حج کا سفر ۔۔۔ حرم کعبہ میں(3)۔۔۔ مفتی رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

09:28PM Sat 10 Jun, 2023

ہمارے ملك كے حاجیوں كی تو غالب اكثریت ان پڑھ اور نچلے طبقے كے دیہی افراد پر مشمل ہوتی ہے ‏، شوقِ حج و زیارت انہیں كشاں ‏، كشاں پہونچادیتا ہے مكہ معظمہ اور مدینہ منورہ ! جو بركتیں ان مقدس مقامات كی حاضری سے حاصل ہوناچاہیئں وہ حاصل بھی ضرور ہوجاتی ہیں ‏، ان سب حاضری دینے والوں كو خواہ وہ ان پڑھ ہوں یا گنوار ‏، عالم ہوں ‏، یا جاہل ‏، مگر ‘‘ یشہدوا منافع لہم ’’ میں جو حقیقت پوشیدہ ہے وہ منكشف ہوجانے سے بلاشبہ رہ جاتی ہے ۔

جوخالص اسلامی ملك ہیں ان كے عوام نہیں خواص بلكہ حكومتوں كے اسلامی سربراہ تك مناسك حج اداكرنے كے بعد كا ساراوقت (یعنی چار ‏، پانچ روز كے علاوہ جو ایامِ حج كہلاتے ہیں ‏، باقی سارا وقت ) پورے انہماك سے ملكی برتری اور سیاسی تفوق ثابت كرنے میں صرف كرتے ہیں ۔

اس دفعہ سعودی حكومت نے اسلامی ملكوں سے اسكاؤٹ دستے بھیجنے كی خواہش كی تھی اس پر ‘‘اسلامی ملكوں ’’ كے دستے آنے لگے اور سعودی حكومت كے ذمہ داروں نے ان كے فرائض ( ڈیوٹیاں ) بنانے كا پروگرام بھی بنالیا ‏، ہندوستان كو اسكاؤٹ بھیجنے كی زحمت كیسے دی جاتی !ہمارے سفیر مقیمِ جدہ مسٹر مدحت كامل قدوائی نے اپنا فرض سمجھا كہ سعودی حكومت كو یاددلادیں (حكومت ناوقف نہ تھی جو اس كو خبر دی جاتی ) كہ ہندوستان میں چھ كروڑمسلمان رہتے ہیں اور اتنی بڑی مسلم آبادی بہت سے اسلامی ملكوں كی آبادی سے بھی كہیں زیادہ ہے ‏، ایسی حالت میں مسلمانوں كی خدمت كی سعادت سے ہندوستانی مسلمانوں كو محروم كرنا انصاف نہ ہوگا ‏، حكومت نے ہندوستانی سفیر كی بات كا وزن محسوس كیا اور ہمارے ملك سے بھی نوجوانوں كے كچھ دستے (علی گڑھ ‏، مدراس ‏، كیرالا وغیرہ) اپنے قائدوں كی قیادت میں وہاں بھیجے اور خوشی كی بات بلكہ فخر كی بات یہ ہے كہ ہندوستانی نوجوانوں نے بلاامتیاز ہرضرورت مند كی مدد كی ‏، مدد یہی كہ بڈھا حاجی راستہ بھول گیا اور ایسا بھولا كہ منزل كا نام بھی نہیں یاداُسے ‏،اب وہ پاكستانی ہو ‏، یا ہندوستانی ‏، ایرانی ہو ‏، یا تركستانی اس كو اس منزل تك پہونچانا ‏، بیمار ہو تو اپنے شفاخانے میں لانا ‏، پتہ نہ چل پارہا ہو ‏، تو رئیس المطوفین كے عملے كے سپردكرنا ‏، كوئی ہنگامی بات ہو تو اس كے دفعیہ كے لیے مستعد ہوجانا ۔

نہ معلوم كتنے غیر ہندوستانی حاجیوں كو ہم نے منی میں ہندوستانی سفارت خانے كے اسپتال میں دیكھا‏، ایك واقعہ تو بھولتا ہی نہیں : ایك بہت بوڑھی بنگالی عورت جو سڑك پر پڑی سسك رہی تھی ‏، اٹھاكر ہمارے اسپتال لائی گئی‏، بچاری كنكریاں مارنے والوں كے ہجوم میں كچل گئی تھی ‏، جب ہوش و حواس اس كے بجا ہوئے ‏، تو اب وہ كچھ بتاہی نہیں پارہی تھی ‏، بنگلہ میں كچھ كہتی تھی كوئی كیا سمجھے بالكل اتفاق كہ اس وقت بنگالی حاجیوں كی ویلفیر آفیسر ایك بنگالی خاتون مسز شكیلہ ایم ‏، ایل ‏، اے بھی سفارت خانے میں موجود تھیں ‏، وہ آئیں ‏ بچاری اور بوڑھی عورت سے بنگلہ میں بات چیت بھی كی ؛لیكن كچھ حقیقت نہ كھل پائی ‏، مسز شكیلہ نے بتایا كہ یہ مشرقی پاكستانی كی حجن معلوم ہوتی ہے ‏، اس كی بنگلہ زبان ہماری زبان سے مختلف ہے ‏، كچھ سمجھ ہی میں نہیں آتا كہ وہ كیا كہ رہی ہے ۔معلوم ہوا كہ بنگلہ زبان بھی ہندوستان ‏، پاكستان میں بٹ گئی ہے خوب !

شكایت كی نہیں افسوس كی بات ہے كہ پاكستانی سفارت خانے اور اس كے اسكاوٹ دستوں كا رویہ ہندوستانی حاجیوں كے ساتھ یہ نہیں رہا۔

اس سے زیادہ یہ كہ پاكستان كے بے پناہ پروپیگنڈے نے شاید بے خبر اسلامی ملكوں كے باشندوں كو یہ باور كرادیا ہے كہ ہندوستان میں نہ كوئی ممتاز علمی شخصیت ہے ‏، نہ كوئی مسلم مذہبی ادارہ اور نہ كوئی خاص مسلم آبادی ‏، بس یہی كچھ معمولی درجے كے مسلمان رہ گئے ہیں ۔

اس كا تجربہ تو خود ہمیں ہی ہوا ‏، مدینہ منورہ میں ہمارے خاندان كے ایك مہاجر بزرگ مولانا عبدالباقی فرنگی محلی ؒ (شاگرد مولانا ابوالحسنات عبد الحئی فرنگی محلی ) كے ایك شاگر د مولانا محمد ابراہیم مہاجر مدنی نے اس تعلق سے جو ان كو علمائے فرنگی محلی خاص كر اپنے استاد اور استاذالاستاذ سے تھا ‏، ہماری دعوت كی اور اس وقت عرب ملكوں سے آئے ہوئے جو مشاہیر علماء مدینہ شریف میں تھے ان كو بھی اس دعوت میں بلایا ‏، مولانا ابراہیم الختنی ایك باوقار علمی شخصیت ہیں ‏، مدینہ منورہ كی اور دنیائے اسلام كے ممتاز علماء كو ان سے شرف نیاز حاصل ہے ‏، خیر ہمارا تعارف ہوا كہ یہ علمائے فرنگی محل كے خاندان سے ہیں ‏، عرب علماء بہت خوش ہوئے ؛ لیكن ایك كے ذہن میں نہ آیا كہ فرنگی محل ہندوستان میں ہے ‏، سب ہمیں پاكستانی سمجھے بیٹھے تھے ‏، جب ان كو بتایا كہ ہندوستان میں ہے فرنگی محل ‏، تو جیسے ان كو اچنبھا ہوا ۔

یہ تو علمائے كرام كی بات تھی ‏، ان كے لیے غلط فہمی كی گنجایش تھی ؛لیكن یہ اخبار نویس ‏، یہ تو ہر بڑی شخصیت كو كماحقہ جاننے كے مدعی ہوتے ہیں ‏، سعودی اخبار نویسوں كا حال بھی سن لیجئے : ہمارے شہر اور صوبے كی علمی شخصیت مولانا ابوالحسن علی ندوی كو آج دنیائے عرب میں جس قدر پہچانا جاتا ہے ‏، ہندوستان ‏، پاكستان كی كوئی دوسری علمی شخصیت اس كی برابری نہیں كرسكتی ‏، رابطہ عالم اسلامی كے بانی ممبروں میں اور نائب صدر ہیں ‏، تمام اسلامی ملكوں كا اس طرح دورہ كرچكے ہیں كہ بار ‏، بار منظر عام پر آكر انہیں اپنی بات وہاں كہنا ہوئی ہے ‏، تو ایسے مشہور و معروف مولانا علی میاں كو شرفِ باریابی بخشا‏، جلالتہ الملك الفیصل نے جو اپنے بڑے بھائی شاہ سعود كو معزول كركے تخت نشیں ہوئے ہیں اور ان كی تخت نشینی كے بعد یہ پہلا حج ہوجارہا تھا ‏، دنیاوی بادشاہوں كی طرح اس شاہی ملاقات كا بھی سركاری فوٹو گرافروں نے فوراً فوٹو اتار لیا ‏، علی میاں لاكھ رومال سرے اوڑھے كیمرے كی زد سے بچے ہوں گے (جیساكہ تصویر سے ظاہر ہے ) مگر ان كا بھی فوٹو اتر ہی آیا اور دوسرے دن عربی اخباروں میں وہ شائع بھی ہوا ‏، نیچے لكھاتھا : جلالتہ الملك فیصل سید ابوالحسن علی ندوی سے جو دارالعلوم ندوۃ العلماء واقع پاكستان كے جنزل سكریڑی ہیں گفتگو كررہے ہیں ( یہ اس عربی عبارت كا ترجمہ ہے جو فوٹو كے نیچے لكھی تھی )۔سعودی اخبار نویسوں تك كو دارالعلوم ندوۃ العلماء جو ساٹھ ‏، ستر سال سے لكھنوٴ (ہندوستان ) میں قائم ہے اور جس كے طلبا كو مدینہ یونی ورسٹی میں خاص امتیاز حاصل رہتا ہے ‏، پاكستان كی جھولی میں پڑا نظر آیا ۔

یہ سب كرشمہ سازی ہے پروپیگنڈے كی ‏، پروپیگنڈے كی خوبی یہی ہےكہ كسی بات كو صاف ‏، صاف نہ كہاجائے بلكہ باتیں اس طرح كہی جائیں كہ جو بات ذہن نشین كرانا ہے وہ غیرشعوری طور پر ذہن میں پیوست ہوجائے ‏، پروپیگنڈے نے یہ ذہن بنانا چاہا كہ ہندوستان میں مسلمانوں كے آثار نشانات اور سرگرمیوں اور كارروائیوں كے تابندہ نقوش سے ذہول ہوجائے ‏، سو وہ ہوگیا‏، اب ہندوستان كے مسلمانوں كا كوئی بھی دینی ‏، یا علمی كارنامہ ہو جب تك جتا نہ دیا جائے كہ یہ ہندوستانی مسلمان كا ہے ‏، اس وقت تك پاكستان ہی كے حساب ‏، كتاب میں درج رہتا ہے ۔

ہم لوگ دو شنبہ 3 ذی الحجہ (5/اپریل)كو رات گئے مكہ معظمہ پہونچےتھے اور مناسك حج كا آغاز 8/ذی الحجہ (10 /اپریل)سے ہونے والاتھا‏، اس طرح ہمارے پاس چاردن فرصت كے تھے ‏، حج كے سلسلے میں ان چار دنوں میں ہمیں كچھ نہیں كرنا تھا ‏، یلملم سے عمرے كا احرام باندھ كر حدودِ حرم میں داخل ہوئے تھے ‏، رات ہی عمرہ كرلیا اور احرام اتاردیا ‏، اب 8/ذی الحجہ كو جب مناسكِ حج شروع ہوں گے ‏، تو پھر احرام حج كا باندھیں گے ‏، ہمارے بعض ہم سفر ہمت والے تھے ‏، انہوں نے یلملم میں حج اور عمرے دونوں كی نیت سے احرام باندھا تھا ‏، وہ عمرہ ادا كركے بھی احرام سے بھی باہر نہیں ہوئے اور حالتِ احرام ہی میں یہ چار دن انہوں نے مكہ معظمہ میں گزارے ‏، احرام كے تقاضوں كو اتنے دنوں تك پورا كرنا حوصلے كی بات ہے ‏، بہرحال دیكھنا‏، سننا ‏، ملنا‏،جلنا چاردنوں میں ہم نے كیا ‏، ملنا‏، جلنابھی كم ؛كیونكہ مكہ معظمہ میں ہماری كون سی رشتہ داری اور برادری تھی ‏، دوہی چار پرانے جاننے والے وہ ہندوستانی احباب تھے جو مكہ معظمہ میں مقیم ہیں۔

عجیب بات یہ دیكھنے میں آئی كہ مكہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں اصلی عرب آبادی تقریباً نہ ہونے كے برابرہے ‏، اس وقت جتنے باشندے مكی، یا مدنی ہیں ‏، وہ مكی ‏، یا مدنی اصلاً نہیں ہیں ‏، تركی سے شام سے ‏، عراق سے ‏، ہندوستان سے ‏، پاكستان سے اوردوسرے مسلم ملكوں سے آكر یہاں بس گئے ہیں اور ان كے عربی لباس اور عربی زبان سے شبہ ہوتاہے كہ یہ عرب ہیں ‏، اصلی عرب تو مضافات میں كہیں آباد ہیں اور عربی مزاج و خصائص كے حامل بھی وہی ہیں ۔

حد یہ ہے كہ معلمین كا گروہ بھی مكہ معظمہ میں اور مزورین كا گروہ بھی مدینہ منوّرہ میں غیر عرب نسل كے افراد كی غالب اكثریت پر مشتمل ہے ‏، یہ لوگ مقامی عربی خوب بولتے ہیں ؛اس لیے كہ نسلیں ان كی یہاں گزرچكی ہیں اور ہندوستان و پاكستان سے آئے ہوئے حاجیوں سے گورا شاہی اردو بھی خوب بولتے ہیں ‏، ٹھیٹھ اردو احتیاطاً نہیں بولتے ہوں گے كہ كوئی ان كےحجازی ہونے پر شبہ نہ كر بیٹھے۔

ہندوستانی جو سعودی عرب میں مقیم ہیں ان كی اكثریت تو جدے میں رہتی ہے جو تجارت كا مركز ہے زیادہ ہندوستانی تجارت ہی كے لیے تو وہاں گئے ہیں ‏، یا پھر پڑھے لكھے ہندوستانی ہیں جن كو سعودی حكومت نے ملازمت دے كر ایك معاہدے كے تحت وہاں بلایا ہے ‏، یہ سركاری فرائض كے سلسلے میں حدودِ مملكت سعودیہ میں كہیں بھی ركھے جاسكتے ہیں مگرزیادہ تر ریاض (سعودی حكومت كی شاہی راج دھانی )اور جدے میں (جو سیاسی راج دھانی ہے سعودی حكومت كی ) رہتے ہیں ‏، دنیا كمانے كے لیے جانے والے ہندستانیوں میں كم ہی ہیں جن كو مكہ معظمہ ‏، یا مدینہ منوّرہ میں قیام كی سعادت ہاتھ آئی ہو ۔پھر بھی خاصی تعداد ان ہندوستانیوں كی مكہ معظمہ ‏میں بھی ہے جو دستكاری كے ذریعہ روزی كمانے كے لیے وہاں گئے ہیں ‏، دست كاری كا جوہر مكہ معظمہ ہی میں یا پھر مدینہ منوّرہ میں كھل سكتاہے ‏، جدے میں تو ساری ضرورتیں تیار مال (ریڈی میڈ)سے جوولایتوں سے آتا ہے پوری كرلی جاتی ہیں ۔

جدے مكے وغیرہ میں مشینی سامان بہت ارزاں ہے ؛لیكن جس سامان كی تیاری میں آدمی كا ہاتھ لگ گیا بس اس كے دام نہ پوچھئے آسمان سے باتیں كرتے ہیں ۔

مولانا منظور نعمانی صاحب مدیر الفرقان (لكھنوٴ) جیسے درویش صفت آدمی ہیں جاننے والے جانتے ہیں ‏، پڑھنے كے وقت عینك لگاتے ہیں ‏، عینك بھی ان كی بس معمولی سی ہے ‏، یہی دو تین روپیہ كی كمانی اور ایك آدھ روپے كے شیشے ‏، كہنے لگے كہ ایك آدھ دفعہ كمانی كچھ ٹوٹی‏،پھوٹی لكھنؤ میں بازار بھیج كر تین آنے ‏، یا چار آنے میں اسے ٹھیك كرالیا وقت كا كرنا كہ ان كی كمانی اس دفعہ مكہ معظمہ میں ٹوٹ گئی ‏، آدمی بازار  بھیجا ‏، سوچا كہ تین ‏، چار  آنے زیادہ سے زیادہ آٹھ آنے میں درست كرالائے گا ‏، مگر یہ لكھنؤ  نہ باشد ‏، تین روپے كمانی كی مرمت میں دو ریال لگیں گے ‏، آدمی كا ہاتھ جو لگ جائے گا ‏، اس میں نئی خریدیے تو اسی قسم كی كمانی تین ریال میں مزے سے مل جائے گی ۔

لبِ سڑك آپ اترے ‏،صرف كوٹھے پر سامان پہنچانا ہے ‏، یا گھر كے اندر بہت سامان ہوا روپے ‏، ڈیڑھ روپے میں مزدوروں ‏، دستكاروں كی چاندی ہی چاندی ہے ۔جو كوئی ہنر نہیں جانتا وہ نوكری كرے، خاطر خواہ تنخواہ نوكر كو بھی ملتی ہے ‏، آپ كے یہاں بڑی سے بڑی شرح تنخواہ جو خدمت گار كی ہے ‏، اس سے تگنی ‏، چوگنی وہاں ہے ‏، كپڑے ‏لانڈری میں دھلیں گے ‏، ایك ہفتے كے بعد ملیں گے ‏، استری وستری كا بھی جھگڑا نہ ہوگا ‏، ایك ریال میں دو كپڑے كے حساب سے ۔

 https://www.bhatkallys.com/ur/author/muftiraza/