سال 2022 صحافیوں کے لیے بدترین سال ثابت ہوا... سہیل انجم

Bhatkallys

Published in - Other

04:24PM Sun 18 Dec, 2022
گزرنے والا سال یعنی 2022 دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے بدترین سال ثابت ہوا۔ امسال کل 363 صحافیوں کو جیل ہوئی جن میں سے بیشتر اب بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ امسال صحافیوں کی گرفتاریوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں بیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ رپورٹ صحافیوں کی عالمی تنظیم ”کمیٹی ٹو پروٹکٹ جرنلسٹس“ نے پیش کی ہے۔ اس نے عالمی سطح پر اس کا جائزہ لیا ہے کہ یکم جنوری 2022 سے یکم دسمبر 2022 تک صحافیوں کی کیا صور تحال رہی اور کتنے صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے دیگر کئی ملکوں کے مانند ہندوستان میں بھی صحافیوں کے لیے یہ سال اچھا نہیں گزرا۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ صحافیوں کے ساتھ حکومت اور پولیس کے برتاؤ کے سلسلے میں ہندوستان پر بھی شدید تنقید ہوتی رہی ہے۔ خاص طور پر جموں و کشمیر میں صحافیوں پر انتہائی سخت قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے نفاذ کے سلسلے میں حکومت تنقیدوں کی زد میں رہی ہے۔ ہندوستان میں اس وقت سات صحافی سلاخوں کے پیچھے ہیں جن میں پانچ مسلمان ہیں اور ان میں سے چار کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ کشمیر کے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیے جانے والوں کو دو سال تک بغیر مقدمہ چلائے جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔
رپورٹ کا کہنا ہے کہ جن چار کشمیری صحافیوں کو جیل میں ڈالا گیا ہے وہ ہیں آصف سلطان، فہد شاہ، سجاد گل اور منان ڈار۔ جبکہ صدیق کپن، گوتم نولکھا اور روپیش کمار بھی جیل میں بند ہیں۔ صدیق کپن کیرالہ کے صحافی ہیں۔ انھیں پانچ اگست 2020 کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ہاتھرس میں ایک دلت خاتون کی اجتماعی عصمت دری اور قتل کے واقعہ کی کوریج کے لیے جا رہے تھے۔ وہ ابھی دہلی سے متھرا ہی پہنچے تھے کہ انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے تعلق اور دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کا الزام ہے۔ بعد میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر حکومت نے پانچ سال کے لیے پابندی لگا دی۔
روپیش کمار ایک آزاد صحافی ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ ماؤ نوازوں کے لیے فنڈ اکٹھا کرتے تھے۔ ان کو جولائی میں جھارکھنڈ کی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ وہ سات برسوں سے آدیواسیوں کے خلاف ہونے والے مبینہ سرکاری مظالم کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ پیگاسس جاسوسی معاملے میں جن صحافیوں کے فون نمبر لیک ہوئے تھے ان میں ان کا بھی فون نمبر تھا۔ گوتم نولکھا ایک صحافی اور سماجی کارکن ہیں۔ وہ ان سولہ افراد میں شامل ہیں جن پر 2018 میں پونے کے نزدیک بھیما کورے گاؤں میں تشدد برپا کرنے کا الزام ہے۔