2019ء کے ووٹوں اور نوٹوں کی فصل پر سب کی نگاہ۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
جامع مسجد دہلی کے امام مولوی احمد بخاری نے وزیراعظم کو خط لکھ کر اُن سے مسلمانوں کے حالات کے بارے میں گفتگو کرنے کا وقت مانگا تو خبروں کے مطابق وزیراعظم کی طرف سے چار مہینے کے بعد جواب آیا اور انہوں نے خود احمد بخاری سے ملت کے مسائل اور ان کا حل پوچھا۔ وزیراعظم نے جواب میں کہا کہ پہلے آپ میٹنگ کا ایجنڈہ بتائیں اور جب ملاقات کے لئے آئیں تو جن مسائل کو لائیں ان کا حل بھی ساتھ لائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ تنہا نہ آئیں مسلم عمائدین کے وفد کے ساتھ آئیں۔
مولانا احمد بخاری نے اپنے خط اور جواب کے بارے میں انقلاب سے گفتگو کی انقلاب نے پوری خبر میں احمد بخاری کو شاہی امام شاہی امام لکھا اور بتایا کہ بخاری صاحب نے کہا کہ مجھے تنہا جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن وفد کے ساتھ بات نہیں ہوپاتی۔ ہم ایک بات بتادیں کہ جب 1977 ء میں جنتا پارٹی بنی اور پورا ملک اس کے ساتھ آگیا تو اس وقت کے جامع مسجد کے امام بھی کانگریس کے خلاف تھے وہ بھی جنتا پارٹی کے ساتھ ہوگئے۔ اور شاہی امام اس وقت ان کو اس لئے کہا گیا کہ مسلمانوں کے ووٹ بھی لینا تھے۔ پھر جب جنتا پارٹی بکھر گئی اور 1980 ء میں اس کے حصے دار الگ الگ الیکشن لڑنے چلے تو بابو جگ جیون رام نے ان سے اپنے ساتھ آنے کو کہا وہ کسی اور سے سودا کرچکے تھے۔ ان کے انکار پر بابو جگ جیون رام نے کہا تھا کہ کیسے شاہی امام؟ شاہی تو ہم نے اپنی ضرورت کے لئے بنایا تھا۔ ہندوستان میں نہ جانے کتنی مسجدیں شاہوں اور نوابوں نے بنوائی ہیں ان سب کے امام شاہی امام ہیں اور مسجد فتح پوری کے امام اور لکھنؤ میں ٹیلے والی مسجد کے امام اپنے کو شاہی لکھنے بھی لگے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ دہلی کی جامع مسجد شاہجہاں نے بنوائی تھی لیکن 1857 ء میں اور اس کے بعد کیا ہوا اس کے بارے میں ایک اہم خبر پڑھ لیجئے۔ یہ خط مولانا قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی کا ہے جو انہوں نے لکھنؤ کے ایک عالم مفتی اور صحافی کے جواب میں لکھا ہے کہ۔
’1857ء میں جامع مسجد دہلی انقلابیوں کا اہم مورچہ تھا جب انگریزوں نے دہلی کو فتح کرلیا تو مسجد پر قبضہ کرلیا اور اسے فوجی چوکی بنا لیا۔ چنانچہ اب بھی مسجد کے امام کے حجرے کے قریب ایک پتھر پر کسی انگریز فوجی کا نام کھدا ہوا ہے جو بلوچ رجمنٹ کا کمانڈر تھا۔ مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ کے بیٹے مولانا حفیظ الرحمن نے بیان کیا کہ پانچ سال تک مسجد فوجی اڈہ بنی رہی۔ مولوی بشیرالدین احمد دہلوی ’’واقعات دارالحکومت دہلی‘‘ کے صفحہ 11 پر لکھتے ہیں کہ ۔۔۔غدر میں مسجد ضبط نماز بند اور سرکاری چوکی پر پہرہ قائم ہوگیا۔ کئی برس کے بعد خدا خدا کرکے 27 نومبر 1884 ء کو مسلمانوں کی استدعا پر گورنمنٹ نے مسجد کو واگذار کیا۔
ایک مزید روایت یہ بھی ہے کہ ملٹری کے دو بڑے ٹھیکیدار دو بھائی شیخ الٰہی بخش اور شیخ عبدالکریم نے جامع مسجد کو ایک لاکھ روپئے میں اس وقت نیلام سے چھڑایا تھا جب مسلمانوں کی استدعا پر اسے خالی کرکے نیلام کرنے کا انگریزوں نے فیصلہ کیا۔‘
مسجد کی تعمیر کے بارے میں متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ تعمیر کے بعد خدا کا گھر ہوجاتی ہے۔ اور اس کا کوئی تعلق بنانے والے سے نہیں رہتا نہ اس کی نسبت کی کوئی اہمیت ہے۔ وزیراعظم کسی وقت کپڑا وزیر اسمرتی ایرانی سے دریافت کرلیں کہ جب وہ دہلی سے 2004 ء میں لوک سبھا کا الیکشن لڑرہی تھیں تو جامع مسجد کے امام نے حمایت کے لئے کتنے روپئے لئے تھے اور ان کی وجہ سے کتنے ووٹ ملے تھے؟ جن امام صاحب کا ہر الیکشن میں ایک ہی کردار رہا ہو کہ اتنے پیسے دو حمایت میں بیان لے لو اُ ن کو مسلمانوں کا نمائندہ سمجھ کر وزیراعظم نے کیوں کہہ دیا کہ مسلمانوں کے مسائل بھی لاؤ اور ان کا حل بھی ساتھ لاؤ اور اچھا یہ ہے کہ ایک وفد کے ساتھ آؤ؟ اگر مسلمانانِ ہند کا کوئی وفد بنے گا تو وہ اس وقت تک مسلمانوں کا وفد نہیں کہا جائے گا جب تک اس میں دیوبند بریلی اور اہل حدیث کے منتخب علماء اور مسلمانوں کی تنظیموں کے صدر نہ ہوں۔ مودی جی کو صرف وفد نہیں کہنا چاہئے تھا وفد تو کوئی بھی بناکر لاسکتا ہے۔ اور احمد بخاری صاحب کی اہمیت یہ ہے کہ ان کو مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ممبر بھی بنانا مناسب نہیں سمجھا گیا۔
مسلمانوں کی بہت ممتاز اور ایک بہت بڑے طبقہ کی نمائندہ جماعت اسلامی جس کے سب سے اہم ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جب اندراجی نے ایمرجنسی لگائی تو ہندو جماعت آر ایس ایس پر پابندی لگائی اور مسلم لیگ کے ہوتے ہوئے اس پر نہیں جماعت اسلامی پر پابندی لگائی۔ جماعت کے امیر مولانا جلال الدین عمری نے فرمایا کہ بحیثیت فردِ است ہر کسی کو وزیراعظم سے ملنے کی آزادی ہے مگر جماعت اسلامی اس حق میں نہیں ہے کہ ملی مسائل پر وزیراعظم سے انفرادی ملاقاتیں ہوں۔ مولانا نے فرمایا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ امام بخاری اکیلے جاکر ملنا چاہتے ہیں۔ مگر ہم اس کے حق میں نہیں ہیں۔ اگر ملت کے مسائل پر بات کرنا ہے تو ملت کے نمائندوں کو ساتھ لے کر جانا ہی بہتر طریقہ ہے۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا عمری نے فرمایا کہ میں ملکی و قومی مسائل پر وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات اور گفتگو کے حق میں رہا ہوں مگر صحیح نمائندگی کے ساتھ، انفرادی ملاقاتیں مفید نہیں ہوتیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اب تک جن لوگوں نے (ملت کے نمائندوں نے نہیں) ملاقاتیں کی ہیں ان ملاقاتوں سے ملت کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
اور مولانا احمد بخاری نے کہا تھا کہ مجھے وفد کے ساتھ جانے میں کوئی اعتراض نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مشکل ہے لیکن اس میں بات نہیں ہوپاتی اس لئے میں تنہا ہی جاتا ہوں اور جو بھی کہنا ہوتا ہے کہہ دیتا ہوں۔ یہ مولانا احمد بخاری کا یہ اپنا طریقہ ہے یہ وہی طریقہ ہے جو 2004 ء میں انہوں نے وزیراعظم اٹل بہاری باجپئی سے بات کی تھی اور ان کی حمایت ہی نہیں کی تھی ان کی امیدوار اسمرتی ایرانی کے لئے دکان دکان اور جامع مسجد کے چاروں طرف جتنے بھی مسلمان ہیں ان سے بی جے پی کے لئے ووٹ مانگے تھے۔ 2012 ء میں ملائم سنگھ سے بھی تنہا ہی گفتگو کی تھی اور اپنے داماد کو پارٹی کا ٹکٹ دلا دیا تھا اور جب وہ شاہی امام کا داماد ہوتے ہوئے بھی ہار گیا تو اُسے کاؤنسل کا ممبر بنوا دیا۔ 2017 ء میں مس مایاوتی سے بھی اکیلے ہی بات کی تھی۔ اب 2019 ء وزیراعظم کے سامنے ہے اور مولانا احمد بخاری بھی اسے سونے کی لنکا بنانے کے لئے اگر تنہا بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ جانیں اور امت شاہ جنہیں 2019 ء میں جیتنے کے لئے ملک کا پورا خزانہ خالی کرنا ہے۔
اب آیئے جہاں سے بات شروع کی تھی کہ جامع مسجد اگر کبھی شاہی مسجد تھی بھی تو کم از کم 1857 کے بعد تو شاہوں سے اس کا رشتہ ختم ہوگیا اور یہ شرم کی بات ہے کہ جامع مسجد کو جو عظمت اللہ کا گھر ہونے کی وجہ سے حاصل ہے اسے شاہجہاں سے منسوب کرکے ممتاز بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہر مسجد وہ کتنی ہی بڑی اور کسی کی بنوائی ہوئی ہو خدا کا گھر ہے اور اس میں جو نمازیوں کی امامت کرے وہ امام ہے۔ جب کسی امام کو خدائی امام نہیں کہا جاتا تو شاہی یا نوری امام کہنا کسی طرح مناسب نہیں اور جو تنخواہ لے کر نماز پڑھاتا ہو وہ تو سب سے کمتر درجہ کا امام ہے۔
Mobile No. 9984247500