حج کا سفر۔۔۔ کچھ کمیٹی کےطریقہ کار کے بارے میں ( 3 )۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

10:25AM Tue 5 Jul, 2022

       عرفی! اگر بگریہ میسر شدے وصال

صد سال می توان  به تمنا گریستن

 اگر چہ سو سال کی عمر ابھی سائینس دانوں کی کوشش سے انساں کی طبعی عمر قرار نہیں پائی ہے۔ مان لیجئے کہ آئندہ چل کر یہی عمرطبعی ہو جائے، تب بھی موجودہ بے لوچ طریقہ کا ر کے تحت اس کی ضمانت نہیں کی جاسکتی کہ نام نکل ہی آئے گا۔ اپنی ناکامیوں کے سلسلے میں جو اتنی تفصیل پیش کرتے چلے جارہے ہیں تواس کا منشاء یہی ہے کہ عازمین حج کی درخواستوں کے ساتھ لاٹری کاسا بے رحمانہ سلوک تو نہ ہونا چاہیئے ۔

ہم اپنی تیسری ناکامی کے بعد آئندہ سال کے پروگرام سےآس لگا کر بیٹھ گئے، ادھرمغل لائن نے پروگرام شائع کیا ادھر ہم نے درخواستیں روانہ کرنے میں چابکدستی دکھا ئی۔

اس دفعہ ہماری تین درخواستوں میں ایک درخواست کا اور اضافہ ہوا، یہ ہمارے دوست عشرت علی صدیقی صاحب کی خوش دامن صاحبہ کی درخواست تھی وہ اپنے حسن ظن سے ہمارے ہی ساتھ حج کو جانا پسند کررہی تھیں۔

ابھی درخواستوں کے بارے میں کوئی جواب نہیں ملا تھا کہ عشرت صاحب کی خوش دامن صاحبہ نے فون پر ہم سے جواب کے لئے تقاضے شروع کر دیے۔

ہم نے اطمینان دلانے کےلئے کہہ دیا اگر اس سال اجازت نہ بھی ملی تو انشاء اللہ آیندہ سال چلیں گے اطمینان رکھیے کہ بغیر آپ کو لیے ہم حج کرنے نہیں جائیں گے۔

انھوں نے مایوسی کے ساتھ جواب دیا "بھیا تمہاری عمر ماشاءاللہ ایسی ہےکہ ابھی بہت دنوں حج کا انتظار کر سکتے ہو، میں بوڑھی میری زندگی کا کیااعتبار اگلے سال تک کہا ں صبر کرسکتی ہوں۔"

اور اس بے صبری میں انھوں نے اپنے دوسرے داماد طاہر علی صاحب کے ساتھ جو ہوائی جہاز سے حج کو جا رہے تھے دوسری درخواست بھیج دی، ان کی خوش قسمتی سے ہوائی جہاز میں انھیں جگہ مل گئی، اور وہ ہوائی جہاز کے ذریعہ جدے پہنچ گئیں، جدے سے مکہ معظمہ گئیں اور عمرے کا طواف پورا کرنے خانہ کعبہ کے در پر بیٹھ گئیں اور اسی لمحے ان کا انتقال ہو گیا۔ مکہ معظمہ کے متبرک قبرستان جنت المعلی میں تدفین ہوئی۔

 کیسی سچی تمنا تھی ان کی اور کس شان سے پروردگار نے اس کو پورا کردیا۔

 گو یا وہ یہ دیکھ رہی تھیں کہ اگر اس سال حاضری نصیب نہ ہوئی تو پھر موقع ہاتھ نہ آئے گا تقریبا یہی انھوں نے ہم سے کہا تھا اور اسی کی روشنی میں انھوں نے بحری جہاز کا ارادہ ترک کر کے ہوائی جہاز میں جگہ مانگی تھی، سچ ہے۔

یاران تیز گام نے منزل کو جالیا

ہم محو نالئہ جرس کارواں رہے

 ہماری درخواستوں کا، جو اس دفعہ قرعہ اندازی کے ذریعہ منظور کی جانے والی تھیں پھروہی حشر ہوا اور جواب آگیا کہ جگہیں پر ہوچکی ہیں۔

اس دفعہ منتظر امیدواروں میں بھی ہمارا نام نہ آپایا۔

وہ مایوس تمنا کیوں نہ سوئے آسماں دیکھے

کہ جو منزل بمنزل اپنی محنت رائیگاں دیکھے

 اللہ بخشے زائر حرم حمید صدیقی کو وہ خود حج اور زیارت روضۂ انور کے لیے جس قدر بی چین رہتے تھے اسی پیمانے سے وہ دوسروں کی بے چینی کو بھی نا پیتے تھے بار بار کی ناکامیوں پر ہماری بے چینی دیکھ کر تازہ نعت میں انھوں نے ایک شعر کہہ کر

کچھ اس لئے رکھتے ہیں وہ محروم کرم اور

ہو جائے دل اپنا ابھی شائستہ غم اور

 کسی حد تک ہماری دل جمعی کا سامان کر دیا۔ یہاں تک ہوا کہ 1965 کے حج کے لئے مغل لائن کا پروگرام شائع ہوگیا۔ اب کی کچھ اور اضافوں کے ساتھ ہماری رجسٹری درخواستیں لے کرگئی اس دفعہ بھی قرعہ اندازی پر فیصلے کا انحصار تھا، سو وہی فیصلہ ہواجس کے ہم عادی ہو چکے تھے۔

ناقل: محمد ارشد قاسمی