اگست 25: ممتاز شاعر احمد فرازؔ کی برسی ہے

Bhatkallys

Published in - Other

12:39PM Fri 25 Aug, 2017
از: ابوالحسن علی بھٹکلی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احمد فراز کی پیدائش 12/جنوری سنہ1931 کو نوشہرہ 'صوبہ سرحد' میں ہوئی تھی۔ ان کے والد برق کوہاٹی بھی اپنے عہد کے ایک نامور شاعر تھے۔ پاکستان کے صوبہ سرحد میں فارغ بخاری، رضا ہمدانی، خاطر غزنوی اور محسن احسان کے ساتھ برق کوہاٹی کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ اسی طرح احمد فراز اردو شاعری کا ایک معتبر نام ہے اور ان کی غزلوں کا ایک بڑا سرمایہ آنے والے عہد میں بھی اردو شائقین کو مالامال کرتا رہے گا۔ ان کی شاعری کا خمیر بھی صوبہ سرحد سے اٹھا۔ پشاور میں فارغ بخاری کے گھر پر تشکیل پانے والی اردو کی ترقی پسند تحریک کے نوجوان حلقے کے وہ سرخیل سمجھے جاتے تھے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ اور تخلص فراز ہے۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے اردو اور فارسی میں ایم اے کرنے کے بعد عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان کے اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے کیا۔ وہ پشاور یونیورسٹی میں لیکچرر بھی رہے۔ اس کے بعد نیشنل سنیٹر کے ڈائرکٹر ہوئے۔ سنہ 1977 میں وہ اکیڈمی ادبیات کے بانی ڈائرکٹر ہوئے اور چیئرمین کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ بعد میں کئی برسوں تک نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد کے چیئرمین بھی رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں انہیں جلاوطنی کے دوران ہی ان کی بہترین انقلابی شاعری کی تخلیق ہوئی۔ اسی دوران کی ایک نظم 'محاصرہ' بہت مشہور ہوئی۔ انہوں نے بے شمار قومی ایوارڈز حاصل کئے جن میں سنہ 2000 میں ''ہلال امتیاز'' بھی شامل ہے۔ اس ایوارڈ کو انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومتی پالیسی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے واپس کردیا۔ ان کی شعری تصانیف میں تن تنہا، جان جاناں، درد آشوب، نایافت، سب آوازیں میری ہیں، بے آواز گلی کوچوں میں، آئینوں کے شہر میں نابینا، غزل بہانہ کرو، خواب گل پریشاں سے، سخن آراستہ، اے عشق جنوں پیشہ شامل ہیں۔ ان کے شعری مجموعوں کی کلیات ہندوستان میں فرید بکڈپو پرائیویٹ لمٹیڈ، نئی دہلی نے شائع کردی ہے۔ اس کلیات کو جب احمد فراز کی خدمت میں اس کے مرتب فاروق ارگلی نے پیش کی تھی تو اسے دیکھ کر احمد فراز نے بے حد مسرت کا اظہار کیا تھا۔ اردو ادب کے نوجوان ادیب و ناقد حقانی القاسمی کے الفاظ میں: ''احمد فراز کی وفات کے ساتھ ہی رومان اور مزاحمت کے ایک باب کا خاتمہ ہوگیا۔ وہ مزاحمت کا ایک جلی عنوان تھے جنہوں نے اپنے ذہن اور ضمیر کا سودا نہیں کیا اور نہ کبھی زہر ہلاھل کو 'قند' کہا۔ وہ اردو شاعری میں ایک حسینی کردار کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کے اندر نہ روباہی تھی اور نہ ہی خوف و خطر بلکہ شجاعت اور شہامت تھی۔ ان کی شاعری میں موج منصوری اور سکرسرمدی تھی۔ فیض احمد فیض نے جس انقلابی آہنگ کو اختیار کیا تھا، احمد فراز کا بھی وہی آہنگ تھا۔''طویل علالت کے بعد پیر کی رات 25 اگست 2008ء اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احمد فرازؔ اردو شعر و ادب کا وہ نام، جس نام کو سن کر ہزاروں نہیں لاکھوں افراد اپنا جگر چھلنی اور دل کھو جانے کا ذکر کرتے ہوئے ملتے ہیں، دراصل ہماری اجتماعی زندگی کے چند دردناک اور اندھیاروں میں ڈوبے ہوئے ابواب جو شاید فرازؔ کی شاعری ہی میں نہیں بلکہ ان کی زندگی کے بین السطور میں اپنی جھلک دکھا رہے ہیں، وہ شاید ہمارے مورخین کی X-Range نگاہوں سے پوشیدہ ہی رہے، لہٰذا انھوں (مورخین) نے پاکستان میں مطلق العنان آمریت کے مختلف ادوار بس زمانی ترتیب سے پیش کر دیے ہیں۔ احمد فراز کے یہاں آمریت کے زہریلے اثرات کا مطالعہ جس ذکاوت کے ساتھ ملا ہے کسی اور شاعر کے یہاں اس درجہ نہیں۔ 1971 کے بعد بالخصوص پاکستان میں ادبی و شعری حلقوں میں جس شاعر کو سنا گیا اور چاہا گیا وہ فرازؔ ہی ہیں۔ احمد فرازؔ کے بارے میں اگر میں صرف یہ کہوں کہ وہ محبتوں کے شاعر ہیں تو یہ بات زیادہ زود اثر ہو گی بجز اس کے کہ میں ان کے بارے میں بہت کچھ کہوں۔ محبت تو ایک احساس ہے، جیسے ڈر، خوف اور خدا، لہٰذا فرازؔ کی شاعری احساسات کی شاعری ہے۔ ہر نفس میں ودیعتاً کوئی نہ کوئی احساس وقوع پذیر ہے کوئی غم دوراں کو لے کر غم خوار ہے تو کوئی غم جاناں کو لے کر غم دیدہ، لیکن فرازؔ کے یہاں انسانی زندگی کے تمام تر احساسات اپنی اپنی جگہوں پر اپنے ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد الگ ہو جانے کے احساس کو جس شدت سے فرازؔ نے محسوس کیا شاید ہی فرازؔ کے کسی ہم عصر نے: اب کس کا جشن مناتے ہو، وہ ملک جو دو نیم ہوا اردو شعر و سخن سے آشنا یا اس سے جڑا ہوا ہر شخص یہ جانتا ہے کہ شاعری دوسرے دیگر فنون لطیفہ سے زیادہ مشکل ہے، اس میں پٍِتا پانی ہوا جاتا ہے۔ فرازؔ کے یہاں ہمیں محبتوں کی کارستانی سے لے کر انقلاب بپا کرتی ہوئی شاعری ملتی ہے۔ احمد فرازؔ کی شاعری بیک وقت نغمہ دلدار بھی ہے اور شعلہ بیدار بھی ہے۔ احمد فرازؔ ان معدودے چند شعرا میں سے ہیں جنھیں مقبولیت خواص و عام حاصل رہی ورنہ ہماری اردو شاعری کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے بعض شعرا انقلاب بپا کرتے ہوئے ملتے ہیں تو بعض ریشمی زلفوں سے ملاقات کرواتے ہیں لیکن فرازؔ کے یہاں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں۔ وہ ایک طرف تو آمر کو للکارتے ہیں تو دوسری طرف حسینوں کے جھرمٹ میں لے جاتے ہیں۔ احمد فراز ؔکو زندگی بھر ادیبوں، ادب دوستوں اور دیگر اہل علم و فن کی جانب سے زبردست پذیرائی زندگی کی آخری سانسوں تک حاصل رہی، ان کے سامعین ان کی نظم ’’محاصرہ‘‘ اور ’’سنا ہے لوگ اسے جی بھر کے دیکھتے ہیں‘‘ کی پرزور فرمائش کیا کرتے تھے۔ آخری عمر میں فرازؔ جب اپنی شہرہ آفاق نظم محاصرہ سناتے سناتے بھول جایا کرتے تھے تو پورے پنڈال سے سامعین ان کو ان کی نظم یاد دلایا کرتے تھے۔ بعض اکابرین اور معاصرین فرازؔ کو صرف لڑکپن کا شاعر یا صرف جذبہ محبت کا شاعر کہتے ہیں، احمد فراز کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کی سامراج دشمن، انقلابی شاعری ہی ہے اور صرف محاصرہ ہی پر کیا موقوف ’’کالی دیوار‘‘ بھی معرکۃ الآرا نظم ہے۔ نظم ’’محاصرہ‘‘ پاکستان میں آمریت کے تسلط کے خلاف ایک نعرہ مستانہ ہے اور ’’کالی دیوار‘‘ ویتنام پر امریکا کی وحشی یلغار کا شاخسانہ ہے، تنہا تنہا سے لے کر اپنے آخری مجموعہ کلام ’’اے عشق جنوں پیشہ‘‘ تک فراز اپنے گرد محبتوں کے جال بنتے رہے۔ ہمارے یہاں ’’ادب برائے ادب‘‘ کی ترویج ہوتی رہی ہے اس لیے فراز کی شاعری سماج کی شاعری ہے۔ فرازؔ کی شاعری میں نغمگی اور غنائیت بھی ہے، اور وہ طمطراق اور وہ گھن گرج بھی۔ فراز کی شاعری میں حسن و جاذبیت کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اردو شاعری کی کلاسیکیت کو بھرپور انداز میں اپنے اندر جذب کیا، اردو شاعری کی مکمل تہذیب ان کے یہاں موجود تھی، پرانی قدروں اور نئی اقدار کے ملاپ سے اس کو اپنانے سے ان کے یہاں موضوعات کا انبوہ بھی ہے اور کسی درجہ ٹھہراؤ بھی ہے، آپ فرازؔ کی نظم پڑھیں یا غزل آپ کو خیالات کا ایک تسلسل ملے گا، احمد فراز کی شاعری وطن عزیز میں ٹھہرتی ہوئی آمریت اور ہواؤں کے دوش پر آتی جمہوریت سے باہم لڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ فرازؔ کے یہاں نعرہ بازی، اشتعال اور ثقالت اتنی خاص نہیں ہے، ہر ترقی پسند شعرا کی طرح ان کے یہاں سماجی ناانصافیوں، مزدوروں و کاشتکاروں کی حق تلفیوں، سرمایہ داری کی فریب کاریوں، آمریت سے نفرت لسانی تعصبات اور طبقاتی آویزیش کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے اور احتجاج کرتی ہے۔ یہ بھی تو درست ہے کہ ان کی پوری شاعری عوامی بالادستی، جمہوریت سے لگاؤ اور جمہوری رویوں کی افزائش اور جمہوری قدروں کی بحالی، انسان دوستی اور امن و آتشی کی سرخروئی کے لیے وقف ہے۔ احمد فراز کا تعلق یا ان کی شاعری کا تعلق شاعری کے اس مکتب فکر سے ہے جو انسانیت کی سماجی و معاشی ترقی کی سوچ پر قدغن لگانے والی قوتوں کے خاتمے پر یقین پیش مہیا کرتے ہیں، اگر دیکھا جائے تو فراز بحیثیت انسان تو پاپولر تھے لیکن ان کی شاعری عام معنوں میں اتنی پاپولر نہیں تھی جیسا کہ اکثر کم درجے کے مزاحمتی شاعروں کی ہوا کرتی ہے، لیکن فرازؔ کی شاعری تمام جمالیاتی حس کے ساتھ وارد ہی نہیں ہوتی بلکہ سامعین و حاضرین کے دلوں پر وہ کیفیتں غالب ہو جاتی ہیں جو عاشق و معشوق کے باہم ملنے پر دونوں کے دلوں کے نہاں خانوں پر ہوتی ہیں۔ احمد فرازؔ ایک ترقی پسند شاعر تھے لیکن اس خاص وصف کے باوجود بھی انھوں نے دور آمریت سے لے کر جمہوریت کے ادوار میں بھی کئی خاص اعلیٰ حکومتی عہدوں پر خدمات سر انجام دیں۔ انھوں نے آمریت میں بھی اعلیٰ سرکاری اعزاز بھی حاصل کیا (لوگ مارے جلن کے ان لوگوں پر جنھوں نے اعلیٰ سرکاری اعزازات حاصل کیے ان پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک آمر سے کوئی سرکاری اعزاز لیا یہاں ان جیسے اندروں بیں لوگوں کے لیے عرض ہے کہ کوئی بھی اعزاز کسی خاص شخصیت کے لیے تو ہوتا ہی ہے ساتھ ساتھ وہ اعزاز پوری قوم کے لیے بھی ہوتا ہے اور قوم کی طرف سے کوئی بھی اعزاز خاص ہوا کرتا ہے۔ 1995میں گورنر سندھ محمود اے ہارون نے ان کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی۔ فرازؔ نے ریڈیو پاکستان کے لیے بھی ڈرامے لکھے انھوں نے 5 منظوم ڈرامے لکھے جن میں ’’روشنیوں کا شہر‘‘ اور ’’بودلک‘‘ خاص اہم ہیں۔ بشکریہ: ڈاکٹر ناصر مستحسن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منتخب کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "اے عشق جنوں پیشہ" سے انتخاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے عشق جنوں پیشہ عمروں کی مسافت سے تھک ہار گئے آخر سب عہد اذیت کے بیکار گئے آخر اغیار کی باہوں میں دلدار گئے آخر رو کر تری قسمت کو غمخوار گئے آخر یوں زندگی گزرے گی تا چند وفا کیشا وہ وادئ کلفت تھی یا کوہِ الم جو تھا سب مدِّ مقابل تھے خسرو تھا کہ جم جو تھا ہر راہ میں ٹپکا ہے خوننابہ بہم جو تھا رستوں میں لٹایا ہے وہ بیش کہ کم جو تھا نے رنجِ شکستِ دل نے جان کا اندیشہ ۔۔۔۔۔ کچھ اہلِ ریا بھی تو ہمراہ ہمارے تھے رہرو تھے کہ رہزن تھے جو روپ بھی دھارے تھے کچھ سہل طلب بھی تھے وہ بھی ہمیں پیارے تھے اپنے تھے کہ بیگانے ہم خوش تھے کہ سارے تھے سو زخم تھے نس نس میں گھائل تھے رگ و ریشہ ۔۔۔۔۔ جو جسم کا ایندھن تھا گلنار کیا ہم نے وہ زہر کہ امرت تھا جی بھر کہ پیا ہم نے سو زخم ابھر آئے جب دل کو سیا ہم نے کیا کیا نہ محبت کی کیا کیا نہ جیا ہم نے لو کوچ کیا گھر سے لو جوگ لیا ہم نے جو کچھ تھا دیا ہم نے اور دل سے کہا ہم نے رکنا نہیں درویشا ۔۔۔۔۔ یوں ہے کہ سفر اپنا تھا خواب نہ افسانہ آنکھوں میں ابھی تک ہے فردا کا پریخانہ صد شکر سلامت ہے پندارِ فقیرانہ اس شہرِ خموشی میں پھر نعرۂ مستانہ اے ہمّتِ مردانہ صد خارہ و یک تیشہ اے عشقِ جنوں پیشہ اے عشقِ جنوں پیشہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قتلِ عشاق میں اب عذر ہے کیا بسم اللہ سب گنہگار ہیں راضی بہ رضا بسم اللہ میکدے کے ادب آداب سبھی جانتے ہیں جام ٹکرائے تو واعظ نے کہا بسم اللہ ہم نے کی رنجشِ بے جا کی شکایت تم سے اب تمہیں بھی ہے اگر کوئی گِلا بسم اللہ بتِ کافر ہو تو ایسا کہ سرِ راہگذار پاؤں رکھے تو کہے خلقِ خدا بسم اللہ ہم کو گُلچیں سے گِلہ ہے گُل و گُلشن سے نہیں تجھ کو آنا ہے تو اے بادِ صبا بسم اللہ گرتے گرتے جو سنبھالا لیا قاتل نے فرازؔ دل سے آئی کسی بسمل کی صدا، بسم اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دِل کسی بھی طرح شامِ غم گزار تو دے پھر اس کے بعد وہ عمروں کا انتظار تو دے ہوائے موسمِ گُل جانفزا ہے اپنی جگہ مگر کوئی خبرِ یارِ خوش دیار تو دے ہمیں بھی ضد ہے کہاں عمر بھر نبھانے کی مگر وہ ترکِ تعلق کا اختیار تو دے بجا کہ درد سری ہے یہ زندگی کرنا مگر یہ بارِ امانت کوئی اُتار تو دے ترا ہی ذکر کریں بس تجھی کو یاد کریں یہ فرصتیں بھی کبھی فکرِ روزگار تو دے ترے کرم بھی مجھے یاد ہیں مگر مرا دل جو قرض اہلِ زمانہ کے ہیں اُتار تو دے فلک سے ہم بھی کریں ظلمِ ناروا کے گِلے پہ سانس لینے کی مہلت ستم شعار تو دے فرازؔ جاں سے گزرنا تو کوئی بات نہیں مگر اب اس کی اجازت بھی چشمِ یار تو دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں در سے اُٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے بعد میں سینکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں بے بسی بھی کبھی قربت کا سبب بنتی ہے رو نہ پائیں تو گلے یار سے 1؎ لگ جاتے ہیں کترنیں غم کی جو گلیوں میں اُڑی پھرتی ہیں گھر میں لے آؤ تو انبار سے لگ جاتے ہیں داغ دامن کے ہوں، دل کے ہوں کہ چہرے کے فرازؔ کچھ نشاں عمر کی رفتار سے لگ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں اُس کی ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا پر طرح کی بے سرو سامانیوں کے باوجود آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول شاخ سے بڑھ کر کفِ دلدار پر اچھا لگا کون مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے تیغِ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا ہم بھی قائل ہیں وفا میں اُستواری کے مگر کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا میرؔ کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فرازؔ تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لب کشا ہیں لوگ، سرکار کو کیا بولنا ہے اب لہو بولے گا تلوار کو کیا بولنا ہے بِکنے والوں میں جہاں ایک سے ایک آگے ہو ایسے میلے میں خریدار کو کیا بولنا ہے لو چلے آئے عدالت میں گواہی دینے مجھ کو معلوم ہے کس یار کو کیا بولنا ہے اور کچھ دیر رہے گوش بر آواز ہَوا پھر چراغِ سرِ دیوار کو کیا بولنا ہے مجھ سے کیا پوچھتے ہو آخری خواہش میری اک گنہگارِ سرِ دار کو کیا بولنا ہے خلقتِ شہر ہے چُپ، شاہ کے فرمان کے بعد اب کسی واقفِ اسرار کو کیا بولنا ہے وہی جانے پسِ پردہ جو تماشا گر ہے کب، کہاں، کون سے کردار کو کیا بولنا ہے جہاں دربار ہوں، شاہوں کے مصاحب ہوں فرازؔ وہاں غالبؔ کے طرفدار کو کیا بولنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ یار کسی شام، خرابات میں آئے یوں ہو تو مزہ میل ملاقات میں آئے مت پوچھ کہ ہم کون ہیں یہ دیکھ کہ اے دوست آئے ہیں تو کس طرح کے حالات میں آئے کچھ اور مِلا میرا لہو اپنی حنا میں تا اور بھی اعجاز ترے ہاتھ میں آئے اب ذکرِ زمانہ ہے تو ناراض نہ ہونا گر نام تمہارا بھی کسی بات میں آئے اچھا ہے تنّوع ترے اندازِ ستم میں کچھ رنگِ مروّت بھی اگر ساتھ میں آئے اک عمر سے جیسے نہ جُنوں ہے نہ سکوں ہے یارب کوئی گردش مرے حالات میں آئے یہ سال بھی اچھا تھا کہ یاروں کی طرف سے کچھ اب کے نئے زخم بھی سوغات میں آئے ہم ایسے فقیروں سے محبت سے ملا کر تا اور بلندی ترے درجات میں آئے ساتھ اُس کے فرازؔ ایسے بھی دن رات گزارے اب جن کا مزہ صرف حکایات میں آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیوانگی خرابیِ بسیار ہی سہی کوئی تو خندہ زن ہے چلو یار ہی سہی وہ دیکھنے تو آئے بہانہ کوئی بھی ہو عذرِ مزاج پرسیِ بیمار ہی سہی رشتہ کوئی تو اُس سے تعلق کا چاہئے جلوہ نہیں تو حسرتِ دیدار ہی سہی اہلِ وفا کے باب میں اتنی ہوس نہ رکھ اِس قحط زارِ عشق میں دو چار ہی سہی خوش ہوں کہ ذکرِ یار میں گزرا تمام وقت ناصح سے بحث ہی سہی تکرار ہی سہی شامِ اسیری و شبِ غربت تو ہو چکی اک جاں کی بات ہے تو لبِ دار ہی سہی ہوتی ہے اب بھی گاہے بگاہے کوئی غزل ہم زندگی سے برسرِ پیکار ہی سہی اک چارہ گر ہے اور ٹھکانے کا ہے فرازؔ دنیا ہمارے درپئے آزار ہی سہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہانیاں نہ سنو آس پاس لوگوں کی کہ میرا شہر ہے بستی اداس لوگوں کی نہ کوئی سمت نہ منزل سو قافلہ کیسا رواں ہے بِھیڑ فقط بے قیاس لوگوں کی کسی سے پوچھ ہی لیتے وفا کے باب میں ہم کمی نہیں تھی زمانہ شناس لوگوں کی محبتوں کا سفر ختم تو نہیں ہوتا بجا کہ دوستی آئی نہ راس لوگوں کی ہمیں بھی اپنے کئی دوست یاد آتے ہیں کبھی جو بات چلے نا سپاس لوگوں کی کرو نہ اپنی بلا نوشیوں کے یوں چرچے کہ اِس سے اور بھڑکتی ہے پیاس لوگوں کی میں آنے والے زمانوں سے ڈر رہا ہوں فرازؔ کہ میں نے دیکھی ہیں آنکھیں اداس لوگوں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے اندر کی فضاؤں کے کرشمے بھی عجب ہیں مینہ ٹوٹ کے برسے بھی تو بادل نہیں ہوتے کچھ مشکلیں ایسی ہیں کہ آساں نہیں ہوتیں کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے شائستگیِ غم کے سبب آنکھوں کے صحرا نمناک تو ہو جاتے ہیں جل تھل نہیں ہوتے کیسے ہی تلاطم ہوں مگر قلزمِ جاں میں کچھ یاد جزیرے ہیں کہ اوجھل نہیں ہوتے عشاق کے مانند کئی اِہل ہوس بھی پاگل تو نظر آتے ہیں پاگل نہیں ہوتے سب خواہشیں پوری ہوں فرازؔ ایسا نہیں ہے جیسے کئی اشعار مکمل نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب قرینے اُسی دلدار کے رکھ دیتے ہیں ہم غزل میں بھی ہُنر یار کے رکھ دیتے ہیں شاید آ جائیں کبھی چشمِ خریدار میں ہم جان و دل بیچ میں بازار کے رکھ دیتے ہیں تاکہ طعنہ نہ ملے ہم کو تنک ظرفی کا ہم قدح سامنے اغیار کے رکھ دیتے ہیں اب کسے رنجِ اسیری کہ قفس میں صیاد سارے منظر گُل و گُلزار کے رکھ دیتے ہیں ذکرِ جاناں میں یہ دنیا کو کہاں لے آئے لوگ کیوں مسٔلے بیکار کے رکھ دیتے ہیں وقت وہ رنگ دکھاتا ہے کہ اہلِ دل بھی طاقِ نسیاں پہ سخن یار کے رکھ دیتے ہیں زندگی تیری امانت ہے مگر کیا کیجئے لوگ یہ بوجھ بھی تھک ہار کے رکھ دیتے ہیں ہم تو چاہت میں بھی غالبؔ کے مقلّد ہیں فرازؔ جس پہ مرتے ہیں اُسے مار کے رکھ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی سخن برائے قوافی نہیں ‌کہا اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں ‌کہا ہم اہلِ صدق جرم پہ نادم نہیں رہے مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں‌ کہا آشوبِ‌ زندگی تھا کہ اندوہِ عاشقی اک غم کو دوسرے کی تلافی نہیں ‌کہا ہم نے خیالِ یار میں کیا کیا غزل کہی پھر بھی گُماں یہی‌ ہے کہ کافی نہیں کہا بس یہ کہا تھا دل کی دوا ہے مغاں کے پاس ہم نے شراب کو کبھی شافی نہیں کہا پہلے تو دل کی بات نہ لائے زبان پر پھر کوئی حرف دل کے منافی نہیں کہا اُس بے وفا سے ہم نے شکایت نہ کی فرازؔ عادت کو اُس کی وعدہ خلافی نہیں کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تُو کہ شمعِ شامِ فراق ہے دلِ نامراد سنبھل کے رو یہ کسی کی بزمِ نشاط ہے یہاں قطرہ قطرہ پگھل کے رو کوئی آشنا ہو کہ غیر ہو نہ کسی سے حال بیان کر یہ کٹھور لوگوں کا شہر ہے کہیں دُور پار نکل کے رو کسے کیا پڑی سرِ انجمن کہ سُنے وہ تیری کہانیاں جہاں کوئی تجھ سے بچھڑ گیا اُسی رہگزار پہ چل کے رو یہاں اور بھی ہیں گرفتہ دل کبھی اپنے جیسوں سے جا کے مِل ترے دکھ سے کم نہیں جن کے دکھ کبھی اُن کی آگ میں جل کے رو ترے دوستوں کو خبر ہے سب تری بے کلی کا جو ہے سبب تُو بھلے سے اُس کا نہ ذکر کر تُو ہزار نام بدل کے رو غمِ ہجر لاکھ کڑا سہی پہ فرازؔ کچھ تو خیال کر مری جاں یہ محفلِ شعر ہے تو نہ ساتھ ساتھ غزل کے رو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست بھی ملتے ہیں محفل بھی جمی رہتی ہے تو نہیں ہوتا تو ہر شے میں کمی رہتی ہے اب کے جانے کا نہیں موسمِ گر یہ شائد مسکرائیں بھی تو آنکھوں میں نمی رہتی ہے عشق عمروں کی مسافت ہے کسے کیا معلوم کب تلک ہم سفری ہم قدمی رہتی ہے کچھ دِلوں میں کبھی کھلتے نہیں چاہت کے گلاب کچھ جزیروں پہ سدا دھند جمی رہتی ہے تم بھی پاگل ہو کہ اُس شخص پہ مرتے ہو فرازؔ ایک دنیا کی نظر جس پہ جمی رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اجل سے خوف زدہ زیست سے ڈرے ہوئے لوگ سو جی رہے ہیں مرے شہر میں مرے ہوئے لوگ یہ بے دلی کسی آفت کا پیش خیمہ نہ ہو کہ چشم بستہ ہیں زانو پہ سر دھرے ہوئے لوگ نہ کوئی یاد نہ آنسو نہ پھول ہیں نہ چراغ تو کیا دیارِ خموشاں سے بھی پرے ہوئے لوگ ہوائے حرص سبھی کو اُڑائے پھرتی ہے یہ گرد بادِ زمانہ یہ بھُس بھرے ہوئے لوگ یہ دل سنبھلتا نہیں ہے وداعِ یار کے بعد کہ جیسے سو نہ سکیں خواب میں ڈرے ہوئے لوگ کچھ ایسا ظلم کا موسم ٹھہر گیا ہے فرازؔ کسی کی آب و ہوا میں نہ پھر ہرے ہوئے لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تنہا تنہا سے نظموں کا انتخاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگ مفلسو! اپنے مقدّر کی شکایت نہ کرو اِس سے انسان کے ایمان میں فرق آتا ہے ہم تو ناچیز سے بندے ہیں ہمیں کیا معلوم کونسی بات میں کیا مصلحتِ یزداں ہے کتنے گمراہ و گنہگار ہوئے جاتے ہو کیا کہا؟ "خانماں برباد ہوئے جاتے ہیں دمبدم آگ کے بے رحم لپکتے شعلے اپنے بوسیدہ مکاں راکھ کیے دیتے ہیں خاک ہی خاک ہوئی جاتی ہے دنیا اپنی اور اس آتش و ظلمات کے سیلاب میں ابھی اسی پندار اسی شان سے استادہ ہیں کیا خدا صرف غریبوں پہ ستم ڈھاتا ہے" ٹھیک کہتے ہیں مگر خام عقائد والو ہم تو تقدیر کے بندے ہیں ہمیں کیا معلوم کونسی بات میں کیا مصلحتِ یزداں ہے اور پھر اپنی شکایت سے بھی کیا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جانشیں (1952ء میں کراچی میں طلباء پر فائرنگ سے متاثر ہو کر لکھی گئی) علم و دانش کے سوداگروں نے کہا جاہلو! تم اندھیروں کی دُنیا کے باسی جہالت کے تاریک غاروں کے مُردے کہاں جا رہے ہو، کہاں؟ تم تہی دست ہو تم تہی جیب ہو تم تہی دامنوں سے ہمیں کوئی لالچ نہیں تم نہیں جانتے تم نہیں مانتے ہم تمہارے لئے کب سے تہذیب و حکمت کی نایاب اجناس کو منڈیوں میں سجائے ہوئے ہیں تم نہیں دیکھتے تم کہ شب کو رہو ہم نے دن کے اُجالے میں بھی بس تمہارے لیے اِس تمدّن کے فانوس روشن کیے جن کی شفّاف کِرنوں سے سارا جہاں بقعۂ نُور ہے عالمِ طُور ہے پاگلو! تم نہیں جانتے تم نہیں مانتے ہم ارسطو ہیں شاہوں کے اُستاد ہیں ہم فلاطوں ہیں ہم کو ہر اک علم و حکمت کے گُر یاد ہیں ہم ہی سقراط ہیں ہم ہی بقراط ہیں ہم ہی بے مثل شخصیتوں کے خردمند فرزند ہیں ہم ہی کون و مکاں کے خداوند ہیں سر پھرو! تم کو ہم سے گلہ ہے کہ ہم نے تمہیں خاک و خوں کے سمندر میں نہلا دیا صرف اپنے تسلّط کی خاطر ہم نے اپنوں کے ہاتھوں سے کٹوا دیا چاند سورج تو اپنے لیے رکھ لیے اور تم کو کھلونوں سے بہلا دیا تم کو اس کی مگر کچھ خبر ہی نہیں یہ تسلّط یہ جا ہ و حشم یہ زمیں بس تمہارے لیے ہے تمہارے لیے دَورِ فردا کے فرمانروا ہو تمہیں تم کو ہونا ہے اجداد کا جانشیں پاگلو!۔۔۔ہم سے عالی نظر دیدہ ور تم سے جو بھی کہیں مان لو اپنے اپنے مراتب کو پہچان لو تم نہیں جانتے تم کہ مردہ رہے سالہا سال سے بھیڑیوں اور درندوں کی ارواحِ بد تم میں در آئی ہیں اور جہل و جنوں کی نجس مشعلیں دے کے تم کو بغاوت پہ اُکساتی ہیں اپنے اجداد سے، اپنے فرمانرواؤں سے، آقاؤں سے جاہلو! پاگلو!! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کنیز حضور آپ اور نصف شب مرے مکان پر حضور کی تمام تر بلائیں میری جان پر حضور خیریت تو ہے حضور کیوں خموش ہیں حضور بولیے کہ وسوسے وبالِ ہوش ہیں حضور، ہونٹ اِس طرح کپکپا رہے ہیں کیوں حضور آپ ہر قدم پہ لڑکھڑا رہے ہیں کیوں حضور آپ کی نظر میں نیند کا خمار ہے حضور شاید آج دشمنوں کو کچھ بخار ہے حضور مسکرا رہے ہیں میری بات بات پر حضور کو نہ جانے کی گماں ہے میری ذات پر حضور منہ سے بہہ رہی ہے پیک صاف کیجیے حضور آپ تو نشے میں ہیں معاف کیجیے حضور کیا کہا، مَیں آپ کو بہت عزیز ہوں حضور کا کرم ہے ورنہ مَیں بھی کوئی چیز ہوں حضور چھوڑیے ہمیں ہزار اور روگ ہیں حضور جائیے کہ ہم بہت غریب لوگ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رباعیات لفظوں میں فسانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ لمحوں میں زمانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ تو زہر ہی دے شراب کہہ کر ساقی جینے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ ٭٭٭ اک راہِ طویل اک کڑی ہے یارو افتاد عجیب آ پڑی ہے یارو کس سمت چلیں کدھر نہ جائیں آخر دوراہے پہ زندگی کھڑی ہے یارو ٭٭٭ غنچے کی چٹک سنائی دے گی یارو ساغر کی کھنک سنائی دے گی یارو زنداں کا سکوت گونج اُٹھے گا جس سے ایسی دستک سُنائی دے گی یارو ٭٭٭ پھولوں کی جبیں جھلس گئی ہے یارو گلزار میں آگ بس گئی ہے یارو گزرے ہیں کہاں سے رنگ و بو کے طوفاں شبنم کو فضا ترس گئی ہے یارو ٭٭ اُڑتے پنچھی شکار کرنے والو گلزار میں گیر و دار کرنے والو کتنی کلیاں مَسل کے رکھ دیں تم نے تزئینِ گل و بہار کرنے والو ٭٭٭ یہ دَورِ مے و جام چلے یا نہ چلے نشے سے پھر بھی کام چلے یا نہ چلے ہم اہلِ خرابات سے یوں بَیر نہ رکھ ساقی کل ترا نام چلے یا نہ چلے ٭٭٭ یہ پھیلی ہوئی رات ڈھلے یا نہ ڈھلے یہ یورشِ حالات ٹلے یا نہ ٹلے روشن کر چراغِ دیر و کعبہ پھر شمعِ خرابات جلے یا نہ جلے ٭٭٭ خوابوں میں خیال کھو رہے ہوں جیسے نشے میں زمانے سو رہے ہوں جیسے سینے سے ڈھلک گیا ہے کس کا آنچل خورشید طلوع ہو رہے ہوں جیسے ٭٭٭ ساغر میں ستارے گھل رہے ہوں جیسے کرنوں کے دریچے کھُل رہے ہوں جیسے مستی میں وہ اُٹھتی ہوئی نظریں توبہ پلکوں پہ زمانے تُل رہے ہوں جیسے ٭٭٭ ہر غم کو دلآویز کیے دیتا ہوں احساس کی لو تیز کیے دیتا ہوں تو زلف کو کچھ اور پریشاں کر دے میں جام کو لبریز کیے دیتا ہوں ٭٭٭ دل گرمئ احساس سے پھُک جائیں گے قدموں میں ترے زمانے جھک جائیں گے اے حسن فقط جنبشِ ابرو کی ہے دیر دنیا کے کاروبار رُک جائیں گے ٭٭٭ ظلمات کو موجِ نور کیسے سمجھیں پھر برق کو طور کیسے سمجھیں مانا کہ یہی مصلحت اندیشی ہے ہم لوگ مگر حضور کیسے سمجھیں ٭٭٭ آشوب گہہِ دہر کے سوداگر ہیں مغرب کے کسی شہر کے سوداگر ہیں تم آبِ حیات مانگتے ہو ان سے جو لوگ فقط زہر کے سوداگر ہیں ٭٭٭ یا اپنے رفیقانِ سفر سے کٹ جاؤ یا سیلِ حوادث کے مقابل ڈٹ جاؤ رستے کا غبار کیوں بنے ہو چھٹ جاؤ جب بڑھ نہیں سکتے تو پرے ہٹ جاؤ ٭٭٭ ہر زخم کو سینے پہ سجا لیتے ہیں ہر درد کو ہم دل میں بسا لیتے ہیں تم پھولوں پہ سوتے ہو تو دکھتا ہے بدن ہم کانٹوں کو آنکھوں سے لگا لیستے ہیں ٭٭٭ مذہب کو مدام بیچتے ہیں یہ لوگ ایمان تو عام بیچتے ہیں یہ لوگ جنت کے اجارہ دار بن کر شب و روز اللہ کا نام بیچتے ہیں یہ لوگ ٭٭٭ تھک جائیں گے راہگیر چلتے چلتے ڈھل جائیں گے ماحول میں ڈھلتے ڈھلتے تاریکئ شب میں نہ کمی آئے گی بجھ جائیں گے یہ چراغ جلتے جلتے ٭٭٭ روتا ہوں تو احباب بُرا مانتے ہیں ہنستا ہوں تو مجرم مجھے گردانتے ہیں ہر حال میں اعتراض کرنے والے ناداں مرے حالات کہاں جانتے ہیں ٭٭٭ زہرابِ حیات چکھ رہا ہوں دیکھو کانٹوں پہ زبان رکھ رہا ہوں دیکھو واقف ہوں طبیعتوں سے ان کی پھر بھی احباب کے دل پرکھ رہا ہوں دیکھو ٭٭٭ حالات کی دوپہر کڑی ہے ساقی تقدیر برہنہ سر کھڑی ہے ساقی کچھ دیر غمِ جہاں پہ ہنس لیں آؤ رونے کو تو زندگی پڑی ہے ساقی ٭٭٭ دنیا تو ہے کانٹوں کا بچھونا پیارے تم ہم سے کبھی جدا نہ ہونا پیارے آؤ مل کر دکھ کے لمحے کاٹیں اک جشن ہے ساتھ ساتھ رونا پیارے ٭٭٭ بڑھ جاتا ہے دل کا روگ گاہے گاہے کر لیتے ہیں اپنا سوگ گاہے گاہے جو یاد دلا دیتے ہیں بھولے صدمے مل جاتے ہیں ایسے لوگ گاہے گاہے ٭٭٭ ہر بحرِ ستم کو پاٹ لینے والا ہر زہرِ الم کو چاٹ لینے والا ذرّے سے پناہ ڈھونڈتا پھرتا ہے انساں پہاڑ کاٹ لینے والا ٭٭٭ آشوبِ گہہِ حیات لے ڈوبیں گے دنیا کو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبیں گے ہم لوگ عبارت ہیں زمانے جن سے ڈوبیں گے تو کائنات لے ڈوبیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "نایافت" سے انتخاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچ کا زہر تجھے خبر بھی نہیں کہ تیری اُداس ادھوری محبتوں کی کہانیاں جو بڑی کشادہ دلی سے ہنس ہنس کے سُن رہا تھا وہ شخص تیری صداقتوں پر فریفتہ با وفا و ثابت قدم کہ جس کی جبیں پہ ظالم رقابتوں کی جلن سے کوئی شکن نہ آئی وہ ضبط کی کربناک شدّت سے دل ہی دل میں خموش، چُپ چاپ مر گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کونسا نام تجھے دُوں؟ یوں بھی گزری ہے کہ جب درد میں ڈوبی ہوئی شام گھول دیتی ہے مری سوچ میں زہرِ ایّام زرد پڑ جاتا ہے جب شہرِ نظر کا مہتاب خون ہو جاتا ہے ہر ساعتِ بیدار کا خواب ایسے لمحوں میں عجب لطفِ دل آرام کے ساتھ مہرباں ہاتھ ترے ریشم و بلّور سے ہاتھ اپنے شانوں پہ مرے سر کو جھکا دیتے ہیں جس طرح سالِ اُمید سے بے بس چہرے دیر تک ڈوبنے والے کو صدا دیتے ہیں یوں بھی گزری ہےکہ جب قرب کی سرشاری میں چمک اُٹھتا ہے نگاہوں میں ترے حُسن کا شہر نہ غمِ دہر کی تلچھٹ نہ شبِ ہجر کا زہر مجھ کو ایسے میں اچانک ترا بے وجہ سکوت کوئی بے فیض نظر یا تلوار سی بات ان گنت درد کے رشتوں میں پرو دیتی ہے اس طرح سے کہ ہر آسودگی رو دیتی ہے کونسا نام تجھے دوں مرے ظالم محبوب تُو ہی قاتل مرا تُو ہی مسیحا میرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "پسِ انداز موسم" سے انتخاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرثیہ وہ زخمِ انتظار کی لذّت بھی دے گیا اب نامہ بر کی راہ نہ دیکھا کریں گے ہم وہ کس طرح ملا تھا جدا کیسے ہو گیا سوچا تھا یہ سوال نہ سوچا کریں گے ہم اے زندگی جب اس سے وفا کر سکی نہ تو پھر تُو بتا کہ تجھ سے وفا کیا کریں گے ہم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کر گئے کوچ کہاں اتنی مدّت دِل آوارہ کہاں تھا کہ تجھے اپنے ہی گھر کے در و بام بھلا بیٹھے ہیں یاد یاروں نے تو کب حرفِ محبت رکھا غیر بھی طعنہ و دشنام بھلا بیٹھے ہیں تو سمجھتا تھا کہ یہ در بدری کا عالم دور دیسوں کی عنایت تھا سو اب ختم ہوا تو نے جانا تھا کہ آشفتہ سَری کا موسم دشتِ غربت کی ودیعت تھا سو اب ختم ہوا اب جو تو شہرِ نگاراں میں قدم رکھے گا ہر طرف کھلتے چلے جائیں گے چہروں کے گلاب دوست احباب ترے نام کے ٹکرائیں گے جام غیر اغیار چُکائیں گے رقابت کے حساب جب بھی گائے گی کوئی غیرتِ ناہید غزل سب کو آئے گا نظر شعلۂ آواز میں تُو جب بھی ساقی نے صراحی کو دیا اِذنِ خرام بزم کی بزم پکارے گی کہ آغاز میں تُو مائیں رکّھیں گی ترے نام پہ اولاد کا نام باپ بیٹوں کے لیے تیری بیاضیں لیں گے جن پہ قدغن ہے وہ اشعار پڑھے کی خلقت اور دُکھتے ہوئے دل تجھ کو سلامی دیں گے لوگ الفت کے کھلونے لیے بچّوں کی طرح کل کے روٹھے ہوئے یاروں کو منا لائیں گے لفظ کو بیچنے والے نئے بازاروں میں غیرتِ حرف کو لاتے ہوئے شرمائیں گے لیکن ایسا نہیں ایسا نہیں اے دل اے دل یہ تیرا دیس یہ تیرے در و دیوار نہیں اتنے یوسف تو نہ تھے مصر کے بازار میں بھی جنس اس درجہ ہے وافر کے خریدار نہیں سر کسی کا بھی دکھائی نہیں دیتا ہے یہاں جسم ہی جسم ہے دستاریں ہی دستاریں ہیں تو کسی قریۂ زنداں میں ہے شاید کے جہاں طوق ہی طوق ہیں دیواریں ہی دیواریں ہیں اب نہ طفلاں کو خبر ہے کسی دیوانے کی اور نہ آواز کہ "او چاک گریباں والے" نہ کسی ہاتھ میں پتھر نہ کسی ہاتھ میں پھول کر گئے کوچ کہاں کوچۂ جاناں والے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محاصرہ (احمد فراز) میرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے کہ حلقہ زن ہیں میرے گرد لشکری اس کے فصیلِ شہر کے ہر برج ، ہر منارے پر کماں بدست ستادہ ہے عسکری اس کے وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی بچھا دیا گیا بارود اس کے پانی میں وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی سبھی دریدہ دھن اب بدن دریدہ ہوئے سپردِ دارورسن سارے سر کشیدہ ہوئے تمام صوفی و سالک، سبھی شیوخ و امام امیدِ لطف پہ ایوانِ کج کلاہ میں ہیں معززینِ عدالت حلف اٹھانے کو مثالِ سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں تم اہلِ حرف کے پندار کے ثناگر تھے وہ آسمانِ ہنر کے نجوم سامنے ہیں بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو تمہارے ساتھ ہے کون، آس پاس تو دیکھو سو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا بس ایک تم ہو، سو غیرت کو راہ میں رکھ دو یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے سو یہ جواب ہے میرا ،میرے عدو کے لئے کہ مجھ کو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ اسے ہے سطوتِ شمشیر پر گھمنڈ بہت اسے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ میرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا جو اپنے شہر کو محصور کرکے ناز کرے میرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے میرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے میرا قلم نہیں اس دزدِ نیم شب کا رفیق جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی جو اپنے چہرے پے دھرا نقاب رکھتا ہے میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے اسی لئے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا جبیں پہ لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں ، یقیں ہے مجھے کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم