اکتوبر 30: آج اردو کی نامور شاعرہ محترمہ ثمینہ راجا کی برسی ہے

از: ابوالحسن علی بھٹکلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمینہ راجا 11 ستمبر 1961ء کو رحیم یار خان میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو زبان و ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی میں انہوں نے کئی اہم شعبوں میں خدمات انجام دیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن میں انہوں نے علم و ادب کے فروغ کے لیے بھر پور کردار ادا کیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے زیرِ اہتمام کامیاب اردو مشاعروں کا انعقاد ان کی فعال، ہر دل عزیز اور مؤثر شخصیت کا مرہون منت تھا۔ انہوں نے عالمی شہرت کے حامل ادیبوں اور شاعروں کے مل بیٹھنے اور علمی و ادبی موضوعات کے لیے مواقع فراہم کیے۔ ثمینہ راجا نے 1998ء میں نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد میں کنسلٹنٹ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اس عرصے میں ادبی مجلے "کتاب" کی ادارت ان کے ذمے تھی۔ ان کی رہنمائی میں یہ مجلہ جس آب و تاب سے شائع ہوتا رہا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
ثمینہ راجا نے ترجمے میں بھی اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ انہوں نے تراجم کے ذریعے دو تہذیبوں کو قریب تر لانے کی کامیاب کوشش کی۔ ایک ماہر مترجم کی حیثیت سے انہوں نے جہاں مصنف کی ذات، اسلوب اور مقصد کو پیش نظر رکھا، وہاں ترجمے کو قاری کی سطح تک پہنچا کر اس کے مؤثر ابلاغ کو بھی یقینی بنایا۔ انکے تراجم میں "مشرق شناسی" (ایڈورڈ سعید کی کتاب Orientalism کا اردو ترجمہ) اور "برطانوی ہند کا مستقبل" (انگریز مورخ بیورلے نکولس Beverley Nichols کی شہرۂ آفاق تصنیف Verdict Of India کا اردو ترجمہ) شامل ہیں۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد میں ماہرِ مضمون کی حیثیت سے خدمات پر مامور تھیں۔
ثمینہ راجا زمانۂ طالب علمی ہی سے وہ شعر و شاعری کی طرف مائل تھیں اور انہوں نے کم عمری میں ہی شعر گوئی کا آغاز کر دیا تھا۔ ان کی شاعری میں کلاسیکیت اور جدت کا جو حسین امتزاج ہے وہ انہیں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ انہوں نے ادبی تخلیقات میں اسلوب اور ہیئت کے تمام جمالیاتی پہلوؤں پر توجہ دی اورتخلیقی عمل میں ان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ تخلیقی اسلوب میں ان کی انفرادیت کا جادو ہمیشہ سر چڑھ کر بولتا رہا۔ ثمینہ راجا کے پندرہ شعری مجموعے شائع ہوئے جنہیں زبردست پذیرائی ملی۔ ثمینہ راجا کی اہم تصانیف مع سال اشاعت درج ذیل ہیں:
ہویدا (1995)، شہرِ صبا (1997)، وصال (1998) اس کتاب پر انہیں 1999ء میں وزیر اعظم ایوارڈ سے نوازا گیا۔ خواب نائے (1998)، باغِ شب (1999)، باز دید (2000)، ہفت آسمان (2001)، پری خانہ (2002)، عدن کے راستے پر (2003)، دلِ لیلیٰ (2004)، عشق آباد (2006)، ہجر نامہ (2008)۔ ان کی شاعری کی دو کلیات 'کتابِ خواب' (2004)، 'کتابِ جاں' (2005)، اور شاعری کا ایک انتخاب 'وہ شام ذرا سی گہری تھی' (2005) بھی شائع ہوئیں۔
کینسر کے عارضے کے باعث ثمینہ راجا 30 اکتوبر 2012ء کو اسلام آباد میں انتقال کر گئیں۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئیں۔
۔
نمونہ کلام:
میں تمہارے عکس کی آرزو میں بس آٰ ئینہ ہی بنی رہی
کبھی تم نہ سامنے آ سکے،کبھی مجھ پہ گرد پڑی رہیوہ عجیب شام تھی،آج تک میرے دل میں اس کا ملال ھے
میری طرح جو تیری منتظر،تیرے راستے میں کھڑی رھیکبھی وقف ہجر میں ہو گئ کبھی خواب وصل میں کھو گئ
میں فقیر عشق بنی رہی، میں اسیر یاد ہوئ رہیبڑی خامشی سے سرک کے پھر مرے دل کے گرد لپٹ گئ
وہ رداےء ابر سپید جو ، سر کوہسار تنی رہیہوئ اس سے جب میری بات بھی،تھی شریک درد وہ ذات بھی
تو نہ جانے کون سی چیز کی میری زندگی میں کمی رہی
***
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
مجھے ایسی دوری کی عادت نہیں تھی
کہ جو زندگی کی رگوں سے
جواں خون کی آخری بوند تک کھینچ لے
جسم کا کھیت بنجر کرے
اِس لیے جب سے تو اُس سفر پر گیا
میں نے آئینہ دیکھا نہیں
ساری دنیا سے اور آسماں تک سے پردہ کِیا
میں نے سردی میں دھوپ اور گرمی میں
سائے کی پروا نہ کی
زندگی کو نہ سمجھا کبھی زندگی
عادتاً سانس لی
بھوک تو مر گئی تھی جدائی کی پہلی ہی ساعت میں
لیکن ابھی پیاس باقی ہے
اور ایسی ظالم کہ میرے بدن پر ببول اُگ رہے ہیں
زباں پر بھی کانٹے پڑے ہیں
مجھے ایسی دوری کی عادت نہیں ہے
کہ جو موت اور زندگی میں کوئی فرق رہنے نہ دے
پھر بھی یہ جان لے
گر مجھے چشمہء آب ِ حیواں بھی مل جائے
اک بوند
تیرے بنا مجھ پہ جائز نہیں
***
سزا
جاؤ
نفرت کرنے والوں کے چہروں کو دیکھو
ان کی آنکھیں ۔۔۔ دوزخ کے دروازے ہیں
اور تہہ خانوں میں جلتی اگ سے
ان کے دِلوں کی دیواریں کالی ہیں
ان چہروں کو دیکھو جن کے دانت
دہن سے باہر جھانکتے رہتے ہیں
اور بات کریں
تو منہ سے ان کے کف بہتا ہے
جن کا سامنا سچائی سے ۔۔ نا ممکن ہے
جو پھولوں کو روند کر آگے بڑھ جاتے ہیں
جن کے روشن دان پہ کبھی پرندے
بیٹھ کے گیت نہیں گاتے
جن کے آنگن میں جا کر
دھوپ اور بارشیں عفت کھو دیتی ہیں
جن کی زبانیں
خوش لفظوں سے ۔۔۔ نا واقف ہیں
جن کے حرف کسی اچھے کی سماعت سے ٹکرا کر
پتھر بن جاتے ہیں
وہ ۔۔ جو لوگوں کی خوشیوں کی موت پہ
خوشی مناتے ہیں
سائل پر کتے چھوڑتے ہیں
اور اپنے دروازوں پر
کالے، پیلے رنگ سے ۔۔۔ کھوپڑیاں بنواتے ہیں
جاؤ۔۔۔ اور ان چہروں کو دیکھو
آج سے تم
ان میں شامل ہو