سفر حجاز۔۔۔ (۱۹)۔۔۔ احرام پوشی ۔۔۔۔ از: مولاناعبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

03:00PM Sun 18 Jul, 2021

مدینہ میں ذی الحجہ کی تیسری تاریخ یکشنبہ کا دن تھا۔صبح کے آٹھ بج چکے تھے کہ مزور کے یہاں سے اطلاع ملی کہ مکہ معظمہ کے لیے سواری کا انتظام ہوگیا ہے، فوراﹰ روانہ ہوجاؤ۔کیا بیان ہو کہ اس وقت دل کی حالت کیا تھی! ایک طرف یہ احساس کہ مدینہ سے جدا ہونے کی، آستان رسول سے دور ہونےکی گھڑی آگئی، دوسری طرف یہ فکر کہ اب چلنے میں اگر کچھ بھی تاخیر کی! تو حج فوت ہوجانے کا اندیشہ، ٹھہرنے کی تو اب کوئی صورت ممکن نہیں، لیکن چلنے پر دل کو ذوق و شوق کے ساتھ کیونکر آمادہ کرلیا جائے۔پھر مزور کی طرف سے بار بار جلدی کی تاکید اور یہ دھمکی کہ چند لمحوں کی دیر بھی ممکن ہے کہ سواری پر کوئی دوسرا قبضہ کرلے، اور اپنے ہاتھ سے چھین جائے! بہرحال جس طرح بن پڑا جلدی جلدی اسباب باندھا، جوں توں غسل کیا، کپڑے اتارے اور اس قسم کا لباس تھرتھراتے ہوئے ہاتھوں اور کپکپاتے ہوئے دل کے ساتھ زیب تن کیا، جوناسوتی زندگی کے خاتمہ پر امیر، غریب، عالم، عامی، زاہد و فاسق، بڑے اور چھوٹے، ہر مسلمان کے حصہ میں آتا ہے۔آج نہ ٹوپی ہے، نہ عمامہ، نہ عبا ہے نہ شیروانی، نہ  قمیص ہے نہ پاجامہ، صرف ایک چادر ہے اور ایک تہ بند! لباس کی کل کائنات آج صرف یہ دو بے سلے کپڑے ہیں! اللہ کے دربار میں حاضری دینے والوں کی یہ وردی ہے! اللہ ری مشت خاک اور اس کے حوصلے! دیوانوں کو سودا یہ ہوا ہے کہ جو بےنشان ہے، اس کے نشان کا کھوج لگائیں گے۔ باؤلوں کو دھن یہ  سوار ہوئے ہے جو بلامکان ہے اس کے مکان کے چکر کاٹیں گے! عارفوں نے کہا ہے کہ مدینہ کی حقیقت یہ ہے کہ وہ مقام عبدیت ہے، اور مکہ کی حقیقت یہ ہے کہ وہ مقام الوہیت ہے، رسول مکہ سے مدینہ کو آئے تھے، اور رسول ﷺ کے امتی آج حج رسول ہی کے اتباع میں مدینہ سے مکہ جارہے ہیں۔کیا شان حکمت ہے، اور کیا حسن صنعت! اللہ خود ہی اپنے بندوں کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچاتا ہے۔اور پھر رسول ہی اللہ اور اللہ کے گھر کا راستہ دکھاتے ہیں!۔

مدینہ سے حج کے لیے روانہ ہونے والوں کا میقات (احرام باندھنے کا مقام) مدینہ نہیں۔ذوالحلیفہ ہے جو مدینہ سے باہر نکلتے ہی مل جاتا ہے۔بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مسجد نبوی ﷺ میں احرام باندھنا افضل ہے۔یہ صحیح نہیں، خود حضور انور نے ہی حج کو جاتے وقت احرام مدینہ میں نہیں بلکہ شہر سے نکل کر ذوالحلیفہ میں باندھا تھا۔اسے اچھی طرح ذہن نشیں کرلینا چاہیے۔لیکن خیال یہ ہوا کہ قافلہ میں اتنے آدمی ہیں، مرد بھی عورتیں بھی سب کے غسل کرنے کی جگہ پردہ کی احتیاط کے ساتھ وہاں کہاں ملے گی اور پھر لاری والے اتنے آدمیوں کو باطمئنان غسل سے فارغ ہونے کی مہلت کیوں دینے لگے‌؟ اس لیے مناسب یہی معلوم ہوا کہ غسل کرکے احرام یہیں سے پہن لیا جائے۔باقی نیت احرام ذوالحلیفہ ہی سے کی جائیگی گویا باضابطہ احرام وہیں سے بندھے گا۔نفل نماز وہیں پڑھی جائے گی۔اور تلبیہ وہیں سے شروع ہوگا۔احرام کے معنی حرام کرلینے کے ہیں۔اور اسے احرام اس لیے کہتے ہیں کہ بہت سی چیزیں جو پہلے جائز تھیں۔اس کے بعد حرام ہوجاتی ہیں۔اور ان سے رک جانا پڑتا ہے۔اس لیے کوئی شخص محض جامہ احرام پہن لینے سے محرم نہیں ہوجاتا۔بلکہ لازم ہے کہ نیت بھی احرام کی رکھے۔غرض جھٹ پٹ، نہادھو، احرام پہن مسجد نبویﷺ و روضہ اطہر پر رخصت ہونے کے لیے حاضر ہوئے۔رخصتی کا یہ سماں بھی    شاید عمر بھر یاد رہے۔آستانہ کے خادموں کی حسب توفیق کچھ خدمت کی گئی۔ایک ایک سے دعائے خیر کے لیے التجا کی گئی آستانہ پاک پر الوداعی سلام عرض کیا گیا، روضہ جنت میں آخری بار رکوع و سجود کا فخر حاصل کیا گیا۔اور مصلیٰ نبی پر بیٹھ کر دل میں جو کچھ تھا، زبان پر آتا رہا اور پیمبر کے امتی کو جو کچھ عرض کرنا تھا، پیمبر کے رب کے حضور میں عرض کردیا گیا۔

مدینہ سے رخصتی کا منظر بھی ایک خاص منظر ہوتا ہے۔اگر یہ تشبیہ بالکل ہی سوء ادب اور گستاخی میں داخل نہ سمجھی جائے۔تو یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ گویا لڑکی ماں کے گھر سے رخصت ہورہی ہے۔یہ ذہن سے گڑھ کر نہیں کہا گیا۔اپنی رفیقہ حیات کے الفاظ کو دہرایا گیا، دوسروں کے حالات تو سنے سنائے ہیں، مگر اپنے قافلہ والوں کا حال تو دیکھا ہوا ہے کہ آنکھیں آنسؤوں سے لبریز لبوں پر آہیں، چہرے اترے ہوئے، منہ پر ہوائیاں اڑتی ہوئی، بدحواس و پریشان مغموم و منتشر اور دل ہے کہ بھرتا چلا آرہا ہے۔چلتے ہیں اور پھر پیچھے مڑکر دیکھتے ہیں، اور دیکھنے سے جی نہیں بھرتا جی یہی چاہتا ہے کہ یہ منظر کبھی بھی نظروں سے اوجھل نہ ہو، بہانے ڈھونڈتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح کچھ دیر اور رکنا ہوجائے! عموماً سب کا یہی حال کم و بیش رہتا ہے بعض کو غش تک کی نوبت آجاتی ہے، کانوں سے سنا بھی یہی اور آنکھوں سے دیکھا بھی یہی، لیکن ایک قسی القلب اپنے قلب کی قساوت کا کیا بیان کرے، اس کی حالت سب سے الگ۔ اور سب سے مختلف رہی ،روضہ جنت میں مصلیٰ نبی پر دعائیں کرتے وقت تو خیر، قلب میں کچھ رقت رہی بھی، لیکن اس کے بعد اس قسم کی ساری کیفیتیں غائب، رنج و صدمہ الگ رہا، سرے سے جدائی کا احساس ہی نہیں یہ محسوس ہی نہیں ہورہا ہے کہ کسی عزیز جگہ سے بچھڑ رہے ہیں، اور دل میں بجائے ہر اس پریشانی کے ایک طرح کی طمانیت و بشاشت۔۔۔۔کریم کی کریمی کے بھی کتنے ڈھنگ ہیں! کسی کے سینے میں شوق و اشتیاق کے  شعلہ بھڑکائے جارہے ہیں ۔اور کسی کو تسکین و تسلی کی تھپکیاں دیجارہی ہیں! ۔۔۔۔کسی کو یہ صدمہ کہ دیار حبیب چھوٹ رہا ہے۔کسی کو یہ مسرت کہ چھوٹ کہاں رہا ہے وہ تو گویا ساتھ ساتھ چل رہا ہے! ، مدینہ آتے وقت تین لاریاں قبضہ میں تھیں۔ابکی صرف دو ہی ملیں۔مجبوراً انھیں دو پر سامان اور سواریوں کو تقسیم کرنا پڑا۔سامان ہر چند بہت کچھ اونٹوں پر روانہ کردیا تھا۔پھر بھی جتنا ساتھ رہ گیا تھا بہت تھا، اور سامان کی زیادتی یوں تو ہر موقع پر مکلف ثابت ہوتی ہی رہی، لیکن اس وقت خاص طور پر کھل گئی، آتے وقت گرمی بھی ایسی زیادہ تیز نہ تھی، ۹، ۱۰ ؍اپریل تھی، اب موسم بھی اپنے شباب پر آچکا تھا، مئی کی ۱۳ ؍ تاریخ تھی، پھر سفر بھی ٹھیک دوپہر کے وقت شروع ہوا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آتے ہوئے جو دونوں لاریاں ۱۳، ۱۳ سواریوں کی تھی، ان میں سے ایک پر ہم کل دس آدمی تھے، اور دوسری پر گیارہ ، یہ عبد الرحمن الفضل صاحب کی خاص عنایت تھی، ابکی مرتبہ اس شدت ہجوم میں اس رعایت و عنایت کی کوئی گنجائش نہ تھی، شیخ عبد الرحمن الفضل بیچارہ نے اسی رعایت کی گنجائش ابکی بار بھی کی، لیکن کمپنی کےمینیجر علی نے کمپنی کے مالک کی بھی پروانہ کی، اور ہماری لاریوں میں پانچ اجنبیوں کو (جو غالباً یمنی تھے) زبردستی بٹھا کر ۲۶ کی تعداد پوری کردی، ″ صبر وشکر″ نہ سہی خالی صبر کرنا ہی پڑا، اور اس کے سوا چارہ کیا تھا؟۔۔۔ سرکش اور ناشکر گزار بندہ اللہ کے گھر کی حاضری کے لئے چلا ہے، انانیت اور راحت طلبی وتن پروری پھر بھی زندہ! کاش آج تو چار گھڑی کے لئے اپنی بندگی کا احساس ہوگیاہوتا!۔۔۔ ۴؍ ذی الحجہ یوم دوشنبہ کو عین اذان ظہر کے وقت مدینہ منورہ سے نکلے، اور موٹر کے لئے چھ سات میل کا فاصلہ ہی کیا ،دم کے دم میں ذو الحلیفہ پہنونچ گئے جو اہل مدینہ کے لئے میقات یعنی احرام باندھنے کا مقام ہے عام  زبانوں میں اس مقام کا نام بئر علی ہے، علی سے امیر المومنین حضرت علی مرتضیؓ مراد نہیں، کوئی اور صاحب اس نام کے ہوئے ہیں ،حضور انور نے یہیں سے حج کا احرام باندھا تھا، ایک چھوٹی سی مسجد بنی ہوئی ہے اور ایک کنواں اور پانی اور چائے کی ایک آدھ چھوٹی سی دوکان بھی، بس کل اس قدر آبادی ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں ہزار باحاجی احرام باندھتے ہیں، اگریہاںسو دوسو غسل خانے ، زنانہ و مردانہ پانی کے نل کے ساتھ تعمیر  کر دیئے گئے ہوتے تو حاجیوں کو کتنی آسان ہوجاتی ، اور کتنے اللہ کے بندوں کی زبان ہی سے نہیں ، دل سے دعائیں نکلتیں اور حکومت ہرگز زیر بار  نہ ہوتی۔

احرام محض ایک خاص وضع کے کپڑے پہن لینے کا نام نہیں، اس کے بعد بہت سی جائز چیزوں سے رک جانا لازمی ہے ،مثلا منہ اور سر کو ڈھانپنا ، اور عورت کے لیے صرف منہ کا ڈھانپنا، سلے ہوئے کپڑے پہننا ، بد زبانی  کرنا فحش چیزوں کی جانب اشارہ کرنا ،جانوروں کا شکار کرنا ،خط بنوانا ،ناخن ترشوانا ،عطر اور تیل لگانا، وغیرہ ، احرام  ایک طرح کا کفن ہوتا ہے مردوں کا لباس پہن لینے کے بعد حیف ہے اگر انسان اس حد تک بھی اپنے نفس کو مردہ نہ کرلے،  اسی لیے احرام کے  ساتھ  نیت احترام بھی ضروری ہے، طریق  مسنون  یہ ہے کہ پہلے غسل کیا جائے، یا اگر اس میں دشواری ہو تو وضو کافی ہے ، اس کے بعد چادر اورتہمد پہن کر دو    رکعت نماز ادا کرے۔ اور افضل یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ کافر دن اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص(قل ہو اللہ احد ) اس کے بعد جا نماز میں بیٹھے ہی ہوئے حج، یا عمرہ یا دونوں کی نیت اپنے دل میں کرے اور الفاظ ذیل سے بھی ادا کرے،۔″ اللھم انی ارید الحج فیسرہ لی ، وتقبلہ منی، واعنی علیہ ، وبارک لی فیہ نویت الحج واحرمت للہ تعالی″۔ یہ الفظ دعائے احرام حج کے ہیں ، اگر نیت عمرہ کی یا عمرہ وحج دونوں کی ہے تو دعا کے الفاظ میں بھی سی مناسبت سے تھوڑا تھوڑا تغیر ہوجائے گا۔

نیت احرام کی کئی صورتیں ممکن ہیں، ایک یہ کہ محض حج کی نیت کی جائے، دوسرے یہ کہ عمرہ کی نیت کی جائے، تیسرے یہ کہ محض حج اور عمرہ دونوں کی نیت کی جائے ، عمرہ گویا چھوٹا حج ہے جو سال بھر میں جب ( بجز پانچ دنوں کے) اور جتنی بار جی چاہے ، ادا کیا جاسکتاہے، اس کے ضروری ارکان اس قدر ہیں کہ احرام کے ساتھ خانہ کعبہ کا طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرلی جائے، بخلاف اس کے حج سال میں صرف ایک مرتبہ مخصوص وقت پر ہوسکتا ہے، اور اس میں علاوہ دوسرے سنن، مستحبات ، واجبات کے احرام کے ساتھ عرفات میں حاضری اور اس کے بعد خانہ کعبہ کا طواف لازمی ہے، امام شافعی ؒکے نزدیک عمرہ بھی حج ہی کی طرح فرض ہے، حنفیہ کے ہاں فرض نہیں ، البتہ ایک اہم سنت کا درجہ رکھتا ہے۔

جو لوگ حج و عمرہ دونوں ادا کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے یہی دو صورتیں ہیں ، ایک یہ کہ ایک ہی احرام سے عمرہ اور حج دونوں ادا کئے جائیں، یعنی عمرہ سے فارغ ہوکر احرام اتارا نہ جائے اور حج اسی احرام سے ادا کیا جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ عمرہ سے فراغت کرکے احرام اتارہ جائے اور جو چیزیں حالت احرام میں منع ہیں۔ وہ جائز ہوجائیں۔ اور اس کے بعد حج کے لئے از سر نو احرام باندھا جائے۔ پہلی صورت کو فقہاء قِران کہتےہیں اور دوسری اکا اصطلاحی نام تمتع ہے، اور یہ نام غالبا اسی لئے رکھا گیا کہ تمتع کرنے والا، احرام عمرہ اور احرام حج کےد رمیان ان چیزوں سے جو حالت احرام میں ممنوع ہیں متمتع ہوسکتا ہے۔ قِران و تمتع یہ دونوں ہی صورتیں محمود ہیں۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ ان دونوں میں نسبتاً افضل و اشرف کونسی ہے، امام ابوحنیفہ اور جمہور فقہاء حنفیہ کے نزدیک قِران افضل ہے، اور امام مالک اورامام شافعی اور امام احمد کے نزدیک تمتع کو افضلیت ہے۔ ہم لوگوں کے لئے قِران و تمتع میں عملاً کچھ زیادہ فرق نہ تھا، اس لئے کہ ۴ ؍ذی الحجہ کی دوپہر ہوچکی تھی، تمتع کے معنی یہ تھے کہ ۶؍ کی شام تک مکہ معظمہ پہنچ کر طواف وسعی سے فراغت کرکے شب میں احرام اتار دیا جائے، اور آٹھ کی صبح سے حج کے لئے پھر باند لیا جائے اور قِران کی صورت میں احرام مسلسل بندھا رہتا ۔ صرف ایک دن یعنی ۷؍ ذی الحجہ کا فرق دونوں صورتوں کے درمیان  پڑتا تھا۔ ہمارے  قافلہ میں جتنے صاحب ہمت مرد اور عورتیں تھیں ، انہوں نے مولانا مناظر صاحب کی رہنمائی میں قِران کی نیت کی، لیکن ایک کم ہمت کے لئے احرام کی پابندیوں سے ایک دن کی بھی فرصت مل جانا غنیمت تھا، اس لئے اس نے تو تمتع ہی کی نیت کی اور دوچار شخص اس کے ساتھ کے لئے بھی آمادہ ہوگئے۔

مولانا مناظر صاحب کو اللہ نے اپنے فضل وکرم سے ہر موقع پر افضلیت و استحباب کی دولتوں سے سرفراز رکھا، وہ غسل کے بعد اور ہم لوگ تازہ وضو کے بعد  مسجد میں داخل ہوئے، پہلے نماز ظہر ادا کی ، اس کے بعد احرام حج و عمرہ کی نیت کی، دو رکعت نماز پڑھی، اور زبان پر دعا کے وہ الفاظ آئے جو اوپر درج ہوئے ہیں، لیجئے اب پورے محرم ہوگئے، اور تلبیہ اسی وقت سے شروع ہوگیا ، غلام غلاموں کی مخصوص وردی میں ملبوس ہوکر آقا کے مکان کی طرف چلے اور قدم قدم پر آقا    ہی کی تعلیم کئے ہوئے لفظوں میں پکارتے بھی چلے! اور بعض جلیل القدر صحابہ سے بھی الفاظ کا اضافہ منقول ہے، اب ضروری ہوگیا کہہ ہر نماز کے بعد اور اوپر چڑھتے اور نیچے اترتے وقت اور ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت اوردوسری سواریوں کو آتے جاتے دیکھ کر برابر انھیں الفاظ میں اپنے مطلوب اور سب کے مطلوب کو پکارا جایا کرے، مرد کو بلندآواز سے کہنا چاہئے ، لیکن نہ اتنی آواز سے کہ شور وغل سے دوسروں کو تکلیف ہو، ہر موقعہ پر تین بار  تو بہتر ہے ،کافی صرف ایک مرتبہ بھی ہے۔

جگ بیتی اور آپ بیتی میں بڑا فرق ہوتا ہے، ابتک دوسروں کو احرام باندھتے اور احرام باندھے ہوئے دیکھا تھا، خود احرام آج باندھا، ادھر مولانا مناظر صاحب سب کو نمازیں پڑھارہے ہیں دعاؤں کے الفاظ بتا رہے ہیں اور ادھر اپنا دل دھڑکتا جارہا ہے زبان سے جو کچھ ادا ہورہاہے سب سن رہے ہیں، لیکن دل کیا کہہ رہا ہے ؟ دل جو کچھ کہہ رہا ہےاسے کون سنے؟ اسے کون سن سکتا ہے؟ ہاں صرف وہی ایک سن سکتا ہے اور سنتا ہے جوسب کی سنتا ہے، جو نااہلوں اور نادانوں کی سنتا ہے۔ جو مجرموں اور شامت زدوں کی سنتا ہے اور۔″لبیک اللھم لبیک، لبیک لاشریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک″۔  تلبیہ کے یہ الفاظ مسنون وماثور ہیں، امام شافعی ؒکے نزدیک کلمات اذان و تشہد کی طرح اس عبارت میں ہی ، کسی قسم کی کمی بیشی جائز نہیں، لیکن اکثر علمائے حنفیہ نے الفاظ کی رخصت دی ہے۔

جو ان کی سنتا ہے، جن کی کوئی بھی نہیں سنتا! اے سب کے سننے والے! تیرے یہاں محرم کا بڑا درجہ  اور اونچا مرتبہ ہے۔ اس خدائی وردی کو پہن کر اس کے شرائط و آداب کا بجا لانا، کیونکر ممکن ہوگا؟ گناہوں سے بچنا کیوں کر ممکن ہوگا؟ گناہوں سے بچنا کیسے ہوسکے گا؟ تو نے حکم دیا ہے۔″فلا رفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج″۔، ارکان حج تو شروع ہوگئے پر اس کی تعمیل پر کیسے قدر ت ہوگی؟ آنکھ کی احتیاط ار زبان کی احتیاط ہم ایسوں کے بس میں کب ہے؟ مزاج اور زبان پر کس طرح قابو رکھا جاسکے گا؟ جس گھر کو تونے اپنا گھر کہہ کر پکارا ہے۔ اس کا صحن تو تیرے نام پر آگ میں کود پڑنے والے ابراہیم ؑ اور تیری راہ میں اپنے کو ذبح کے لئے پیش کردینے والے اسماعیلؑ کے قابل تھا، جس گھر کو تو نے پاک قرار دیا ہے اس کے درودیوار کو اپنے آنکھوں اور ہونٹوں سے لگانے والے تو صرف تیرے پاک و پاکیزہ نکھرے اور ہونٹوں  سے لگانے والے تو صرف تیرے پاک و پاکیزہ ، نکھرے اور ستھرے بندے ہی ہوسکتے ہیں، جس گھر کی طرف تیرے حبیب اور تیرے بندوں کے سردار نے دن کی روشنی اور رات کی تاریکیوں میں بے شمار سجدے کئے ہیں،اور بے گنتی اوربے حساب بار اپنے سر کو جھکایا ہے، اس کی چار دیواری تو صرف نور کے بنے ہوئے فرشتوں  اور رحمت و مقبولیت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے صدیقین وکاملین کے طواف کے لائق تھی، وہاں آج تو کس کو باریاب کررہاہے؟ کس ننگ خلائق کا دماغ عرش پر پہنچا رہا ہے؟ کس گندہ اور ہر گندگی  سے گندہ تر کی زبان سے لبیک لبیک کہلا رہا ہے؟ یہ بیداری ہے یا خواب ؟ اگر خواب ہے تو ہزاروں بیداریاں اس مبارک خواب پر قربان ! اگر بیداری ہے تو کوئی حقیر و ذلیل ، ناپاک مشت خاک اپنے جذبات کے ظاہر کرنے کے لئے لفظ وعبارت کہاں سے لائے۔