اچھے دن آ گئے!..........مگر کس کے؟! ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
گزشتہ لوک سبھاالیکشن سے پہلے ، الیکشن کے دوران اور الیکشن کے فوری بعد جیسے بھی مناظر رہے ہوں اور یار لوگوں نے مودی مہاراج کے ’’اچھے دن آنے والے ہیں ‘‘ جیسے شلوگن سے جس قسم کی بھی خوش گمانیاں پال رکھی ہوں، لیکن دل کی آنکھیں اور دماغ کی کھڑکیاں کھلی رکھنے والوں کے لیے کبھی بھی یہ کوئی معمہ نہیں رہا کہ ’’اچھے دن‘‘ کس کے آنے والے ہیں۔
یہ آر ایس ایس کی سرکار ہے ! : اور جب اب کی بار مودی سرکار کا نعرہ عملی طور پر سچ ثابت ہوگیاتواسی وقت ہوشمندوں نے کے ذہن و دل پرمستقبل کا نقشہ واضح ہوگیا تھا۔ اوردہلی کی سرکارپر ناگپور کی لگام والی بات بالکل صاف ہوگئی تھی۔ اگر بالفرض اس وقت کسی کے دل میں یہ وہم تھا کہ یہ بی جے پی کی سرکار ہے، توکم از کم اب یہ وہم دور ہوگیا ہوگا۔اور یہ بات صاف سمجھ میں آگئی ہوگی کہ بی جے پی کی نہیں بلکہ راشٹریہ سویم سنگھ کی سرکار ہے۔ آزادی کے بعدآر ایس ایس نے پہلے جن سنگھ اور پھر بعد میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے ہندوستان پر حکومت کے جو خواب دیکھے، اس کے لیے جس طرح کی جد وجہد کی، جس طرح کے تجربے کیے، ان سب کی فصل اب کاٹی گئی ہے۔یہ ایک سچائی ہے کہ کئی ناکام تجربوں کے بعد اب جاکرسنگھ نے اپنی منزل مقصود پا لی ہے۔جس کے بعداپنے تحفظ اور اپنی بقا ء کے حوالہ سے اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کی تشویش فطری اور لازمی ہوگئی ہے۔پہلے اگر کوئی یہ بات کہتا تودل کو بہلانے کے لئے لوگ کہتے تھے کہ یہ محض ایک مفروضہ ہے،اورخواہ مخواہ خوف میں مبتلا کرنے کے لیے نہیں ایسی باتیں کی جاتی ہیں۔مگر آج یہ خیال ایک خوفناک سچائی بن کر سامنے آچکا ہے۔
بی جے پی کی حکومت پہلے بھی تھی : اب کی بار مودی سرکار بنی تولوگ کہتے تھے کہ بی جے پی توسنگھ کا سیاسی بازوpolitical wing ہمیشہ سے رہی ہے۔اور اس سے پہلے بھی ماضی میں بی جے پی کی حکومت بن چکی ہے۔ اس دوران تو ملک گیر سطح پرایسی کوئی تشوشناک صورتحال پیدا نہیں ہوئی تھی۔(حالانکہ گجرات کانڈ تو اسی دور میں ہوا تھا!) پھر اب خواہ مخواہ’’بھیڑیا آیا، بھیڑیا آیا‘‘ کا شور مچانے کی ضرورت اور فائدہ کیا ہے؟ ....حالانکہ اُس وقت انہیں جان لینا چاہیے تھا کہ پہلے بی جے پی اقتدار پر قابض ضرور ہوئی تھی، مگر این ڈی اے کی شکل میں درجنوں پارٹیوں کے اشتراک کے کانٹے میں پھنسی ہوئی تھی ۔ اور اپنا ہندتوا(اینٹی مسلم) کارڈ کھیل نہیں پا رہی تھی۔ دوسرے اس وقت اٹل بہاری واجپائی جیسے لوگ قیادت کر رہے تھے جن کی آنکھوں کا پانی کبھی مرا نہیں تھا، اور اگلے وقتوں کی کچھ مروتیں اور انسان دوستی کی قدریں ان میں زندہ تھیں۔
جن لوگوں کی یادداشت ابھی کمزور نہیں ہوئی ہے، انہیں یہ بات ضرور یاد رہے گی کہ اس وقت بھی بی جے پی کے اعلیٰ لیڈروں نے بارہاکھلم کھلا اس کا اظہار کیا تھا کہ وہ ہندتوا کے ایجنڈے او ر اس سے جڑے اہم ترین ایشیوز مثلاً کامن سول کوڈ،شاندار رام مندر(بابری مسجد کے مقام پر) اورآرٹیکل 370کی منسوخیسے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔سیاسی اشتراک کی مجبوری کے پیش نظراسے صرف ٹھنڈے بستہ میں رکھا گیا ہے۔جب بھی مکمل اکثریت کے ساتھ تنہابی جے پی اقتدار پر آئے گی، تب بیک برنر پر رکھے گئے ان ایشیوز میں ابال ضرورلایا جائے گا۔
سنگھ چاہتا کیا ہے؟ : آر ایس ایس نے جو اپنے انڈے اور چوزے مختلف ٹوکریوں میں رکھتے ہوئے ایک پریوار کی شکل میں زندگی کے تمام محاذوں پر اپنے فداکار تعینات کر رکھے ہیں، اس کا منشاء صرف اور صرف اس ملک میں رام راجیہ قائم کرنااور اسے ایک ہندو راشٹر قرار دینا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ
جسے جاننے کے لیے ریسرچ کرنے کی ضرورت ہو۔ سنگھ کے نظریہ ساز( ideologue)گولوالکر، ساورکر اورہیڈگیوار وغیرہ کی تحریریں اس سلسلہ میں صاف اورواضح نقشہ پیش کرتی ہیں۔اور اس بات پر بھی کوئی پردہ نہیں ہے کہ اس ہندوراشٹر میں اقلیتوں کا مقام کیا ہوگا اور ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ یہ تو ایک دو ٹوک پالیسی کی صورت میں تحریری طور پر موجود ہے۔ فی الحال اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ اس پالیسی کے پس منظر میں آج نہیں تو کل یہاں پر اقلیتیں، اور خاص طورپر مسلمانوں کاعملاً دوسرے درجہ کے شہری بن جانا طے ہے۔اس کے ساتھ قومی تفاخرnational prideکے طور پر جب ہندو کلچراور شخصیات کی سربلندی کا جادو سر چڑھ کر بولے گا، تو پھر ماضی کو درست کرنے کے نام پر مسلم کلچر، مسلم شخصیات اور علامات کی جو درگت بننی ہے ، سو وہ الگ ہے ہی۔اب یہ جو ’’ سب کی خوشحالی ہو، کسی کی خوشامد نہ ہو‘‘ یا پھر "سب کا ساتھ سب کا وکاس" والے حکومت کے نئے منترجو سنائے گئے تھے،اگر کوئی اسے صرف دکھانے کے دانت نہ سمجھے تو اس عقل پر ماتم نہ کریں تو کیا کریں ! کیونکہ اقتدار پر قابض ٹولے کا بس ایک ہی منتر ہے:
ہر ایک پھول میں میرے لہو کی رنگت ہے
مگر اسے ہے یہ دعویٰ کہ باغ اس کا ہے
انتخابی مہم کا اختتامی پیغام : حالانکہ پوری انتخابی مہم نام نہاد ترقی اورکرپشن فری ہندوستان کی تعمیر کے لالی پاپ دکھا کر چلائی گئی۔ کانگریس کو ملک کی معاشی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ، اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کاسبق پڑھایا گیا اور ’’آنے والے اچھے دنوں‘‘کا نشہ ایسا چڑھایا گیا کہ سنہرے خوابوں کا وعدہ ایک طوفان بن گیا، جس کے نتیجہ میں باقی تمام سیاسی کشتیاں بھنور کا شکار ہوگئیں اور سنگھ کی نیّادیکھتے ہی دیکھتے صحیح سلامت اوربڑے شاندار طریقہ سے پار لگ گئی۔لیکن اگر اس انتخابی مہم کا گہرائی سے از سرنو جائزہ لیں تومحسوس ہوگا کہ اس کا جال بڑی ہی چالبازی اور مکاری سے بنا گیا تھا۔ ایک طرف کانگریس کی گھپلے بازیوں سے عوام تنگ آ چکے تھے، جسے کیش کرنا ضروری تھا۔دوسری طرف ایک سپنوں کا سوداگر تھاجس کی اپنی جھولی میں سانتا کلازکی طرح دل کو بہلانے والے کھلونے اور تحفے ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا تھا۔ جو عوام کے سر پر سوار ہوکر "من کی بات" کرنے کا آرٹ جانتا تھا۔ تو ظاہر ہے کہ زندگی کی تلخیوں سے اکتائی جنتا کے بیچ اس کے حق میں ہوا بننی ہی تھی۔
پھرجب یہ ہوا آندھی کا رخ اختیار کرنے لگی، عوام کے ذہنوں کوپوری طرح مسحورmesmeriseکر لیا گیااور پولنگ کا مرحلہ قریب آگیا ، تو اسی ہنگامہ کے دوران کمال ہوشیاری کے ساتھ عوام کو ایک لمحہ کے لیے بھی غور کرنے کا موقع دئے بغیر سنگھ اور بی جے پی کے مختلف گوشوں سے ہندتوا کے اصل ایجنڈے (رام مندر، کامن سول کوڈ ،آرٹکل 370 اور گؤ کشی پر پابندی )پر عمل درآمدکے اشارے دئے جانے لگے۔ اورسیکولر حلقوں سے کسی بھی قسم کا ردعمل سامنے آنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔
(۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔دوسری اور آخری قسط ملاحظہ کریں)
haneefshabab@gmail.com