بنگلور سے مولانا لطف اللہ صاحب مظہر رشادی صاحب کے انتقال کی خبر موصول ہوئی ہے، اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ آپ حضرت امیر شریعت کرناٹک مولانا ابو السعود احمد باقوی رحمۃ اللہ علیہ کے چوتھے اور سب سے چھوٹے فرزند تھے۔ مولانا مفتی محمد اشرف علی باقوی، مولانا ولی اللہ رشادی، اور قاری امداد اللہ رشادی آپ سے بڑے تھے۔مفتی اشرفعلی صاحب نے جانشین کی حیثیت سے اپنے والد ماجد کے مشن کو آگے بڑھایا، مولانا ولی اللہ مرحوم وانمباڑی کے تاریخی دینی تعلیمی ادارے معدن العلوم کے مہتمم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔قاری امداد اللہ کو اب لوگ کم یاد کرتے ہیں، عین جوانی میں آپ کی وفات ہوئی تھی، بڑے ہنس مکھ اور منلسار تھے، اپنے آواز کی خوبصورتی اور مخارج پر قدرت کی وجہ سے قارئین قرآن میں بڑا مقام رکھتے تھے، ملیشیا اور قراءت کے عالمی مقابلوں میں شریک ہوتے تھے۔ مفتی اشرفعلی صاحب کی تین سال قبل رحلت کے بعد مولانا لطف اللہ صاحب ہی اپنے عظیم والد کی آخری یادگار تھے۔
مولانا لطف اللہ صاحب بڑے با اخلاق اور بار مروت انسان تھے، انہیں دیکھ کر آپ کے والد ماجد کی شخصیت سامنے آتی تھی، بنگلور کی مشہور مسجد قادریہ میں آپ کے پیچھے نماز پڑھنے اور خطبہ سننے کا اتفاق ہوا، اللہ تعالی نے حسن آواز کے ساتھ روحانی اثر سے بھی نوازا تھا، فارسی اشعار کا برجستہ استعمال کرکے اپنے وعظ کے اثر کو دوبالا کرتے تھے۔ سنا ہے مسجد قادریہ سے قبل آپ نے مسجد لبابین میں خدمات انجام دیں، آپ نے دار العلوم صدیقیہ بنگلور می تدریسی خدمات انجام دیں، اور فخر العلوم منڈیا کے مہتمم بھی رہے۔
آپ کی تعلیم پہلے اپنے والد ماجد اور بھائی کے زیر تربیت دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور میں ہوئی ، تکمیل دورہ آپ نے جامعہ مظاہر علوم سہارنپور سے کیا ،ایام حج میں عازمین حج بیت اللہ کی تربیت میں آپ کی کوششوں کی وجہ سے معلم الحجاج کی حیثیت سے آپ کی پہنچان بن گئی تھی۔
امیر شریعت حضرت مولانا ابو السعود احمد علیہ الرحمۃ نے آج سے ساٹھ سال قبل بنگلور میں جو پیڑ لگایا تھا، اس شہر اور اطراف میں آندھرا اور ٹامل ناڈو تک کے علاقے کو بہترین ائمہ وخطیب دینے اور علاقہ کو بدعات و خرافات سے پاک کرنے کے لئے جو جد وجہد کی تھی، اس کا تسلسل جاری ہے، اللہ کی ذات سے امید ہے کہ قیامت تک آپ کی روشن کی ہوئی شمعوں سے شمعیں جلتی رہیں گی، لیکن قانون قدرت کے مطابق آئندہ نسلوں کے لئے موجودہ نسلیں جگہ خالی کرتی جائیں گی، مولانا لطف اللہ مظہر رشادی کی رحلت کے ساتھ حضرت ابو السعود رحمۃ اللہ کا آخری چشم وچراغ بجھ گیا ہے، لیکن آپ کے روحانی چراغوں کی روشنی تادیر باقی رہے گی،اللہ کی ذات سے اس کی امید اور توقع ہے۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ۔