میڈیا کے مختلف رنگ... ایک رول ماڈل جو بن گیا عبرت کی مثال! (پانچویں اور آخری قسط)۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
میڈیا کے موضوع کو طول دینا شائد کچھ قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث نہ رہے۔ لیکن میں اس موضوع پر ذراتفصیل سے بات کرنے کی کوشش اس توقع سے کی گئی کہ میڈیامیں دلچسپی رکھنے والے دو چار نوجوانوں کی بھی اس سے تھوڑی بہت رہنمائی ہوجائے اور کچھ بنیادی باتیں ان پر واضح ہوجائیں تو میری محنت کا پھل مجھے مل جائے گا۔ سابقہ قسط میں سوشیل میڈیا پر ہمارے نوجوانوں اور عام گروپس کی سرگرمیوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا کچھ لوگوں کو ناگوار گزرا۔ حالانکہ اس حقیقت نگاری کو پسند کرنے والے اور کارآمد سلسلہ قرار دینے والے اپنی جگہ تھے، لیکن سوشیل میڈیا پرسرگرم رہنے والے بعض صحافیوں کی اندرو نی تلملاہٹ کا بھی مشاہدہ ہوگیا۔ بقول حفیظ میرٹھی:
رات کو رات کہہ دیا میں نے سنتے ہی بوکھلا گئی دنیا
ہم کیا غلط کررہے ہیں؟!: ہمارے ایک بڑے ہی قدرداں نوجوان صحافی نے براہ راست صاف گوئی کے ساتھ اپنے دل کی بات شیئر کی کہ ہم اپنے گروپ پر کونسی غلط خبریں عام کررہے ہیں۔ ہم تو عوام کو باخبر کرنے اور بعض معاملات میں ان کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس نوجوان نے بتایا کہ اسے کئی لوگوں کے فون آرہے ہیں کہ ’’ان کے مضامین کو تم اتنے سارے گروپس میں شیئر کرتے ہو، اور دیکھو کہ وہاٹس ایپ گروپس کے خلاف اب انہوں نے کیا لکھا ہے !‘‘ ظاہر ہے کہ اس مضمون سے کسی کی دُکھتی رگ دب ہوگئی ہوگی اس لئے وہ دوسروں کو اشتعال دلارہے ہونگے۔ بہرحال میں نے بہت ہی شائستگی اور فہمائش کے انداز میں مذکورہ نوجوان کو جواب دیا اور سمجھایا کہ میرے مضمون کا مقصد ہمارے نوجوانوں کو اس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ ہم غیر مسلم گروپس پر ہمارے خلاف کیے جانے والے پروپگنڈے کا جواب دینے کے لئے ذہنی، فکری اور قلمی طور پرتیار ہوجائیں۔ کسی کی ہتک کرنا میرا مقصود نہیں ہے۔ مجھے لگا کہ میرے جواب پر وہ نوجوان مطمئن ہوگیا ہے۔ لیکن ایک دوسرے گروپ کے’ ایڈمن محترم‘نے اپنے دل کی جلن کچھ دوسرے انداز سے نکالی۔ خیر ، اس کی تفصیلات میں جاکر وقت کیوں ضائع کیا جائے! ایک ساتھی نے دل خوش کردیا: میں نے سابقہ قسط میں غیر مسلم گروپس پر ہمارے نوجوانوں کی نظر نہ ہونے کا جو ذکر کیاتھا، اس تعلق سے ایک حوصلہ افزا مثال ہمارے ایک قدردان جناب ارشد کاڑلی کی سامنے آئی ۔ موصوف وقفے وقفے سے کچھ کام کی چیزیں پرسنل شیئر کرتے رہتے ہیں۔ مضمون کی پچھلی قسط کی اشاعت کے بعدانہوں نے فیس بک پر بھٹکل کے کچھ زعفرانی صحافیوں کی طرف سے ایک مسلم کنڑا صحافی کے ساتھ کی گئی چھیڑخانی کے نمونے مجھے ارسال کیے۔ اس سے ایک طرف خوشی ہوئی کہ ارشد کاڑلی صاحب ماشاء اللہ اس زاویے سے بیدار ہیں اوراس طرف بھی نگرانی کررہے ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ اور ساتھی بھی ہوں ، جن کے تعلق سے شائد مجھے علم نہ ہو۔یہ یقیناًایک خوش آئند پہلو ہے۔ لیکن بات تشویش کی بھی ہے: لیکن انہوں نے زعفرانی صحافیوں کی بات چیت اور چھیڑخانی کا جومسیج مجھے فارورڈ کیا ہے، وہ یقیناًمیرے لئے تشویش کا باعث تھا اور اب بھی ہے۔ کیونکہ وہ اتنا حساس ہے کہ اس موضوع پر نہ ہم اپنے گروپس پر بحث و گفتگو کرسکتے ہیں ، اور چاہنے کے باوجود بھی غیر مسلموں کے گروپس پرنہ اس کا کوئی منھ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔اس میں میرے لئے حیرانی سے زیادہ تشویش کا پہلویہ تھا کہ ہمارے دشمن اور مخالفین ہمارے معاشرے اور ہمارے قائدین کے تعلق سے کس حد تک اندرونی جانکاریاں رکھتے ہیں۔ اور ہم کس قدربے فکری اور آسودگی کی دنیا میں جی رہے ہیں۔میں اس پس منظر میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ: چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے عنادل باغ کے بیٹھیں نہ غافل آشیانوں میں
میڈیا کے مختلف رنگ: اس کے بعد واپس ہم اپنے سلسلہ وار چل رہے موضوع کی طرف پلٹتے ہیں اور میڈیا کے کچھ مختلف رنگ دیکھتے ہیں۔ صحافت کے دو بنیادی رنگ اور انداز ہوتے ہیں۔ایک مین اسٹریم ماس میڈیاہوتا ہے جو کہ اکثر وبیشترکسی نہ کسی سطح پر حکومت کی ترجمانی اور کارپوریٹ سیکٹر کے مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرتا ہے۔اس کا دوسرا رنگ وہ ہے جس میں سچائی، مساوات اور حقائق پر مبنی نیوز اور کہانیاں پیش کی جاتی ہیں۔ اصولوں کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جاتا اور سماج کو حالات کا بالکل غیر جانبدارانہ عکس دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عام طور پر اس سے وابستہ افراد ترقی پسندانہ progressive سوچ کے حامل اور حقوق انسانی کے تحفظ کے لئے سرگرم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس میں شہریوں کوبطورAmateur شوقیہ صحافی کردار نبھانے کا موقع دیا جاتا ہے۔یہ وہ میڈیا ہے جوحکومت کے جبر و استبداد کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔اسے’متبادل‘ alternative میڈیاکا نام دیا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں اس کی بڑی مثال ڈیجیٹل میڈیا میں ’ دی وائر ، کوئنٹ‘ وغیرہ دکھا رہے ہیں۔ جبکہ پرنٹ میڈیامیں اس تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے بڑی اچھی مثال تیستا ستیلواد اور ان کے شوہر جاوید آنند نے 1993میں"communalism combat"نامی رسالے کی شروعات کے ساتھ قائم کی تھی اور اسے گجرات فسادات کے بعدکافی شہرت ملی تھی۔ زرد صحافت کادور: میڈیا کاایک بدنامِ زمانہ رنگ وہ ہے جس میں سنسنی خیز ی، من گھڑت کہانیاں،خواہ مخواہ کی افواہیں،حقیقی یا غیر حقیقی اسکینڈلس ، مبالغہ آمیزی ،عوام کو فوری طور پر راغب کرنے والی گمراہ کن سرخیاں اور بلاوجہ تجسس پیدا کرنے والی باتوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اسے’ زرد صحافت‘ yellow journalismکا نام دیا جاتا ہے۔اس زرد صحافت کا دور1890 ء میں شروع ہوا جبJoseph Pulitzerکے اخبارNew York World اور William Randolph Hearstکے اخبارNew York Journal کے درمیان اخبار کی فروخت( سرکیولیشن )کو لے کرمقابلہ آرائی عروج پر تھی ۔ دونوں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لئے سنسنی خیزی کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے تھے۔اس میں مبالغہ آمیز کہانیوں کو زرد yellowرنگ میں شائع کرنا بھی شامل تھا۔ بلیک میلنگ کا دھندا: موجودہ دور میں زرد صحافت کی اصطلاح انتہائی غیر پیشہ ورانہ،غیر اخلاقی اور بدعنوان صحافت کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ ایسے اخبارات زیادہ تر ہفت روزہ اور tabloidقسم کے ہوتے ہیں جو مشہور یا دولتمند افراد اور اداروں کے اندرونی راز فاش کرنے کی دھمکیاں دے کر رقم اینٹھنے کا کام کرتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں ایسے اخبارات پوری طرح بلیک میلنگ کے کاروبار میں ملوث ہوتے ہیں۔زیادہ تر اس طرز کی صحافت علاقائی سطح پراور چھوٹے موٹے شہروں میں پروان چڑھتی اور پھلتی پھولتی ہے۔ لفافہ بند صحافت: صحافت کی ایک اور قسم لفافہ بند صحافت envelope journalismبھی ہے جس میں لالچی،بکاؤ، بدقماش اور بدعنوان قسم کے صحافیوں کو رقم سے بھرے ہوئے لفافے دئے جاتے ہیں۔ اس کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک سرخ لفافے اور دوسری سفید لفافے والی صحافت۔ عوامی یا سیاسی شخصیات بڑی کمپنیوں اوراداروں کی جانب سے اپنے حق میں نیوز بنانے یا کہانی شامل کرنے کے لئے لفافہ بند صحافت کے اس رنگ سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔ البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس وقت ہندوستان میں سرکاری طور پر میڈیا پرسن یا میڈیا ہاؤس کو جو لفافے دئے جاتے ہوں اس میں موٹی رقم ہی ہو، اس کی جگہ پر سی بی آئی او ر انفورسمنٹ ڈپارٹمنٹ کے چھاپوں کی دھمکیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ اس میں کارپوریٹ سیکٹرکی طاقتور شخصیات، سیاست دانوں اور نامور صحافیوں کا نیٹ ورک یا nexusبنتا ہے۔ آج کل ہندوستان میں سرکاری سطح پر اس قسم کی صحافت کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔اوریہاں اس کے لئے گودی میڈیا یا درباری میڈیا جیسی اصطلاحات وضع کی گئی ہیں ۔ تحقیقاتی صحافت: امریکی صحافتی دنیا میں 1890 - 1920 کے دوران ایک اصطلاح muckrakerجرنلسٹ کی وضع کی گئی تھی۔ یہ ان صحافیوں کے لئے تھی جو ترقی پسندی کے دور میں معاشرے میں اصلاح reformsکے علمبردار ہوا کرتے تھے۔ یہی رجحان آگے چل کر بیسویں صدی عیسوی کی آخری دہائیوں میں تحقیقاتی صحافت Investigative Journalism بن گیااور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان میں اس کی لہر صحافتی دنیا میں انقلابی رنگ اختیار کرگئی ۔ تحقیقاتی صحافت کے دھماکے: ہندوستان میں صحافت کے اس رنگ کو چندبڑے نامور اور مقبول عام اخباروں نے بھی استعمال کیا اور ملکی سیاست میں دھماکہ خیز انکشافات کرتے ہوئے تاریخی مثالیں قائم کیں۔تحقیقاتی صحافت کی طاقت اور مثبت اثرات دکھانے والے بہت ہی مشہور دھماکوں میں ’دی ہندو‘ کی جانب سے کیا گیا’ بوفورس‘بدعنوانی Bofors Expose،’تہلکہ ڈاٹ کام‘ کا ’دفاعی سودا معاملہ‘Defence Deals Expose، انڈین ایکسپریس کی طرف سے کیا گیا ’سیمنٹ اسکینڈل‘ اور ’انسانی اسمگلنگHuman Trafficking،’ اوپن میگزین ‘کی طرف سے سامنے آنے والا ’نیرا راڈیا ٹیپس‘ کے علاوہ سال 2000 ء میں ترون تیج پال کے ذریعے قائم کیے گئے تہلکہ ڈاٹ کام کے مختلف ’خفیہ ‘ stingآپریشنس شامل ہیں۔تہلکہ ڈاٹ کام نے حقیقی معنوں میں تہلکہ اس وقت مچادیا تھا جب اسٹنگ آپریشن کے ذریعے گجرات فسادات کے پس پردہ حقائق کو دنیا کے سامنے لایا گیا تھا۔ رعنا ایوب کی’ گجرات فائلس‘: تحقیقاتی صحافت کا ایک بہت ہی کامیاب کارنامہ جو آج کل سرخیوں میں ہے وہ رعنا ایوب کی کتاب ’گجرات فائلس‘ ہے۔ تہلکہ ڈاٹ کام کے بانی ترون تیج پال کو2013میں ایک ساتھی خاتون صحافی کی جانب سے جنسی دست درازی کے الزام لگائے جانے کے بعد تہلکہ سے الگ ہونا پڑاتھا۔ رعنا ایوب نے بھی تہلکہ سے ایک عرصہ تک وابستگی کے بعد علاحدگی اختیار کی تھی اور اب ایک فری لانسر کے طور پرکام کرہی ہیں۔ رعنا نے گجرات فسادات کے پس منظر میں تہلکہ کے لئے جو اسٹنگ کیا تھا اور تہلکہ نے کسی وجہ سے منظر عام پرنہیں لایا تھا، اسے اب رعنا نے’گجرات فائلس‘ کے نام سے کتابی شکل دی ہے اور چونکادینے والے حقائق کے سامنے لانے والی اس کتاب147Gujarat Files: Anatomy of a Cover Up.148 کا چرچا ہرطرف دکھائی دے رہا ہے ۔ مختلف زبانوں میں اس کے تراجم بھی ہورہے ہیں۔رعنا ایوب کی پزیرائی کرتے ہوئے صحافتی میدان میں اعلیٰ کارکردگی کی ستائش کرنے والے بین الاقوامی ادار ے Global Shining Light Award نے 2017میں رعنا کو 'Citation of Excellence'کی سند تفویض کی ہے۔ ایم جے اکبر عبرت کی ایک مثال: میں نے سابقہ قسط میں ملّی مسائل کو میڈیا میں سلیقے کے ساتھ پیش کرنے کی ایک مثال کے سید شہاب الدین مرحوم کی پیش کی تھی۔ اوراس قسط میں رعنا ایوب کو بطور مثال پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک اور مشہور زمانہ صحافی ایم جے اکبر کی عبرت ناک شخصیت کا موازنہ کیا جا سکے اور نوجوان صحافیوں کو اس بات سے آگاہ کیا جاسکے کہ صحافت کے میدان میں صرف مسلم نام کے ساتھ اترنا کافی نہیں ہے بلکہ ہمارے اندر ملی حمیت اور ملّی مسائل سے شعوری وابستگی پائی جانی بھی لازمی ہے۔ سید شہاب الدین مرحوم کے برخلاف میڈیا سے سیاست میں جانے والے ایم جے اکبر نے بھی کشن گنج کی اسی نشست سے پارلیمنٹ میں نمائندگی کی تھی اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ صحافت اور سیاست دونوں محاذ پر ایم جے اکبرنے نہ صرف مسلم کاذ کی کبھی پروا نہیں کی بلکہ فسطائی طاقتوں سے اپنے آپ کو جوڑ کر الٹا نقصان پہنچانے میں شامل رہے اور آج وہ مبینہ طور پر جنسی جرائم کے الزام میں پھنس کر رسوائی اور عبرت کی ایک مثال بن کر رہ گئے ہیں۔صرف اتنے کے لئے آنکھیں ہمیں بخشی گئیں دیکھئے دنیا کے منظر اور بہ عبرت دیکھئے
ایم جے اکبر ایک رول ماڈل؟!: ایم جے اکبر کی شخصیت عبرت ناک اس لئے ہے کہ یہ شخص کبھی صحافت کے میدان کا رول ماڈل سمجھاجاتا تھا۔ غالباً1985میں جب ممبئی میں ہمارے دوست ڈاکٹر عارف کلیانوی کی ترغیب اور اصرار پر میں جرنلزم کا قلیل المدتی کورس کررہاتھا تومجھے یاد پڑتا ہے کہ ہمارے لیکچرار ٹائمزآف انڈیا گروپ سے شائع ہونے والے اکنامک ٹائمس کے سینئر سب ایڈیٹر مسٹر پلّائی نے ہمیں ایک لیکچر کے دوران کچھ مشہور صحافیوں کی مثال پیش کرتے ہوئے ایم جے اکبر کو نئے صحافیوں کے لئے ایک رول ماڈل قراردیا تھا کیونکہ وہ اس زمانے میں اپنے عروج کی طرف بڑی تیز رفتاری سے بڑھ رہے تھے اور ہندوستانی تحقیقاتی صحافتinvestigative journalism کو ایک نیا رنگ دینے والے صف اول کے صحافیوں میں ان کا شمار ہورہا تھا۔ مبشر جاوید اکبر نے ٹائمز آف انڈیا میں traineeصحافی کے طور پراپنا کیریئر شروع کیا تھا۔اس زمانے میں ہم لوگ تو کلدیپ نیّر، خشونت سنگھ ، آر کے کرنجیا، ایم وی کامتھ وغیرہ کوفالو کیا کرتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایم جے اکبر نے السٹریٹیڈ ویکلی، آن لُوکراور آنند بازار پتریکا کے’ سنڈے‘سے وابستہ ہوکر اپنی شناخت بنالی تھی۔ خاص کر ملک میں اندراگاندھی کے زمانے میں لاگو کی گئی ایمرجنسی کے خلاف ایم جے اکبر کی قیادت میں ’سنڈے‘ نے جو صحافتی محاذ قائم کیا تھااس کی وجہ سے اخبار اور ایڈیٹر دونوں کو ملک گیر شہرت ملی۔پھر ایم جے اکبر نے اپنا خود کا روزنامہ ’دی ڈیلی ٹیلی گراف ‘ شروع کیااور یہی وہ دور تھا جب میڈیا میں ابھرتے ہوئے نوجوان صحافیوں کے لئے ایم جے اکبر کو رول ماڈل قرار دیا جانے لگا تھا۔ بین الاقوامی سطح تک رسائی: ایم جے اکبر نے 1994’دی ایشیئن ایج‘ نامی بین الاقوامی اخبار لانچ کیا جس کے دنیا بھر سے بیک وقت8 ایڈیشنس نکلتے تھے۔اس کے بعد2004میں اکبر نے’ نیویارک ٹائمز‘ سے اشتراک کے ساتھ ’دی انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبیون‘ نامی اخباربھی شروع کیا۔نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پرایم جے اکبرگویاصحافیانہ مملکت کا اکبر اعظم بن گیاتھا، کیونکہ 2005 ء میں سعودی عربیہ کے شاہ عبداللہ نے ایم جے اکبر کو مسلم ممالک کی بین الاقوامی تنظیم Organisation of Islamic Cooperationکے لئے ایک دس سالہ منصوبہ تیار کرنے کے مقصد سے قائم کی گئی ڈرافٹ کمیٹی کا نمائندہ منتخب کرلیا تھا ۔یہاں تک کہ اکبر کو سال 2006میں مسلم ممالک کے لئے امریکی پالیسی ساز ادارے Brookings Institutionواشنگٹن کے Brookings Projectمیں فیلو کے طور منتخب کیا گیا ۔ اس کے علاوہ بعد کے زمانے میں اکبر نے وقفے وقفے سے کئی دوسرے اخبارات بھی شروع کیے۔ بہت ساری کتابیں بھی تصنیف کیں۔ان سفینوں کی تباہی میں ہے عبرت کا سبق جو کناروں تک پہنچ کر نذرِ طوفاں ہوگئے
مگر وہی اکبر او رجودا بائی والا معاملہ: مگر مبشر جاوید اکبر کا معاملہ ہندوستان کے بادشاہ جلال الدین محمد اکبر اعظم جیسا ہی ثابت ہوا۔ یعنی ذاتی زندگی کا حال صرف مسلم نام کی حد تک رہا اور دینی وملّی زاویے سے یہ ہستی عملاً غیر مفید اور ناکام ترین شخصیت رہی۔ کیونکہ اکبراعظم نے جس طرح جودا بائی سے شادی کی تھی ،(اور دین الٰہی تک قائم کردیاتھا!)صحافت کے تاجدار ایم جے اکبر نے بھی ملّیکا جوزیف نامی عیسائی خاتون سے شادی رچائی۔ ان کے ایک بیٹے کا نام ’پریاگ‘ Prayaagہے ، جوکہ اکبر کے دادا کانام تھا جو کہ ایک بہاری ہندو تھے اور فرقہ وارانہ فسادات میں یتیم ہوگئے تھے ایک مسلم خاندان میں پرورش کے بعد انہوں نے میں اسلام قبول کیا اور ’رحمت اللہ‘ نام اپنا لیاتھا۔ مگر اکبر کی بدبختی دیکھئے کہ اس نے اپنے بیٹے کا نام ہندوانہ رکھنا پسند کیا۔اکبر کی ایک بیٹی موکولیکا Mukulika ہے جو لاء گریجویٹ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی کوئی اسلامی نام نہیں ہے۔اور اب جو قعرِ ذلّت و خواری اس شخصیت کا مقدر ہوگئی ہے، وہ سامانِ عبرت نہیں تو اور کیا ہے! حاصل کلام یہ ہے : میڈیا میں مسلم نام کے ساتھ موجود کچھ اور نام اور ان کی تفصیلات بھی ایسی عبرتناک مثالوں کے طور پر پیش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن بات کو یہیں ختم کرتے ہوئے حاصل کلام کے طور پرمجھے یہ کہنا ہے کہ آدمی چاہے جس فیلڈ میں بھی مہارت اور شہرت حاصل کرے، اگر اس کی جڑیں اپنے دین اور ملّت کے ساتھ پیوست نہیں ہیں اوراس کے خون میں ملّی حمیت کے شرارے موجود نہیں ہیں تو وہ چاہے شہرت و نیک نامی کے جتنے مدارج طے کر لے اور چاہے جتنی بلندیاں چھولے، اس سے قوم و ملّت کو کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ آدمی جب دین و مذہب کی اصل سے ہی بیگانہ ہوگاتو پھر اس کا ہونا اور نہ ہونا ملّت کے حق میں ایک جیسا ہے۔ بلکہ کبھی کبھی اس کا ہونا ملّت کے لئے زیادہ خطرناک او رنقصان د ہ ثابت ہوتا ہے۔لہٰذا کہنا پڑتا ہے کہ : بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
haneefshabab@gmail.com (ضروری وضاحت: اس مضمون میں درج مواد مضمون نگار کی رائے پر مشتمل ہے۔ اس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)