حج کا سفر ۔ شرطِ اول قدم ۔۔۔ (۴) ۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی 

Bhatkallys

Published in - Other

04:39PM Thu 30 Jun, 2022

جن بچاروں کا تعلق کسی نہج سے "پبلک لائف" یا عام انسانوں سے رہا ہے ان کا معاملہ اور بھی سنگین ہے، کتنوں کی دل شکنی کی ہوگی! کتنوں پر چوٹیں کی ہوں گی! کتنوں کی بدگوئی اور غیبت کی ہو گی، مانا کہ یہ سب کچھ پوری نیک نیتی سے کیا ہو گا؛ لیکن نیت کاحال تو صرف نیت کرنے والا ہی جانے گا!! کسی کی نیک نیتی سے جس پر بیت گئی ہمیں تو اسے بھی دیکھنا ہے، پھر عقل و فہم کے تفاوت کی بنیاد پر ایک کی خیر خواہی کو دوسرا اپنے حق میں بدخواہی سمجھ کر بگڑتا اور کڑھتا بھی تو ہے! بے شک خیر خواہی کرنے والا بے قصور، لیکن جس کا دل ٹوٹ گیا اس کی غلط فہمی رفع کرنا اور اس کی دلجوئی کرنا بھی تو معاشرتی فریضہ اور دینی تقاضا ہونا چاہیے۔۔!۔

اخبار سے تعلق رکھنے کی بنا پر عوامی رابطہ کا دائرہ خاصا وسیع ہو جاتا ہے، سینکڑوں سے براہ راست اور ہزاروں لاکھوں سے بالواسطہ ایک ربط قائم ہوجاتا ہے، اب سوچیے تو نباہنے کی ذمہ داریاں کتنی بڑھی چڑھی نظر آئیں گی اور ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں کتنی اونچ نیچ ہوتی رہتی ہوگی!۔

آسان تھا کہ اخبار میں اعلان کرکے ہر ایک سے علانیہ معافی مانگ لی جائے اور حقوق العباد سے پوری طرح سبکدوش ہوکر آگے قدم بڑھایا جائے ۔۔۔ لیکن یہ تجزیہ مشکل ہوگیا کہ نفس کہیں ایک اور فریب میں تو مبتلا نہیں کر رہا ہے؟ واقعی یہ اعلانِ معذرت ہوگا یا دینداری کا ڈھنڈورا ۔۔۔ "حقیر پر تقصیر" "نامہ سیاہ" اور گنہگار وغیرہ کے الفاظ اپنے حق میں لکھنے کا رواج بہت قدیم سہی لیکن یہ فیصلہ کرنا آج بھی مشکل ہے کہ واقعی یہ "انکسار" ہے یا بالواسطہ "تعلّی"۔

غرض اسی کش مکش کی حالت میں جن تک رسائی ہوسکی ان سے زبانی اور جن کو خط لکھ سکے ان سے بذریعہ تحریر ادائیگی حقوق کے سلسلے میں اپنی کوتاہیوں کی عذر خواہیاں کیں، محسوس ہوا کہ بزرگوں نے بڑی فراخ دلی سے چھوٹے کے قصور کو، دوستوں نے دلسوزی سے دوست کی غیر ذمہ داریوں کو، اور شرکائے زندگی نے پوری محبت کے ساتھ اپنے شریک کی کوتاہیوں کو معاف کیا، لیجئے! اپنے حساب ۔۔۔ اس طرح سفر حج کے آداب میں سے ایک بڑا ضروری ادب انجام پاگیا لیکن ایک "کھٹکا" ہے کہ لگا ہوا ہے! خدا جانے اپنی جان چھڑانے کے مارے معاف کرنے والے نے معافی دے دی ہے یا واقعی دل سے معاف کیا ہے ۔۔۔ اور اسی کھٹکے کے ساتھ آگے قدم بڑھانا پڑا۔

یہ کھٹکا بھی ایک خلش بن کر ساتھ رہے تو کیا کہنا! ۔۔۔ خدا نکردہ کہیں یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی کہ حقوق العباد سے پوری طرح سبکدوش ہوچکے تو "نازِ تقوی" کی راہ سے راہزن نفس کو تاخت و تاراجی کے کیسے کیسے مواقع ہاتھ نہ آجائیں گے، یہ جو بزرگان دین کا مشہور قول ہے "انکسار العاصيين احب الى الله من صورۃ المطيعين" (اطاعت گزار بندوں کی تمکنت سے کہیں زیادہ گنہگار بندوں کا عجز و انکسار اللہ تعالی کو محبوب ہے) تو وہ اسی غلط فہمی میں مبتلا ہونے سے بچانے کی ایک کوشش ہے، مجذوب مرحوم نے اسی مفہوم کو پیش کیا ہے؂ نازِ تقوی سے پھر اچھا ہے نیازِ رندی

جاہِ زاہد سے پھر اچھی مری رسوائی ہے

اس راہ کی سب سے بہتر متاع یہی ہے کہ ہر پہلو سے اپنی "بے کمالی" کے کمال کا اعتراف کرتا چلا جائے، جیسے اندھا لکڑی کے سہارے قطع مسافت کرتا ہے تو ہر دیکھنے والا راہ گیر اس کی نابینائی پر ترس کھا کر خطرے کے مقام پر اس کا ہاتھ پکڑ کر مقامِ خطرہ سے اسے دور کر دیتا ہے؂

نہ تمتعت زدینا نہ زدیں نصیب مظہر

بغنون بے کمالی چہ قدر کمال داری

ڈھیر بھر سامان تو بندھا بندھایا رکھا ہی تھا، اپنے حساب سے حقوق العباد کے بار سے کسی حد تک سبکدوشی جو ہوگئی تو ظاہری سامان کا وزن جیسے کچھ کم محسوس ہونے لگا اور چل کھڑے ہونے میں ایک ترنگ اور امنگ کی کیفیت جلوہ فرما نظر آئی۔

ہنسی خوشی ماثور دعائیں پڑھتے پڑھاتے گھرسے باہر قدم رکھا، سامان بھی باہر آیا اور خدا حافظ کہنے والے بھی اکٹھا ہوگئے؛ لیکن ابھی ایک حقدار کے حق کی ادائیگی باقی تھی! ۔۔۔ وہ تھی محلے کی مسجد ۔۔۔ یہ بھی آداب سفر حج میں ہے کہ گھر سے برآمد ہوکر سفر پر روانہ ہونے سے پہلے محلے کی مسجد میں جا کر دو رکعت نفل پڑھے اور مسجد سے اسی طرح رخصت ہو جس طرح عزیزوں اور رشتہ داروں سے رخصت ہوا جاتا ہے اور مسجد سے ان کوتاہیوں کی جو حق مسجد کے سلسلے میں سرزد ہوتی رہی ہیں بالکل اسی طرح معافی مانگے جیسے دوست احباب سے فروگزاشتوں کی معافی چاہی تھی۔

اتفاق سے گھر سے برآمد ہونے کا وقت عصر سے کچھ پہلے کا تھا جس وقت نفل پڑھی جاسکتی ہے ۔۔ مسجد جاکر دو رکعت نفل پڑھی اور خدا جانے کیوں مسجد سے رخصت ہوتے وقت آنکھیں اشکبار ہوگئیں، جب کہ قریب ترین عزیز سے رخصت ہوتے یا حقوق کی معافی چاہتے وقت بھی یہ کیفیت پیدا نہیں ہوئی تھی۔

اس بحث میں کیوں پڑا جائے کہ سفر پر روانگی کے لئے کون سا دن "مبارک" ہوتا ہے، صرف اتباع سنت اور ارشاد نبوت کے پہلو سے "بارك الله فی السبت والخميس" (سنیچر اور جمعرات کے دنوں میں اللہ برکت عطافرمائے) کو پیش نگاہ رکھتے ہوئے ہمارے قافلے کی روانگی جمعہ کا دن گزار کر سنیچر کی شام کو ہوئی (شرعی پہلو سے رات آنے والے دن کی تابع ہو اکرتی ہے)

اپنے محلے سے رخصت ٤/بجے سہ پہر کو ہوئے تھے، اپنے بزرگوں کے مدفن، باغ مولانا انوارؒ (رکاب گنج) سے پیرانِ سلاسل، باپ دادا اور اساتذہ کی قبور کی زیارت اور ایصال ثواب کے بعد قبل مغرب روانگی ہوئی، چار باغ ریلوے اسٹیشن پر مغرب کی نماز پڑھی جس کے چند لمحوں بعد بمبئی اکسپریس سے ہمارا کارواں ۱۹ مارچ ۱۹۶۵ کو  روانہ ہوگیا  ۔

پیشکش: شکیل احمد مئوی