قرآن کے بعداب جمعہ کی چھٹی اور درسی کتابیں فسطائی نشانے پر (تیسری اور آخری قسط) از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... میں نے سابقہ قسط میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ فسطائی قوتیں اقتدار پر آنے کے بعد ان کے پالیسی پروگرام کو نافذ کرنے کے لئے جہاں سرکاری اورسیاسی سطح پرکوششیں تیز ہوگئی ہیں ، وہیں پر عدلیہ کارجحان بھی تیزی سے بدلتا ہوا صاف محسوس ہورہا ہے۔اس کی تازہ ترین مثال کے طور پر الہ آبادہائی کورٹ کا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سلسلے میں تبصرہ اورابھی اسی ہفتے تاملناڈوہائی کورٹ کا شرعی کورٹ یا دارالقضاۃ کے خلاف آنے والا حکم پیش کیا جاسکتا ہے۔ آج سے پچیس تیس سال پہلے کی وہ سچویشن بھی دیکھیں کہ جب کلکتہ ہائی کورٹ میں قرآن پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے رٹ پٹیشن داخل کی جاتی ہے تو کورٹ اس حرکت کوقابل مذمت قرار دیتے ہوئے رٹ خارج کردیتا ہے۔ اور آج کی صورتحا ل یہ ہے کہ ملک کی ایک عدالت دستور ہند کے مقابلے میں پرسنل لاء کو ناقابل اعتناء قراردیتی ہے تو دوسری عدالت یہ کہتی ہے کہ شرعی عدالت یا پنچایت کو سرکاری حکم سے بند کیا جانا چاہیے۔ خیر مسلم پرسنل لاء سے متعلق اس موضوع پر آئندہ کسی مضمون میں گفتگو ہوگی۔ فی الحال ہم اپنے جاری موضوع کو اختتام کی طرف لے جاتے ہیں۔ ہندوستانی کلچر کے علمبردار اور غیر ملکی تہذیب: مجھے یاد پڑتا ہے کہ بھٹکل کے ایک کٹر آر ایس ایس لیڈر اور بی جے پی ایم ایل اے ڈاکٹر چترنجن کو نئے عیسوی سال کی مبارکبادی کا کارڈ ایک مسلمان کی طرف سے بھیجا گیا تو اس نے بہت ہی پیارا سا جوابی کارڈ بھیجا تھا جس میں چٹکی لیتے ہوئے یہ لکھا تھا نہ ہمارے ہندو دھرم کے مطابق نیا سال یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے اور تمہارے اسلامی کیلنڈر کا آغاز جنوری سے ہوتا ہے۔ پھر ایک غیر ملکی تہذیب یعنی کرسچن نیو ایئر کی مبارکباد ہم ایک دوسرے کو کیوں دیں؟!یہ ایک معلوم بات ہے کہ آر ایس ایس سودیشی کلچر یعنی ہندوستانی ثقافتی وراثت کو فروغ دینے کی علمبردار ہے اور اسے مسلمانوں کے علاوہ عیسائی تہذیب سے بھی ازلی چِڑ ہے۔ مگر کبھی کبھار مسلم دشمنی یا اسلامو فوبیا کی وجہ سے وہ خود اپنے نظریات میں ردو بدل بھی کر لیتے ہیں۔
بھلی رہنمائیاں ہیں ، بھلی ناخدائیاں ہیں وہی رخ قرار پایا جو بتادیا ہوا نے
آخر اتوار کوچھٹی کیوں منائی جاتی ہے؟: اب اسی اتوار کے دن چھٹی منانے کی بات کو لے لیجیے ۔اس کا ہندوستانی کلچر یا حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کا براہ راست تعلق دنیا کے مختلف قدیم مذہبی عقائداور مائتھالوجی سے ہے جہاں سورجSUNکو ایک اہم خدا مانا جاتا ہے۔ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق اللہ نے دنیا کو 6دن میں تخلیق کیا اور ساتویں دن یعنی اتوار کواس نے تھکن اتارنے کے لئے آرام کیا۔اس طرح عیسائی اسے' خدا کادن' کہتے ہیں اوراسے عبادت کے لئے مخصوص کرتے ہیں۔جبکہ یہودیوں کے عقیدے کے مطابق سنیچر کا دن"یوم سبت" تھا اور اس دن تعطیل،کھیل کود اور آرام کرنا ہے۔مصری تہذیب کا بھی یہی رویہ ہے۔اورسنیچر کا دن بھی رومن مائتھالوجی کے اعتبار سے Saturn(سیارہ زحل)نامی خدا سے منسوب ہے۔عیسائیوں کے اس نظریے کے تحت سن 1843عیسوی سے انگریزوں نے اتوار کو آرام یا چھٹی کا دن قرار دیا۔جس کے تحت اس دن عیسائی برادری چرچ میں massیا عام عبادت کا اہتمام کرتی ہے۔اس کے بعد ساری دنیا میں اتوار کوہفتہ واری چھٹی منانے کا عام رواج چل پڑا ۔لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی کے بعد ہندوستانی حکومت کی طرف سے سرکاری طورپر اتوار کی چھٹی کا اعلان کبھی بھی نہیں کیا گیا۔سرکاری طور پر لیبر قوانین کے مطابق بس مزدوروں کو ہفتے میں ایک دن کام سے چھٹی دینا لازمی ہے جس کے لئے کوئی بھی دن اپنی سہولت کے اعتبار سے اختیار کیا جاسکتا ہے۔ جمعہ کی چھٹیاں مغلوں نے شروع کی تھیں: جمعہ چونکہ مسلمانوں کے لئے مذہبی نقطۂ نظرسے خاص اہمیت کا حامل ہے اور اس کے لئے جامع مساجد میں خصوصی نماز وں کا اہتمام کرنا پڑتا ہے اس لئے مغلوں کے زمانے میںیعنی 1530سے1707تک ہندوستان میں جمعہ کے دن تعطیل کا سلسلہ چل پڑا جو انگریزوں کے زمانے میں بھی مسلم تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کے لئے چلتا رہا۔البتہ آزادی کے بعداس میں کچھ کمی آئی۔ دیگر مسلم ممالک میں بھی کم و بیش ہر جگہ جمعہ کی چھٹی کا رواج ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو جمعہ کے پورے دن کی تعطیل کا کوئی جواز نہیں ہے۔صرف نماز کے وقت میں خرید و فروخت اور تمام کاروباربند کرنے اور جمعہ مسجد کا رخ کرنے کا حکم ہے۔پھر نماز کے بعد اللہ کا فضل (رزق)تلاش کرنے کے لئے نکل پڑنے کا حکم ہے۔ یعنی اپنی حسب معمول مصروفیت میں لگ جانے کو کہا گیا ہے۔ اس طرح اسلامی اصول کے مطابق ہفتہ واری چھٹی کوئی لازمی چیز نہیں ہے۔مگر چونکہ لیبر قوانین کے مطابق سرکاری ، غیر سرکاری تعلیمی ادارے چلانے اورتجارت و کاروبار کرنے والوں کے لئے ملازمین کو ہفتہ واری چھٹی دینا لازمی ہے۔ اسی وجہ سے مسلمان اب بھی ملک کے کچھ حصوں میں اپنی سہولت کے لئے اتوار کے بجائے جمعہ کی تعطیل کو پسند کرتے آئے ہیں۔اس سے انہیں پورے اہتمام کے ساتھ جمعہ کی نماز ادا کرنے میں سہولت ہوتی ہے۔ مسلم طلبہ کو جمعہ کی نماز جامع مساجد میں ادا کرنے کا موقع ملنے کے علاوہ ان کے اندرجمعہ کے دن کی فضیلت کا احساس بھی پیداہوجاتا ہے۔ جمعہ کی اسکول چھٹی بھی کھٹک گئی !: حالانکہ اس طرح جمعہ کی تعطیل سے ہندوستان کے کسی قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے۔لیکن ایک زمانے سے ملک کے مختلف علاقوں میں مسلم طلباء یا منیجمنٹ والے تعلیمی اداروں میں اتوار کے بجائے جمعہ کو دی جانے والی تعطیل کی یہ سہولت اب زعفرانی آنکھوں میں کھٹکنے لگی۔ اس ضمن میں مجھے ماضی کا ایک واقعہ یاد آتا ہے ۔جب انتخابی ریلی سے خطاب کرنے کے لئے بی جے پی کے مرکزی قائد مرلی منوہر جوشی بھٹکل پہنچے تھے تو سیاسی او ر سرکاری سطح پر مسلمانوں کی نام نہاد خوشامدی سے ہونے والے برے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے غیر بی جے پی حکومتوں کو لتاڑاتھا۔ اس وقت انہوں نے خاص طور پر کیرالہ میں مسلم طلباء اور تعلیمی اسکولوں میں جاری جمعہ کی چھٹی کو بھی نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا کہ یہ ملک کو اسلامی رنگ میں رنگنے کے طریقے ہیں۔ اسی دوران نے عوام سے انہوں نے بڑے جوش سے پوچھاکہ یہاں یعنی بھٹکل میں مسلم اسکولوں کو کب چھٹی ملتی ہے۔ چونکہ مجمع میں مسلمانوں کی بڑی کثیر تعداد موجود تھی ، اس لئے بڑے پراعتماد لہجے میں "جمعہ!جمعہ!!"کی آوازیں گونجیں۔ اور مرلی منوہر جوشی سٹپٹا کر رہ گئے تھے۔سمجھنے والی بات بس اتنی ہے کہ فسطائی ٹولہ کسی بھی طور پر مسلمانوں کے کلچر کو اجاگر کرنے والی کوئی علامت کہیں بھی اور کسی بھی مقدار میں باقی رکھنے کے موڈ میں نہیں ہے۔مری نظروں میں ہر آغاز کا انجام رہتا ہے ان آنکھوں نے بہت دیکھا ہے نیرنگئ دوراں کو
آسام کے مدارس کی چھٹیاں: پچھلے دنوں آسام سے خبر آئی کہ وہاں پر سرکاری الحاق سے چلنے والے "ہائی مدرسہ"میں جمعہ کی تعطیل کو ختم کیا گیا ہے۔ آسام کے وزیر صحت وتعلیم بسواس سرمانے بتایا کہ" حال ہی میں ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے افسران کے ساتھ میٹنگ کے دوران یہ عجیب بات مجھے معلوم ہوئی کہ بعض علاقوں میں ہائی مدرسہ کے طلباء کو جمعہ کے دن چھٹی دی جارہی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں سرکاری تعطیل جمعہ کو ہوتی ہے۔ جبکہ ہندوستان ، امریکہ اور یوروپ میں اتوار کو چھٹی ہوا کرتی ہے۔محکمہ کی طرف سے مسلم تعلیمی اداروں میں جمعہ کے دن طلباء کو نماز پڑھنے کے لئے ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کی اجازت دی جارہی ہے۔ اس سے ہٹ کر پورے دن کی تعطیل نہیں دی جاسکتی ۔اس نئے حکم پر عمل نہ کرنے والے ہیڈ ماسٹر وں کو معطل کردیا جائے گا۔" مسٹر سرما کے اس بیان کے رد عمل ظاہرکرتے ہوئے ایک سابق وزیرصادق علی نے کہا ہے کہ سرما کے بیان کے مطابق" آسام کے مسلمانوں کو یہاں دوسرے درجے کا شہری بن کر رہنا ہوگا کیونکہ یہ پاکستان یا بنگلہ دیش کا حصہ نہیں ہے۔مسٹر سرما یہاں کے شہریوں کو مذہبی بنیاد پر بانٹنا چاہتے ہیں۔اس لئے مسلم طبقہ سرما کا بائیکاٹ کرے گا۔" کرناٹکا میں جمعہ نصف دن تعطیل: اس کے بعد ہفتہ عشرہ کے اندرہی کرناٹکا حکومت کے محکمہ تعلیم سے بھی یہ سرکیولر جاری کیا گیا کہ اب ریاست بھر میں تمام تعلیمی اداروں کے لئے یکساں طور پر اتوارچھٹی کا دن ہوگا اور اردو اسکولوں کو جمعہ چھٹی کی جو رعایت تھی اس میں ترمیم کرتے ہوئے جمعہ کو نصف دن چھٹی کردی گئی ہے ۔ یعنی جمعہ کے دن صبح 12.30تک اسکول کھلے رہیں گے۔ بعض اسکولوں کے ہیڈماسٹروں سے اس ضمن میں پوچھنے پر معلوم ہوا کہ کم از کم بھٹکل اور اطراف میں اب تک براہ راست اسکولوں کو محکمہ کے افسران کی طرف سے کوئی سرکیولرتحریری طور پر موصول نہیں ہوا ہے اس لئے تاحال یہاں سرکاری یا نجی اسکولوں میں جمعہ کے سلسلے میں نئے احکامات پر عمل درآمد شروع نہیں ہوا ہے۔جیسے ہی باضابطہ سرکیولر انہیں ملے گا تو اس پر عمل در آمد کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ تعلیمی اداروں میں سرکاری طور پرجمعہ کے بجائے اتوار کی چھٹی لاگو کرنے سے دقت بس یہ پیش آئے گی کہ دور دراز سے اسکولوں اورکالجوں میں آنے والے طلباء جمعہ کی نماز میں بروقت شامل نہیں ہوسکیں گے اور اس طرح انہیں جمعہ فضیلت اور برکات سے محروم رکھا جائے گا۔پتہ چلا ہے کہ کچھ مسلم تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کے علاوہ آل انڈیا اسلامک ٹیچرس ایسو سی ایشن کے قائدین وزیر تعلیم سے ملاقات کرکے انہیں درپیش الجھن اور مشکل سے آگاہ کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ دیکھئے پھر یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے !امید تو بس یہ کی جانی چاہیے کہ: اثر کرے گی ہماری فغاں کہیں نہ کہیں گرے گا ایک نہ اک آسماں کہیں نہ کہیں
haneefshabab@gmail.com
ضروری وضاحت:اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں پیش کردہ مواد کی صحت کے سلسلہ میں ادارہ بھٹکلیس ذمہ دار نہیں ہے۔ ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔