ترکی میں نیا آئین اسلامی ہوگایا سیکولر ؟

Bhatkallys

Published in - Other

04:51AM Thu 5 May, 2016
ڈاکٹر فر قان حمید عالمِ اسلام کے ممالک میں ترکی واحد ملک تھا جس نے سلطنتِ عثمانیہ کے منہدم ہونے کے بعد اپنے انتظامی ڈھانچے کی بنیاد سیکولرازم پر رکھی اور پھر یہ ملک دیگر اسلامی ممالک کے لئے رول ماڈل ثابت ہوا۔ مصطفیٰ کمال اتاترک نے 1923ء میں جب جدید جمہوریہ ترکی کی بنیاد رکھی تو اس وقت ترکی میں نام نہاد مذہب پرستوں نے مذہب کے نام پر غیر ملکیوں کے ساتھ ساز باز کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا جس سے ملک میں فرقہ واریت کو ہوا مل رہی تھی جس کے نتیجے میں تین براعظموں پر پھیلی ہوئی سلنطت ِ عثمانیہ صفحہ ہستی ہی سے مٹ گئی اور ترک صرف اناطولیہ تک محدود ہو کر رہ گئے ۔یہ اتاترک ہی تھے جنہوں نے اناطولیہ کے باشندوں کو اپنی قیادت تلے جمع کرتے ہوئے آزادی کی جنگ شروع کی اور جس کی ہندوستان اور پاکستان کے مسلمانوں نے دل کھول کر نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ اپنا سب کچھ اتاترک اور اس کے سپاہیوں پر قربان کردیا تھا۔اتاترک نےاس وقت ملک کے باشندوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے اورفرقہ واریت کو ختم کرنے کے لئے سیکولرازم کا سہارا لیا جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ اتاترک کے بعد آنے والی حکومتوں نے سیکولرازم کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا اور ایسے ایسے اقدامات اٹھائے جس سے سیکولرازم کے معنیٰ ہی تبدیل ہو کر رہ گئے۔ عصمت انونو سے لے کر موجودہ حکومت سے قبل تک ملک میں سیکولرازم کے نام پر مذہبی لوگوں پر ظلم و ستم کئے گئے، ان پر نوکریوں کے دروازے بند کردئیے گئے اور ہیڈ اسکارف پہننے والی لڑکیوں کو یونیورسٹیوں میں داخلہ دینے ہی سے روک دیا گیا جس سے سیکولرازم ظلم و ستم کی علامت سمجھا جانے لگا حالانکہ یہ نام نہاد سیکولر ازم تھا جسے غلط مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا بالکل اسی طرح جس طرح طالبان اور داعش نے مذہب کا نام اپنے غلط مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے۔ تاہم ترکی کی موجودہ حکومت نے سیکولرازم کے چہرے پر لگے اس دھبے کو دھونے کی کوشش کی ہے اور اس کا صحیح چہرہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ایردوان ہمیشہ ہی سیکولرازم پر اس کی روح کے عین مطابق عمل درآمد کرنے کا پرچار کرتے رہے ہیں۔وہ صرف سیکولرازم کو اپنے ملک تک ہی محدود کرنے کے خواہاں نہیں بلکہ اسے تمام جمہوری اسلامی ممالک میں متعارف کروانے کے بھی خواہاں ہیں۔ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں ترکی میں سیکولرازم کے نام پر طویل عرصے ظلم و ستم کیا جاتا رہا۔2002 میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (آق پارٹی) کے بر سراقتدار آنے کے بعد حالات نے پلٹا کھانا شروع کیا اور نام نہاد سیکولر حلقے( نام نہاد سیکولر حلقے سے مراد وہ حلقہ ہے جو سیکولرازم کو اپنے مقاصد کی تکمیل اور اسے صرف مذہبِ اسلام کے خلاف استعمال کرتا رہا ۔ اگرچہ اس حلقے کو عوام میں زیادہ پذیرائی تو حاصل نہ تھی لیکن اس حلقے نے آق پارٹی کے اقتدار سے قبل تک عوام کو ناکوںچنے چبوانے اور اقتدار پر اپنی گرفت قائم کئے رکھی) اس نام نہاد حلقے کی کارستانیوں کی وجہ سے ترک مسلمان ( یہاں مراد مذہبی حلقے سے نہیں بلکہ عام اور سادہ مسلمان سے ہے جو ترکی میں واضح اکثریت میں ہیں ) سیکولر ازم کے بارے میں شک و شبہات میں مبتلا ہوگئے اوراسی وجہ سے انہوں نے ایردوان کی آق پارٹی کو بڑی تعداد میں جوائن کیا اور یوں انہوں نے آق پارٹی کو اقتدار دلوایا ۔ ایردوان نے برسر اقتدار آنے کے بعدسیکولرازم کے نام پر روا رکھے جانے والے ظلم و ستم کو ختم کروایا اورعام مسلمانوں کو ان کے حقوق دلوا کر اپنے طویل اقتدار کی بنیاد رکھ دی۔ انہوں نے ہیڈ اسکارف پہننے والی خواتین کیلئے نہ صرف یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے دروازے مکمل طور پر کھول دئیے بلکہ ان کو سرکاری اداروں میں ملازمت کے مواقع دینےکے ساتھ ساتھ ہیڈ اسکارف والی خواتین کو وزیر مقرر کرکے سیکولر حلقوں کے مذہب اسلام سے متعلق تنگ نظریات کو پاش پاش کردیا ۔ اگرچہ آق پارٹی اپنے قیام سے اب تک سیکولرازم پر اس کی اپنی اصل روح کے مطابق عمل درآمد کرتی چلی آئی ہے لیکن اب آہستہ آہستہ اس جماعت کے اندر سے ملک میں سیکولر آئین کی جگہ اسلامی آئین تشکیل دینے کی آوازیں بھی بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں ترکی کی قومی اسمبلی کے اسپیکر اسماعیل قہرمان نے کہا کہ" ترکی کا آئین اسلامی آئین ہونا چاہئے"۔ انہوں نے نئے دستور میں بنیادی تبدیلیوں کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔ اسپیکر کے مطابق نئے دستور میں ترک قوم کا تشخص اور شناخت ایک اسلامی قوم کے طور پر ہونا ضروری ہے۔ ان کے خیال میں نئے دستور میں سیکولر قواعد و ضوابط کو قطعاً شامل نہیں کیا جانا چاہئے اور یہ ضروری ہے کہ دستور کی اساس مذہب پر ہو۔ ترکی ایک اکثریتی مسلمان ملک ہے، جہاں تمام اہم مذہبی ایام پر سرکاری طور پر چھٹی منائی جاتی ہے اور ریاست اسلام کی بطور دین حمایت بھی کرتی ہے۔ اسپیکرقہرمان نے ان خیالات کا اظہار ایسے وقت میں کیا ہے جب پورے ملک میں نئے دستور میں تبدیلیوں سے متعلق بحث و تمحیص جاری ہے۔ ترکی کے معاشرے میں سیکولرازم اور اسلام ازم کی ایک بہت بڑی فالٹ لائن موجود ہے اور پارلیمانی اسپیکر نے ایک بارپھر اس فالٹ لائن کو واضح کر دیا ہے۔ترکی کی اسلامی شناخت کو اجاگر کرنے کے خواہشمند لوگوں کا موقف رہا ہے کہ چونکہ ترکی کی 97 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے لہذا اس کے آئین میں اس کی جھلک نظر آنی چاہئے۔ ترکی کے سابق وزیراعظم ، موجودہ صدراو ر آق پارٹی کے بانی ایردوان کافی عرصے سے ترکی کے لئے ایک نئے دستور کے حوالے سے بحث کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ موجودہ دستور سن 1980 کی فوجی بغاوت کے بعد متعارف کروایا گیا تھا اور اِس کی شناخت سیکولر اصولوں پر متعین کی گئی تھی۔ یہ اصول جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کے پیش کردہ تصور کے عکاس ہیں۔ اس دستور کی ایک انتہائی اہم شق میں درج ہے کہ ری پبلک آف ترکی ایک جمہوری، سیکولر اور فلاحی ریاست ہے جہاں قانون کی حکمران ہو گی۔ ابھی تک دستور کی سیکولر نظام والی شق کو ناقابلِ تنسیخ تصور کیا جاتا رہا ہے لیکن اب نئی آوازیں اِس کے خلاف بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ اسپیکر اسمبلی کے اس بیان نے ملک میں تہلکہ مچادیا تاہم ترک وزیراعظم احمد داؤداولو نے ملک میں نئے آئین سے متعلق بیان دیتے ہوئے لوگوں کے غم و غصے کو کم کرنے کی کوشش کی ۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ملک کے نئے آئین میں سیکولر اصولوں کو ہی ملحوظ رکھا جائے گا۔وزیراعظم کے بیان کے بعد صدر ایردوان نے اسپیکراسمبلی جو ان کے دستِ راست بھی سمجھے جاتے ہیں کے بیان کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسپیکر اسمبلی کی شخصی اور ذاتی سوچ ہے۔متعدد حلقوں کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسماعیل قہرمان کا بیان دراصل لوگوں کے ردِ عمل کو جاننے کیلئے تھااور اس ردِ عمل کے بعد ہی آقپارٹی ملک کے نئے آئین کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی۔ نئے آئین کی تیاری کے بارے میں بحث و مباحثے کے طویل عرصے تک جاری رہنے کی توقع کی جارہی ہےکیونکہ ملک کےزیادہ تر مذہبی حلقے بھی ایک سیکولر آئین تیار کرنے کے حق میں ہیں کیونکہ ایک سیکولر آئین ہی ملک کو فرقہ بندی اور انتہا پسندی سے دو رکھ سکتا ہے۔