پیکر ِ رشد و ہدایت ہیں رشیدہ باشاہ۔۔۔۔۔۔از:فرزانہ فرح بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Other

04:48AM Sun 24 Apr, 2022
(مرحوم شمس الدین جوکاکو صاحب کی دختر رشیدہ باشاہ  کا کل دبئی میں 75 سال کی عمر میں انتقال ہوا تھا، آج دبئی کے القوز قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ مرحومہ نے انجمن میں قریب 36 سال تدریسی خدمات انجام دیں ہیں اور اس دوران انہوں نے طلبہ، اساتذہ سمیت اپنے ارد گرد رہنے والے ہر نفس کو علم کی خوشبو پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ بھٹکل کی مشہور مصنفہ ڈاکٹر فرزانہ فرح نے قریب دس سال قبل مرحومہ کے تعلق سے ایک مضمون لکھا تھا ، جس کو بھٹکلیس ڈاٹ کوم ان کے شکریہ کے ساتھ ہو بہو شائع کر رہا ہے۔ادارہ)   نفسا نفسی، مقابلے اور خود غرضی کی اس  بھیڑ میں کوئی ایسا چہرہ  ڈھونڈنے سے  نہیں ملتا جو فکر ِ امروز ز و  فردا  سے بری ہو۔ سود و زیاں سے بالاتر  ہو اور بے لوث خدمت کو اپنا نصب العین بنا لے. ہاں  مگر جو کھوکھلے وجود   اپنے شانوں پر  روغن تھپے مکھوٹے چپکاے، یہاں سے وہاں  گھوم رہے  ہیں ان میں ایک صورت اپنی الگ شناخت رکھتی ہے. بے نیاز ِ دہر،  پیشہ پیغمبری کے سلسلے کو فروغ دیتی، جہل کی سرکش تیرگی سے بر سر ِ پیکار ہے. واقعی....

کمال ِ عاشقی ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتا

ہزاروں میں کوئی مجنوں، کوئی فرہاد ہوتا ہے

میری اور رشیدہ باشاہ صاحبہ کی شناسائی  تقریباً تین دہائیوں پر مبسوط ہے. تیس سالوں کے طویل عرصے میں شہر کی  کایا پلٹ گئی.  پرانے محلوں کی جگہ  نئی کالونیوں نے لے لی. دھول اڑاتی  کچی سڑکوں نے تار کول  کی پختہ  ردا اوڑھ لی. تین پہیوں کی جگہ چار پہیے  فراوانی سے دوڑنے لگے.  کیلکولیٹر کی جگہ کمپیوٹر آگئے. دسترخوان پر پر بھٹکلی ذائقہ کی بجائے آئے چائنیز کویزین سجنے لگے آگے خود ہمارے مدرسے کے احاطے میں  ایک کی جگہ  تین عمارتوں نے گھیر لیں. اتنے بدلاؤ کے باوجود یہ محترمہ ما وراے وقت نظر آتی ہیں. نہ ان کےرعب دبدبے میں، نہ شائستگی میں، نہ علمیت میں، نہ معاملہ فہمی میں، نہ قوت فیصلہ میں، نہ دل کشی میں تبدیلی آئی ہے. علامہ اقبال نے فرمایا تھا  ثبات  ایک تغیر کو ہے  زمانے میں یہ فلسفہ  موصو فہ پر منطبق ہوتا نظر نہیں آتا محترمہ رشیدہ باشاہ پرنسپل انجمن کالج، مرکارا، (کو رگ) میں پلی بڑھی ہیں. سنا ہے وہاں ان کے باغات میں کافی اور کالی مرچوں کی کاشت کی جاتی ہے. اسی آب و ہوا کے زیراثر مزاج میں بھی کافی جیسی خوشگوار تلخی اور تاثیر ہے. جس میں خوشگواری کا پہلو تلخی کے عنصر پر  غالب رہتا ہے، جو منجمد   دل و دماغ کے لیے فائدہ بخش ہوتا ہے. بھٹکل میں تعلیم نسواں کی داغ بیل انھوں نے ڈالی. گھر گھر ، جا کر رابعہ آپا کے ساتھ  خواتین کی ذہن سازی کی. طعنے سنے، صلواتیں سنیں، وقتی طور پر سماجی بائیکاٹ کا بھی سامنا کیا، مگر پاے استقلال میں لرزش نہ آئ.

 باپ کا علم  اگر بیٹے کو نہ ازبر  ہو

 پھر پسر سر کابل میراث ِ پددر کیوں کرہو

بیٹے کی جگہ بیٹی، پسر کی جگہ دختر  رکھ لیں تو بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے.  ویسے جہاں تک  ان کے والد محترم شمس الدین جوکا کو ، کا سوال ہے  انہوں نے شہر بھٹکل، کے کونے کونے  کو بجلی سے منور کیا، جب کہ بیٹی نے  اہل بھٹکل کے  اذہان کو  تعلیم سے روشن کیا. عجب نہیں  باپ بیٹی نے عہد کیا ہو ستاروں کی  ضوسے چراغوں کی لو تک تمہیں میں ملوں گا جہاں رات ہوگی   دو سال تک مجھے بھی ان کی شاگردی کا شرف حاصل رہا ہے. یہ سعادت جن جن کے نصیب میں آئی ہے وہ اس حقیقت سے انکار نہ کریں گے کہ رشیدہ میڈم ایک مثالی اور ان تھک استانی رہی ہیں. ہر شاگرد پر خصوصی توجہ دینے والی، تفصیل سے سبق  سکھانے والی،وقفے وقفے سے سوالات کر نے والی،  جماعت میں بآواز بلندسبق پڑھنے کی تاکید کرکے تلفظ کی تصحیح کرنے والی، جوابی پرچوں کی باقاعدہ جانچ کرنے والی. جنھوں نے صرف نصابی تعلیم پر اکتفا نہ کرتے ہوئے طالبات کی خودی، نفس اور کردار کی بھی تربیت کی  ہے. الحاد کے کے اس دور میں اپنے عقائد کی استواری کے لیے خود بھی بیدار رہیں اور دوسروں کو بھی چوکنا رکھا. اپنی بنیاد سے  انحراف نہیں  کیا اور یوں زندگی کی تفہیم کے راستے تلاش کرنے میں نئی نسل کی معاون رہیں .

 ہمارے پاس ہے  اک حسن کے  احساس کی طاقت

 یہ پارس جو بھی چھو ُلے  ہم اسے سونا بناتے ہیں

ان کا یہ شوق محض شاگردوں تک، کالج کیمپس میں محدود نہیں، رہا، گھر میں جو لڑکی خدمت کے لیے رکھی گئی اسے تعلیم سے نوازتی رہیں. جہل کے خلاف یہ احتجاج بھی ایک فن ہے جو سب کے بس کا روگ نہیں.

غم ِ حیات میرے ساتھ ساتھ ہی رہنا ۔۔۔پیمبری سے تیرا سلسلہ ملا دوں گا

          تبلیغ کی روح اتنا بے چین رکھتی ہے کہ عصری تعلیم کے پہلو بہ پہلو دینیات کاایک پیریڈ انہی کی ایما پر نصاب میں شامل کیا گیا. میٹنگ ہو، کالج میگزین یا جلسہ، قرآنی آیات کے بعد ترجمہ صرف اردو میں نہ کرتے ہوئے انگریزی اور کنڑا زبانوں میں بھی کراتی ہیں تاکہ غیر مسلم بھی  اس آفاقی پیغام کو سمجھ سکیں. کون جانے اس دیوار میں کب معرفت کا در وا ہو جائے. کالج میں کسی قسم کا مقابلہ ہو، سلائی کڑھائی، ْبنائی، سجاوٹ یا پکوان. باہر سے ماہرین  (حکم)کو مدعو کیا جاتا ہے. ساتھ ہی ساتھ ایک معزز منصف انہیں بھی بنایا جاتا ہے  کیونکہ یہ ہر فن مولا ہیں. اشیاء اور کاریگری کی باریکی کو جانچنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں. اگر ان نکات پر غور کیا جائے جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ دیتی ہیں تو دماغ سنسنانے لگتا ہے  کہ آخر ان کا دماغ  کس کس مقام پر، کس کس بلندی سے کام کرتا ہوگا

 مجھے چلنا ہے فقط چلنا ہے

 میں ٹہر جاؤں تو تھک جاؤں گا

مستقل کام کرتے  یہ نہیں تھکتیں. خدا، کسان اور استاد کا ہاتھ اگر رک جائے تو دنیا کیسے چلے گی. جب بھی ان کے کمرے کے سامنے سے گزروں، انہیں ٹیبل پر جھکا پاتی ہوں. بہت سے اخبارات، کاغذات کے پلندے.دو چار کتابیں، لغات اور موٹی فائلوں کے انبار  میں غرق، وہ چھپ سی جاتی ہیں. اس مصروفیت کے دوران انہیں مخاطب کر کے اپنے وجود کا احساس دلانا میرے لیے ہمیشہ کوفت کا باعث بنتا ہے. آنکھوں پر چشمہ چڑھائے، سنجیدہ چہرہ بنائے، ایک جانب توجہ مرکوز کیے، اپنے قلم کو یوں چلاتی ہیں جیسے یہ تھم جائے تو کائنات تھم جائے گی. اسی بیچ اگر  فون کی گھنٹی بج اٹھے تو قدرے تاخیر سے ڈولتی کرسی کھسکا کر فون  کے قریب ہوجائیں گی اور ایسے سریلے انداز میں ہیلو کہیں گی  کہ سننے والا اس ہیلو کے لالچ میں کئ کال بیکار کر سکتا ہے. ان کو دیکھ کسی مشین کی یاد آ جاتی ہے. ایسا نازک اندام روبوٹ شاید ہی ایجاد ہوا ہو. اکثر میں انہیں آگے پیچھے دائیں بائیں سے دیکھتی  ہوں کہ کچھ تو پتہ چلے کہ یہ کس قسم کا روبوٹ ہے. انیلاگ، ڈیجیٹل برقی  یا ریموٹ کنٹرول والا روبوٹ.   ایسا منظم مزاج ہے  کہ ہر کام وقت پر مکمل طور پر ہونا لازمی قرار پاتا ہے. اپنے عملے پر بھی وقتا فوقتا دباؤ ہوتا ہے کہ انتظام بہتر ہو سکے. اس امر سے سارا بھٹکل واقف ہے کہ ان کے عملے میں اچھے برے، محنتی، کام چور، مہذب، بد تمیز، سادہ، سازشی، لوقت کے پابند لیٹ لطیف  ہر طرح کے لوگ شامل رہے. جن کو ساتھ لے کر انھوں نے خوش اسلوبی سے کام کیاہے..امتحانات کا موسم آئے تو سوالیہ پرچے، پرنٹنگ ، ترتیب نشست حواس پر طاری رہتے ہیں. پشت پر ہاتھ باندھے، جماعتوں کے پھیرے لگا کرتے ہیں. آخری پرچے تک افتاد طبع ایک پاؤں پر کھڑا رکھتی ہے. بچپن سے آج تک میں نے امی سے وہ پہیلی سنتی رہی." ارے ارے آ، بازار کوجا، ایک پاؤں کی مرغی  لا" . آج تک  بوجھ نہ پائی کہ ایسی عجوبہ ءروزگار کس میوزیم میں ملے گی. مگر جب سے کالج جوائن کیا ہے ہر امتحان کے اول تا آخر یہ عجوبہ ہمیں نظر آ ہی جاتا ہے. بعض اوقات اپنے عملے سے کچھ نیا اور انوکھا کام کرنے کی فرمائش کرتی ہیں اور مقابلے کی فضا ابھارتی ہیں. نتیجے میں  ہماری کارکردگی قابل دید ہوتی ہے. جہاں کام کےانجام دینے کی ہدایات میں سخاوت ہوتی ہے، وہیں کار نمایاں کی تعریف میں میں بخل سے کام لیتی ہیں. خوف لاحق ہو گا کہ کہ ان غباروں میں میں حجم سے زیادہ ہوا بھرنا ان کی فنا کا باعث نہ بن جائے. سالانہ فنکشن سے دو روز قبل سارے ضروری کاموں کو نمٹاتے ہوئے، پرنسپلز چیمبر میں حمد نعت، ڈرامے،  گیت، قوالی اور، گجراتی رقص تک کا جایزہ لیا جاتا ہے. سیلری بل نگاہوں کے نیچے سے سرکتی ہے اور اوپر سے ڈائیلاگ پھسلتے ہیں. کبھی یونیورسٹی سے موصول شدہ سرکلر پڑھتے پڑھتے گیت پر کان دھرے جاتے ہیں. مزہ تو تب آتا ہے جب نوجوان لڑکیاں دوران رقص کچھ زیادہ ہی کمر اور قوت کا استعمال کر جائیں. پھر کیا ہے چہرہ متغیر ہو جاتا ہے. ہونٹ بھنچ جاتے ہیں . باری باری ہم سب کے چہروں کوٹٹولا  جاتا ہے اور پھر حتمی طور پر  فرمان جاری کیا جاتا ہے You are not suppose to do so. اسلام کے فراموش کردہ اسباق یاد دلائے جاتے ہیں. احادیث کے حوالے دیے جاتےہیں. بچیوں کے چہروں کی خوشیوں کی چاندنی سمٹ کر اماوس میں تبدیل ہو جاتی ہے . حیران نہ ہو کہ یہ رقص کے Steps سے بھی واقف ہیں گو کہ بقول ان کے انہوں نے کبھی اسکول میں رقص نہیں کیا، صرف دیکھنے کی حد تک دلچسپی رکھی. تو اب کہاں ناچ سکتی  ہیں حالات نے پیروں میں نازک جھانجر اور پائل کی جگہ ذمہ داریوں کی زنجیریں پہنا دی ہے. حضرت فیض ہوتے تو مشورہ دیتے

دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار

  رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ

میری ناقص رائے میں انہیں ناچنے کی حاجت بھی کیا ہے جبکہ وہ ہم سب کو باآسانی اپنی انگلیوں پر نچا سکتی ہیں. آخر کو ایکٹنگ فن سے ڈائریکٹنگ کی اہمیت زیادہ ہے. اپنی خوراک کے معاملے میں  حد درجہ  پرہیز کی عادی ہیں  دعوت ہو تو سادے چاولوں کو ترجیح دیتی ہیں. ان کے ساتھ خوش خوراکو ں کوکبھی نہیں کھانا چاہیے کیونکہ یہ نہایت کم مقدار میں کھانے کی عادی ہیں. شاید اسی لیے سرخ وسفید جلد کافی خوبصورت ہے. جسم پر فاضل گوشت ڈھونڈےنہیں ملتا.دایئں گال پر، ناک کے برابر ایک مسُّہ ان کی دلکشی میں اضافہ کرتاہے. وضع قطع  ٹپ ٹاپ  ہے. چھوٹے موٹے فنکشن میں ایک عدد ننھا سا جیولری سیٹ انہیں اتنا  جاذب نظر بنا دیتا ہے کہ لوگ خواہ مخواہ اپنا رنگ نہ دبے اس لیے دور جا بیٹھے ہیں.  البتہ مجھے ایسا خوف کبھی محسوس نہ ہوا. سورج سے روشنی مستعار لینے میں سیاروں کو کیسے جھجھک؟،  میرے بڑھتے وزن پر  انہیں برابر تشویش رہتی  ہے. ڈائیٹنگ اور ایکسرسائز کی ہدایات جاری ہوتی ہیں مگر ان کا  پیکر نازک دیکھ کر میں بس سوچتی  رہ جاتی ہوں اسی طرح کا ہمیں بھی کمال کرنا ہے   قابلیت کے لحاظ سے بی ایس سی، ایم اے، بی ایڈ ہیں. اور ان کی ڈگریوں سے ان کی علمیت ضرور مترشح ہے مگر ان کی چالاکی کچھ مشکوک  ہے. مزاج ایسا ہے کہ غلط لوگوں پر یقین کر لیتی ہیں. جن سے توقعات وابستہ کرتی ہیں اکثر  دغا کرجاتے ہیں ۔البتہ جو گرویدہ ہیں ان سے انجان رہتی ہیں.  نسرین داموی جو بہت صاف و شفاف دل کی مالک ہے، میڈم سے بے حد انسیت رکھتی ہے . ایک دفعہ رمضان کے آخری عشرے میں مچل گئ... "چلو فرزانہ میم کے پاس عیدی مانگتے ہیں" میں نے کنپٹی پر انگلی رکھ کر پوچھا"اوے کروڑپتی، تمہارا دماغ ٹھکانے پر ہے نا؟" مگر وہ مصر رہی. بادل، نخواستہ اس کے ساتھ چیمبر پہنچی..مصروف پرنسپل نے سر اٹھاکر سوالیہ نظروں سے دونوں کو دیکھا... ہتھیلی بڑھا کر نسرین نے پورے حق سے ایک لفظ کہا..." عیدی" . میڈم نے چپ چاپ بیگ کھول کے نوٹ بڑھا دیا. میں نے بہت رشک سے نسرین، اور عقیدت سے پرنسپل کو دیکھا. پرُ اعتماد نسرین نے سو روپے کا نوٹ لے کر سرشاری سےکہا.. "تم بھی مانگ لیتی" مگرنسرین جیسی ہمت  کے لیے ایک نہایت پاکیزہ دل  درکار ہے. سب اس سانچے میں کہاں ڈھل سکتے ہیں. تقریر کرنے میں ہماری میڈم کا کوئی ثانی نہیں. ماہ رمضان ہو، 15 اگست، 26 جنوری ہو یا  ادبی مقابلہ جات، ہر موضوع پر بلا  تیاری، گھنٹوں بول سکتی ہیں.  تمہید، مواد، اختتام سب مؤثر ہوتا ہے کیونکہ اس میں انگریزی قرآن حدیث اشعار اقوال سب کی شمولیت ہوتی ہے. سننے والے تھک جاتے ہیں یہ بولتے نہیں تھکتیں. "یہ جو ہے" ان کا تکیہ کلام مانا جاتا ہے. چند سال قبل، انجمن اسکول وکالج سے ان کی شخصیت کو منہا کرنے کا تصور بھی اہل بھٹکل کے لیے روح فرسا رہا. لوگ پوچھا کرتے... "رشیدہ ماسٹر نی سبکدوش ہو جائیں تو  کالج کا کیا ہوگا؟".  نہ قوم اس کے لئے ذہنی طور پر تیار تھی نہ ہم. پھر ان کی ذات والا سے انجمن نے کچھ اور مستفیض ہونے کا ارادہ کیا.تاہم میڈم کا دائرہ کار ڈگری کالج تک محدود ہوگیا. ہائی اسکول کی سلطنت جس کی میڈم بلا شرکت غیرے مالک تھیں، زبیدہ صاحبہ کے قبضے میں چلا گئ.  اس کو بھی رشید ہ میم نے اپنے لئے چیلنج سمجھا. ہر دن ان کے اندر مقابلے کا رجحان پروان چڑھتا رہا. ڈگری کالج کو عروج پر لے جانے کی دھن رہنے لگی. کبھی کبھار ایک یاس بھرا ردعمل شکایتی اور شماتتی لہجے میں ظاہر ہوتا اور میرا دل پکار اٹھتا تم. آئینہ ہو میری جاں، یہ زنگ مت پہنو کچھ عرصے بعد ان کی طبیعت میں اضمحلال شامل ہو گیا. دوائیاں جاری ہوئیں جس کے منفی اثرات دورانِ گفتگو زبان کی خشکی اور ہاتھوں میں ہلکے سے ارتعاش کی صورت میں نمودار ہوئے. چلتے وقت جسم کو پچھلی جانب سے ہلکا سا جھٹکا لگا کر تا۔ علالت کو بھی اتنی جرات جٹانے میں وقت لگا کہ ان کا سامنا کر  سکے.   ان کی قیام گاہ کا آپ کو پتہ ہے؟ آزاد نگر کی سرخ دھول اڑاتی راہوں  سے، دو طرفہ خشک نالوں سے بچ بچ کر چلیے گا. پکے مکانوں کی قطار میں ایستادہ ایک پختہ صاف ستھرا مکان" سدابہار" نظر آئے گا. لمبے، چوڑے، آہنی گیٹ کو پوری قوت سے اندر کی سمت دھکیلتے ہوئے قدم آگے بڑھائیں. اندر اور باہر کے مناظرمیں تفاوت دیدہ و دل کے لیے طراوٹ کا باعث بنے گا جو مالک ِ مکان کی سلیقہ مندی کا منہ بولتا ثبوت ہے. داہنی طرف ایک جھولا پڑا ہے. کچی،  نم کیاریوں میں تازہ تازہ ہرے بھرے اشجار رنگ برنگے پھول نظر آئیں گے. کچھ جگہ بڑے خوش نما گملوں نے بھی گھیر رکھی ہے گھر ایسی خوش سلیقگی سے کی علامت ہے کہ الجھن ہوتی ہے کہ پاوں کہاں دھریں تشریف  کہاں رکھیں. اس صاف ستھرا ماحول  میں خود کو فٹ کرنے کی سوچ سے تشویش بڑھنے لگتی ہے. اپنی ذات مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگتی ہے. ان کا سگھڑپن میز پوش اور پلنگ پوش کی کشیدہ کاری سے خوب جھلکتا ہے. مجال ہے جو کہیں سلوٹ مل جائے.   انکی خدمات کا اعتراف سرکار، بنگلور جماعت اور دبئی جماعت نے بھی کیا اور اعزازات سے نوازا ہے. ایسے موقع پر عملے کو"پارٹی" بھی دی جاتی ہے. ان کے گھر میں بڑے بڑے سپاس نامے سجے ہیں. سوچتی ہوں کسی دن  کچھ چرا لوں. پھر سوچتی ہوں  یہ تو نقل ہے. اصل (عقل) لے پاوں تو بات بنے.   انسان ان دوستوں کو فراموش کرسکتا ہے جو خوشیوں میں اس کے ساتھ رہے مگر انہیں نہیں بھول سکتا جنہوں نے کسی سانحہ پر اکٹھے آنسو بہا ے ہوں. میری شگفتہ مزاجی نے مجھے کبھی تنہا نہیں رکھا. مگر وقت نے وہ دن بھی دکھائے جب میں جسمانی طور پر زندہ اور جذباتی اور نفسیاتی طور پر مردہ ہو گئی تھی. ایسے میں موصوفہ کا احسان میری روح پر  ہمیشہ رہے گا کہ وقتا، فوقتاً ہمت بڑھائی . زندگی کی طرف لوٹنے میں میری مدد کی. ایک دفعہ  میری کچھ دن کی غیر حاضری پر  سارے عملے کے سامنے کہا، "فرزانہ ساری آوازیں اور شور اپنے ساتھ لے گئی ہے" . بعد میں خود انہوں نے مجھے بتایا کہ میری  حاضری کو" وجود فرزانہ سے ہے تصویر کائنات میں رنگ  " سے تعبیر کیا تھا.  شاید محبت کے خزانے کو مجھے دنیا کی نظروں سے پرے اپنے دل کی زمین میں گہرا ی میں دبا دینا تھا مگر حیثیت سے بڑھ کر یہ نوازش    کس طرح چھپائ جا سکتی تھی. بزبان غالب کہنا چاہتی تھی مگر کہہ نہ پائ کہتے ہوئے ساقی سے حیا آتی ہے ورنہ یوں ہے کہ مجھے دردِ تہِ جام بہت ہے مجھے بلا شرکت غیرے یہ سعادت حاصل ہے کہ پی یو سی سال دوم میں پہلی پوزیشن لینے پر انھوں نے اپنی سیٹ سے اُُٹھ کر مبارکباد دیتے ہوئے اپنی کرسی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا... "میرے بعد اس کرسی پر تم آوگی". وقتاً فوقتاً میں جب بھی ملنے جاتی اسی بات کی یاد دہانی کی جاتی. اور انہی کی دعاؤں کی بدولت میں اس کرسی تک پہنچ پائ ہوں.  ٹیچرس ڈے پر علی ا لصبح  ان کے گھر پہنچنا میرا معمول رہا ہے. دروازہ کھولتے ہی حیران ہو جاتی ہیں،  منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی ہیں..." "اچھا... ٹیچرز ڈے ہے آج؟ تاریخ اب یاد نہیں رہتی. تم. آتی ہو تو احساس دلا جاتی ہو". میں جھکتی ہوں، ان کے داہنے ہاتھ کی پشت کو آنکھوں سے لگاکر چومتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ میری زندگی میں ایسے لاتعداد یوم اساتذہ آئیں  اور یہ تاریخ ساز شخصیت یوں  بام عروج کو چھوے کہ ایک روز رفعتوں کو  ان کی بلندی  پہ ناز ہو.   (اللہ تعالیٰ مرحومہ کی بال بال مغفرت فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل نصیب فرمائے۔ آمین)