ہے کتنی مختصر مری رودادِ تشنگی

Bhatkallys

Published in - Other

11:31AM Thu 7 Apr, 2016
حفیظ نعمانی 02 اپریل کی شام کو مغرب کی نماز پڑھ کر فارغ ہوا تھا کہ برادر عزیز رضوان فاروقی تشریف لے آئے۔ پھر دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ اتنے ہی میں ایک فون آیا وقار رضوی صاحب کی آواز تھی۔ وہ شکایت کرنے لگے کہ کل امام حرم محترم تشریف لارہے ہیں اور رضوان فاروقی نیز ڈاکٹر ہارون رشید دونوں غائب ہیں۔ کل ہمارے سنّی بھائیوں کو شکایت ہوگی کہ اودھ نامہ نے وہ نہیں کیا جو امام حرم محترم کے استقبال میں کرنا چاہئے تھا۔ میں نے بتایا کہ میاں رضوان فاروقی تو میرے پاس بیٹھے ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ امام محترم کو ویزا تو دے دیا گیا ہے لیکن اب ان کے پروگرام میں لکھنؤ نہیں ہے۔ وہ برابر کہتے رہے کہ نہیں ان کا پروگرام ہے اور میرے پاس دعوت نامہ آیا ہے۔ ہم نے سہارا اور انقلاب کی خبر سنائی کہ دونوں میں لکھنؤ نہیں ہے۔ لیکن وہ نہیں مانے۔ میں نے کہہ دیا کہ میں ندوہ سے معلوم کرکے ابھی بتاتا ہوں۔ اور میں نے ندوہ کے مہمان خانہ کا نمبر ملایا۔ جس کسی نے بھی اٹھایا اس سے عرض کیا کہ میں حفیظ نعمانی بات کررہا ہوں کل امام حرم محترم کا کیا پروگرام ہے؟ جس نے بھی جواب دیا اس نے کسی سے معلوم کرکے نہیں، بلکہ میری بات ختم ہوتے ہی کہا وہ لکھنؤ نہیں آرہے۔ پٹنہ وٹنہ آرہے ہوں گے۔ میں نے فوراً وقار صاحب سے کہا کہ ندوہ کی اطلاع ہے کہ تشریف نہیں لارہے ہیں۔ میاں رضوان سے پھر باتیں ہونے لگیں۔ چند منٹ کے بعد پھر وقار صاحب فون پر تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں اب اخبار کے دفتر میں ہوں۔ یہاں لوگ اشتہار دے گئے ہیں جن میں استقبال کے لئے کہا گیا ہے۔ اور میرے نام کا دعوت نامہ بھی رکھا ہے۔ آپ کچھ لکھوا دیجئے۔ کون نہیں جانتا کہ میں باہر کی دنیا سے کٹا ہوا ہوں۔ غرض یہ کہ رات گذری اور صبح کو اخباروں میں تشریف آوری کی خبر نظر سے گذری۔ خیال ہوا کہ سرکاری مہمان خانہ میں یا تاج میں قیام ہوگا۔ اور دارالعلوم ندوہ کو خبر نہیں کی گئی ہوگی۔ کیونکہ پروگرام صرف عیدگاہ کا تھا۔ اور جب 04 اپریل کی صبح کو اخباروں پر نظر پڑی تو معلوم ہوا کہ امام محترم ہوائی اڈہ سے سیدھے دارالعلوم تشریف لائے۔ سہارا کے الفاظ میں۔۔۔ اموسی ایئرپورٹ سے سیدھے ندوۃ العلماء پہونچے جہاں ناظم ندوۃ العلماء مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے ان کا شایانِ شان خیرمقدم کیا۔ سہارا کی خبر میں ہی بتایا گیا ہے کہ ندوہ کی مسجد میں ظہر کی نماز کے بعد امام محترم نے طلباء اور معززین سے خطاب بھی کیا۔ جس میں انہوں نے ندوہ کی بیش بہا خدمات کو سراہتے ہوئے تقویٰ اختیار کرنے اور اللہ سے ڈرنے کی ترغیب دی۔ انہوں نے فرمایا ہمیں آپس کے اختلاف سے بچنا چاہئے۔ چاہے وہ فقہی اختلاف ہو۔ ہم تاریخ پر نظر ڈالیں کہ ائمہ اربعہ میں آپس میں کیسی محبتیں تھیں۔ کیسا قرب تھا۔ اختلاف بالآرا کے باوجود آپس میں کیسی محبتیں نظر آتی ہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ امام شافعیؒ کے شاگرد ہیں۔ امام شافعیؒ امام مالکؒ کے شاگرد ہیں اور امام مالکؒ نے محمد بن شیبائیؒ سے علم حاصل کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آرا کے اختلاف کے باوجود آپس میں کیسی محبتیں تھیں۔ میرا پوری اُمت مسلمہ اور خاص طور سے ندوہ کے طلباء کے لئے یہ پیغام ہے کہ اگر آپ کے اندر فقہی اختلاف ہو تو وہ اختلاف عداوت اور نفرت میں تبدیل نہ ہونے پائے۔ امام حرم نے عربی میں تقریر کی اور تبوک سے آنے والے مولانا ظفرالدین نے اس کا ترجمہ کیا۔ امام محترم نے اب تک ہر جگہ دہشت گردی کی مذمت میں تقریر فرمائی ہے جو بیشک وقت کا اہم مسئلہ ہے۔ لیکن ندوہ میں جو تقریر فرمائی وہ اُمت مسلمہ کے درمیان اتنا اہم مسئلہ بن گیا ہے۔ ہم شکایت تو کسی سے کر نہیں سکتے لیکن حیرت کا اظہار تو کرسکتے ہیں کہ 02 اپریل کی رات تک ندوہ کو خبر نہیں تھی کہ امام صاحب لکھنؤ آرہے ہیں؟ اگر اس وقت ہمیں معلوم ہوجاتا تو صرف اودھ نامہ میں نہیں ہر اخبار میں عام مسلمانوں سے درخواست کرتے کہ وہ ظہر کی نماز ندوہ میں پڑھیں اور اس کا شہر میں اعلان بھی کرادیتے۔ اس لئے کہ جس موضوع پر امام محترم نے دارالعلوم کے طلباء کو خطاب کیا وہ شاید اس لئے کہ یہ مسئلہ سعودی عرب کی دانش گاہوں میں بھی ہے اور دارالعلوم میں ہو یا نہ ہو شہر میں اس کی بدنما شکلیں سامنے آرہی ہیں۔ میرے چھوٹے بھائی سجاد میاں جنہیں لوگ مولانا سجاد نعمانی کے نام سے جانتے ہیں جب مدینہ میں جامعہ میں پڑھ رہے تھے۔ اس وقت انہوں نے ذکر کیا تھا کہ جامعہ میں ہم حنفیوں کے ساتھ مقامی طلباء کا رویہ اچھا نہیں ہے۔ انہوں نے ہی سنایا تھا کہ حضرت مولانا علی میاں تشریف لائے تو ہم حنفیوں نے شکایت کی۔ اس کے بعد حضرت مولانا نے زبردست تقریر کی جس کا موضوع وہی تھا جو ندوہ میں بعد ظہر امام حرم محترم کا تھا۔ یاد آتا ہے کہ اس وقت شہر میں ایسی آواز کبھی نہیں سنیں کہ اگر کسی نے آمین (بالجہر) کہہ دیا تو مسجد میں ہی آواز گونجی کہ کون ہے جو نماز میں خلل ڈال رہا ہے؟ یا آپ فلاں مسجد میں جاکر نماز پڑھ لیا کریں۔ دنیا کا وہ کون مسلمان ہے جس کے دل میں امام حرم محترم کی عظمت و محبت نہیں ہے۔ یہ وہ امام ہیں جن کے پیچھے ہر مسلک اور عقیدہ کا مسلمان نماز پڑھنا سعادت سمجھتا ہے۔ اگر پروگرام معلوم ہوجاتا تو کم از کم پچاس ہزار مسلمان اس اہم تقریر کو سن لیتے۔ اور اگر ندوہ کے مہمان خانہ سے وہ جواب نہ ملتا کہ پٹنہ وٹنہ آرہے ہوں گے تو ہم کم از کم اودھ نامہ میں سب سے زیادہ نمایاں اس بات کو کرتے کہ مسلمان ظہر ندوہ میں پڑھ لیں اور امام محترم کی تقریر سن لیں اور مغرب عیدگاہ میں پڑھیں اور سنیں کہ امام صاحب کیا فرما رہے ہیں؟ اب تک مسجدوں کی تقسیم کچھ اس طرح تھی کہ یہ سنیوں کی مسجد ہے، یہ شیعوں کی اور یہ بریلویوں کی۔ اب اہل حدیث کی بھی مسجد سنا ہے الگ ہوگئی ہے حرم محترم کے امام صاحب نے غالباً ندوہ میں اس موضوع پر اس لئے خطاب فرمایا کہ فقہا کا اختلاف ان لڑکوں کے سامنے ہوتا ہے۔ اگر یہ خطاب جلس�ۂ عام میں بھی ہوجاتا تو لکھنؤ میں اٹھتی ہوئی اختلاف کی دیوار سے شاید ایک طبقہ کی دلچسپی کم ہوجاتی۔ اور آمین بالجہر، رفع یدین، اور جماعت کی نماز میں مقتدی کی قرأت کی بحث میں کچھ کمی آجاتی۔ خیر جو ہونا تھا ہوگیا اب لکیر پیٹنے سے کیا حاصل؟ لیکن اگر اتنا بھی ہوجائے کہ یہ تقریر اگر کسی نے ریکارڈ کی ہو تو اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہی ہوجائے۔ اس لئے کہ یہ جو ایک نئی دیوار اٹھ رہی ہے۔ یہ بھی فتنہ نہ بن جائے۔ عالم اسلام اور سعودی عرب میں جو مقام ندوہ کا ہے وہ کسی اور کا تو کیا ہوتا دارالعلوم دیوبند کا بھی نہیں ہے۔ اور اس سے علماء کرام اور ائمہ عظام کے تعلق کا ہی مظاہرہ تھا کہ مولانا رابع صاحب کے ایئرپورٹ پر نہ ہونے کے باوجود امام صاحب سیدھے ندوہ تشریف لائے اور روانہ ہونے سے پہلے فجر کی نماز کی امامت انہوں نے ندوہ میں کی۔ بہرحال جو ہوا اچھا نہیں ہوا۔ زیادہ اچھا یہ ہوتا کہ مغرب کی نماز وہ عیدگاہ میں پڑھاتے۔ لیکن تین تاریخ کو ظہر اور چار کی صبح کو فجر کی اطلاع عام مسلمانوں کو مل جاتی۔ اس سے نقصان تو کسی کا نہ ہوتا فائدہ لاکھوں مسلمانوں کا ہوجاتا۔