282 کی طاقت کے بعد بھی ایسی بے بسی؟

Bhatkallys

Published in - Other

05:45AM Mon 25 Apr, 2016
حفیظ نعمانی آزادی کے چند سال کے بعد جن سنگھ نے 25 برس تک اور بی جے پی بننے کے بعد 35 برس یہ کہا کہ ہمارے ہاتھ میں اگر حکومت آجائے تو ہم بے ایمانی اور بدعنوانی ایسے ختم کریں گے کہ اس کے راستے ہی بند کردیں گے۔ اور نہرو گاندھی پریوار یہ چاہتا ہی نہیں کہ بھرشٹاچار ختم ہو۔ وہ اس لئے کہ وہ خود دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہا ہے اور ان کی سرپرستی کررہا ہے جو خود بھی کھا رہے ہیں اور اس پریوار کو بھی کھلا رہے ہیں۔ عمربھر کا تجربہ ہے کہ قدرت کی طرف سے ہر کسی کو ڈھیل دی جاتی ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ آدمی کا بڑبولاپن اس کے سامنے آجاتا ہے۔ جن سنگھ تو اپنی زندگی گذارکر اپنوں کے ہاتھوں ہی ختم ہوگئی اور اس کا نشان دیپک بھی غائب ہوگیا۔ لیکن قدرت نے بی جے پی کو پہلے چھ سال موقع دیا اور اب دو سال سے اقتدار ان کے ہاتھ میں ہے۔ اور ان 23 مہینوں میں وہ صرف اتنا کرسکے کہ انہوں نے نعرہ لگایا کہ نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا۔ ایسا ہی نعرہ جیسا ہر بازار کی بند دُکانوں کے چوکیدار رات کے وقت دُکان کے پٹروں پر سوتے رہتے ہیں اور جس کی آنکھ کھل جاتی ہے وہ نعرہ مارتا ہے کہ ’’جاگتے رہو۔‘‘ اور پھر سوجاتا ہے۔ ایسی نہ جانے کتنی باتیں ہیں اور کتنے وعدے ہیں جنہیں یاد کر کرکے کروڑوں لوگ منھ کا ذائقہ خراب کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں بس وہ تقریر ہر وقت یاد آتی ہے جو پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں پہلی تقریر تھی اور جس میں داغی ممبروں کو ایک سال کے اندر جیل بھیجنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ لیکن وہ بھی ایسا ہی اعلان ثابت ہوا جیسا سو دن میں کالا دھن لانے کا کیا گیا تھا۔ اور ایک داغی امت شاہ کو بی جے پی کا قومی صدر بناکر اور ایک گیارہ سنگین مقدمات میں ماخوذ کو اُترپردیش بی جے پی کا صدر بناکر ثابت کردیا کہ جو جتنا بڑا داغی ہے وہ نریندر مودی کو اتنا ہی پیارا ہے۔ بی جے پی کے بڑے بڑے لیڈروں نے یہ بھی کہا تھا کہ ملک کو جن راستوں پر انگریز چلاتے تھے اس پریوار نے بھی اسی پر چلایا اور غلامی کا ثبوت دیا۔ اگر ہمیں موقع ملا تو ہم ہر نقش کہن کو مٹا دیں گے اور انڈیا کو بھارت بنا دیں گے۔ اٹل جی تو چھ برس ان ہی راستوں پر چل کر اپنے انجام کو پہونچ گئے۔ ان کے چاہنے والوں نے کہہ دیا کہ وہ کوئی بڑی تبدیلی اس لئے نہ کرسکے کہ بی جے پی کو مکمل اکثریت حاصل نہیں تھی۔ قدرت نے اس بار 282 سیٹیں بی جے پی کو دے کر یہ کہنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا کہ کوئی تبدیلی کیسے کریں کہ مکمل اکثریت ہمارے پاس نہیں ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پہلے یہ چاہا کہ راجیہ سبھا کو بانجھ بنا دیں بس وہ تالی بجایا کرے۔ لیکن اس میں انہیں شرمندہ ہونا پڑا تو انہوں نے ریاستی الیکشن میں اپنے کو جھونک دیا کہ راجیہ سبھا میں اپنی اکثریت بنالیں لیکن ان کی ذہنیت نے ہی عوام کو بھڑکا دیا اور انہیں یقین ہوگیا کہ راجیہ سبھا میں اکثریت وہ حاصل نہ کرسکیں گے تو انہوں نے صدر جمہوریہ کو استعمال کیا اور پہلے اروناچل اور بعد میں اُتراکھنڈ کی حکومت کا سرقلم کردیا۔ اُتراکھنڈ بہت چھوٹے صوبوں میں سے ایک ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس کا ہائی کورٹ بھی اسی سائز کا ہے لیکن اس کے چیف جسٹس بہرحال جج ہیں اور ایسے جج ہیں جو جانتے ہیں کہ ان کی طاقت اور ان کے اختیارات دستور نے انہیں کتنے دیئے ہیں؟ انہوں نے اپنی ترقیوں اور حکومت کی خوشنودی کو جوتی کی نوک پر رکھ کر پہلے گورنر صاحب کو پھر مرکزی حکومت کو اور اب صدر جمہوریہ کو بھی بتا دیا کہ عدلیہ کے بڑے جج کے پاس کتنے اختیارات ہوتے ہیں؟ مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے سالیسٹر جنرل مسٹر مہتا نے جب ہائی کورٹ کے فاضل جج سے کہا کہ صدر جمہوریہ کے فیصلے پر کورٹ کو دخل دینے کا حق نہیں ہے تو محترم جج نے کہا کہ صدر جمہوریہ کوئی شہنشاہ نہیں ہیں۔ حیرت ہے کہ حکومت یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ صدر جمہوریہ جو کچھ بھی کہتے اور کرتے ہیں وہ اپنے اختیار سے کرتے ہیں اور وہ ہر فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں جبکہ حکومت اتنے بھونڈے طریقہ سے انہیں ایک کلرک کی طرح استعمال کرتی ہے جیسے وزیر اپنے سکریٹریوں کو بھی نہ کرتے ہوں گے۔ یہ انتہائی گھٹیا بات صرف مودی سرکار ہی نہیں کررہی کانگریس بھی کرتی رہی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ نہ جانے کتنے لوگوں نے جن میں ایک ہم بھی ہیں ہمیشہ کہا ہے کہ کروڑوں روپئے ماہوار ایسے عہدے پر کیوں خرچ کئے جارہے ہیں جو کابینہ اور وزارت داخلہ کے احکام پر عمل کرنے کا پابند ہے؟ ہمیں یقین ہے کہ شری پرنب مکھرجی جیسا منجھاہوا سیاست داں اگر خود فیصلہ کرتا تو وہ اُتراکھنڈ میں صدر راج ہرگز نہ لگاتا اس لئے کہ یہ طے ہوچکا ہے کہ حکومت کی اکثریت اور اقلیت کا فیصلہ ہاؤس کے اندر ہی ہوسکتا ہے۔ لیکن مودی سرکار 282 ممبروں کے ہوتے ہوئے بھی اپنی من مانی نہ کرپانے کی جھنجھلاہٹ میں اپنا ہی گریبان پھاڑے ڈال رہی ہے۔ اور یہ اس کی ناتجربہ کاری کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک کے درجنوں ہائی کورٹ آج تک جو نہ کرسکے وہ ایک بہت چھوٹے صوبہ کے ہائی کورٹ نے کر دکھایا کہ حکومت کو بھی اس نے کٹہرے میں یہ کہہ کر کھڑا کردیا کہ صدر کابینہ کے فیصلہ پر عمل کرتا ہے اور 70 برس میں شاید پہلی بار صدر محترم کو بھی کہہ دیا کہ وہ کوئی شہنشاہ معظم نہیں ہیں جن کے منھ سے نکلے ہوئے الفاظ قانونی ہوں۔ اب تک ہائی کورٹ ہائی یعنی بلند اور مرتبہ میں اونچے ہونے کے باوجود حکومت پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کرتے تھے۔ ہوسکتا ہے انہیں اس بار محسوس ہوا ہو کہ اگر ہم نے ایسے سنہرے موقع پر بھی جمہوریت کو بچانے کی کوشش نہیں کی تو پھر آنے والے تین برسوں میں جمہوریت کی ارتھی شعلوں کی نذر کردی جائے گی۔ یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے کہ آر ایس ایس کے نزدیک نہ سیکولرازم کوئی چیز ہے اور نہ جمہوریت۔ وہ بات تو رام راج کی کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ملک کو ایک ہزار سال پہلے والا بھارت بنانا چاہتا ہے۔ وہ 21 ویں صدی میں بھی اپنے لاکھوں ماننے والوں کے لباس کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہے کہ اب تک کالی ٹوپی سفید قمیص خاکی نیکر اور ہاتھ میں 6 فٹ کی لاٹھی۔ جبکہ اب لاٹھی بھینس اور بیل کو ہنکانے والے بھی رکھنا پسند نہیں کرتے۔ خدا ہائی کورٹ کے ان دونوں ججوں کو ہر بلا سے محفوظ رکھے اور ہائی کورٹ کے ہر جج کو توفیق دے کہ وہ ایسے فیصلوں میں وہ کریں جس سے کروڑوں دلوں میں ان کی عظمت نقش ہو اور یہ نہ دیکھیں کہ حکومت کے ماتھے پر بل تو نہیں آیا؟ حیرت کی بات ہے کہ حکومت سپریم کورٹ جانے کے بارے میں سوچ رہی ہے جبکہ جج صاحبان نے اپنا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں ہی کیا ہے۔ فون نمبر: 0522-2622300 خخخ