افطار پارٹیوں کی سیاست۔۔۔یہ خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے! پہلی قسط۔۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ


آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
رمضان کا بابرکت مہینہ اپنے سارے تقدس و اکرام کے ساتھ ہم سے رخصت ہوگیا اس کے ساتھ ہی افطار پارٹیوں کی سیاست کاسلسلہ بھی آئندہ گیارہ مہینوں کے لئے تھم گیا۔بے شک روزہ داری اور افطاری رمضان کریم کے دو بنیادی اجزاء ہیں اور اس کے اہتمام کی فضیلت اور اہمیت پر حرف گیری کا کوئی سوال ہی پید انہیں ہوتا۔ افطار کا وقت اللہ تعالیٰ سے قرب اور دعاؤں کے مقبول ہونے کا کتنا حسین اور قیمتی وقفہ ہوتا ہے اس کے بارے ہر مومن باخبر ہوتا ہے۔ لیکن اس ملک میں سرکاری و غیر سرکاری سطحوں پر افطار پارٹیوں کے نام سے جو سیاست کی جاتی ہے ، اسے قابل تحسین کہنا ہمارے خیال میں خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
سرکاری افطار پارٹیاں: اس ملک میں سرکاری افطار پارٹیوں کا سلسلہ کافی پرانا ہے۔ صدر ہند کی طرف سے عوامی منتخب نمائندوں اور سفارتکاروں وغیرہ کے لئے راج بھون میں افطار پارٹیوں کا سلسلہ جو برسہا برس سے چلاآرہا تھا اسے موجودہ آر ایس ایس نواز صدر ہندرام ناتھ کووندنے امسال سے منقطع کردیا۔ اس کے لئے انہوں نے سرکاری سطح پر افطار پارٹیوں کو ملک کے سیکیولرازم سے متضاد ہونے کی دلیل دی ہے۔ (حالانکہ وہ جس سویم سیوک سنگھ سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس ملک کو سیکیولر نہ رکھتے ہوئے دھرم پر مبنی’ ہندو راشٹر‘ بنانے کے مشن پر قائم ہے!)پتہ نہیں ہولی ، دیوالی وغیرہ کے تعلق سے صدر موصوف آئندہ کیا موقف اختیار کریں گے۔ا س کے علاوہ چونکہ آزادی کے بعد سے سب سے زیادہ عرصے تک کانگریس ہی مرکزی سطح پر بر سرا قتدار پارٹی رہی ہے ، تو اس کی طرف سے بھی افطار پارٹیوں کا انعقاد معمولات میں شامل رہا ہے۔
3
سرکاری افطار پارٹی کی ایک یادگار تصویر۔مجاہد آزادی مولانا حسرت موہانی اور ڈاکٹر امبیڈکر
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے دامن کے تار اور گریباں کے تار میں
آر ایس ایس کی بھی افطار پارٹی!: کیا عجیب منافقت ہے کہ مسلمانوں کی ازلی دشمنی اور ہندوستان میں اقلیتوں اورخاص کرکے مسلمانوں کی دینی و سماجی حیثیت نیست ونابود کرنے کا ایجنڈہ رکھنے والی تنظیم راشٹریہ سویم سنگھ سے وابستہ اقلیتی مورچے ’مسلم راشٹریہ منچ‘کے پرچم تلے اب افطار پارٹی کی شروعات کی گئی ہے۔ ممبئی کے مالابار ہِل علاقے میں واقع سہیادری گیسٹ ہاؤس میں منعقدہ اس افطار پارٹی میں مسلم ممالک سفیروں اور ڈپلومیٹس کو بطور خاص مدعو کیا گیاتھا۔ایک اندازے کے مطابق افطار کے لئے تقریباً30ممالک کے قونصل جنرل، مسلم طبقے کی 200نمائندہ شخصیات اور100دیگر طبقات کی نمایاں شخصیات کو شامل کیا گیا۔آر ایس ایس کی جانب سے مسلمانوں کے اندر نفوذ کرنے کی نیت سے اس طرح کی پارٹیاں شمالی ہند میں2015 ء سے شروع کی گئی تھیں ، جب مسلمانوں سے ربط وضبط بڑھانے کے نام پر وزیر اعظم نریندرا مودی اپنے طور پرافطار پارٹیوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔اس کا مقصد آر ایس ایس کے تعلق سے مسلمانوں کے اندر پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش بتایا جاتا ہے! یہ بھی ایک عیاری ہے : یہ بات بہت حیرت انگیز اس وجہ سے بھی ہے کہ دوسری سیکیولر پارٹیوں کو مسلمانوں کی خوشامدAppeasement کا طعنہ دے کر غیر مسلموں میں ان پارٹیوں کی ساکھ مجروح کرنے کا سہرا اسی سویم سیوک سنگھ کے سر جاتا ہے۔مسلمانوں کی مسجدوں کو مندروں میں بدلنا، گھر واپسی کے پروگرام چلانا، گؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں کی ہجومی ہلاکت mob lynnching،لوجہاد کے نام پر فتنہ و فساد، فرقہ وارانہ منافرت، ہندوستانی مسلمانوں کی جڑوں کو ہندومذہب سے جوڑنا، یہ سارے کھاتے اور قلمدان اپنے پاس رکھنے والی آر ایس ایس اگر مسلمانوں کے اعزاز میں افطارپارٹیوں کا اہتمام کرے تو پھر اس لومڑی کی عیاری او رمکاری کا کوئی نہ کوئی پہلو اس میں چھپا ہونا لازمی بات ہے۔ اس کا ایک سیدھا مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ بھولے بھالے مسلمانوں کو آر ایس ایس سے قریب کرنے کے جتن کیے جائیں اور انہیں آپس میں تفرقے اور تقسیم کا شکار بناتے ہوئے(سبرامنیم سوامی فارمولہ)’ماڈریٹ اورراشٹر وادی‘ مسلمانوں کے گروہ تیار کیے جائیں۔ پھر انہیں اپنا آلہ کار بناتے ہوئے مسلمانوں کو اپنی ملّی و تہذیبی شناخت سے دور کرنے کا کام لیا جائے۔یہی آر ایس ایس کا گیم پلان ہے ، اورایسا لگتا ہے کہ آج نہیں توکل عام مسلمانوں کا طبقہ اس جال میں ضرورپھنس جائے گا۔بچ بھی جائیں گے اگر آج ہم اک قاتل سے کل کسی دوسرے قاتل کے حوالے ہوں گے
haneefshabab@gmail.com (....جاری ہے.....غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کی افطار پارٹیوں کا تماشہ...... اگلی قسط ملاحظہ کیجیے)