بے تاج بادشاہ ، پیکر عمل ،عالم ، داعی اور مربی (3)

Bhatkallys

Published in - Other

12:38PM Thu 10 Mar, 2016
عبد المتین منیری ۱۹۶۸ء کا سنہ اس لحاظ سے بھی جامعہ کے لئے اہمیت کا حامل ہے کہ سال کے آغاز میں مولانا مرزا یعقوب بیگ ندوی مرحوم نے بحیثیت مہتمم چھ ماہ ذمہ داری سنبھالی ،اس مختصر مدت میںآپنے جو نقوش چھوڑے ان کا تذکرہ کسی آئندہ کسی مجلس کے لئے چھوڑتے ہیں ، ۱۹۶۹ء میں پنجم مکتب سے جامعہ کے درجات جامع مسجد سے شمس الدین سرکل پر واقع ا(جوکاکو منشن) موجودہ( دامن ) میں منتقل ہوئے ، چہارم مکتب تک کے درجات شاہدلی اسٹریٹ میں اس وقت زیر تعمیر فاروقی مسجد کے بالمقابل نکڑ کی عمارت میں منتقل ہوئے تو مرحوم غالبا اپنے تیسری جماعت کے ہم جولیوں کے ساتھ یہاں منتقل ہوئے تھے ، یہاں کے اہم اساتذہ میں عبد الحمید خان ماسٹر مرحوم عرف چھوٹے خان اور ابھی قریب میں اللہ کو پیارے ہونے والے نائطی زبان کے خوش بیان شاعر محمد سلیم نازش محتشم یاد آتے ہیں ۔ ۱۹۷۱ء میں جناب قاضیا ابو الحسن ماسٹر کی رحلت کے بعد مولانا سید ارشاد علی ندوی صاحب کی بحیثیت مہتمم تشریف آوری ہوئی ، اسی سال ترقی کرتے ہوئے آپ کی جماعت بھی جوکاکو مینشن پہنچی ، یہاں کے اساتذہ میں ایک اہم نام مولانا عبد السمیع کامل ندوی مرحوم کا بھی ہے جو مختصر مدت کے لئے ہی سہی اپنی بہار دکھاگئے ، یہاں تک کہ ۱۹۷۴ء میں جامعہ کی تاریخ کا وہ یادگار لمحہ آگیا ، جب جامعہ آباد میں سرپرست جامعہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں جامعہ کی رہائشی درسگاہ کا افتتاح ہوا ، اس طرح آپ طلبہ علوم دینیہ کے اس بابرکت قافلے میں آغاز ہی سے شامل ہوگئے جنہوں نے جامعہ آباد کے ویرانے کو پہلے پہل آباد کیاتھا ، اسے جنگل میں منگل بنانے میں قافلہ سالا ر کے شانہ بہ شانہ رہے ، ا س کی آبیاری کی ، اور اسے ایک قابل رشک بلند مقام تک پہنچانے میں اپنی صلاحیتیں صرف کیں ۔یہ بھی حسن اتفاق تھا کہ کم عمری کی وجہ سے جہاں تعلیمی دور کے آغاز میں استاذ الاساتذہ مولانا عبد الحمیدندوی رحمۃ اللہ علیہ کے فیض وبرکات سے محرومی ہوئی تو وہ یہاں عربی پنجم میں دوران تعلیم کچھ حد تک دور ہوئی ، یہاں آپ کو مولانا ندوی کی شفقتیں اس وقت نصیب ہوئیں جب اہلیہ کی رحلت کے بعد ایک مشفق سرپرست کی حیثیت سے اپنی آنکھیں بند ہونے سے قبل جامعہ آباد میں اپنے بوئے درخت کو سرسبز و شاداب ہوتے ہوئے دیکھنے کے لئے چند عرصہ یہاں مقیم رہے ،اس طرح مرحوم جامعہ کے سب سے کم سن عالم بن گئے جن کی نظر سے جامعہ کے اساتذہ کی پوری نسل گذری۔ مرحوم کی طالب علمی کا دور ہمارے سامنے کی بات ہے ، ہمارا ذاتی تاثر یہ ہے کہ درجہ میں آپ سے زیادہ ہونہار اور زیرک طلبہ موجود تھے، آپ کی صلاحیت ساتھیوں میں متوسط درجے کی تھی ، لیکن طلبہ میں آپ کی محبوبیت اس وقت بھی بہت تھی ، اس کے کئی اسباب بھی تھے ، آپ کی شخصیت میں مجلسیت اپنے تمام حسن و کمال کے ساتھ پائی جاتی تھی ، آواز خوبصورت ، طبیعت میں شگفتگی اور حس مزاح ہو ، قاریوں شاعروں اور مقررین کی ہوبہو نقل کا مادہ ہو، شعری ذوق ،اس پر وجاہت ، ڈیل ڈول جاذب نظر ، ایسی نستعلیق شخصیت آخر لوگوں کو اپنی طرف مائل نہ کرے تو آخر کون کرے ؟ دوران طالب علمی آپ اپنے اساتذہ کے محبوب نظر رہے ، ا ن کی خدمت اور خاطر داری کو اپنا شعار سمجھا ، آج سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے ششم عربی وغیرہ میں اپنے ان اساتذہ کی جو اس وقت عنفوان شباب میں تھے ، اور ان کی عمریں (۲۷) اور (۲۸) سے متجاوز نہیں تھیں ، ایسی خدمت کی جیسے کسی بڑے بوڑھے بزرگ کی ہوتی ہے ۔ ان کے والدین کی خدمت کے تذکرے پر دفتر کے دفتر سیاہ کرنے پڑیں ، ان کی یہی شرافت اور نیاز مندی تھی جس نے انہیں اس بلند مقام تک پہنچایا جس تک ان کے کئی ایک اساتذہ بھرپور ظاہری صلاحیتوں کے باوجود نہ پہنچ سکے ۔ آپ نے جامعہ میں طالب علمی کا جو دور دیکھا اس کے تذکرے مولانا شہباز اصلاحی ، مولانا حافظ محمد رمضان ندوی ، ماسٹر احمد نوری مرحوم وغیرہ پر ہمارے مضامین میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ شہبازصاحب کا معمول تھا کہ جمعہ کی صبح دس بجے جامعہ آباد سے نکلتے ، نماز جمعہ کے معمولات ، ڈاکٹر سید انور علی مرحوم کے یہاں سستانے اور بعد عصر انجمن کالج میں درس قرآن کے بعد نور مسجد پہنچتے ، یہاں سے جامعہ آباد میں مقیم طلبہ کے جلو میں پیدل ملیہ مسجد نوائط کالونی نماز مغرب کے وقت پہنچتے ، اور عشاء کی نماز جامعہ آباد میں ادا کرتے ، اس زمانے میں نوائط کالونی کے نکڑ میں بھنڈے کوڈ گڈھے سے جامعہ آباد تک کچی سڑک پر لوگ پیدل یا سائکل پر جاتے تھے ، سڑک کنارے کوئی مکان نہیں تھا ، طلبہ جمعرات تک گھر آنے کا نہیں سوچتے تھے ، مرحوم بھی اس قافلے کے ایک رکن رکین تھے ۔ آپ کا ابتدائی زمانہ موبائل اور ٹیلویژن اور انٹرنٹ کا نہیں تھا، ویسے ان چیزوں کا آپ کو کیا کام تھا ؟ اگر یہ چیزیں آپ کی زندگی میں آجاتیں تو وقت میں برکت کہاں رہتی ؟ نصف صدی میں ایک صدی کا کام کیوں کر پاتے ؟ ہاں ۱۹۶۸ء کے آس پاس بھٹکل میں ریڈیو عام ہونے لگا ، اسی دوران حرم کے خطبات جمعہ اور نماز ریڈیو جدہ پر نشر ہونے لگے ، جنہیں باذوق افراد سنتے ، انہی دنوں مکہ سے امام حرم شیخ محمد عبد اللہ السبیل کی آواز گونجنے لگی ۔ بڑی بھاری بھر کم اور دلوں پر دھاک بٹھانے والی آواز ، جامعہ آباد میں بھی ریڈیو لگ گیا ، جسے اسٹاف روم میں طلبہ و اساتذہ مل کر سنتے ، آپ کے گلے کو یہ آواز بھا گئی ، ۱۴۰۹ھ؍۱۹۸۹ء کے سفر حج میں بالمشافہ آپ کے پیچھے نمازیں اداکیں تو شیخ سبیل سے گرویدگی میں مزید پختگی آگئی ،یاد پڑتا ہے ۳ ؍ذی الحجۃ ۱۴۰۴ھ۔ ۳۱؍اگست ۱۹۸۴ء کو جب آپ جامع مسجد کے منبر پر پہلی مرتبہ چڑھے تھے اور نماز جمعہ کی امامت کی تھی تو ہمارے مشفق اور قوم کے ایک مخلص خدمت گذار نثار احمد رکن الدین محمد باپو نے تاثر بھیجا تھا کہ حرم شریف میں نماز کی یاد تازہ ہوگئی ۔ جامعہ میں آپ کی عالمیت کا سال اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ اس سال الحاج محی الدین منیری مرحوم نے بحیثیت ناظم جامعہ ذمہ داری سنبھالی، اور یہاں سے ندوۃ العلماء اور ذمہ اران ، مفکراسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ ، مولانا معین اللہ ندوی ؒ اور مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کے ساتھ جامعہ کے تعلقات نے ایک نئی کروٹ بدلی ، ندوے کے ساتھ جامعہ کا باقاعدہ الحاق ہوگیا، غالبا مرحوم کی جماعت جامعہ کی پہلی جماعت تھی جس نے جامعہ سے عالمیت کے بعد خصوصی امتحان دئے بغیر درجہ تخصص یا فضیلت میں داخلہ لیا ، مختلف وابستگیوں کی بنیاد پر ندوے سے الحاق کے بارے میں مختلف رائیں ہوسکتی ہیں ، اور اسکے منفی اور مثبت پہلو بھی سامنے آسکتے ہیں ، لیکن شاید اس میں دو رائے نہ ہو کہ ۱۹۶۲ء تا ۱۹۸۱ء کے انیس سالوں کے دوران جامعہ سے فارغ علماء کی تعدا د صرف پندرہ (۱۵) کے لگ بھگ بنتی ہے ، ندوے میں داخلے کے بعد خصوصی ٹیسٹ میں اکثر طلبہ کا سال دوسال کا نقصان ہوتا تھا ، جس کی وجہ سے طلبہ میں دوران تعلیم مدرسہ چھوڑنے کا رجحان قابو میں نہیں آرہا تھا ، حالانکہ اس زمانے میں جامعہ کے تعلیمی معیار کی تعریف بہت تھی ، طلبہ کی تعداد بھی اس زمانے کے معیار سے کم نہیں تھی ، آج تو سالانہ پچاس پچپن فارغین کا اوسط ہے ۔ ۲۰؍شوال ۱۴۰۱ھ ۔۲۲؍جون ۱۹۸۱ء آپ نے ندوے میں درجہ فضیلت میں داخلہ لیا ، اسی سال ندوے کے دو گلہائے سرسبد مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب اور مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب نے یہاں تدریسی خدمات کا آغاز کیا تھا، آپ نے یہاں کے دوسرے بزرگ اساتذہ کے ساتھ ساتھ ان نوجوان اساتذہ سے خوب اثر قبول کیا ، یہ دونوں نابغہ روزگار عالم دین تازہ حوصلے اور ولولہ کے ساتھ وارد ہوئے تھے ، انہوں نے اردو خطابت کو نئے آفاق سے متعارف کراکے اسے ایک نئی تازگی بخشی تھی ، ان دونوں نے قرانی تعلیمات کے فروغ کے لئے تفسیری دروس کے زرین سلسلے شروع کئے تھے ، جن میں روایت کی وسعت بھی تھی اور فکر و تدبر کی گیرائی بھی ، مرحوم نے اپنے قیام ندوے میں ان دروس میں پابندی سے حاضری دی ،شاید یہ بات حقیقت سے دور نہ ہو کہ بھٹکل میں مولانا نے ۱۴۰۳ھ۔ ۱۹۸۳ء میں فراغت کے بعد جن دروس قرآنیہ کا سلسلہ شروع کیا تھا ، اور اس کے نتیجے میں یہاں کی نصف سے زیادہ مساجد میں تسلسل کے ساتھ درس قرآن کے سلسلے جاری ہوئے ، تو یہ ان چراغوں کی روشنی تھی ، جن سے دوسرے چراغ روشن ہوئے ، اگر فضل خدا وندی شامل حال رہا تو ان شاء اللہ قیامت تک چراغ سے چراغ جلتے رہیں گے ۔ ۱۵؍شعبان ۱۴۰۳ھ ۔ ۲۰ ؍جولائی ۱۹۸۳ء کو آپ نے دستار فضلیت باندھا ، رمضان مبارک تکیہ کلاں رائے بریلی میں حضرت مولانا علی میاں ؒ کے ساتھ گذارا ، ۹؍محرم ۱۴۰۴ھ۔ ۵؍نومبر ۱۹۸۳ء بروز سنیچر بوقت فجر حضرت سے الوداعی ملاقات کی ، اور اپنے وطن کو ایک مقصد حیات اور مشن لے کر روانہ ہوئے ،جہاں آپ کے انتظار میں نگاہیں فرش راہ تھیں ، یکم ؍صفر ۱۴۰۴ھ ۔ ۱۵؍نومبر ۱۹۸۳ ء منیری صاحب کے دور نظامت میں آپ نے جامعہ میں نونہالان قوم کی اسلامی نہج پر تعلیم وتربیت کی ذمہ داری سنبھال لی ۔ جو تادم واپسین آپ کی اولین ترجیح رہی ۔ انہی دنوں جامع مسجد کے امام و خطیب عبد القادر باشا اکرمی صاحب اپنی پیرانہ سالی اور گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے یہ ذمہ داریاں سنبھالنے سے معذور ہورہے تھے ، اور جماعت المسلمین کو آپ کے جانشین کی تلاش تھی ، اس وقت شیرور جامع مسجد میں ایک تنازعہ کو روکنے کے لئے ہفتہ وار خطیب بھیجنے کی ذمہ داری جماعت المسلین نے اپنے سر لے لی تھی ، ایک روز خطابت جمعہ کا قرعہ آپ کے نام نکلا ، جماعت کے ایک متحرک ذمہ دار علی گوائی مرحوم شیرور تک رفیق سفر تھے ، آپ مولانا کا خطبہ اور نماز سے ایسے متاثر ہوئے جیسے تلاش گمشدہ میں کامیابی ہوگئی ہو ، واپسی پر جماعت المسلمین میں ایسی پرجوش تحریک کی کہ یکم ذی الحجہ ۱۴۰۴ھ ۔۳۰؍اگست ۱۹۸۴ء سے آپ جامع مسجد کے منبر و محراب کی پہنچان بن گئے ، یہاں سے مولانا آواز دنیا کے کونے کونے میں پہنچی ۔اور نہ جانے کتنوں کی کایا پلٹ کا سبب بنی ۔(جاری)