2013ء میں عالم اسلام کا مایوس کن سفر

Bhatkallys

Published in - Other

05:19AM Fri 10 Jan, 2014
از: شمس تبریز قاسمی 2013ء کا سفر تمام ہو چکاہے ۔2014ء کے شب و روز ہم پر سایہ فگن ہیں۔دنیا کے ہر خطے میں لوگوں نے اس سال نو کا ہوائی فائرنگ کے ذریعے استقبال کیا ہے۔سال گذشتہ کی تلخ یادوں کو فراموش کرکے نئے جذبے ،نئے امنگ ،نئے جوش و لولہ کے ساتھ نئے سال کو بہتر بنانے کے لئے کتاب زندگی کے ایک نئے باب کا آغاز کر دیا ہے۔عالم اسلام کے اہم ملک دبئی کو سال نو کا جشن منانے کے لئے نمبر ون کا خطاب بھی مل گیاہے۔نئے سال کا سفر شروع کرنے کے ساتھ پرانے سال کا جائزہ لینا ضروری ہے،ماضی کے حالات و واقعات کو پیش نظر رکھ کر مستقبل کے لئے لائحہ عمل طے کرنا کامیابی کا اہم ترین زینہ ہے۔ 2013ء کا یہ سفر عالم اسلام کے لئے بے حد مایوس کن ثابت ہواہے،آج سے ایک سال قبل 2013ء کے آغازمیں جب ہم2012ء کا جائزہ لے رہے تھے تو ہمارے سامنے افسوسناک خبروں کی ایک لمبی فہرست تھی،لیکن اس میں کئی ایک خبر عالمی سطح پر مسلمانوں کے لئے مسرت کن بھی تھی اور باعث صد رشک بھی،ان میں سب سے اہم انقلاب مصر کی خبر تھی۔مصر میں ایک طویل عرصہ اور لمبی جدجہد کے بعد اسلام پسندوں کو سیاست میں قدم جمانے کا موقع ملا تھا،بے دریغ قربانی کے بعد اخوان المسلمین نے اقتدارکا پرچم لہرایا تھا،پوری دنیا کو یہ مسرت آمیز پیغام دیاتھاکہ اب مصر میں اسلامی جمہوریت کی بحالی ہو گئی ہے،اسلامی قوانین کا نفاذ ہوگیا ہے،مسلم ممالک کی امریکی غلامی سے نجات سے کاسلسلہ شروع ہوگیا ہے۔صدر محمد مرسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہ دیاتھا کہ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہمارا دشمن ہے اور جس سے ہمارے رسول کی دوستی ہے اس سے ہماری بھی دوستی ہے‘‘۔ محمد مرسی کا یہ جملہ اغیار اسلام کوکھٹک گیا،مصر میں اسلامی شریعت کا نفاذان کے ناقابل برداشت ہوگیا،ِاخوان المسلمین کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی تیاری انہوں نے شروع کردی ،بالآخر 3جولائی کی وہ منحوس صبح آئی جس میں اسلام دشمنوں کو اپنے مقصد میں کامیابی ملی اور مصر کے فرعونی منصب پہ ہزاروں سال بعد فائزہونیوالے عبدالفتاح السیسی نے جمہوری حکومت کو برطرف کرکے فوجی حکومت قائم کردی۔آج مصر میں فرعونی نظام رائج ہے،منصب صدارت پہ ایک یہودی متمکن ہے،اسلام اور قرآن کے قوانین سے اس حکومت کو شدید نفرت ہے،اسلام پسندوں کا ناطقہ حیات بند کرنا ان کاا ہم ترین ایجنڈا ہے،مصر دنیا کا وہ واحد ملک بن گیاہے جہاں سرکاری اجازت کے بغیر کسی عالم دین کو مسجد میں خطبہ دینے کی اجازت نہیں ہے۔موجودہ حکومت نے اخوان المسلمین پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر دیاہے،اس کی تمام تر حرکتو ں کو قانونا جرم میں شامل کردیا ہے۔اخوان کے تمام اہم لیڈران جییل کی سلاخوں میں بندہیں۔عالم اسلام کی عظیم یونیورسیٹی جامعہ ازہر مصر دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔حسنی مبارک سمیت تمام امریکہ نواز لیڈران ایک سال کی گمنامی کے بعد ایک مرتبہ پھر میدان سیاست میں سرگرم عمل ہو گئے ہیں۔ عالم اسلام کا اہم ترین ملک شام اب تک خانہ جنگی کا شکار ہے،دو لاکھ سے زائد مسلمان جام شہادت نوش کر چکے ہیں،دس لاکھ سے زائد بے گھر ہیں،تقریبا پانچ لاکھ ترکی میں پناہ گزین ہیں۔تیونس سے شروع ہونے والی جمہوری لہر سب سے پہلے شام میں پہچی تھی،اس کے بعد مصر اور لیبیا میں احتجاج شروع ہوا تھا؛لیکن اسے وقت کی ستم ظریفی کہئے یا پھر شام میںآزادی کی طلب گار عوام کی بد نصیبی کہ مصر میں اب تک کئی ایک تبدیلی آچکی ہے،لیبیا میں کرنل قذافی کی حکومت کاخاتمہ کرنے لئے بغیر کسی ثبوت کے ناٹوافواج کے ذریعے حملہ کرا دیا گیا؛لیکن شام کا معاملہ تین سال کا عرصہ گذرجانے کے باوجو جوں کا توں برقرار ہے ۔اقوام متحدہ ظلم کے اس ننگے ناچ پر خاموش ہے،امن کا علمبردار امریکہ شام پر حملہ کرنے کاجھوٹا پرو پیگینڈہ کرکے ایک میر تبہ پھرپس پردہ بشارالاسد کے ظلم کی حمایت کررہا ہے، عرب ممالک کی کاغذی تنظیم عرب لیگ اپنی تمام تر کوششیں کرکے تھک ہار چکی ہیں،ایران اور حزب اللہ کی حمایت قابل تعجب نہیں ہے،ہاں! تعجب خیز اور حیرت ناک خبر یہ ہے،کوئی بھی مسلمان اس پہ یقین نہیں کر رہا ہے ،خودمیرا قلم لکھتے ہوئے کانپ رہا ہے کہ’’عالم اسلام کا مرکز ،مسلمانوں کی مقدس سرزمین سعودی عرب کے فرما رواں مسلمانوں کے اس قتل عا م میں برابر کے شریک ہیں،مصر کی اسلامی حکومت کا تختہ پلٹنے کے لئے انہوں نے فنڈنگ کی ہے،شام میں حریت کے طلبگار مسلمانوں کوکچلنے اور ان کی طاقت کو ختم کرنے کے لئے وہ بشارالاسد کا خصوصی تعاون کر رہے ہیں‘‘۔ ماضی کی طرح اس سال بھی فلسطین سے اندوہناک خبر آئی ہے کہ 2013 میں یہودی آبادکاریوں میں دو گنا اضافہ ہوا ہے ۔مسجد اقصیٰ کے شعبۂ مخطوطات کے نگراں الشیخ ناجج بکیرات نے نیوز ایجنسوں سے ایک بیان میں کہا ہے کہ مقبوضۂ بیت المقدس میں یہودی کالونیوں کی تعمیر اور یہودی آبادکاروں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کے ساتھ انتہا پسند یہودیوں کی جانب سے قبلۂ اوّل پر حملوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔مجموعی طور پر2013میں 11/ہزار 812 /یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کا ارتکاب کیا ہے،جبکہ2012 ء یہ میں تعداد 6/ہزار215/ تھی ،نیز اسرائیلی حکومت نے 23/ہزار مکانات کی تعمیر کے اعلان کے ساتھ لاکھوں ڈالر کی رقم بیت المقد س میں یآباد کاری پر صرف کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ 2013ء کے نومبر میں ایک اذیت ناک خبر انگولا سے موصول ہوئی تھی ،افریقی ملک انگولا نے اسلام پر پابندی لگادی ہے،مساجد کو منہدم کرنے کا حکم جاری کردیا ہے،ہر طرح کی شرعی نقل حرکت قانونا جرم میں شامل ہے،یہ خبر ایک افریقی نیوز ایجنسی نے شائع کی تھی ،اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعدعالم اسلام میں عجیب و غریب بے چینی پید ا ہو گئی تھی،اسلام کے چودہ سوسالہ سفر میں پہلی مرتبہ کسی مسلمان کے گوش سماعت سے یہ خبر ٹکرائی تھی ۔نائن الیون کے واقعہ کے بعد یورپ اور افریقہ میں اسلام تیزی سے پھیلنا شروع ہوگیا ہے،ان ممالک کی ایک بڑی تعداد قرآن و حدیث اور اسلامک لٹریچر کے مطالعہ کے حلقہ بگوش اسلام ہورہی ہے،اسلام کی اس بڑھتی ہوئی مقبولیت سے یورپ خوفزدہ ہے ،اور اس کے سدباب کے لئے مختلف حربے اپنا رہے ہیں ،کبھی برقعے پر پابندی لگاتے ہیں،کبھی آذان کی آواز کو شور و ہنگامہ قرار دیکر مائک پر پابندی لگاتے ہیں،انگولا میں بالکیہ اسلام پر پابندی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،وہاں کی ایک مسلم تنظیم کے صدر کا بیان ہے کہ ’’انگولا میں حالیہ دس برسوں کے اندر مسلمانوں کی تعداد میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے جس کو حکومت اپنے لئے خطرہ سمجھ رہی ہے اور اس کے سد باب کے لئے حکومت نے یہ سخت قدم اٹھایا ہے۔ میانما ر میں مسلمانوں کا قتل عام اس سال بھی جاری رہا ۔یہ ہندوستان سے قریب ایک چھوٹا سا ملک ہے،یہاں بدھ مذہب ماننے والوں کی اکثریت ہے،حکومت کی باگ دوڑ بھی ان ہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے،مسلمانوں کی تعداد پانچ فی صد سے بھی کم ہے۔بڈھشٹ کے بارے میں عام تأثر یہ ہے کہ یہ لوگ امن و سلامتی کے روادار ہوتے ہی،تشد د اور قتل وغارت گری سے یہ لوگ دور رہتے ہیں،ان کے مذہبی پیشوا گوتم بدھ ان اوصاف کی بنا پر عالمی شہرت کے حامل ہیں،میانمار کی اپوزیشن لیڈر آنگ سانگ سونکی ‘‘امن نوبل انعام یافتہ ہے،جمہوریت کی بحالی میں ان کا خصوصی کردار ہے۔امن و سلامتی کے ضامن سمجھے جانے والے اس ملک میں تقریبا تین سالوں سے مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے،دو شیزاؤوں کی عفت و عصمت تار تار ہو رہی ہے،حاملہ خواتین کے کے پیٹ کو چاق کرکے بچہ اور ماں دونوں کا قتل کیا جارہا ہے،معصوم بچوں کو موت گھاٹ اتا جارہا ہے،مسلمان موت و حیات کی عجیب کشمکش میں اپنے شب وروز بسر کر رہے ہیں،زمین ان کے لئے تنگ ہو چکی ہے۔مصیبت کی اس گھڑی میں کوئی بھی ملک ان کے غم میں شریک نہیں ہے،مسلم ممالک کی تعداد57/ہے ،لیکن ترکی کے علاوہ کسی نے بھی میانمار حکومت کی اس مسلم نسل کشی کے خلاف آواز بلند نہیں کی ہے،اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کسی بھی حکمراں کوظلم کے اس ننگے ناچ کے خلاف بولنے کی توفیق نہیں مل سکی ہے۔اقوام متحدہ اور امریکہ کی خاموشی یہ صاف بتارہی ہے کہ عالمی قوانین کی دفعات میں مسلمان کا قتل عام بھی شامل ہے،دنیا کا جو ملک چاہے اسلام پر پابندی لگادے،مساجد کو منہدم کرادے،مسلمانوں کا بے دریغ کا قتل کرے،اقوام متحدہ اس پہ گرفت نہیں کرے گا،سیکولرزم اور جمہوریت کا دعوی کرنے والوں کی نگاہ میں یہ جرم نہیں ہوگا،ہاں اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب سے وابستہ کوئی معاملہ ہوگا،مسلمانوں کے علاوہ کسی اور مذہب والوں کے ساتھ ذر ہ برابر کوئی زیادتی ہوگی تو اقوام متحدہ پھر حرکت میں آجائے گی،ہنگامی اجلاس طلب کرے گی،او ر اس کے خلاف کاروائی شروع کر دے گی۔ عالم اسلام کا واحدایٹمی ملک پاکستان کا سیاسی مستقبل اب بھی تا ریک نظر آرہا ہے،جولائی میں حکومت کی تبدیلی کے بعد عوام نے سنہرا خواب دیکھا تھا کہ ہمارا ملک پاکستان اب امریکی غلامی سے آزاد ہوجائے گا ،ڈرون حملے بند ہو جائیں گے ،ان حملوں میں ہلاک ہونے والے عام شہری راحت کی سانس لیں گے،ملک میں معاشی ترقی ہوگی کرپشن اور رشوت خوری ختم ہوگی عوام کو تعلیمی ،معاشی ،سماجی اور دیگر ہر طرح کی سہولیات فراہم ہوگی ،ملک سے غربت رفوچکر ہوجائے گی ،لیکن پانچ ماہ کے اس عرصے میں وہاں کی عوام کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا اور انہوں نے یہی محسوس کیا کہ حکومت میں صرف چہرہ کی تبدیلی ہوئی تھی حکومتی پالیسی اپنی جگہ برقرار ہے، آصف علی زرداری اور نواز شریف دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ،امریکی رشوت لے کر عام شہریوں کو ڈرون طیاروں کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارنا پاکستانی حکمرانوں کا ایک خاص وطیرہ ہے ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے حکومت پرویز مشرف کی ہے ،آصف علی زرداری کی ہے ،نواز شریف اس منصب پر آجائیں یاپھر مستقبل میں کسی اور کو حکومت سازی کا موقع ملے ان تمام کی دل چسپی امریکی ڈالر کے حصول میں ہوتی ہے اور اس کے لئے وہ شب وروز جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ 1971 ؁ء میں پاکستان سے الگ ہونے والا مسلم ملک بنگلہ دیش افراتفری کا شکار ہے چالیس سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اس ملک میں مضبوط جمہوریت کی بحالی نہیں ہو سکی ہے، ہرروز ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے عوام کی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے ملکی معیشت دن بدن خسارے کا شکار ہورہی ہے ،پاکستان اور بنگلہ دیش کی آپسی رشہ کشی ان دنوں ملک کے لئے سب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہورہی ہے ، حالیہ دنوں میں تقسیم بنگلہ دیش کے مخالفت کرنے مییں تختۂ دار پر لٹکنے والے ملا عبدالقادر کی پھانسی کے بعد دونوں ملک کی دشمنی میں مزید شدت آگئی ہے بنگلہ دیش کی معاشی حالت بھی بدتر ہوتی جارہی ہے۔نئے سال کی نئی خبر یہ ہے کہ5/جنوری اتوار کو الیکشن ختم ہونے کے بعد اگلے الیکشن کی تیاری ہورہی ہے،یعنی یہ الیکشن ناکام ہو گیا ایک سو ووٹ مراکز نذر آتش کردئیے گئے۔ آ ٹھ سو سال تک مسلمانوں کے زیر نگیں رہنے والا ملک ہندوستان بھی سال رواں مسلمانوں کے لئے بہترین نہیں رہا۔ ملک کے طول و عرض میں کشمیر سے لیکر کنیا کماری تک اور گجرات سے لیکر آسام تک ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے،اور ہر ایک میں مسلمانوں کے جان و مال کا سب سے زیادہ نقصان ہوا،ان کی عزت و آبرو لوٹی گئی۔ فسادات کی اس فہرست میں مظفّر نگر کا تذکرہ انتہائی ضروری ہے جس نے 2002ء میں ہونے والے گجرات فساد کی یاد دلادی تھی ۔جس میں500/ سے زیادہ مسلمانوں کا قتل ہوا،خواتین کی عفت و عصمت تار تار کی گئی۔ اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ۔دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود مسلمان خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ظلم بالائے ظلم یہ کہ ریاستی حکومت نے خیموں میں پناہ گزیں مسلمانوں پر بلڈوزر چلا دیا ہے جس سے بے آب وگیاہ جنگل میں اب انکا آخری ٹھکانہ بھی اب ختم ہوگیا ہے ۔بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی ہے ،یوپی کی جکمراں جماعت سماج وادی پارٹی کے صدر ملائم سنگھ نے ان مظلوم مسلمانوں پر یہ الزام لگایا کہ خیموں میں رہنے والے کانگریس اور بی جے پی کے ایجنٹ ہیں اور یہ لوگ کسی سازش کے تحت ان خیموں میں پناہ گزیں ہیں ۔دوسری طرف کانگریس پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی کا یہ بیان ہے کہ مظفر نگر کے مسلمان پاکستان کی خفیہ تنظیم آئی ایس آئی کے رابطے میں ہیں اور اس فساد کے لئے یہی لوگ ذمہ دار ہیں ۔مظفر نگر سے 30/ کلومیٹر کے فاصلے پر عالم اسلام کے دلوں کی دھڑکن دارالعلوم آباد ہے۔ عالم اسلام کے اس عظیم ادارے کے ساتھ ظلم و زیادتی کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ چھٹیوں کے موقع پر طلبہ کو زدوکوب کئے جانے کا یہ سلسلہ پانچ سال سے جاری ہے جو اس سال بھی جاری رہا ۔ مظفرنگر اور غازی آباد کے درمیان شرپسندوں نے کئی ایک طلبہ کو زیادتی کا نشانہ بنایا ۔ انڈین مجاہدین کا ممبر ہونے اور دہششت گردی کے الزام میں سال رواں بھی مسلمانوں کی گرفتاری کاسلسلہ جاری رہا جیلوں میں قید بے قصور مسلم نوجوانوں کی رہائی ککا مسئلہ بھی حل نہیں ہوسکا، دہلی میں میں واقع ہوئے فر ضی بٹلہ ہاوس انکاؤنٹر کے مظلومین سال رواں بھی انصاف سے محروم رہے نچلی عدالت نے اسے صحیح بھی قرار دے دیا۔مسلمانوں کے لئے ایک بری خبر یہ بھی رہی کہ گجرات فساد میں مسلم نسل کشی کے مجرم نریندر مودی کو عدالت نے کلین چٹ دے دی ۔ ہندوستان میں 2014ء کے عام انتخابات بالکل قریب آچکے ہیں لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہ مسلمان اب تک 2014ء کے لئے اپنا کوئی مشن نہیں بنا سکے ہیں۔ مسلمانوں کی قیادت کرنے والے مختلف حصوں میں تقسیم ہیں۔ الگ الگ پارٹیوں سے ہر ایک کی قربت ہے۔ متحدہ پلیٹ فارم پرآنے کو وہ تیار نہیں ہیں جس کا بڑا نقصان ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کو عام انتخا بات میں اٹھانا پڑے گا اور ان کی سیاسی قوت نہیں ابھر پائے گی خلاصہ کلام یہ کہ سال گذشتہ مسلمانوں کے لئے بیحد مایوس کن رہا ہے ،ہراعتبار سے عالمی سطح پر مسلمانوں کو ہزیمت اور پریشانیاں اٹھانی پری ہیں؂۔ سیاسی ،سماجی ، اقتصادی اور دیگر کسی بھی سطح پر مسلمانوں کی ترقی دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ عیسوی کلنڈر کے اعتبار سے سال 2014ء کا آغاز ہوچکا ہے۔اسلامی کلنڈر کے اعتبار سے 2/ماہ قبل سے ہی ہم 1435/ہجری میں اپنا سفر طے کررہے ہیں۔امید ہے کہ مسلمان اب ہوش کا ناخن لیں گے۔اسلاف کی روشن تاریخ پر عمل پیرا ہوکر روشن مستقبل تعمیر کرنے کی فکر کریں گے۔ماضیوں کی غلطیوں سے عبرت لے کر سال نو کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ Mob:9557264795 Email:stqasmi@gmail.com