ستمبر 26: غلام بھیک نیرنگ کا یوم پیدائش ہے

از: ابوالحسن علی بھٹکلی
غلام بھیک نیرنگ دورانہ، تحصیل و ضلع انبالہ میں 26 ستمبر 07 رمضان المبارک 1876ء کو پیدا ہوئے ۔ اصل نام غلام محی الدین تھا۔جسے دورانہ سے قریب ایک مقام ٹھسکہ کے ایک صوفی بزرگ جناب میراں بھیکھ سے عقیدت کی نسبت سے تبدیل کر کے غلام بھیک رکھا گیا ۔ نسبتاً سید تھے ۔ غلام بھیک نیرنگ کے جد اعلٰی سید عبدالکریم رضوی ترمذ سے آ کر 800ھ میں دورانہ مقیم ہوئے ۔ اس وقت سے یہ مقام غلام بھیک نیرنگ کا آبائی وطن ہے ۔ غلام بھیک نیرنگ کو میر نیرنگ بھی کہا جاتا ہے ۔ میر نیرنگ کے دادا سید فتح علی علوم دینیہ اور عربی و فارسی زبانوں کی تدریس کے لحاظ سے اپنے علاقہ میں خاصے مشہور تھے ۔ میر نیرنگ کے والد سید قاسم علی ایک نیک طینت اور دین دار بزرگ تھے اور اپنے علاقہ میں عزت و احترام حاصل تھا ۔
میر نیرنگ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ دینداری اور شعائر اسلامی سے عبارت تھا ۔ روحانیت اور تصوف کے مشاغل عام تھے ۔ خاندان کے بزرگوں سے وابسہ متعدد کرامات خاندان میں زبان زد عام ہیں ۔ گو میر نیرنگ نے والد کی صحبت سے زیادہ عرصہ تک فیض نہیں اٹھایا لیکن فقر و قناعت اور مذہب سے قلبی لگاؤ تھا ان کے والد اور ان کے خاندان کے عام اثرات کو ظاہر کرتے ہیں ۔اپنے والد کے روحانی تصرفات اور ریاضتوں اور مجہادوں کا اثر ان کی زندگی میں سخت کوشی ، قومی اور ملی مسائل سے نبرد آزمائی ، جذب و شوق اور جہد مسلسل صفات کی صورت میں نظر آتا ہے ۔ وہ زندگی بھر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مسلسل سعی و کاوش میں مصروف رہے ۔
میر نیرنگ کا بچپن کسی امتیازی خصوصیت کا حامل نہیں تھا ۔ یہ عام بچوں کی مانند گزرا ۔ کوئی غیر معمولی یا کوئی انوکھا واقعہ اس دور سے یادگار نہیں ہے ۔ شرافت اور پاکبازی جو ان کے خاندان اور ان کے موحول کا خاصہ تھا ، ان کا بچپن بھی اسی سے عبارت رہا ۔
درسِ قرآن ، دینی علوم سے ابتدائی واقفیت اور ابتدائی عربی و فارسی کی تعلیم گھر ہی پر حاصل کی ۔ قرآن کی تعلیم والدہ ماجدہ نے دی اور اس کے بعد چچا زاد بھائی سید غلام شبیر سے علومِ دینیہ اور عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی ۔
ابتدائی گھریلو تعیلم و تربیت کے بعد مروجہ تعلیم کے لیے دورانہ میں انتظام نہ ہونے کی وجہ سے انھیں ٹھروہ بھیجا گیا ، جہاں ایک مڈل سکول موجود تھا ۔ یہ قصبہ چونکہ دورانہ سے بہت قریب تھا اس لیے میر نیرنگ دورانہ سے روز سکول کے لیے جاتے تھے ۔ یہ مشقت ان کی کم سنی کے لحاظ سے بہت زیادہ تھی ۔ اور پھر ایسی روایتیں بھی موجود ہیں کہ میر نیرنگ حصول علم میں اس قدر مستغرق رہتے تھے کہ گھر کے شوروغوغا سے بچنے کے لیے گھر سے باہر نکل جاتے اور رات گئے تک کسی مسجد میں بیٹھے چراغ کی روشنی میں محوِ مطالعہ رہتے ۔ ٹھروہ کے بعد میر نیرنگ انبالہ کے میونسپل بورڈ ہائی سکول میں داخل ہوئے ۔ پھر انگریزی سیکھنے کے شوق کی تکمیل انبالہ کی تحصیل جگادھری کے مشن ہائی سکول اور انبالہ کے مشن ہائی سکول اور گورنمنٹ ہائی سکول لدھیانہ میں کی ۔ اپنے ذوق اور لگن کی وجہ سے انٹرنس کے امتحان میں ، جو انھوں نے مشن ہائی سکول انبالہ سے 1895ء میں دیا ، وہ پنجاب یونیورسٹی میں اول آئے ۔ یہ کامیابی ان کی اعلٰی ذہانت اور محنت کا واضح ثبوت تھی ۔
میر نیرنگ کے معاشی حالات ، والد کی وفات کے باوجود بہت خراب نہیں تھے ۔ والد کی وفات کے بعد ان کے ایک چچا سید ہاشم علی رضوی نے ان کی تعلیم و تربیت اور دیکھ بھال کا فریضہ اپنے ذمہ لیا ۔ کفالت کے لیے آبائی زمین موجود تھی ، اس کی دیکھ بھال بھی وہی کرتے تھے ۔ زندگی آسائشوں سے بے نیاز اور خودداری اور سلیقے کے ساتھ گزرتی رہی ۔ انٹرنس میں کامیابی کے بعد اس زمانہ کے عام رواج کے مطابق نوجوانی ہی میں شادی کر دی گئی ۔ ان کے چچا سید منصب علی رضوی کی دختر ان کے عقد میں آئیں ۔ وہ ایک پاکباز ، سادہ مزاج ، وفا شعار اور سلیقہ مند بیوی بیان کی جاتی ہیں ۔
۔۔۔
میر نیرنگ انٹرنس میں کامیابی کے بعد اسی سال 1895ء گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے ۔ یہاں بہت جلد کئی لائق چلبہ ان کے دوست بن گئے ، جن میں علامہ اقبالؒ ، چوہدری جلال الدین وغیرہ سرفہرست رہے ۔ میر نیرنگ نے امتیازی حیثیت میں بی اے کا امتحان بھی کامیاب کر لیا تو انھیں ایم اے کے لیے وظیفہ مل گیا ۔ اس عرصہ میں ان کے معاشی حالات نے انھیں مضطرب کیے رکھا ۔ اور خصوصاً ان کے دو چھوٹے بھائیوں کی تعلیم کی ضرورت نے مزید تحصیل علم کے شوق کو مسدود کر کے انھیں مجبور کیا کہ وہ اپنے روزگار کے لیے بھی سوچیں چنانچہ انھوں نے بی اے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ قانون کے دو امتحان بھی پاس کر لیے ۔ وہ چاہتے تھے کہ قانون کا آخری امتحان بھی کامیاب کر لیں تاکہ وکالت کر سکیں ۔ اس لیے صرف اس مقصد سے کہ انھیں وظیفہ ملتا رہے ، انھوں نے ایم اے میں داخلہ لیا گر چونکہ انھیں احساس تھا کہ شاید وہ حصولِ علم کی خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکیں گے اس لیے انھوں نے ایم اے کے لیے ایسے مضمون یعنی عربی کا انتخاب کیا ، جس میں اساتذہ کو ان کی بے توجہی محسوس نہ ہو اور وہ صرف قانون کے امتحان کی تیاری میں مصروف رہیں ۔ اب تک وہ لاہور میں گورنمنٹ کالج کے " بورڈنگ ہاؤس" میں رہتے تھے ، لیکن مالی تنگ دستی کی وجہ سے اخراجات میں کمی کی خاطر ایک دوست کے شریکِ مکان و طعام ہو کر موری دروازہ میں ایک بالا خانہ میں رہنے لگے ۔ اور اس کے بعد اورینٹیل کالج کے " بورڈنگ ہاؤس" واقع حجوری باغ( متصل شاہی مسجد و قلعہ) میں منتقل ہو گئے اور وہیں سے قانون کا آخری امتحان دیا ۔ انھوں نے یہ امتحان 1899ء میں کامیاب کر لیا اور 1900ء کی ابتداء میں انبالہ میں وکالت شروع کر دی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1901ء میں انبالہ کے میونسپل کمشنر منتخب ہئے ۔ 1909ء تک وہ وکالت کرتے رہے ۔ 1909ء میں وکالت ترک کر کے سرکاری وکیل کی حیثیت سے " پبلک پراسیکیوٹنگ انسپکٹر " کے عہدہ پر فائز ہو گئے ۔ 1920ء تک اس فریضہ کو انجام دیتے رہے ۔ لیکن ترک موالات کے نتیجہ میں اس عہدہ کو چھوڑ کر دوبارہ وکالت شروع کر دی اور قیامِ پاکستان تک پنجاب ہائی کورٹ سے منسلک رہے ۔
۔۔۔۔۔
میر نیرنگ کا عرصہ ملازمت ( 1909ء تا 1920ء) ان کی قومی اور تعلیمی سرگرمیوں کے لحاظ سے ان کے لیے رکاوٹ کا باعث نہ رہا ۔ اس عرصہ میں ان کی قومی خدمات کا بڑا حصہ مسلمانوں کی تعلیمی ترقی پر مرکوز رہا ۔۔۔
1920ء میں انھوں نے نے سرکاری ملازمت سے استعفٰی دے دیا اور زیادہ آزادی اور مستعدی کے ساتھ قومی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے ۔ یہ زمانہ ہندوستان میں مسلمانوں کی نہایت بھرپور اور ولولہ انگیز تحڑیک خلافت میں انھوں نے بہت مستعدی اور سرگرمی کے ساتھ شرکت کی ۔ تحریکِ خلافت کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے جو تحریک موالات شروع کی گئی تھی ۔ میر نیرنگ دوسرے لاتعداد اور پرخلوص مسلمانوں کی طرح اپنی ملازمت ( پبلک پراسیکیوٹنگ انسپکٹر) سے مستعفٰی ہو گئے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میر نیرنگ اشاعتِ اسلام اور تبلیغ کے کاموں میں بڑی مستقل مزاجی اور جانفشانی کے ساتھ مصروف رہتے تھے ۔ وہ عموماً تبلیغی دوروں پر جاتے اور عام مبللغوں کی طرح تبلیغی کام کرتے تھے ۔ انھوں نے متعدد افراد کو بھی اپنے ساتھ اس کام میں شامل کیا اور مبلغین کی ایک جماعت تشکیل دی ۔ اس زمانہ میں دیکھنے والوں نے انھیں نورانی صورت اور بڑھی ہوئی ڈاڑھی کے ساتھ ہر وقت تسبیح و تہلیل میں مصروف دیکھا ۔ خواجہ حسن نظامی نے ان کی تبلیغی جدوجہد کی وجہ سے انھیں " تبلیغ الدولہ" کا خطاب دیا تھا اور لوگوں نے انھیں " شیخ التبلیغ" کہنا شروع کر دیا تھا ۔ ان کے تبلیغی کارناموں پر لوگوں کو بڑا ناز تھا ۔
۔۔۔
میر نیرنگ کو اسلام اور مسلمانوں کا جو درد تھا اور ان کے لیے انھوں نے اپنی ساری صلاحتیں اور قوتیں جس طرح وقف کر دی تھیں ، اس کا اظہار ان کی اور دیگر کاوشوں میں نظر آتا ہے ۔ وہ عشق رسولﷺ سے بھی بہت سرشار تھے ۔ دو مرتبہ انھوں نے فریضہ حج بھی ادا کیا ۔ ایک مرتبہ 1929ء میں اور دوسری مرتبہ 1945ء میں ۔ پہلے حج کے لیے وہ 14 جنوری کو بمبئی میں میر نیرنگ نے حج کمیٹی کے روبرو جس کے صدر ایچ ، بی ۔ کلیٹن تھے ، حجاج کی سہولتوں ، آرام اور اخراجات کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں ۔ حج کمیٹی کے سامنے جتنی شہادتیں گزریں اور جتنے بیانات پیش ہوئے ۔ ان میں شاید سب سے زیادہ مفصل ، جامع ، باوزن شہادت میر نیرنگ کی تھی ۔ حج سے واپس آ کر انھوں نے مولانا عبدالماجد دریا باری کے مجلہ " سچ" (لکھنؤ) میں " مدینہ طیبہ اور عین زرقا" کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ، جس میں مدینہ تک پانی پہنچانے والی نہر " عین زرقا" کی خستہ حالی کا ذکر کرتے ہوئے مسلمنان ہند سے درخواست کی کہ اس نہر کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے چندہ بھیجیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور واقع جو جامع مسجد جے پور کے تعلق سے پیش آیا ، میر نیرنگ کی مستقل توجہ اور بھرپور جدوجہد کا سبب بنا ۔ مسجد کے ایک دروازے اور سیڑھیوں کی تعمیر کے مسئلہ پر 27 جنوری 1939ء کو جمعہ کے دن نماز جمعہ کے موقع پر مسلمانوں کو ہندوؤں اور پولیس کے بیہمانہ حملہ کا شکار ہونا پڑا ۔ کئی مسلمان شہید اور زخمی ہوئے اور کئی گرفتار کر لیے گئے ۔ مسلمانوں نے اس سانحہ پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا اور احتجاج شروع کیا ۔ پانچ ہزار سے زائد مسلمان جے پور سے ہجرت کر کے دہلی چلے گئے ۔ جے پور کے راجہ کا رویہ خون ریزی کا سبب بنا تھا اور اس میں مزید اضافہ کا امکان تھا ۔ مسلمانوں نے غیرجانبدرانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ، جسے مسترد کر دیا گیا ۔ میر نیرنگ نے اس مسئلہ کو بھی مسلمانوں کا قومی مسئلہ سمجھتے ہوئے اس پر خاص توجہ دی ۔ وہاں کے مسلمان اکابر سے ان کا مستقل رابطہ رہا ۔ انھوں نے میر نیرنگ سے اس مسئلہ پر متعدد مواقع پر مدد اور مشاورت طلب کی ۔ میر نیرنگ نے کئی مرتبہ جے پور کے دورے کیے اور وہاں کے اعلٰی افسران اور ریاست کے ارباب اختیار سے ملاقاتیں کیں ۔ اور مراسلت بھی کی ۔ اس مسئلہ کو مسلم لیگ اور قائد اعظم نے بھی خاص اہمیت دی تھی ۔ میر نیرنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔ قائد اعظم اور جے پور کے مسلمانوں اور ریاست کے حکمرانوں کے درمیان ایک واسطہ بنے رہے ۔ قائد اعظم نے جے پور کے مسلمانوں کے اس مسئلہ کے حل کے اختیارات میر نیرنگ کو تفیض کر دیے تھے ۔ اس وقت میر نیرنگ نے جے پور کے مسمانوں کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا ریاست نے بہرحال مسلمانوں کے متعدد مطالبات تسلیم کر لیے اور یہ مسئلہ بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصانیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"غبار افق"
۔۔۔۔۔۔۔۔
"کلام نارنگ" 1980 پہلا ایڈیشن 1907ء میں اس کے بعد نظر ثانی کر کے دوسرا ایڈیشن 1917ء میں اور تیسرا ایڈیشن 1983ء کراچی سے شائع ہوا تھا۔
16 اکتوبر 1952ء کو سید غلام بھیک نیرنگ لاہور میں وفات پاگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید ان کے حالات زندگی کے واقعات جو رہ گئے ہیں وہ پھر کبھی شئیر کروں گا ۔ اب بات ہو جائے میر نیرنگ کی شاعری کی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میر نیرنگ ادب کا فطری ذوق رکھتے تھے لیکن ان کے ذوق کی نشونما ان کے لاہور کے زمانہء طالب علمی میں ہوئی ، جہاں چند باذوق دوستوں سے ان کے روابط استوار ہوئے ۔ ان دوستوں میں ایک چوہدری جلال الدین تھے ، جو سیالکوٹ سے لاہور آ کر گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے تھے ۔ وہ اور میر نیرنگ استاد سید میر حسن کی صحب میں ہوئی تھی ۔ انھی کے توسط سے میرنیرنگ علامہ اقبال سے متعارف ہوئے اور اس تعارف سے دوستی کا ایک گہرا رشتہ استوار ہوا ۔ اس وقت میر نیرنگ شعر کہنے لگے تھے اور اس میں مہارت بھی پیدا کر لی تھی ، آغاز میں انھوں نے " مواجؔ" تخلص اختیار کیا تھا جسے جلد ہی تبدیل کر کے نیرنگ کر لیا ۔
علامہ اقبال سے رفاقت اور ذوق کی مطابقت نے میر نیرنگ کے ذوق شعری اور مشقِ سخن میں جلا پیدا کی اور دونوں میں اشعار کا تبادلہ ہونے لگا ۔ اس سلسلہ میں میر نیرنگ نے اقبال کو جو اشعار بھیجے ان میں سے ایک شعر یہ تھا جو ان کے مجموعہ کلام میں شامل نہیں :
حرم کو جانا جناب زاہد یہ ساری ظاہر پرستیاں ہیں
میں اس کی رندی کو مانتا ہوں جو کام لے دیر سے حرم کا
۔۔
مشق سخن کے لیے اقبال اور میر نیرنگ ایک ہی زمین میں ایک ساتھ طبع آزمائی بھی کر لیا کرتے تھے مثلاً ان دونوں کی یہ غزلیں جن کے مطالع درج ذیل ہیں :
عبادت میں زاہد مسرور رہنا
مجھے پی کے تھوڑی سی مخمور رہنا
اقبال
۔۔۔۔
یہ شایاں ہے عاشق کا دستور رہنا
ترے جور سہہ کر بھی مسرور رہنا
میر نیرنگ
۔۔۔
میر نرنگ نے جب اقبال 1908ء میں انگلستان سے وطن واپس آئے تو ان کے استقبال میں ایک غزل لکھی تھی جو اقبال کی پسندیدہ زمین میں تھی ۔ اس کا مطلع یہ تھا:
فضل بہار آئی پھر گلشن سخن میں
اک جشن ہو رہا ہے مرغان نغمہ زن میں
اس زمین میں اقبال کی مقبول نظمیں موجود تھیں ، مثلاً:
"جگنو"
جگنو کی روشنی ہے کاشانہء چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
۔۔۔۔
"سلیمٰی"
جس کی نمود دیکھی چشم ستارہ بیں میں
خورشید میں قمر میں تاروں کی انجمن میں
۔۔
اس وقت میر نیرنگ کا ذوق شعری اور ان کے نقد و نظر کی صلاحتیں پختگی کے مرحلہ میں تھیں ۔ مثلاً اقابل کی ایک غزل کو دیکھ کر ان کی" آنکھیں کھل گئیں" ۔ انھوں نے اس وقت تک اہل پنجاب کی اردو شاعری کے جو نمونے دیکھے تھے ، ان کو دیکھ کر وہ اہل پنجاب کی اردو گوئی کے معتقد نہ تھے ۔ مگر اقبال کی غزل دیکھ کر انھوں نے اپنی رائے بدل لی اور ان کو معلوم ہو گیا کہ ذوقِ سخن کا اجارہ کسی خطہء زمین کو نہیں دیا گیا ۔
۔۔۔
میر نیرنگ کے کلام میں غالبؔ کے اثرات بھی جھلکتے ہیں ۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ غالبؔ سے متاثر تھے اور اس اثر کو تسلیم بھی کرتے تھے :
غزل میں لطف ہی اب کیا ہے لیکن کچھ جو باقی ہے
سو تقلید ادائے غالبؔ معجز بیاں تک ہے
ان کے بعض اشعار میں غالب کے انداز کی جھلک نمایاں ہے:
مرا ہر لفظ سادہ اک صدف ہے در معنی کا
سمجھ پیدا کرے تو کوئی سمجھے گفتگو میری
۔۔۔۔۔۔۔۔
سلاست مانع مشکل پسندی ہو نہیں سکتی
اوق ہے حضرت نیرنگ طرز گفتگو میری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انھوں نے غالبؔ کی مشہور زمینوں میں بھی غزلیں کہی تھیں ۔ مثلاً ان کی یہ غزلیں:
دل لگانا کوئی آفت ہی سہی
اب تو جھیلیں گے مصیبت ہی سہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فغاں و آہ کس امید پر کرے کوئی
وہ کہتے ہیں ترے نالوں سے کیوں ڈرے کوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میر نیرنگ اقبال کے معاصر شاعروں میں ہیں اور اس وجہ سے اہمیت رکھتے ہیں کہ انگریزی زبان و ادب پر انھیں عبور حاصل تھا اور شاعری کا وہ ایسا ستھرا ذوق رکھتے تھے کہ انگریزی شاعری کے عمدہ نمونوں کو اردو میں بھی کمال مہارت اور خوبی اور دل کشی کے ساتھ منتقل کر سکیں ۔ چنانچہ ان کے کلام میں جو نظمیں انگریزی زبان سے ماخوذ ہیں وہ الفاظ کی سادگی ، مضامین کی واقفیت اور ندرتِ اظہار سے اس طرح ہمکنار ہیں کہ ان پر ترجمہ کا گماں نہیں ہوتا ۔ مثلاً:
اچھا بس کوچ کر یہاں سے
یہ بھی نہ بتا کہ کب ہے رحلت
دل میں جب تیرے آئے چل دے
جو تجھ کو پسند آئے ساعت
مت کہہ مجھے اَافَراق ! اَلبَین !
دکھلا مت روئے شام غربت
کل صبح وطن کو شاد و خنداں
ملنا مجھ سے بصد مسرت
(جان شیریں)
۔۔۔۔
ہوائیں ہو گئیں خاموش وقت شام آ پہنچا
اندھیرا چھا گیا ہر سمت عالم ہے خموشی کا
نہیں پائے صبا تک کی ذرا آہٹ گلستاں میں
اسی عالم میں آ نکلا ہوں میں شہر خموشاں میں
دل مہجور میں اک لالہ زار داغ لایا ہوں
میں اپنے گل کی تربت پر چڑھانے پھول لایا ہوں
(تربت جاناں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میر نیرنگ کی ساری شاعری میں ، چاہے تراجم ہوں یا طبغراد ، ایک انفرادی خلوص ، بے تکلفی اور سادگی ہر جگہ نمایاں ہے ۔ وہ اپنے خیالات ، احساسات اور تجربات و مشاہدات کو رنگین الفاط کے پردے میں چھپنے نہیں دیتے ۔ معمولی خیالات کو بھی اپنی خوش بیانی سے دل کش بنا دیتے ہیں ۔ ان کے خیالات براہ راست لفظوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور وہ ایسی بے تکلفی کے ساتھ شعر کہتے چلے جاتے ہیں کہ واقعیت محو نہیں ہوتی ۔ ان کی شاعری میں سادگی اور بے تکلفی اس قدر نمایاں ہے کہ اردو کے بڑے بڑے شاعروں کے دوش بدوش کھڑے نظر آتے ہیں :
عیار حادثے کا کرتا ہے میرا پیچھا
مرغ بریدہ پر ہوں صید شکستہ پا ہوں
ہے ذات میری مجمع ساری برائیوں کا
کہنے کو میں بڑا برا ہوں لیکن بہت برا ہوں
اک بات ہو بتاؤں اک درد ہو سناؤں
روؤں بھلا کہا تک کب تک پڑا کراہوں
۔۔۔۔۔
ان کی غزلیں بھی سادگی ، بے ساختگی اور کیف و سرور کے لحاظ سے ایک انفرادی شان رکھتی ہیں ۔ عشقیہ موضوعات ان کی گزلوں بلکی ساری ہی شاعری میں کم ہیں ۔ عصری تقاضے اور قومی و سیاسی مضامین خاصے نمایا ہیں ۔ چونکہ ان کی زندگی مذہب و ملت کے درد سے معمور تھی اور یہی درد ان کی منظومات کا بھی حاوی موضوع تھا اس لیے غزلوں میں بھی اس کی کیفیت محسوس ہوتی ہے:
جائے ماندن ہمیں حاصل ہے نہ پائے رفتن
کچھ مصیبت سی مصیبت ہے خدا خیر کرے
ابھی تشخیص مرض میں ہے مریضوں کو کلام
جاں ادھر درپے رخصت ہے خدا خیر کرے
رہنماؤں کو نہیں خود بھی پتا رستے کا
راہبر پیکر حیرت ہے خدا خیر کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
کٹ گئی بے مدعا ساری کی ساری زندگی
زندگی سی زندگی ہے ییہ ہماری زندگی
کیا اردوں سے ہے حاصل؟ طاقت و فرصت کہاں؟
ہائے ! کہلاتی ہے کیوں بے اختیاری زندگی
اے شوریدہ ! اب تیرے وہ سودا کیا ہوئے !
کیا سدا سے تھی یہی غفلت شعارہ زندگی؟
درد الفت کا نہ ہو تو زندگی کا کیا مزا ؟
آہ و زاری زندگی ہے بے قراری زندگی
آرزوئے زیست بھی یاں آرزوئے دید ہے
تو نہ پیارا ہو تو مجھ کو ہو نہ پیاری زندگی
اور مُرجھائے گی تیری چھیڑ سے دل کی کلی
کر نہ دوبھر مجھ پہ اے بادِ بہاری زندگی
یاں تو اے نیرنگؔ ! دونوں کے لیے ساماں نہیں
موت بھی مجھ پر گراں ہے گر ہے بھاری زندگی