آب بیتی الحاج محی الدین منیری ۔۔21۔۔۔ بھٹکل کا پہلا حافظ ۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری

M:00971555636151
بمبئی کے محمدعلی روڈ پر واقع چونا بھٹی مسجد میں قاری فیروز مرحوم ایک زمانے میں بچوں کو قرآن حفظ کرایا کرتے تھے، یہاں پر دیوبند کے ایک جید عالم و فاضل مولانامحفوظ الرحمن کا بھی درس ہوا کرتا تھا، قاری فیروزاور میں نے ایک ساتھ۱۹۵۱ء میں حج کیا تھا، دوران حج ہم ساتھ ہی رہتے، اسی دوران سفر میں آپ کی رحلت ہوئی،قاری صاحب کا ہماری قوم پر ایک بڑا احسان ہے جس کا ذکر یہاں پر ضروری سمجھتا ہوں۔
میرے ایک دوست تھے قادر بادشاہ صاحب، ان سے میری بڑی بے تکلفی تھی، وہ ہمیشہ مجھ سے اردو میں بات چیت کیا کرتے تھے، ایک دن کی بات ہے میں نل بازار میں رکن الدین کاڑلی حسین مرحوم کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا کہ وہ اپنے چھ سات سالہ فرزند محمد اقبال کے انگلی تھامے وارد ہوئے اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے منیری! یہ بچہ تمہارے ذمہ ہے اس کو اسکول میں ڈال دو میں نے جواب دیا آپ جس ا سکول میں چا ہیں میں وہیں ا سے ڈال دوں گا، لیکن اگر آپ اسے مجھے سونپتے ہیں تو میں اپنی من چاہی جگہ پر اسے داخل کروں گا، انہوں نے کہا میں نے اسے تمہارے حوالے کر دیا، تم جو چاہو کرو ،میں اس بچے کو سیدھے قاری فیروز کے پاس چونا بھٹی مسجد لے گیا اور ان سے درخواست کی کہ میری قوم میں کوئی حافظ نہیں ہے، بڑی تمنا ہے کہ میری قوم میں بھی ایک حافظ قرآن ہو، اس مقصد سے یہ بچہ آپ کی خدمت میں لایاہوں، اس کے والد نے اسے میرے ذمہ سونپ دیا ہے، اب ا سے آپ کے حوالے کرتا ہوں، اس پر آپ محنت کریں، یہ میرے قوم کا بچہ ہے ،میرا بچہ ہے، اب اسے آپ اپنا بچہ سمجھیں۔
خدا قاری فیروز کو غریق رحمت کرے انھوں نے دو سال کی انتھک محنت کے بعد اقبال کو حافظ قرآن بنا کر مجھے سو نپ دیا، میری مسرتوں کی کوئی انتہا نہیں تھی ،شاید میرا بچہ بھی حافظ ہوتا تب بھی مجھے اتنی خوشی نہیں ہوتی ، میں نے قادر باشاہ مرحوم سے خواہش ظاہر کی کہ تمہارے فرزند کے حفظ قرآن مکمل کرنے پرمیں ایک جلسہ کرنا چاہتا ہوں،انہوں نے جیب سے دوسو روپیے نکالے اورکہا کہ ان سے جو چاہو کرو ،ماورے کا سموسہ اس زمانے کی ایک مشہور مٹھائی تھی،ااٹھ آنے کاایک سموسہ بڑاقیمتی سمجھا جاتا تھا ،پائیدھوئی کی مٹھائی والے سے اس رقم کے سموسے منگوائے، چونا بھٹی مسجد میں جلسہ عام ہو اجس میں بمبیٔ کے مقتدر علماء نے شرکت کی ،مولانا سلطان حسن مفتی آگرہ ،قاری صدیق، مولانا محفوظ الرحمن وغیرہ سبھی علماء کی تقریریں ہوئیں،ان حضرات نے حافظ اقبال کو بڑی دعائیں دیں ، جلسہ کے بعد قادرباشاہ مرحوم سے میں نے کہا کہ قاری فیروز نے بڑی محنت اور دلچسپی سے آپ کے بچے کو حافظ بنایا ہے ،انہیں کچھ ہدیہ دینا چاہیے ،یہ کہہ کر میں نے ان سے دوسو روپئے لئے اور قاری صاحب کی خدمت میں خاموشی سے پیش کردیے ،یہ دیکھنا تھاکہ قاری صاحب یکدم آگ بگولہ ہوگئے اور مجھ پر برس پڑے ،کہنے لگے ،منیری تم نے تو کہاتھا ،یہ میری قوم کا بچہ ہے ، میرا بچہ ہے،تمھاری اولاد سے میں پیسہ لوں گا؟ ، میرے بچے سے پیسے لے لوں یہ کیا بات کرتے ہو ،تمھاری بات سے مجھے آج بڑی ناراضگی ہوئی ہے،انہوں نے ایک ڈھیلہ پیسہ نہیں لیا ،قاری صاحب معاف کردیجیے ،انہیں میں بچے کے ابا کو لوٹا تا ہوں کہ کر میں چپ ہوگیا ،قاری فیروز نے اپنے اخلاص ومحنت سے قوم کو پہلا حافظ قرآن دیا،جو اب مولانا حافظ اقبال ندوی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔
حافظ اقبال اس زمانے میں جامع محلہ میں رہا کرتے تھے اس دور میں بمبیٔ کی مساجد میں تراویح میں قرآن پورا کرنے کارواج عام نہیں تھا ، گنی چنی مساجد میں حافظ قرآن سنایا کرتے تھے ،میں نے جامع محلہ مسجد کے ٹرسٹیوں سے کہ سن کر انہیں تراویح میں کھڑا کیا یو ں تو مجھے قرآن ازبر یاد نہیں ہے ،معلوم نہیں درست تلاوت کرتا بھی ہوں یا نہیں ،لیکن اس کام میں میری اتنی دلچسپی تھی کہ سب کام چھوڑ کر روزانہ تراویح سنا نے سے پہلے دوپارے اہتمام سے اقبال سے سنتا اور مدہوش ہوتا ، اس برکت سے بھٹکل میں حفظ قرآن کا ایک دورشروع ہوا ،خدا کا لاکھ شکر و احسان ہے کہ اس نے میرے ہاتھوں سے یہ عظیم خدمت لی ،آج بھٹکل میں سینکڑوں حافظ وحافظات پائے جاتے ہیں مگر اس وقت کوئی حافظ نہیں تھا ،بچپن میں ہم سنا کرتے تھے کہ گڈے سید بو کے گھرانے میں اپنے مکان پر ایک صاحب چلتے پھرتے قرآن پڑھا کرتے تھے ،انہیں قرآن کا وافر حصہ یاد تھا۔
اس کے بعد ابا سے کہ کر اقبال کو میں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو بھیج دیا ،وہاں کے اساتذہ سے بھی درخوست کی کہ بھٹکل میں ایک دینی مدرسہ کے قیام کا ارادہ ہے اسے سنبھالنے کے لئے آپ اسے تیار کریں
اسی زمانے میں ندوہ میں تفسیر کے استاد ہوا کرتے تھے مولانا اویس نگرامی رحمۃاللہ علیہ بڑے ہی نیک اور پابند شرع استاد ،یوں تو ندوہ کے بیشتر اساتذہ وعلماء سے میرے روابط تھے ،لیکن ان میں مولانا اویس رحمۃاللہ علیہ سے میرے تعلقات سب سے گہرے تھے، ان کے زہدہ تقویٰ کا سکہ میرے دل پر بیٹھا ہوا تھا ، ان کی باتوں میں ایسی روانی اور کشش تھی کہ میں بیان نہیں کرسکتا ،الحمدللہ ان کے ساتھ بھی حج پر جانے کا موقعہ نصیب ہو۱۹۵۶ء کے حج میں ان کی اہلیہ بھی میری اہلیہ کے ساتھ تھیں جہاز پر رفاقت رہی، سات آٹھ روز ساتھ ہی رہنے کا موقعہ ملا ،مولانا میرا بڑا اکرام کرتے تھے ،بڑی محبت سے پیش آتے ،میرا جب بھی ندو ہ جاناہوتا گھر دعوت پر ضرور بلاتے ،اور واپسی کے وقت گھرسے نرم نرم روٹیوں اور شامی کباب کا توشہ باندھ کربھیجتے وہ مجھے ٹوٹ کر چاہتے تھے۔
مولانا صبغت اللہ بختیاری کی شخصیت محتاج تعارف نہیں، فقیر منش اور بزرگ انسان، ایک زمانے کے مولانا ابوالاعلی مودودی کے رفیق کار، میرے ساتھ بھی ان کے گہرے مراسم رہے ہیں، انہوں نے المعہدالاحسانی کے نام سے رائجوٹی ،کرناٹک میں تصوف کا ایک مرکز بھی قائم کیا ہوا ہے، بھٹکل میں بھی کئی بار ان کا آنا ہوا، وہ ہمیشہ مجھ سے تاکید کرتے کہ منیر ی صاحب! کسی لڑکے کو دو سال کے لئے مولانا اویس نگرامی کی خدمت میں بھیج دو ان کی تربیت سے جو فائدہ ہو گا میں اسے بیان نہیں کر سکتا۔
میں نے مولانااویس گرامی اور ندوے کے ایک اور استاد مولانا اسحاق سندیلوی اور دیگر دو تین اساتذہ کے ذریعہ اس کی تربیت کی کوشش کی اور اقبال نے فضیلت تک ندوہ میں تعلیم حاصل کی، آپ سب واقف ہیں ان کا اندازہ تلاوت بڑا میٹھا تھا، علم میں پختگی ہیں، بڑی تمنا تھی کہ بھٹکل میں دینی مدرسے کے قیام کے بعد انہیں اس کی ذمہ داری سونپی جائے، مگر قسمت کے کھیل نرالے ہیں، انہوں نے جامعہ اسلامیہ کے ابتدائی ایام میں کچھ عرصہ یہاں پر پڑھایا مگر پھر کاروبار وتجارت کے چکر میں گھر گئے اب شارجہ میں امامت کر رہے ہیں، اللہ ان کا بھلا کرے جہاں بھی رہیں خوش رہیں۔