نومبر 23: کو معروف اور اپنے دوہوں کے لیے مشہور شاعر جمیل الدین عالی کی تیسری برسی ہے

از: ابوالحسن علی بھٹکلی
-------------------------------------------------------------
نوابزادہ مرزا جمیل الدین عالی، ہزہائی نس نواب سر امیر الدین احمد خان فرخ مرزا آف لوہارو کے ساتویں صاحبزادے ہیں۔ 20 جنوری 1925ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ کا نام سیّدہ جمیلہ بیگم تھا۔ جو نواب سر امیر الدین کی چوتھی بیوی اور اور سیّد خواجہ میر درد کی پڑپوتی تھیں۔ بارہ سال کی عمر میں عالی اپنے والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے۔[2] 1940ء میں اینگلوعربک اسکول دریا گنج دہلی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔[2] 1945ء میں اینگلو عربک کالج سے معاشیات ، تاریخ اور فارسی میں بی اے کیا۔ 1951ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور پاکستان ٹیکسیشن سروس کے لیے نامزد ہوئے۔ 1971ء میں جامعہ کراچی سے ایف ای ایل 1976ء میں ایل ایل بی سیکنڈ ڈویژن میں پاس کر کے ملازمت کا آغاز کیا۔ 1948ء میں حکومت پاکستان وزارت تجارت میں بطور اسسٹنٹ رہے۔ 1951ء میں سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی کے بعد پاکستان ٹیکسیشن سروس ملی اور انکم ٹیکس افسر مقرر ہوئے۔ 1963ء میں وزارت تعلیم میں کاپی رائٹ رجسٹرار مقرر ہوئے۔ اس دوران میں اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو میں فیلو منتخب ہوئے۔ اس کے بعد دوبارہ وزارت تعلیم میں بھیج دیا گیا۔ لیکن فوراً گورنمنٹ نے عالی صاحب کو ڈیپوٹیشن پر نیشنل پریس ٹرسٹ بھیج دیا جہاں پر انہوں نے سیکرٹری کی حیثیت سے کام کیا۔ 1967ء میں نیشنل بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور سینٹر ایگزیکٹو وائس پریزیڈنٹ کے عہدے تک پہنچے وہاں سے ترقی پا کر پاکستان بینکنگ کونسل میں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ایڈوائزر مقرر ہوئے۔ جمیل الدین عالی کی متعدد تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ ان کو بہت سے ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ آپ کو 1989ء میں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی بھی ملا.
شاعری
عالی جس طرح کئی سطحوں پر زندگی گزارتے ہیں ویسے ہی ان کی تخلیقی اظہار کئی سطحوں پر ہوتا رہتا ہے۔ تام انہوں نے دوہا نگاری میں کچھ ایسا راگ چھیڑ دیا ہے یا اردو سائکی کے کسی ایسے تار کو چھو دیا ہے کہ دوہا ان سے اور وہ دوہے سکے منسوب ہو کر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے دوہے کی جو بازیافت کی ہے اور اسے بطور صنف شعر کے اردو میں جو استحکام بخشا ہے وہ خاص ان کی دین ہو کر رہ گیا ہے۔ عالی اگر اور کچھ نہ بھی کرتے تو بھی یہ ان کی مغفرت کے لیے کافی تھا کیونکہ یہ ان کی مغفرت کے لیے کافی تھا۔ کیونکہ شعر گوئی میں کمال توفیق کی بات سہی ، لیکن یہ کہیں زیادہ توفیق کی بات ہے کہ تاریخ کا کوئی موڑ ، کوئی رخ ، کوئی نئی جہت ، کوئی نئی راہ ، چھوتی یا بڑی کسی سے منسوب ہو جائے
بنگلہ نار.
باتیں بہت سنیں عالیؔ کی، اب سُن لو یہ بانی
جس نے بنگلہ نار نہ دیکھی، وہ نہیں پاکستانی
ہولے ہولے نوکا ڈولے، گائے ندی بھٹیالی
گیت کِنارے، دوہے لہریں، اب کیا کہوے عالیؔ
پیچھے ناچیں ڈاب کے پیڑ، اور آگے پان سُپاری
اِنھی ناچوں کی تھاپ سے اُبھرے سانوری بنگلہ ناری
سانوری بنگلہ ناری جس کی آنکھیں پریم کٹورے
پریم کٹورے جن کے اندر کِن کِن دُکھوں کے ڈورے
دُکھوں کے ڈورے مِٹ جائیں گے جب کوئی پیار سے چومے
لیکن پیار سے چُومنے والا دریا دریا گھُومے
دریا دریا گھُومے مانجھی، پیٹ کی آگ بجھا نے
پیٹ کی آگ میں جلنے والا کِس کِس کو پہچانے ؟
کِس کِس کو پہچانے مانجھی، نینوں کا رَس سُوکھا
نینوں کا رس سوکھتا جائے، مانجھی سوئے بھوکا !
بھوکی نیندوں والے مانجھی، ہم پچھّم سیلانی
ہم پچھّم سیلانی مانگیں سبزہ رُوپ جوانی
سبزہ رُوپ جوانی ہو، اور سُندر بن کی چھایا
سُندر بن کی چھایا میں چھپ جائے جیون مایا
ہم پچھّم سیلانی، مانجھی، آنے جانے والے
کب ہُوئے آنے جانے والے روگ مٹانے والے؟
یہ تری لوہا لاٹ سی بانہیں، جن سے ڈریں منجدھاریں
اِن باہوں کو چار طرف سے کتنے دھیان پکاریں
او مانجھی سُن دھیان پکاریں، آ پہنچے وہ کنارے
اِک ترے من میں جوت جگے تو چھَٹ جائیں اندھیارے!
او مانجھی تو اپنے ہی من میں دھیان کی جوت جگَا لے
کب ہوئے آنے جانے والے روگ مٹانے والے
اجنبیوں سے دھوکے کھانا پھر بھی سمجھ میں آتا ہے
اس کے لیے کیا کہتے ہو وہ شخص تو دیکھا بھالا تھا
ایک عجیب راگ ہے ایک عجیب گفتگو
سات سروں کی آگ ہے آٹھویں سر کے جستجو
جانے کیوں لوگوں کی نظریں تجھ تک پہنچیں ہم نے تو
برسوں بعد غزل کی رو میں اک مضمون نکالا تھا
وفات
ان کا انتقال 23 نومبر، 2015ء کو کراچی میں ہوا۔ ان کی تدفین کراچی میں آرمی کے بیزرٹا قبرستان میں ہوئی