ستمبر 29: معروف شاعر محسن بھوپالی کا یومِ پیدائش ہے

Bhatkallys

Published in - Other

02:45PM Sat 30 Sep, 2017
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اردو کے معروف شاعر محسن بھوپالی کی تاریخ پیدائش 29 ستمبر 1932ء ہے۔ محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرحمن تھا اور وہ بھوپال کے قریب ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگپور میں پیدا ہوئے تھے۔ 1947ء میں وہ اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان آگئے اور لاڑکانہ میں سکونت پذیر ہوئے۔ این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کرنے کے بعد وہ 1952ء میں محکمہ تعمیرات حکومت سندھ سے وابستہ ہوئے۔ اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی 1993ء تک جاری رہی۔ اسی دوران انہوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ محسن بھوپالی کی شعر گوئی کا آغاز 1948ء سے ہوا۔ ان کی جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں ان میں شکست شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گرد مسافت، قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعہ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقد سخن شامل ہیں۔ محسن بھوپالی کویہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کئے گئے تھے۔ وہ ایک نئی صنف سخن نظمانے کے بھی موجد تھے۔ محسن بھوپالی اردو کے ایک مقبول شاعر تھے ۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے کئی قطعات اور اشعار ضرب المثل کا درجہ حاصل کرگئے تھے خصوصاً ان کا یہ قطعہ توان کی پہچان بن گیا تھا اور ہر مشاعرے میں ان سے اس کے پڑھے جانے کی فرمائش ہوتی تھی۔ تلقین صبر و ضبط وہ فرما رہے ہیں آج راہ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے نیرنگیٔ سیاست دوراں تو دیکھیے منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے 17 جنوری 2007ء کو محسن بھوپالی دنیا سے رخصت ہوئے اورکراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکستِ شب۔1961ء ہماری جان پہ دہرا عذاب ہے محسن کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے ماجرا۔1981ء تمہیں آسائشِ منزل مبارک ہمیں گردِ مُسافت بہت ہے گردِ مسافت۔1988ء ۔۔۔۔۔۔۔۔ تردید کی سب خبریں اخبار سے ملتی ہیں اخبار کی تردیدیں دیوار سے ملتی ہیں کیا نثر میں رکھا ہے جُز مدح و ثنا محسن اب کام کی باتیں بھی اشعار سے ملتی ہیں منتخب کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری میں نے دل کی بات رکھی اور تونے دنیا والوں کی میری عرض بھی مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو کچی مٹی تو مہکے گی، ہے مٹی کی مجبوری ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو مہربلب جبرِ وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبوری جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے، سب اپنے ہیں وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے مصنوعی مجبوری مدت گزری اک وعدے پر آج بھی قائم ہیں محسن ہم نے ساری عمر نبھائی اپنی پہلی مجبوری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملے تھے خوف سے، بچھڑے ہیں اعتماد کے ساتھ گزار دیں گے اِسی خوشگوار یاد کے ساتھ یہ ذوق و شوق فقط لُطفِ داستاں تک ہے سفر پہ کوئی نہ جائے گا سِندباد کے ساتھ زمانہ جتنا بکھیرے، سنوَرتا جاؤں گا ازل سے میرا تعلق ہے خاک و باد کے ساتھ اُسے یہ ناز، بالآخر فریب کھا ہی گیا مجھے یہ زعم کہ ڈُوبا ہوں اعتماد کے ساتھ بڑھا گیا مرے اشعار کی دلآویزی تھا لُطفِ ناز بھی شامل کِسی کی داد کے ساتھ گزر رہی ہے کچھ اِس طرح زندگی محسن سفر میں جیسے رہے کوئی گردباد کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لب اگر یوں سئے نہیں ہوتے اُس نے دعوے کئے نہیں ہوتے خُوب ہے، خُوب تر ہے، خُوب ترین اِس طرح تجزیئے نہیں ہوتے گر ندامت سے تم کو بچنا تھا فیصلے خُود کئے نہیں ہوتے بات بین السّطوُر ہوتی ہے شعر میں حاشئے نہیں ہوتے تیرگی سے نہ کیجئے اندازہ کچھ گھروں میں دیئے نہیں ہوتے ظرف ہے شرطِ اوّلیں محسن جام سب کے لیے نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روشنی ختم ہوئی، اہلِ نظر باقی ہیں جنھیں دستار میّسر ہے، وہ سَر باقی ہیں کاٹ لیتے ہیں کبھی شاخ ، کبھی گردنِ دوست اب بھی چند ایک روایاتِ سفر باقی ہے اپنے ہمسایوں کا غم بھی ہے اور اپنا غم بھی ہے اِس تگ و دو میں غنیمت ہے کہ گھر باقی ہیں سخت جانی کی بھلا اِس سے بڑی کیا ہو مثال بےشجر شاخ ہے اور برگ و ثمر باقی ہیں ہو مبارک تمہیں تخلیق پہ تمغے کی سند میرے حصے کے ابھی زخمِ ہُنر باقی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یُونہی تو شاخ سے پتے گِرا نہیں کرتے بچھڑ کے لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے جو آنے والے ہیں موسم، اُنہیں شمار میں رکھ جو دن گزر گئے، اُن کو گنا نہیں کرتے نہ دیکھا جان کے اُس نے ، کوئی سبَب ہوگا اِسی خیال سے ہم دل بُرا نہیں کرتے وہ مل گیا ہے تو کیا قصۂ فِراق کہیں خُوشی کے لمحوں کو یُوں بے مزا نہیں کرتے نِشاطِ قُرب، غم ہجر کے عوض مت مانگ دُعا کے نام پہ یُوں بددُعا نہیں کرتے مُنافقت پہ جنہیں اِختیار حاصل ہے وہ عرض کرتے ہیں ، تجھ سے گِلہ نہیں کرتے ہمارے قتل پہ محسن یہ پیش و پس کیسی ہم ایسے لوگ طلب خُون بہا نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدن تو جل گئے، سائے بچا لئے ہم نے جہاں بھی دُھوپ ملی، گھر بنا لئے ہم نے اُس امتحان میں سنگِین کِس طرح اُٹھتی دُعا کے واسطے جب ہاتھ اُٹھا لئے ہم نے کٹھن تھی شرطِ رہِ مسُتقیم، کیا کرتے ہر ایک موڑ پہ کتبے سجا لئے ہم نے ہمارے بس میں کہاں تھا کہ ہم لُہو دیتے یہی بہت ہے کہ آنسُو بہا لئے ہم نے سمندروں کی مسافت پہ جن کو جانا تھا وہ بادباں سرِ ساحل جلا لئے ہم نے بڑے تپاک سے کچھ لوگ ملِنے آئے تھے بڑے خلُوص سے دُشمن بنا لئے ہم نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زخم خوردہ تو اُسی کا تھا سپر کیا لیتا اپنی تخلیق سے میں دادِ ہُنر کیا لیتا وہ کِسی اور تسلسل میں رہا محوِ کلام میری باتوں کا بھلا دل پہ اثر کیا لیتا اُس کو فرصت ہی نہ تھی نازِ مسیحائی سے اپنے بیمار کی وہ خیر خبر کیا لیتا ایک آواز پہ مقسُوم تھا چلتے رہنا بے تعیّن تھا سفر، رختِ سفر کیا لیتا سازِ لب گُنگ تھے، بےنُور تھی قندیلِ نظر ایسے ماحول میں الزامِ ہنر کیا لیتا بےنیازانہ رہا اپنی روش پر محسن شب پرستوں سے بھلا فالِ سحر کیا لیتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنا آپ تماشا کر کے دیکھوں گا خُود سے خُود کو مِنہا کر کے دیکھوں گا وہ شعلہ ہے یا چشمہ، کُچھ بھید کُھلے پتھر دل میں رستہ کر کے دیکھوں گا کب بچھڑا تھا، کون گھڑی تھی، یاد نہیں لمحہ لمحہ یکجا کر کے دیکھوں گا وعدہ کر کے لوگ بُھلا کیوں دیتے ہیں اب کے میں بھی ایسا کر کے دیکھوں گا کتنا سچا ہے وہ میری چاہت میں محسن خُود کو رسوا کر کے دیکھوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقت کی رَو کو حقیقت نہ سمجھ لیجئے گا اِس سیاست کو سیاست نہ سمجھ لیجئے گا یہ تعلق ہے ابھی وجہِ تعلق تو کُھلے ملِنے جُلنے کو محبت نہ سمجھ لیجئے گا یہ بھی ممکن ہے سنبھلتا نہ ہو دستار کا بوجھ سر جُھکانے کو عقِیدت نہ سمجھ لیجئے گا جاگتی آنکھوں اگر خواب نظر آتے ہوں اُن کی تعبیر کو وحشت نہ سمجھ لیجئے گا ایک ہی کھیل تو ہے جس میں نہیں جاں کا زیاں دل کی بازی کو سیاست نہ سمجھ لیجئے گا عرض کر سکتا ہوں مَیں بھیک نہیں مانوں گا میری خواہش کو ضرُورت نہ سمجھ لیجئے گا یہ تو پیرایۂ اِظہارِ سُخن ہے محسن میری عادت کو ارادت نہ سمجھ لیجئے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا وہ شخص لہجہ بڑا دل نشین رکھتا تھا ہے تار تار مرے اعتماد کا دامن کِسے بتاؤں کہ میں بھی اِمین رکھتا تھا اُتر گیا ہے رگوں میں مری لہُو بن کر وہ زہر ذائقہ انگبین رکھتا تھا گُزرنے والے نہ یُوں سرسری گُزر دل سے مکاں شِکستہ سہی، پر مکین رکھتا تھا وہ عقلِ کُل تھا بھلا کِس کی مانتا محسن خیالِ خام پہ پُختہ یقین رکھتا تھا