اردو صحافت کے 200 سال: پتھر کے عہد سے کمپیوٹر تک... معصوم مرادآبادی

Bhatkallys

Published in - Other

04:14PM Sun 27 Mar, 2022
ہندوستان میں اردو صحافت کی تاریخ لازوال قرباینوں اور جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں جب شہرنشاط کلکتہ سے اردو صحافت کا آغاز ہوا تو اس کے خدوخال واضح نہیں تھے اور نہ ہی مستقبل کا کوئی خاکہ تھا۔ یہ وہ پرآشوب دور تھا جب ملک پر انگریزوں کا تسلط تھا۔ لکھنے اور بولنے پر پابندیاں عائد تھیں۔ ان مشکل حالات میں ظالم حکمراں کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے کا جوکھم سب سے پہلے اردو صحافت نے اٹھایا اور وہ جنگ آزادی کا ہراول دستہ بن گئی۔ جدوجہد آزادی میں انگریز اردو اخبارات اور اس کے مدیروں سے کس حد تک خوفزدہ تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے جن لوگوں کو سب سے پہلے سزائے موت دی ان میں ’دہلی اردو اخبار‘ کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر اور ’پیام آزادی‘ کے مدیر مرزا بیدار بخت شامل تھے۔ مولوی محمد باقر کو توپ کے دہانے پر رکھ کر اڑا دیا گیا اور مرزا بیدار بخت کے جسم پر سور کی چربی مل کر پھانسی دے دی گئی۔ اس دور میں اردو صحافت نے آزادی اور قومی اتحاد کے لیے جو جنگ لڑی، اس کا اندازہ کلکتہ سے شائع ہونے والے قدیم اخبار ’روزانہ ہند‘ کے ایڈیٹر رئیس الدین فریدی کے درج ذیل بیان سے بھی ہوتا ہے:
’’1857 سے 1930-35 تک ملک گیر پیمانے پر آزادی اورقومی اتحاد کے لیے جنگ کرنے کا سہرا زیادہ تر اردو اخبارات کے سر رہا، کیونکہ ہندی اخبار اس زمانے میں برائے نام ہی تھے۔ انگریزی کے اکثر اخبار انگریزوں کے ہمنوا تھے اور علاقائی زبانوں کے اخباروں کا حلقہ اثر محدود تھا۔‘‘(آجکل، نومبر، دسمبر 1983) آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ آزادی کی جنگ میں ایک ایسا اردو اخبار بھی پیش پیش تھا، جس کا ایڈیٹر اپنی تقرری سے پہلے یہ شرط منظور کرتا تھا کہ اس کی تنخواہ ’جو‘ کی ایک روٹی اور پانی کا ایک پیالہ ہوگا، جو اسے جیل میں ادا کی جائے گی۔ ہفتہ وار ’سوراجیہ‘ کے نام سے یہ اخبار1907 میں بابو شانتی نرائن بھٹناگر نے الہ آباد سے جاری کیا تھا۔ یکے بعد دیگرے اس اخبار کے 9 ایڈیٹروں نے بغاوت کے جرم میں گرفتاریوں اور ’کالاپانی‘ کی سزائیں جھیلیں۔ ’سوراجیہ‘ کے آٹھویں ایڈیٹر لدھا رام کو الہ آباد کے سیشن جج رستم جی نے دس سال قید کالا پانی کی سزا سنائی تھی۔
1912 میں اردو صحافت کے افق پر نمودار ہونے والے تین اہم ترین اخباروں کا تذکرہ بے جا نہیں ہوگا، جنھوں نے اردو صحافت کی تاریخ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مولانا ابولکلام آزاد نے کلکتہ سے ’الہلال‘ جاری کیا جبکہ اسی دور میں مولانا محمدعلی جوہر نے دہلی سے ’ہمدرد‘ اخبار کا اجرا کیا۔ مولوی مجید حسن نے بجنور سے ’مدینہ‘ جاری کیا، جو سب سے زیادہ عرصہ تک زندہ رہا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبار ’الہلال‘ کی17 مرتبہ ضمانت ضبط کی گئی۔ جس کے نتیجے میں اس کی اشاعت روک کر مولانا آزاد نے ’البلاغ‘ کا اجراء کیا۔ مولانا محمدعلی جوہرکی گرفتاری کے بعد ’ہمدرد‘ کی اشاعت بھی بند ہوئی۔ مگر ان تینوں ہی اخبارات نے جنگ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ لاہور سے شائع ہونے والا مولانا ظفرعلی خاں کا ’زمیندار‘ بھی اسی دور کی نشانی ہے۔ ’زمیندار‘ کو اس زمانے میں 22 ہزار روپے ضمانتوں کے طور پر جمع کرانے پڑے۔ اس کے بیس ایڈیٹروں کو قید وبند کی صعوبتیں اٹھانی پڑیں۔ اردوصحاف کے بنیاد گزاروں میں سرسید احمدخاں (’تہذیب الاخلاق‘)منشی نول کشور(اوردھ اخبار) مولانا حسرت موہانی (اردوئے معلی) کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔
اردو اخبارات کی یہ جدوجہد محض انگریز سامراج سے لوہا لینے تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ ابتدائی دور میں تکنیکی دشواریاں بھی اردو صحافت کو دامن گیر رہیں۔ اردو صحافت کے لیے یہ ہراعتبار سے ایک مشکل اور آزمائشوں سے بھرا دور تھا۔ یہ آزمائشیں ایسی پریشان کن تھیں کہ آج کے دور میں ان کا کوئی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آج جو لوگ رنگین طباعت اور بہترین کاغذ پر اردو اخباروں کا مطالعہ کرتے ہیں، ان میں سے شاید کم ہی لوگوں کو اس بات کا علم ہو کہ اردو اخبارات کی طباعت کا آغاز پتھروں کی مدد سے ہوا تھا۔ آج کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا سے استفادہ کرنے والوں کو یہ بات بھی نہیں معلوم ہوگی کہ ماضی قریب تک اردو کے اخبارات پیلے مسطر پر کتابت کے دشوار گزار مرحلے سے گزر کر سست رفتار مشینوں پر چھپتے تھے۔ آج ویب آفسیٹ مشینوں کا دور ہے جو چند گھنٹوں میں لاکھوں اخبار چھاپ کر خود ہی فولڈ بھی کر دیتی ہیں، لیکن لیتھو مشینوں کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ ساری رات میں ایک دو ہزار اخبار چھاپنے پر ہی قادر تھیں۔ مشین میں کاغد کو ہاتھ سے لگانا پڑتا تھا اور سیاہی بھی ہاتھ سے ڈالنے پڑتی تھی۔ پھر ایک بائنڈر انھیں فولڈ کرتا تھا اور ہاکر اپنے کاندھے پر اٹھاکر بیچنے نکلتا تھا۔ آج اخبارات کی دنیا یکسر بدل چکی ہے۔ کتابت وطباعت کے دشوار گزار مراحل سے نجات مل چکی ہے اور اردو اخبارات ٹیکنالوجی کے میدان میں انگریزی اور دیگر ترقی یافتہ زبانوں سے آنکھیں چار کر رہے ہیں۔ حالانکہ وسائل آج بھی محدود ہیں۔