سچی باتیں۔۔۔ محرم کی بدعات۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:35PM Wed 19 Aug, 2020

سچی باتیں محرم کی بدعات محرّم کا چاند طلوع ہوچکا۔ مسلمانوں کے گھرگھر میں ایک نئی چہل پہل پیدا ہوگئی۔ گویا عید اور عید قرباں کی طرح، بلکہ اُن سے بھی بڑھ کر مُحرم بھی کسی مذہبی جشن وتقریب کا نام ہے! عید صرف ایک دن کے لئے آتی ہے، محرّم کی تقریب پورے دس دن تک قائم رہتی ہے! عید کے دن سوئیاں پکتی ہیں، محرم میں اس سے کہیں زیادہ لذیذ وپُرتکلف حلوے، شیرمال، ملیدہ، شربت، اور بجائے پان کے خوشبودار مصالحہ کا اہتمام ہوتاہے! عید میں صرف صبح کے وقت دوگانہ پڑھنا ہوتاہے، محرّم میں عشرہ بھر برابر مجلسوں کا سلسلہ قائم رہتاہے! عید میں مبارکباد کا گانا صرف تھوڑی دیر کے لئے سننے کو ملتاہے، محرّم میں ڈھول اور تاشہ، بین اور جھانجھ ، ک آوازوں کی گونج پورے دس دن تک قائم رہتی ہے! عید کے لئے آپ کو زیادہ سے زیادہ اپنے اور بچّوں کے نئے کپڑے اور جوتے کی فکر ہوتی ہے، محرم کے لئے آپ کے سر ، تعزیہ داری کے سامان ، روشنی وآرایش، علم ومنہدی، اور پھر حلوہ اور ملیدہ کے لئے گھی، شکر، دودھ، میدہ، اور میوہ ، کتنی چیزوں کا اہتمام ہوتاہے۔ کیاآپ کے مذہب کی یہی تعلیم ہے؟ کیا آپ کے سب سے بڑے سردار وپیشوا محمد رسول اللہ کا یہی طریقہ تھا؟ کیا وہ خود، یا ان کے صحابہ ، یا اہل بیت، یا حضرات تابعین، اسی طرح عشرۂ محرّم مناتے تھے؟ آپ کہتے ہیں کہ آپ امام مظلوم، شہیدِ دشت کربلا کا ماتم کررہے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ کیا غم والم کی یہی صورت ایک مسلمان کے شایان شان ہے؟ کیا خود ہمارے جب کسی محبوب ترین عزیز کا انتقال ہوتاہے، تو ہم اس کے لئے ایسا ہی نمایشی سامان ماتم کرتے ہیں؟ اسلام نے ایسے موقع پرمیّت کے حق میں دعائے مغفرت ، اور خدا کی جانب اپنے عقیدہ وخیال کے رجوع کرنے کی تعلیم دی ہے (اذا اصابتہم مصیبۃ قالوا انا للہ وانا الیہ راجعون) یا باجہ بجانے ، جلوس نکالنے، اور حلوا وملیدہ بنانے کی؟ خود امام حسین علیہ السلام جن کی محبت کا آپ زبانی دعوی کرتے ہیں، کیااُن سے بہت سی روایات نہ سہی، کوئی ایک آدھ روایت بھی، قوی نہ سہی، ضعیف ہی، اس مضمون کی آپ کو پہونچی ہے، کہ ان کا ماتم اس رواجی محرّم کی صورت میں منایاجائے، جس کا وجود صرف ہندوستان ہی میں ہے؟ کیا امام زین العابدینؒ ، امام جعفر صادقؒ، اور امام محمد باقرؒ وغیرہم نعوذ باللہ ڈھول اور تاشہ، حلوے اور ملیدے، علم اور تعزیہ کے ذریعہ سے محرم منایاکرتے تھے؟ پھر، یہ کیاہے، کہ آپ ایسے رواج کے قائم رکھنے پر خواہ مخواہ اَڑے ہوئے ہیں۔ جس کی سند جواز نہ قرآن سے نکلتی ہے نہ حدیث سے، نہ فقہ سے ، نہ تصوف سے، نہ عقل سے نہ نقل سے؟ یہ کیسے غضب کی بات ہے، کہ آپ اپنے تئیں مسلمان کہتے ہیں، اور پھر اس رسم کے قائم رکھنے پر مُصر ہیں، جو شرعًا بالکل باطل ہے! کیا آپ کو رسوم ورواج کی پاسداری، احکام شریعت سے زیادہ عزیز ہے؟ کیا سیکڑوں بلکہ ہزاروں علماء حق کے متفقہ فتوے کو محض اس لئے ٹھکرادینے کو تیار ہیں، کہ برادری میں آپ کی سبکی نہ ہو؟ آپ کا فرض اپنے جاہل بھائیوں میں بیداری پیداکرنا ہونا چاہئے، یا یہ کہ آپ خود اُن کی جہالت سے مرعوب ومتاثر ہوکر گمراہیوں میں مبتلاہوجائیں!

1925-07-24

 

محرم کی بدعات محرّم کا چاند طلوع ہوچکا۔ مسلمانوں کے گھرگھر میں ایک نئی چہل پہل پیدا ہوگئی۔ گویا عید اور عید قرباں کی طرح، بلکہ اُن سے بھی بڑھ کر مُحرم بھی کسی مذہبی جشن وتقریب کا نام ہے! عید صرف ایک دن کے لئے آتی ہے، محرّم کی تقریب پورے دس دن تک قائم رہتی ہے! عید کے دن سوئیاں پکتی ہیں، محرم میں اس سے کہیں زیادہ لذیذ وپُرتکلف حلوے، شیرمال، ملیدہ، شربت، اور بجائے پان کے خوشبودار مصالحہ کا اہتمام ہوتاہے! عید میں صرف صبح کے وقت دوگانہ پڑھنا ہوتاہے، محرّم میں عشرہ بھر برابر مجلسوں کا سلسلہ قائم رہتاہے! عید میں مبارکباد کا گانا صرف تھوڑی دیر کے لئے سننے کو ملتاہے، محرّم میں ڈھول اور تاشہ، بین اور جھانجھ ، ک آوازوں کی گونج پورے دس دن تک قائم رہتی ہے! عید کے لئے آپ کو زیادہ سے زیادہ اپنے اور بچّوں کے نئے کپڑے اور جوتے کی فکر ہوتی ہے، محرم کے لئے آپ کے سر ، تعزیہ داری کے سامان ، روشنی وآرایش، علم ومنہدی، اور پھر حلوہ اور ملیدہ کے لئے گھی، شکر، دودھ، میدہ، اور میوہ ، کتنی چیزوں کا اہتمام ہوتاہے۔ کیاآپ کے مذہب کی یہی تعلیم ہے؟ کیا آپ کے سب سے بڑے سردار وپیشوا محمد رسول اللہ کا یہی طریقہ تھا؟ کیا وہ خود، یا ان کے صحابہ ، یا اہل بیت، یا حضرات تابعین، اسی طرح عشرۂ محرّم مناتے تھے؟ آپ کہتے ہیں کہ آپ امام مظلوم، شہیدِ دشت کربلا کا ماتم کررہے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ کیا غم والم کی یہی صورت ایک مسلمان کے شایان شان ہے؟ کیا خود ہمارے جب کسی محبوب ترین عزیز کا انتقال ہوتاہے، تو ہم اس کے لئے ایسا ہی نمایشی سامان ماتم کرتے ہیں؟ اسلام نے ایسے موقع پرمیّت کے حق میں دعائے مغفرت ، اور خدا کی جانب اپنے عقیدہ وخیال کے رجوع کرنے کی تعلیم دی ہے (اذا اصابتہم مصیبۃ قالوا انا للہ وانا الیہ راجعون) یا باجہ بجانے ، جلوس نکالنے، اور حلوا وملیدہ بنانے کی؟ خود امام حسین علیہ السلام جن کی محبت کا آپ زبانی دعوی کرتے ہیں، کیااُن سے بہت سی روایات نہ سہی، کوئی ایک آدھ روایت بھی، قوی نہ سہی، ضعیف ہی، اس مضمون کی آپ کو پہونچی ہے، کہ ان کا ماتم اس رواجی محرّم کی صورت میں منایاجائے، جس کا وجود صرف ہندوستان ہی میں ہے؟ کیا امام زین العابدینؒ ، امام جعفر صادقؒ، اور امام محمد باقرؒ وغیرہم نعوذ باللہ ڈھول اور تاشہ، حلوے اور ملیدے، علم اور تعزیہ کے ذریعہ سے محرم منایاکرتے تھے؟ پھر، یہ کیاہے، کہ آپ ایسے رواج کے قائم رکھنے پر خواہ مخواہ اَڑے ہوئے ہیں۔ جس کی سند جواز نہ قرآن سے نکلتی ہے نہ حدیث سے، نہ فقہ سے ، نہ تصوف سے، نہ عقل سے نہ نقل سے؟ یہ کیسے غضب کی بات ہے، کہ آپ اپنے تئیں مسلمان کہتے ہیں، اور پھر اس رسم کے قائم رکھنے پر مُصر ہیں، جو شرعًا بالکل باطل ہے! کیا آپ کو رسوم ورواج کی پاسداری، احکام شریعت سے زیادہ عزیز ہے؟ کیا سیکڑوں بلکہ ہزاروں علماء حق کے متفقہ فتوے کو محض اس لئے ٹھکرادینے کو تیار ہیں، کہ برادری میں آپ کی سبکی نہ ہو؟ آپ کا فرض اپنے جاہل بھائیوں میں بیداری پیداکرنا ہونا چاہئے، یا یہ کہ آپ خود اُن کی جہالت سے مرعوب ومتاثر ہوکر گمراہیوں میں مبتلاہوجائیں!

1925-07-24