مطالعہ کی میز پر---مولانا ابو الجلال ندوی ۔دیدہ و شنیدہ و خواندہ (2)۔۔ تحریر : عبد المتین منیری

ammuniri@gmail.com
مولانا ابو الجلال ندوی غالبا مولانا حمید الدین فراہمی کے بعد واحدشخص تھے جنہوں نے باقاعدہ عبرانی زبان سیکھی تھی ، اور اہل کتاب کے مقدس اسفار براہ راست پڑھتے اور سمجھتے تھے ، اور کئی ایک علوم میں یکتا تھے ان کو کوئی ثانی نہیں تھا ، ان کی تحقیق کا اہم محور ملت ابراہیم اور حنیفیت کی کھوج تھی ، اور ہندؤوں میں رائج رامائن وغیر ہ مذہبی داستانوں کے تانے بانوں کو فراعنہ مصر سے جوڑنا تھا۔ اور اس سلسلے میں آزاد ہندوستان کے واحد گورنر جنرل اور بقول بعضے ہندوستان کے واحد اسٹیٹسمین راجگوپال اچاریہ (راجہ جی ) کے ساتھ مدراس کے ابتدائی قیام میں گفتگو بڑی ندرت رکھتی ہے ۔
ملت حنیفیہ کی نشان بستی موہنجداڑو سے مولانا کا تعلق مدراس کے قیام میں ہوا تھا ، اس سلسلے میں تاریخی مواد یہیں کے کتب خانوں سے انہیں پہلے پہل حاصل ہوا تھا، مولانا پاکستان ہجرت کے ارادے سے نہیں گئے تھے ، بلکہ موہنجداڑو انہیں اپنی تحقیق مکمل کرنے کے لئے کھینچ لے گیا تھا ، اور حالات ایسے ہوگئے کہ واپس ہندوستان نہ آسکے ، لہذا انہوں نے اپنے تحقیقی کام کے لئے وہاں کی حکومت کے سامنے کاسہ لیسی نہیں کی ۔ دیکھئے مولانا کی بے قدری کا کتنا بڑا نقصان علم و تحقیق کا ہوا ، زرا کتاب کی اس عبارت کو پڑھئے اور سوچئے ۔
﴿ میں تو یہاں اس لئے نہیں آنا چاہتا تھا کہ جس چیز کی میں نے مخالفت کی ہے، اس سے فائدہ کس منہ سے اٹھاؤں ؟ ہم نے پوری کوشش کی تھی کہ ملک تقسیم نہ ہو۔ ہماری مرضی کے خلاف ملک تقسیم ہوگیا ۔ ہم نے تسلیم کرلیا ، پھر اس کی مخالفت نہیں کی ، میں آیا تھا اس لئے کہ مجھ کو موہنجوداڑو کی مہروں پر تحقیق کرنی تھی ، مجھ کو دلی میں روکا گیا کہ یہیں بیٹھ کر تحقیق کیجئے ۔ مولانا آزاد کے سکریٹری جو تھے اجمل خان اور عبد الرزاق ملیح آبادی جو میرے ساتھ پڑھے ہوئے تھے ، وہ روک رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہیں آپ رہئے ، یہیں کام کیجئے ، یہیں آپ کو سب مدد مل جائے گی ۔ کانگریس پوری مدد دے گی ، میں نے کہا ۔۔ ۔
میں کانگریس کی مدد لے کر کاہے کو اپنے کو بدنام کروں۔
مجھے اب افسوس ہوتا ہے کہ میں وہیں رک گیا ہوتا یا مدراس میں رہ گیا ہوتا تو اپنی سب چیزیں شائع کرواسکتا تھا ۔
یہ خواہش ظاہر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ کتاب کو اور مفصل ہونا چاہئے تھا، بعض مزید ضروری معلومات اس میں ہونی چاہئے تھیں ، لیکن پھول نہیں تو پنکھڑی ہی سہی ۔ ہمیں مولانا کے نواسے یحیی بن زکریا صدیقی کی محنتوں کے نتیجے میں منظر عام پرآنے والے مولانا کے علمی آثار کے مجموعے کا انتظار ہے ۔
ہماری ناقص رائے ہے کہ مخدوم مہایمی علیہ الرحمۃ کے تعلق سے تاریخ میں جو کوتاہی ہوئی ، اس کی بنیادی وجہ آپ کا جنوبی ہند سے ہونا ہے ، اور مولانا ابوالجلال صاحب سے بھی بے اعتنائی کا بنیادی سبب آپ کی زندگی کے زیادہ تر ایام کا مدراس (چنئی) میں گزرنا ہے ۔ جس کی ایک وجہ یہاں کے علمی پس منظر کے بارے میں معلومات کی کمی بھی ہوسکتی ہے ۔ لہذا جس طرح مشرقی یورپ کے علمی منظر نامے کا تذکرہ ہوا ، مصنف آپ کے مدراس کے احباب سے مصنف سرسری گزر گئے ہیں ، کچھ یہی حال مولانا پر شاہ محی الحق فاروقی کے خاکے کا بھی ہے ۔ اس سلسلے میں کچھ تفصیلات سامنے آنی چاہئے تھیں،تاکہ معلوم ہوسکے کہ مولانا ابو الجلال صاحب نے جب مدراس کو منتخب کیا تھا ، تو سامنے صرف کشادگی معاش نہیں تھی ، بلکہ مدراس کا علمی ماحول آپ کے مزاج کے لئے کتنا سازگار تھا؟۔چونکہ اس ناچیز نے مدراس (چنئی ) کی اس تلچھٹ کو پایا ہے جو مولانا ابو الجلال مرحوم ہمارے وہاں جانے سے بیس پچیس سال پہلے چھوڑ گئے تھے ، اور وہ شخصیات جنہیں آپ نے عنفوان شباب میں برتا تھا ان میں سے کئی ایک ہمارے زمانہ طالبع علمی میں پیرانہ سالی کے دور سے گزر رہی تھیں ،بر سبیل تذکرہ سرسری طور پر ان کا بھی کچھ تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
جمالیہ عربک کالج کو ۱۸۹۸ء میں ترچناپلی کے ایک صاحب خیر تاجر جمال محی الدین نے قائم کیا تھا،اور انہی کے قائم کردہ وقف سے یہ ادارہ چلتا تھا، اس کے لئے چندہ نہیں ہوتا تھا،جمالیہ کے علاوہ مدراس کی سب سے بڑی جامع مسجد پیریمیٹ آپ کی یاد گار ہے۔ آپ کے فرزند جمال محمد نے ملی خدمت میں بڑا نام کمایا۔مدراس میں جمال محمد ہائی اسکول۔ اور ترچناپلی میں جمال محمد کالج آپ کی یاد گاریں ہیں ۔
حکیم اجمل خان آپ کے خاص دوستوں میں تھے ، جامعہ ملیہ کے کام سے ڈاکٹر ذاکرحسین کو خاص طور پر انہوں نے آپ کے پاس بھیجا تھا، علامہ سید سلیمان ندوی اور علامہ اقبال کے مدراس کے خطبات کے اصل محرک آپ ہی تھے ، دارالعلوم ندوۃ العلماء میں آپ کا تعمیر کردہ جمالیہ ہال آج بھی موجود ہے ۔اس خاندان کی ۱۹۱۸ء سے مسلم لیگ سے وابستگی رہی ، تقسیم ہند کے بعد قائم شدہ انڈین یونین مسلم لیگ کے پہلے صدر قائد ملت محمد اسماعیل مرحوم آپ کے داماد تھے ، اسی طرح آپ کے فرزند جمال محی الدین آزادی کے بعد مسلم لیگ سے ممبر پارلمنٹ رہے ، اول الذکر کے احترام کا یہ عالم تھا کہ پارلیمانی الیکشن کے موقعہ پر وہ کبھی اپنے حلقے میں ووٹ مانگنے نہیں جاتے تھے ، اس کاتذکرہ آصف جیلانی نے جسارت کے اپنے ایک کالم میں بھی تفصیل سے کیا ہے ۔ آپ کے ایک فرزند جمال احمد انگریزی زبان کے شاعر ، چوتھے فرزند جمال حسین مدراس ہائی کورٹ کے جج تھے ۔ جمال محمد کا شمار مدراس کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا ، آپ کے زمانے میں جمالیہ کو وسعت ملی ، یہ گزشتہ تیس سال قبل تک برصغیر کی یہ واحد دینی درسگاہ تھی جہاں پرذریعہ تعلیم عربی تھا،اور ۱۹۶۸تک تو حکومت مصر اپنے خرچہ پر ازہر کے اساتذہ کو یہاں پڑھانے کے لئے باقاعدہ بھیجا کرتی تھی ۔
دیکھا گیا ہے کہ اس قسم کے خاندانی ادارے ان کے قائم کرنے والوں کے معاشی حالات بدلنے کے بعد زیادہ دیر اپنی حالت میں نہیں رہتے ، جمالیہ کے ساتھ بھی یہی ہوا ، جب ہمارا یہاں پر داخلہ ہوا تھا تو اس کا دور زوال شروع ہوچکا تھا ، لیکن اس کا بھرم ابھی باقی تھا، ہندوستان سے مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ کی تیاری سے قبل عمر آباد وغیرہ بڑے تعلیمی ادروں کے فارغین یہاں عربی زبان کا معیار بہتر کرنے کے لئے آتے تھے ، ہمارے زمانے میں یہاںپر اکثریت میلشیا، انڈونیشیا ، سری لنکا ، تھائی لینڈ کے طلبہ کی تھی، چند ایک طالب علم بوسنہ کے بھی تھے جو اس وقت یوگوسلاویا کا حصہ تھا، اول الذکر ممالک میں جمالیہ کی سند کو بڑے وقار کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔جمال محمد ساتھ ساتھ اچھا علمی ذوق بھی رکھتے تھے ، امپورٹ اکسپورٹ کی سہولت اورمدراس کی بندرگاہ کہ اہمیت کے پیش نظر آپ کو لبنان اور مصر سے کتابیں منگوانے کی جو سہولت حاصل تھی اس زمانے میں ایسی سہولت کم ہی لوگوں کو رہی ہوگی ، جمال محمد مرحوم نے باہر ممالک سے خوب نئی نئی کتابیں منگوانئیں ۔ مدت دراز کے بعد وہاں پر ہمیں بھی جو کتابیں ملیں ویسی کتابیں بعد میں کہیں اور پڑھنے کو نہیں مل سکیں۔ ہمارا خیال ہے کہ سرسید احمد خان نے جس طرح علامہ شبلی پر باہر کی نادر کتابوں تک رسائی آسان کی تھی ، کچھ یہی کیفیت جمال محمد کی مولانا ابو الجلال کے ساتھ رہی ہوگی ۔ جمالیہ اسی وجہ سے مولانا کے پاؤں کی بیڑی بنا رہا ۔
ہندوستان میں انگریزوں کی آمد کے ساتھ شہر مدراس علم جدید کا گہوارہ رہا ہے ، انگریزی زبان کا چلن یہاں پر سب سے زیادہ عام تھا ، ۱۹۷۰ء کی دہائی تک جب کہ یہاں ہندی اور ٹامل کا جھگڑ ا شروع نہیں ہوا تھا ، اور ٹامل قوم پرست تحریک حاوی نہیں ہوئی تھی ، مشہور تھا کہ یہاں کا تانگہ اور رکشا چلانے والا بھی انگریزی فر فر بولتا ہے ، لہذا یہاں کی یہ خصوصیت رہی کہ دوسرے علاقوں کے مقابلے میں جدید و قدیم پر یکساں عبور رکھنے والے علماء یہاں پر بہ نسبت دوسرے شہروں کے زیادہ پائے گئے ،جمالیہ کو ساٹھ ستر سال تک مسلسل یہ شرف حاصل رہا کہ اسے یکساتھ فصیح انگریزی اور عربی بولنے والے پرنسپل نصیب ہوئے ، یہاں کے مشہور پرنسپلوں میں ہمارے استاد مولانا عبد الوہاب بخاری تھے جو مدراس کی باوقار پریسڈنسی کالج میں شعبہ تاریخ کے صدر رہے ، آپ کا شمار مسلمانوں کے بڑے عصری تعلیمی اداروں میں سے ایک نیو کالج مدراس کے بانیوں میں ہوتا ہے ۔ مولانا ابوالجلال صاحب کے جانے کے بعد یہی یہاں کے پرنسپل بنے تھے ، مولانا عبد الماجد دریابادی نے آپ کے بارے میں لکھا تھا کہ آپ مسلمانوں میں انگریزی زبان کے سب سے بڑے مقرر ہیں ، اور یہ بھی لکھا کہ ڈاکٹر عبد الحق کرنولی جنوب کے سرسید ہیں تو مولانا بخاری محسن الملک ۔ یہ دونوں یار غار تھے، ڈاکٹر عبد الحق علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے ۔آکسفورڈ کے سند یافتہ تھے، عربی اردو انگریزی پر یکساں عبور تھا ، فسانہ آزاد کی پوری جلدیں پڑھ ڈالی تھیں ۔ زیر تبصرہ کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا مولانا ابو الجلال کے علم پر بڑا اعتماد تھا ۔ یہاں کے ایک اور پرنسپل ہمارے استاد مولانا محمد حسین بنگلوری مرحوم بھی تھے ، دینی علوم میں فضیلت کے بعد آزادی سے قبل پریسیڈنسی کالج سے قانون میں ماسٹر ڈگری یل یل یم حاصل کی تھی ۔ اسلامیہ کالج کرنول میں عرصے تک پرنسپل رہے ، فقہ اور اصول کے امام تھے ، پروفیسریوسف کوکن عمری کے بعد جمالیہ بجھ سا گیا ، ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم کا شمار بھی ایک لحاظ سے مدراس والوں میں ہونا چاہئے ، ان کے والد مولانا خلیل اللہ مدراس ہی سے حیدرآباد گئے تھے ، آپ کے تایا زاد مولانا قاضی حبیب اللہ مرحوم کا تذکرہ مصنف نے کیا ہے ، یہ مدراس کے چیف قاضی تھے ، آپ اردو کے اولین سیرت نگار قاضی بدر الدولۃ کے پوتے اور ڈاکٹر صاحب کے تایا زاد بھائی تھے ، زہد و تقوی کی ایسی مثالیں اب شاید ہی دیکھنے کو ملیں ، اس خانوادے میں گزشتہ پچیس پشتوں سے علم وقضاء چلا آرہا ہے ، شہنشاہ جہانگیر سے ابتک کے بادشاہوں اور فرمارواؤں کے فرامین اس خاندان میں محفوظ چلے آرہے ہیں ، اس خانوادے کا کتب خانہ سعیدیہ حیدرآباد اور کتب خانہ محمدیہ مدراس دنیا کے بڑے قلمی کتب خانوں میں شمار ہوتا ہے ، اور اتنی نسلوں تک جاری ایسے کسی اور علمی خانوادے کی دوسری مثال برصغیر میں شاید ہی ملے۔
مولانا ابو الجلال صاحب نے سید سلطان بہمبی اور نذیر احمد شاکر کے ساتھ روزنامہ مسلمان ۱۹۲۷ء میں جاری کیا تھا،اس پر نوے سال گزر چکے ہیں ، اور آج بھی جاری و ساری ہے ، یہ اس وقت اردو زبان کا سب سے قدیم اخبار ہے، اور پوری دنیا میں ہاتھ کی کتابت سے جاری واحد اخبار۔ مصنف نے مونٹ روڈ پر واقع دربار ہوٹل کا تذکر ہ کیا ہے ، اس زمانے میں ہمارے بھٹکل کے تاجر وں کی ہوٹل اور مدراسی لنگیوں کے کاروبار میں بڑی دھاک تھی۔ چونکہ یہ حضرات اردو سلاست سے بولتے تھے ، تو مدراس ،کیرالا، آندھرا وغیرہ میں شمالی ہند سے آنے والے اہل علم ان سے جلد مانوس ہوتے اور اپنائیت محسوس کرتے تھے ، ان کے ہوٹل ان کے بیٹھنے اٹھنے کے مرکز ہوا کرتے تھے ، دربار ہوٹل جہاں واقع تھا ، یہاں سے مدراس میں اردو بولنے والوں کا علاقہ ٹریپلیکن شروع ہوتا تھا ، مسلمان اخبار کا دفتر قریب ہی میں واقع تھا، ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے خانوادے کا دیوان باغ ، شاہی والاجاہی مسجد ، شاہی محل وغیرہ یہیں اڑوس پڑوس میں واقع تھے ، لہذا ہمارا گمان غالب ہے کہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ سے آپ کا تعارف ابتدائی زمانے ہی کا ہے ۔
سیٹھ یعقوب حسن جن کا ذکر کتاب میں آیا ہے ، اصل ناگپور کے تھے ، لیکن مدراس میں ان کا کاربار تھا ، مسلم لیگ کے ابتدائی لوگوں میں تھے، آزادی سے قبل پہلی مقامی کیبینٹ میں راج گوپال اچاریہ جی کی وزارت علیا کے دور میں وزیر بھی رہے ، اپنی کتاب الہدی کی وجہ سے بھی پڑھے لکھے حلقہ میں معروف رہے ، جمالیہ کے پڑوس ہی میں ان کی کوٹھی تھی ، الہدی کی تصنیف میں مولانا ابو الجلال صاحب کے کاوش ہی زیادہ کار فرما تھے ، اس کا بہت ہی اعلی اور بھاری بھرکم ایڈیشن آج بھی ہماری نظروں کے سامنے ہے ۔
ٓآخر میں یہ تذکرہ کہ جمالیہ اور جمال محمد کی اولاد جمال محی الدین وغیرہ کے مکانات کی قطار کے درمیان جو میدان تھا وہیں پر متحدہ ہندوستان میں جماعت اسلامی کا آخری اجتماع ہوا تھا ، بانی جماعت کا آخری دردمندانہ اور تاریخی خطاب یہیں ہوا تھا۔
احمد حاطب صدیقی نے اپنی اس کتاب کے ذریعہ بھولی بسری اپنے دور کی ایک عبقری شخصیت کو نئی زندگی دی ہے ، اللہ تعالی ان کے قلم میں اور برکت دے ، ان کے تر و تازہ تحریر وں سے اسی طرح فراموش شدہ شخصیات زندگی پاتی رہیں تو اس سے فرض کفایہ تو ضرور ادا ہوگا ۔