دہلی کے جدید انشا پرداز خواجہ محمد شفیع کا نام اب نہ اردو کے طلبہ کے لیے نامانوس رہا ہے نہ ناظرین صدق کے لیے۔ ناکام ان کا تازہ ترین افادہ قلم ہے، سرسری نظر میں ایک دلکش افسانہ، گہری نظر میں حکمت و اخلاق کا خزانہ اور ہر صورت میں ادب و انشاء کا ایک گنج شائگان۔ زہرہ ایک مشہور بیسوا ہے اور حسین و حاضر جواب مغنیہ، اس کا سابقہ ایک نوجوان کاظم سے پڑ گیا ہے۔ کاظم ذہانت میں فرد، حاضر جوابی میں استاد، ہر رنگ میں رنگا ہوا، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے لیکن اپنے کو لیے دیے ہوئے، نفس کو قابو میں کیے ہوئے۔ اس کا دل اس کے کہے میں، وہ خود دل کے کہے میں نہیں، بیسوا نے خوب خوب کمندیں پھینکیں، ہر ہر طرح جال ڈالے، وہ ظالم ایک بار بھی نہ پھنسا۔ خود شکاری ہی کو شکار کرتا گیا اور چوٹ کھائے ہوئے غرور و تمکنت کو چر کے پرچر کے دیتا گیا، لفظ و عبارت میں مے و شاہد کی وہ سخن آرائیاں کہ دھوکا دیوانِ حافظ کا ہونے لگے، معنی و مفہوم میں اخلاق و موعظت کی وہ گل فشانیاں کہ گمان گلستان سعدی کا گزرنے لگے۔ زبان کے جوہر دیکھنے ہوں تو کاظم کا معرکہ ایک رئیس کی محفل میں ایک میراثی سے ملاحظہ ہو۔ رئیس صاحب اپنی بد آوازی پر نازاں سرِ محفل چنگھاڑ رہے ہیں، ساری محفل ان کے بنانے یا داد دینے پر متوجہ، چوٹیں کاظم اور میراثی کے درمیان چلنے لگیں، ہلکی سی جھلک دیکھتے چلیے۔
میراثی پھیکا پڑ جارہا ہے۔ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا، دماغ سے اتار کر باتیں لا رہا تھا، بولا ’’سرکار شانوں سے سر نکل رہے ہیں۔‘‘ کاظم نے کہا ’’عالیجاہ مجسم موسیقی ہیں۔‘‘ میراثی نے بہت زور مارا، باپ دادا کی ساری طاقت سے کام لے کر کہا ’’سرکار شاہ موسیقی ہیں۔‘‘ وہ حاضر دماغ بولا ’’عالیجا شہنشاہ موسیقی ہیں، لحن داؤدی پائی ہے، اس فن کے پیغمر ہیں۔‘‘ میراثی نے زمین پر ہاتھ ٹکا دئیے اور بولا ’’تان سین قبر میں پڑا تڑپ رہا ہے۔‘‘ کاظم نے عرض کیا ’’بیجوباورے کی روح قدمبوس ہونے آئی ہے۔اگر ہاروت کو یہ فن آتا تو زہرہ کے راگ میں نہ آتا۔ سُر ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ راگ جلو میں حاضر، موسیقی دامن سے وابستہ، سرکار راجہ اندر میں موسیقی آپ کے قدم سے ہے۔ اعجاز ہے اعجاز۔ شجرو حجر جھوم رہے ہیں، مردہ دل زندہ ہوئے جاتے ہیں۔ سُر نہیں نفسِ عیسوی ہیں۔‘‘ میراثی کچھ بھی ہو میراثی تھا۔ تابر توڑ فکر سن کر تیورا سا گیا جب زبان نہ چلی تو سر پیٹنا شروع کیا اور لگا حال کھیلنے۔ یہ میدان کاظم کے بس کا نہ تھا، میدان جاتا نظر آیا۔ بازی ہرتی نظر آئی، پر واہ رے دماغ۔ فورا بولا ’’سُروں کا زور ہے، آگ لگ جائے گی، پانی ڈالو۔ جلدی کرو‘‘ ساتھ ہی برف کے پانی کا بھرا جگ اٹھا، بدنصیب میراثی پر ڈال دیا۔ مراثی حال سے بے حال ہوگیا۔ گھگی بندھ گئی۔ (48-49)
گناہ گار عورت کے دل کی چبھن دیکھنا ہے تو ورق الٹے۔ بیسوا کے کوٹھے پر کسی نے ایک پُر اثر قصہ مناسب تمہید کے بعد اکبر کا یہ شعر سنا دیا:
کون خوش بخت ہے زمانے میں گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
اس پر بیسوا کے تاثرات
’’کان یہ سن رہے تھے، آنکھوں کے سامنے ازدواجی زندگی اپنے مناظر پیش کر رہی تھی اور میں اس کا تماشہ میں غرق تھی۔ ایک عجیب لطف تھا، عجب کھٹک، نرالی کاوش تھی، اچھوتی خراش میں ان کیفیات میں ایسی محو تھی جیسے بھوکا روٹی کے تصور میں، بانجھ اولاد کے خیال میں سینے میں ایک چیز تھی جو کچھ مانگ رہی تھی، پہلو میں ایک خلا تھا جو آج میں نے پہلی دفعہ محسوس کیا، میرا ہر قطرہ خون کسی کی تلاش میں رواں۔ میری نشانی فطرت میں ایک طوفان بپا تھا۔ آج مجھ میں وہ عورت جاگ اٹھی تھی جو بیوی بننے کے لیے، ماں بننے کے لیے پیدا ہوئی ہے۔ آج وہ خلقت انگڑائی لے کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی جسے افیون دے کر سُلا دیا گیا تھا۔ آج وہ حقیقت اپنا حق مانگنے آن پہنچی تھی جس کو کذب و ریا اور غلط فضا کے انبار میں دبا دیا گیا تھا، رنڈی کا جامہ چاک کرکے وہ عورت برآمد ہونے کو تھی جو کھونے کو پانا سمجھتی ہے۔ وہ عورت جب اپنا خون چوسا کر نسل انسانی کو پالتی ہے۔ عورت جو شفقت سے خمیر کی گئی ہے، عورت جو ماں سے تعبیر کی گئی ہے۔ میں آدم و حوا کے نمایندوں کو دیکھ رہی تھی۔ آج میں فطرت ہی فطرت تھی، ماحول سے مبرا، فضا سے بالاتر۔‘‘
غرض کتاب کیا ہے ایک عجوبہ صورت رندوں کی، سیرت زاہدوں کی، چہرہ پر شوخی و ظرافت کی نقاب، نقاب کے اندر پیشانی پر زہد کے سجدوں کے نشان۔ بیسویں صدی کے ہر نوجوان کے ہاتھ میں جانے کے قابل۔ افسانہ نام کا ’’ناکام‘‘ لیکن ہر اعتبار سے کامیاب۔