اکتوبر 24 : نامور شاعر جناب آغا شورش کاشمیری کا یومِ وفات ہے

از: ابوالحسن علی بھٹکلی
آغا شورش کاشمیری کا نام عبدالکریم اور تخلص الفت تھا۔ وہ 14 اگست 1917ء کو امرتسر میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام نظام الدین تھا۔ انکے دادا بہتر روزگار کی تلاش میں لاہور آئے تھے، پھر پورا خاندان یہیں رہائش پذیر ہو گیا۔ شورش نوعمری میں ہی والدہ کے سایۂ عاطفت سے محروم ہو گئے۔ والدہ کی وفات کے بعد دادی نے ان کی پرورش کی۔ شورش کو بچپن سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اور وہ بڑے محنتی طالب علم تھے۔ شورش نے 1932ء میں دیوسماج ہائی اسکول لاہور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اسکے بعد شوق کے باوجود گھر کے معاشی بحران کی وجہ سے باضابطہ تعلیم کا مزید سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ عرصہ دراز تک روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہے لیکن فرصت کے اوقات مطالعہ اور اہل علم ودانش کے مجلسوں میں نشت و برخاست کا سلسلہ جاری رکھا۔ زمانہ تعلیم میں روزنامہ "زمیندار" پڑھنا ان کا معمول تھا جس کے نتیجے میں ان کا ادبی ذوق پختہ ہوگیا اور وہ مولانا ظفر علی خان مرحوم کے گرویدہ ہو گئے اور صحافت اور ادب میں ان کا رنگ اختیار کیا۔
آغا شورش کاشمیری کی شخصیت بہت سی صفات کا مجموعہ تھی۔ صحافت، شعروادب، خطابت اور سیاست، چاروں شعبوں کے وہ شہسوار تھے۔ انکی ہنگامہ خیز اور جذباتی طبعیت کی مناسبت سے دوست احباب نے انہیں شورش کا تخلص دیا۔ مولانا ظفر علی خان کی طرح آغا شورش بھی بدیہہ گوئی اور سیاسی نظمیں کہنے میں ماہر تھے۔ انہوں نے امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی کسبِ فیض کیا۔ خطابت میں وہ ان تینوں بزرگوں کا رنگ رکھتے تھے۔ ایک خطیب میں جن اوصاف کا ہونا ضروری ہے، وہ ان میں بدرجۂ اَتَم موجود تھے۔ وہ ان خطیبوں میں سے ایک تھے جن کی خطابت لوک داستانوں کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ لوگ آج بھی آغا شورش کی خطابت کا تذکرہ کرتے اور سردھنتے نظر آتے ہیں۔
آغا شورش نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تحریک مسجد شہید گنج کے عوامی اجتماعات میں خطابت و صدارت سے کیا اور کم عمری میں حسین آگاہی چوک ملتان میں مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے انگریز کے خلاف ایک زبردست تقریر کی جس کے نتیجے میں انہیں پولیس کے بے پناہ تشدد اور پھر قید وبند کی آزمائشوں کا نشانہ بننا پڑا لیکن ان کایہ ذوقِ جنوں پختہ تر ہوتا چلا گیا۔ انگریزی دورِ حکومت میں تحریکِ آزادی میں حصہ لینے کے جرم میں انہیں مجموعی طور پر دس سال قید و بند کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
آغا شورش نے 1949ء میں ہفت روزہ "چٹان" کا اجراء کیا اور اسے بامِ عروج تک پہنچایا۔ چٹان ایک زمانہ میں مقبولِ عام پرچہ تھا اور لوگ اسے سیل پوائنٹ سے قطار میں لگ کر حاصل کیا کرتے تھے۔ حالاتِ حاضرہ پر ایک نظم ، کتابوں پر تبصرہ، مختلف قلمی ناموں سے ادبی کالم آغا شورش خود لکھتے تھے۔ ان کے علاوہ بھی کئی مضامین ان کے قلم سے نکلتے رہتے تھے۔ تحریر و تقریر کے ذریعے غلط کار حکمرانوں اور سیاست دانوں کو ٹوکنا، جعلی علماء اور پیروں کا محاسبہ کرنا، قادیانیت کا سیاسی تعاقب کرنا اور ان کی سازشوں کو بے نقاب کرنا ان کا دم آخر تک معمول رہا۔ اس حق گوئی کے نتیجے میں انھیں وقتاً فوقتاً جیل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ صدر ایوب جیسے آمر کو انھو ں نے 45 دن کی بھوک ہڑتال کر کے ہلا دیا۔ آمر حکومت آخر کار ان کے سامنے جھکنے اور انہیں رہا کرنے پر مجبور ہوگئی۔ چٹان کا ڈیکلریشن کئی بار منسوخ کیا گیا لیکن انہوں نے کبھی نفع نقصان کی پروا نہیں کی۔
آغا شورش کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ 1965ء کی جنگ کے دوران انھوں نے اعلیٰ معیار کے بیسیوں جہادی ترانے تحریر کیے جو ریڈیو پاکستان سے نشر ہو کر افواج پاکستان کے حوصلے بلند کرتے رہے۔ ان ترانوں اور نظموں کا مجموعہ بعد میں "الجہاد والجہاد" کے نام سے شائع ہوا۔
آغا شورش نے قادیانیت کے خلاف محاذ سنبھالا اور قادیانیوں کی سیاسی سازشوں کا وہ تن تنہا 1935ء سے 1974ء تک قلع قمع کرنے میں مصروف رہے۔ کبھی وہ حکمرانوں کو متوجہ کرتے تھے تو کبھی تحریر و تقریر کے ذریعے عوام الناس کو بیدار کرتے تھے۔
اسلام کے متوالے، پاکستان کے شیدائی، عقیدۂ ختم نبوت کے محافظ، خود فروشوں اور بے ضمیروں کے نقاد شورش کاشمیری 24 اکتوبر 1975ء کو لاہور میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ مولانا مفتی محمود کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔