمایاں شخصیات کو شامل کیا گیا۔آر ایس ایس کی جانب سے مسلمانوں کے اندر نفوذ کرنے کی نیت سے اس طرح کی پارٹیاں شمالی ہند میں2015 ؁ء سے شروع کی گئی تھیں ، جب مسلمانوں سے ربط وضبط بڑھانے کے نام پر وزیر اعظم نریندرا مودی اپنے طور پرافطار پارٹیوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔اس کا مقصد آر ایس ایس کے تعلق سے مسلمانوں کے اندر پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش بتایا جاتا ہے! یہ بھی ایک عیاری ہے : یہ بات بہت حیرت انگیز اس وجہ سے بھی ہے کہ دوسری سیکیولر پارٹیوں کو مسلمانوں کی خوشامدAppeasement کا طعنہ دے کر غیر مسلموں میں ان پارٹیوں کی ساکھ مجروح کرنے کا سہرا اسی سویم سیوک سنگھ کے سر جاتا ہے۔مسلمانوں کی مسجدوں کو مندروں میں بدلنا، گھر واپسی کے پروگرام چلانا، گؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں کی ہجومی ہلاکت mob lynnching،لوجہاد کے نام پر فتنہ و فساد، فرقہ وارانہ منافرت، ہندوستانی مسلمانوں کی جڑوں کو ہندومذہب سے جوڑنا، یہ سارے کھاتے اور قلمدان اپنے پاس رکھنے والی آر ایس ایس اگر مسلمانوں کے اعزاز میں افطارپارٹیوں کا اہتمام کرے تو پھر اس لومڑی کی عیاری او رمکاری کا کوئی نہ کوئی پہلو اس میں چھپا ہونا لازمی بات ہے۔ اس کا ایک سیدھا مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ بھولے بھالے مسلمانوں کو آر ایس ایس سے قریب کرنے کے جتن کیے جائیں اور انہیں آپس میں تفرقے اور تقسیم کا شکار بناتے ہوئے(سبرامنیم سوامی فارمولہ)’ماڈریٹ اورراشٹر وادی‘ مسلمانوں کے گروہ تیار کیے جائیں۔ پھر انہیں اپنا آلہ کار بناتے ہوئے مسلمانوں کو اپنی ملّی و تہذیبی شناخت سے دور کرنے کا کام لیا جائے۔یہی آر ایس ایس کا گیم پلان ہے ، اورایسا لگتا ہے کہ آج نہیں توکل عام مسلمانوں کا طبقہ اس جال میں ضرورپھنس جائے گا۔

بچ بھی جائیں گے اگر آج ہم اک قاتل سے کل کسی دوسرے قاتل کے حوالے ہوں گے

 haneefshabab@gmail.com (....جاری ہے.....غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کی افطار پارٹیوں کا تماشہ...... اگلی قسط ملاحظہ کیجیے)