نومبر 20: کو اردو کے مقبول ترین شاعر فیض احمد فیضؔ کا برسی ہے

Bhatkallys

Published in - Other

01:07PM Thu 23 Nov, 2017
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیضؔ کے اجداد کا سلسلہ نسب سہارنپور کے راجپوت فرمانروا" سین پال" سے ملتا ہے۔ اُن کے پردادا کا نام سر بلند خاں اور دادا کا نام صاحبزادہ خاں تھا ۔ فیضؔ کی ہمشیرہ اختر جمال ایک انٹرویو میں بتاتی ہیں: " کسی زمانے میں ایک راجپوت راجہ ہوا کرتا تھا اس کا نام سین پال تھا۔اس کا تعلق سہارنپور سے تھا۔ اس کی اولاد میں ایک نے اسلام قبول کر لیا۔ ہمارے والد کا تعلق اسی شاخ سے ہے۔ہمارے پردادا کا نام سر بلند خاں اور دادا کا صاحبزادہ کاں اور والد کا نام سلطاں محمد خان تھا۔ ان کی والدہ کا تعلق بھی ایک زمیندار خاندان سے تھا۔ فیضؔ کے نانا کا نام عدالت خاں تھا۔بقول اختر جمال: ہماری دوسری والدہ کا تعلق ایک گاؤں جسٹر سے تھا جو نارووال تحصیل میں ہے زمیندار خاندان کی تھیں۔ فیضؔ کا آبائی ذریعہ معاش کاشتکاری تھا ۔ لیکن فیضؔ کے والد کاشتکاری کی طرف راغب ہونے کی بجاۓ تعلیم کی طرف راغب ہوۓ۔انہوں نے زمانے کے دستور کے مطابق عربی، فارسی اور انگریزی کی اعلٰی تعلیم حاصل کر کے سند فضیلت حاصل کی۔ ان کی فارسی دانی کا اندازہ صرف اسی واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستانی وفد کی آمد پر انہوں نے ترجمان کے فرائض بخوبی انجام دیۓ۔ان کے طرز گفتگو اور فارسی زبان پر مہارت سے وفد کے ارکان بہت متاثر ہوۓ ۔ اور ان سے کابل چلنے کی درخواست کی فیضؔ کے والد نے اس پیشکش کو قبول کر لیا۔ اور وہ وفد کے ساتھ کابل چلے گۓ جہاں والی افغانستان امیر محمد عبدالرحمٰن نے ان کی اعلٰی قابلیت کے اعتراف کے طور پر انھیں شھزادی کا اتالیق مقرر کیا۔مزید برآں وہ افغانستان کے سفیر کی حیثیت سے تین برس تک لندن میں رہے۔اسی دوران انھوں نے بیرسٹری کا امتحان پاس کر لیا اور افغانستان کے امیر محمد عبدالرحمٰن کی بھتیجی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گۓ۔ فیضؔ کے والد شعر و ادب کے دلدادہ اور ستھرے ادبی ذوق کے مالک تھے ۔اس زمانے کے مشہور ادباء اور شعراء بشمول علامہ اقبالؔ سے ان کے گہرے مراسم تھے ، علامہ اقبالؔ سے ہم وطن ہونے کے باعث خاصی قربت تھی ۔ فیضؔ نے علامہ اقبالؔ سے گہرے تعلقات کا تذکرہ ایک انٹرویو میں کیا: ایک تو وہ(علامہ اقبال) ہم وطن تھے دوسرے وہ میرے والد کے بھی دوست تھے اس لیے دونوں ہم عصر تھے۔اور یہاں انگلستان میں بھی وہ ایک ساتھ رہتے تھے۔ فیضؔ کے والد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ممبر، انجمن اسلامیہ سیالکوٹ کے صدر اور انجمن حمایت الاسلام کے سرکردہ تھے آپ نے ملی اور تعلیمی اداروں کی گرانقدر علمی، تعلیمی اور سماجی خدمات انجام دیں، فیضؔ کے والد کو انگریزی، اردو اور فارسی زبان پر قدرت حاصل تھی اور تینوں زبانوں میں ان کی تصانیف موجود ہیں۔ انھوں نے والئی افغانستان امیر عبدالرحمٰن کی سوانح عمری انگریزی میں تحریر کی اس کے علاوہ افغانستان کے دستوری قوانین اور ایک انگریزی ناول کا اردو ترجمہ بھی کیا جو دختر وزیر کے نام سے اشاعت پزیر ہوا۔ دسمبر 1931ء مین فیضؔ کے والد کا بالکل اچانک اختلاج کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا۔ ان کے والد کے انتقال کا منظر بڑا دردناک تھا ۔ کیونکہ جس دن انتقال ہوا اسی دن فیضؔ کی ہمشیرہ کی شادی تھی۔ایک طرف باپ کا جنازہ اٹھا ادھر بہن کی رخصتی ہوئی۔اس محشر کرب و بلا کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس سانحہ کا ذکر فیضؔ کے شعری مجموعہ " شام شہریاراں" مین شیرؔ محمد حمید نے کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاریخ ولادت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیضؔ نے عبادت بریلوی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کی تاریخ ولادت 7 جنوری 1911ء ہے۔ جو ہائی سکول سرٹیفیکیٹ سے ماخوذ ہے۔اس کی صحت کے بارے میں فیض خود بھی مشکوک تھے ۔ اس انٹرویو مین فیضؔ نے اپنی صحیح تاریخ ولادت اور سوانح حالات کے سلسلے میں کھل کر اظہار خیا کیا۔ اس انٹرویو کا ایک اقتباس درج ذیل ہے: " فیض: ولادت تو میری سیالکوٹ مین ہوئی ۔ تاریخ ولادت مجھے خود ہی نہیں معلوم ۔ ایک ہم نے فرض بنا رکھی ہے۔ عبادت: اچھا وہی بتا دیجیۓ۔؟ فیض: 7 جنوری 1911ء ہے لیکن یہ محض اسکول کے سرٹیفیکیٹ سے نقل کی گئی ہے اور میں نے سنا ہے کہ اس زمانے مین جو تاریخیں لکھی جاتی تھیں وہ سب جعلی ہوتی تھیں۔ مدیر افکار صہباؔ لکھنوی نے سیالکوٹ بلدیہ دفتر کے حوالے سے 13 فروری 1911ء فیض کی تاریخ ولادت قرار دی ہے۔ وہ اپنے مضمون " فیض احمد فیض"،زندگی ، شخصیت اور فن کا مستند جائزہ میں رقمطراز ہین: " خاندانی نام فیض احمد خاں، ادبی تخلص فیض احمد فیضؔ ۔ صحیح تاریخ و سن پیدائش 13 فروری 1911ء بمقام سیالکوٹ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابتدائی تعلیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیضؔ کی ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہوئی۔ 1915ء کو بسم اللہ ہوئی اس وقت وہ چار سال کے تھے ۔ وہ 1919ء میں مسجد شیخ حسام کے مشہور مدرسے میں داخل ہوۓ جہاں انھوں نے میر ابراھیم سیالکوٹی کے سامنے زانوۓ تلمذ تہہ کیا اور ان سے دینی تعلیم کے علاوہ عربی،اردو اور فارسی کی ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی۔ اپنی ابتدائی تعلیم کے بارے میں فیضؔ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے۔ " اس میں سب سے زیادہ میرے استاد یعنی قریبی استاد تھے مولوی ابراھیم میر سیالکوٹی بہت بڑے فاضل تھے۔ ابجد میں نے ان سے پڑھی ابتدایئ کتابیں ان سے پڑھیں اور اس کے بعد قرآن و حدیث کا درس ان سے لیا۔ فیضؔ کے والد سلطاں محمد خان ایک کامیاب وکیل تھے لٰہذا ان کی پرورش شہزادوں کی طرح ہوئی۔آرام اور آسائش کا ہر سامان موجود تھا اور پیسے کی فراوانی تھی۔تعلیم کے ساتھ ساتھ تفریح کی ہر سہولت فراہم تھی ۔فیضؔ کے والد شاہ خرچ تھے اور انہوں نے کبھی رقم پس انداز نہیں کی یہی وجہ تھی کہ ان کے اچانک انتقال کے بعد فیضؔ کے کنبہ کو شدید مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ فیضؔ کہتے تھے: " جب ہمارے والد فوت ہوۓ تو پتہ چلا کہ گھر میں کھانے تک کو کچھ نہیں ہے۔ کئی سال تک دربدر پھرے فاقہ مستی کی اس میں بھی لطف آیا اس لیے اس کی وجہ سے تماشاۓ اہل کرم دیکھنے کا بہت موقع ملا" فیضؔ کے خاندان کے تمام افراد راسخ العقید مسلمان تھے۔ اور سب لوگ مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے تھے۔ ان کے کنبہ کے بیشتر افراد پابند شرع اور صوم و صلٰواۃ تھے۔ فیضؔ بھی اپنے والد کے ساتھ مسجد جایا کرتے تھے ۔ فیضؔ کے درج ذیل 9 بہن بھائی تھے: حاجی طفیل احمد، فیضؔ احمد فیضؔ، میجر عنایت احمد،بشیر احمد،بیگم شجاع الدین، بیگم حمید، بیگم نجیب اللہ،بیگم اعظم علیاور رشیدہ سلطانہ۔ فیضؔ نے 1921ء مین اسکاچ مشن سکول سیالکوٹ میں داخلہ لیا جہاں سے 1927ء مین میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ فیضؔ نے میٹرک میں فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔انھوں نے ایف اے امتحان کالج آف سیالکوٹ سے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا ۔ فیض نے اس کالج میں شمس العلماء میر حسن سے عربی و فارسی میں تعلیم حاصل کی۔انھوں نے 1931ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور آنرس کے امتحان پاس کیے۔ فیضؔ نے 1933ء میں اورینٹل کالج سے انگریزی میں ایم اے کیا اور 1934ء میں اورینٹل کالج سے عربی میں فرسٹ ڈویژن ایم اے پاس کیا۔ فیضؔ طبعی طور پر شاعر تھے ان کے پڑوس میں اکثر مشاعرے ہوا کرتے تھے جن میں وہ بڑے شوق سے شرکت کرتے تھے۔ انہوں نے پہلی بار جب وہ ہائی سکول کے طالب علم تھے اس مشاعرے میں اپنا کلام بھی سنایا۔ ان کے متعدد اشعار بہت پسند کۓ گۓ مگر صدر مشاعرہ منشی سراج الدین نے انکی کم عمری کو دیکھ کر ان سے شعر و شاعری کی طرف راغب نہ ہونے اور تعلیم کی طرف تمام تر توجہ مبذول کرنے کا مشورہ دیا۔ فیضؔ نے ایک انٹرویو میں شعر گوئی کے آغاز پر بالتفصیل روشنی ڈالی تھی۔ یہ انٹرویو عبادت علی بریلوی نے لیا تھا ۔ فیضؔ اس انٹرویو میں کہتے ہیں: " یہ تو مجھے یاد ہے کہ تک بندی کیسے شروع ہوئی شاعری اس کے بعد کب سے شروع ہوئی یہ ذرا مشکل ہے۔ تک بندی کا تو ہمیں یاد ہے کہ جب ہم سکول میں پڑھتے تھے ۔ تو ہیڈ ماسٹر کو خیال آیا کہ لڑکوں کا ایک مقابلہ کرنا چاہیۓ "شاعری نہیں کہنا چاہیۓ شعر سازی کا" کہا گیا مصرعہ طرح پر سب لوگ طبع آزمائی کریں تو انعام دیا جاۓ گا ۔ تو اسی قسم کا پہلا جو مقابلہ ہوا اس کے مصنف اور جج تھے شمس العلماء میر حسن صاحب پہلا جو اس قسم کا مقابلہ ہوا تو اتفاق سے ہمیں انعام ملا۔ تو گویا انعام سے زیادہ وہ تحفہ تھا کہ انہوں نے پسند کیا اور انعام مجھے یاد ہے کہ ایک روپیہ ملا تھا۔۔۔ اس کے بعد جب میں فورتھ ائیر میں تھا تو تھوڑا بہت شعر یعنی محض مشقِ سخن کے لۓ نہیں بلکہ کچھ احوال دل بیان کرنے کے لۓ ضرورت پڑی" صہباؔ لکھنوی نے فیضؔ کے ابتدائی کلام کی تحقیق کی ہے اور انھوں نے فیضؔ کے اولین شعر کا بھی پتہ لگایا ہے۔ صہباؔ لکھنوی لکھتے ہیں: 1928ء میں میرے کالج سیالکوٹ کی ادبی تنظیم اخوان الصفا کے پہلے طرحی مشاعرے کے لیے فیضؔ نے جو غزل کہی اس کا پہلا شعر یہ تھا: لب بند ہیں ساقی،مری آنکھوں کو پلا دے وہ جام جو منت کشِ صہبا نہیں ہوتا یہ شعر بے حد مقبول ہوا اور اسی مشاعرے سے فیضؔ کی ادبی شہرت کا آغاز ہوا؎ "پہلی نظم جس جا عنوان ( میرے معصوم قاتل) تھا پہلی بار 1926ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کے مشہور رسالہ " راوی" میں شائع ہوئی تھی۔یہ نظم نایاب ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملازمت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1935ء میں فیضؔ امرتسر کے ایم اے او کالج میں انگریزی کےلکچرار مقرر ہوۓ۔ 1940ء میں ہیلی کالج آف کامرس لاہور میں انگریزی کے لیکچرار مقرر ہوۓ یہاں پر ملازمت 1942ء تک جاری رکھی۔ 1942ء میں فیضؔ فوج میں بھرتی ہوۓ اور ان کی کیپٹن کے عہدے پر تقرری ہوئی جس کی وجہ سے وہ لاہور سے دہلی آ گۓ وہ فوج میں رابطہ عامہ سے منسلک رہے۔ 1943ء میں میجر ہوۓ اور اپنے حسن کارگردگی،انتظامی صلاحیت اور محنت کے باعث 1944ء میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فائز ہوۓ۔ فیضؔ فوج میں ایک مقصد کے تحت گۓ تھے ،ان کا یہ مقصد نہیں تھا کہ بر سرِ روزگار ہو جائیں گے بلکہ فاشزم کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے لیے فوجی ملازمت کی تھی کیونکہ وہ شروع سے اشتراکیت کے قائل تھے ۔ فوجی ملازمت سے استعفٰی دینے کے بعد ایک مرتبہ پھر تلاش روزگار کا مسئلہ فیضؔ کے سامنے آ گیا۔ دراصل فیض نے اپنی زندگی میں سب سے پہلے اپنا ذریعہ معاش ایک لیکچرر کی حیثیت سے شروع کیا اس لیے ان کی خواہش تھی کہ وہ تعلیم و تدریس کے ذریعہ اپنے معاش حاصل کرنے کے ساتھ عوام کی خدمت کریں لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی تھی کہ میاں افتخار الدین نے ایک فرم پروگریسو پیپیر لمیٹیڈ کے نام سے قائم کی ۔ انھوں نے پاکستان ٹائمز کی بنیاد ڈالی تو اخبار چلانے کے لیے ایک تجربہ کار مدیر کی ضرورت ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔وہ ایک اچھے مدیر کی تلاش میں تھے کہ ان کی نظر فیضؔ پر پڑی انھوں نے فیضؔ کو دعوت دی جس کو فیضؔ نے قبول کیا۔ پروگریسو لمیٹیڈ سے نکلنے والے اخبار کے چیف ایڈیٹر ہونے کی وجہ سے فیضؔ "پاکستان ٹائمز" کی ادارت کے ساتھ ساتھ "روزنامہ امروز" جس کا 4 مارچ 1948ء کو اجراء عمل میں آیا کہ چیف ایڈیٹر مقرر ہوۓ۔ یکم اپریل 1964ء کو پھر تدریسی میدان میں داخل ہونے کا موقع ملا کریچی کے ایک پسماندہ علاقہ لیاری میں عبداللہ ہارون کالج میں بطور پرنسپل فائض ہوۓ۔ فیضؔ نے دو فلموں میں مکالمے اور گانے بھی لکھے ہیں ۔"جاگو ہو سویرا" تھی جو 1959ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی اس فلم پر بین الاقوامی اعزاز ملا دوسری فلم " دور ہے سکھ کا گاؤں" تھی۔اس کے علاوہ کنول ، قسم اس وقت کی ، چاند سورج، قیدی، فرنگی وغیرہ میں بھی فیضؔ کے گانے شامل ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شادی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 30 سال کی عمر میں فیضؔ کی شادی جرمن نژاد خاتون ایلس کیتھرین جارج سے ہوئی۔ جو مشہور ادیب ڈاکٹر دین محمد تاثیر کی اہلیہ کی حقیقی بہن ہیں ۔ فیضؔ کی والدہ نے اپنی بہو کا نام کلثوم رکھا۔ فیضؔ اور ایلس کی شادی 28 اکتوبر 1941ء کو سری نر میں ہوئی نکاح شیخ عبداللہ نے پڑھایا ۔۔ نکاح نامہ پر فیضؔ اور ایلس کے دستخطوں کے ساتھ شیخ عبداللی جی ۔ ایم صادق، ڈاکٹر تاثیر اور نور حسین کے دستخط ہیں جو ان دنوں سری نگر میں ہیلتھ انسپٹر تھے ۔ بیگم تاثیر کے بھی دستخط ہیں جو ایلس کی سگی بہن ہیں ۔نکاح سے پہلے طرفین میں ایک تحریری معاہدہ ہوا جو اس معاہدے کی نقل ہے جو علامہ اقبالؔ نے ڈاکٹر اور بیگم تاثیر کی شادی کے سلسلے میں انگریزی میں مرتب کیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راولپنڈی سازش کیس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیضؔ کو سیاست کا کافی شوق تھا اور وہ سیاست میں عملاۤ شریک تھے مصنفین کو لے کے قیام میں دلچسپی لے کر عملاۤ سیاست میں شریک ہو گۓ۔ یہ تحریک بہت جلد ایک امی ادبی تحریک صورت میں پورے پنجاب میں پھیل گئی۔ قیام پاکستان کے بعد فیضؔ نے مزدوروں کی تحریک مین پورے پنجاب میں پھیل گئی ۔ قیام پاکستان کے بعد فیضؔ نےمزدوروں کی تحریک میں سرگرمی سے حصہ لیا( جبکہ وہ اس وقت "پاکستان ٹائمز" کے اٰڈیٹر تھے) اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے نائب صدر بھی تھے اور وہ پہلی مرتبہ 1948ء مین ٹریڈ یونین فیڈریشن کے نائب صدر کی حیثیت سے سان فراسسکو میں (آئی ۔ ایل ۔ او) کی جانب سے منعقدہ اجلاس میں شرکت کی دوسری مرتبہ 1949ء مین جنیوا میں یہ اجلاس منعقد ہوا جس میں فیضؔ اپنی فیڈریشن کے نمائندے کی حیثیت سے شامل ہوۓ۔اس طرح انہوں نے سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کیونکہ وہ اس کے قائل تھے کہ نیکی ، انسان دوستی ، صداقت کا تحفظ ادیبوں اور شاعروں کا اولیں فریضہ ہے ۔ پاکستان کا ایک طبقہ فیضؔ کے ان سماجی و سیاسی نظریات کا شدید مخالف تھا چنانچہ فیضؔ انہی سیاسی نظریے کی وجہ سے " راولپنڈی سازش کیس" کے تحت گرفتار کۓ گۓ۔سازش کیس میں جب ملوث ہوۓ اس وقت فیضؔ لاہور میں رہتے تھے جس کی وجہ سے وہ اکثر اپنے پرانے فوجی دوستوں سے ملاقات کرنے چلے جاتے تھے ۔ ان میں کچھ فوجی افسر ایسے بھی تھے جو فیضؔ کے سیاسی نظریات سے ہم آہنگ تھے جس کی وجہ سے ایک روز ان لوگوں نے بیٹھ کر ملکی نظام اور سیاسی ڈھانچے کو بدلنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا جس کو میجر جرنل اکبر نے مرتب کیا گفتگو چلتی رہی آخر یہ طے پایا کہ حکومت کا تختہ الٹنا نہیں ہے ۔ اس گفتگو کی اطلاع کسی نے حکومت کو دی کہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ان لوگوں نے منصوبہ بنایا ہے جس سے سازش کیس کے الزام میں 9 مارش 1951ء کی رات کو فیضؔ اپنے گھر سے گرفتار کر لیے گۓ۔اور ساتھ میں کچھ فوجی افسر، جرنلسٹ اور کچھ سیاسی لوگ گرفتار ہوۓ۔ فیضؔ کو سرگودھا اور لائل پور جیل میں تین ماہ قید تنہائی میں رکھا گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیگم فیضؔ کی ذات صبر و تحمل اور ہمت و حوصلہ مندی کی سنگین چٹان ثابت ہویہ کہ غم و اندوہ کے طوفان ، یاس و نامیدی کی آندھیاں ، تنگی و عسرت کے جھکڑ اور دکھ درد کے بے رحم تھپیڑے اس کے پاۓ ثبات میں ذرا سی لغزش بھی پیدا نہ کر سکے۔ اس کے آہنی عزم و استقلال کی مثال پیدا کرنا محال ہے۔ پاکستان ٹائمز اخبار میں نوکری کر لی ۔ نوکر چاکر رخصت کر دیۓ صرف ایک معمر آدمی معمولی تنخواہ پر رکھ لیا کہ غیر موجودگی مین مکان پر موجود رہے منہ اندھیرے اٹھ کر مکان کی صفائی کرتی ، ناشتہ تیار کر کے بچیوں کو اٹھاتی نہلا دھلا کر سکول روانہ کرتی اور آپ بائسیکل پر سوار ہو کر اخبار کے دفتر پہنچ جاتی دن بھر جان مارتی اور بچیوں کے سکول سے واپسی پر آ موجود ہوتی بچیوں کے معمول میں فرق آنے دیا نہ دفتر کے اوقات اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں کمی آنے دی۔ وکیلوں کے دفاتر کے چکر۔قانونی مشیروں کے پاس بھاگ دوڑ اس پر متزادرات کے چند گھنٹے آرام کے ملتے مگر وہی وقت جب گھر کے دھندوں کا جائزہ لیتی خطوں کے جواب لکھتی اور فیضؔ کو حوصلہ افزاء پیغام بھیجتی۔ ابھی مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ فیضؔ کا دوسرا مجموعہ " دست صبا" کے نام سے چودھری عبدالحمید نے لاہور سے شائع کیا۔ اس مجموعہ نے عوامہ حلقوں میں نقش فریادی سے بڑھ کر مقبولیت حاصل کی اور اسی اسیری کی دین" زنداں نامہ" بھی ہے ۔ ابھی ان لوگوں کے مقدمہ کا فیصلہ نہیں سنایا گیا تھا کہ حکومت بدلی اور اپریل 1955ء میں سازش کیس کے سبھی ملزمین باعزت بری کر دیۓ گۓ۔ اسی کیس سے فیضؔ کی قیدو بند کی زندگی کا آغاز ہوا ۔ دوسری مرتبہ دسمبر 1958ء میں فیضؔ کی گرفتاری ایوب خاں کے حکومت سنبھالنے کے بعد ہوئی۔ پاکستان مین مارشل لاء نافذ کر کے آزادی سے لے کر اس وقت تک سی آئی ڈی کی فائلوں میں جن لوگوں کا نام مشتبہ تھا سبھی کو گرفتار کیا گیا۔ انھیں میں فیضؔ کا نام شامل تھا پانچ ماہ بعد اپریل 1959ء میں رہائی ملی۔ اسکے بعد 1972ء میں پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹ کا قیام عمل میں آیا اور فیض اس کے چئیرمین مقرر ہوۓ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انھیں اپنے وطن کالا قادر سے بہت محبت تھی وہ اکثر کہا کرتے تھے اپنی شناخت کے لیے زمین سے گہرا رشتہ بہت ضروری ہے ہمیں تو اپنی زمین سے بہت محبت ہے ۔ چانچہ وفات سے تین روز قبل ہی انہوں نے اپنے اہل خاندان سے کہا تھا کہ وہ اپنے آبائی گاؤں کالا قادر جانا چاہتے ہیں ۔ اس خواہش کا اظہار انھوں نے اسلام آباد میں اپنے ایک سیالکوٹی دوست سے بھی کیا تھا۔ شاید وہ جانتے تھے کہ ان کا آخری وقت قریب آ چکا ہے اور انھیں اب وہ جگہ دوبارہ دیکھنی چاہیۓ جہاں انھوں نے ہنستے کھیلتے اپنا بچپن گذارا تھا اور دو دن قبل 17 نومبر کو ہی گاؤں گۓ تھے وہاں اپنے بچپن کے دوستوں، عزیزوں رشتے داروں سے ملاقاتیں کی تھیں ۔ گاؤں سے واپسی پر ان کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی 19 نومبر 1984ءبروز دو شنبہ کی رات انھیں دمہ کا شدید دورہ پڑنے کے بعد میو اسپتال اسپتال لے جایا گیا ۔ انھیں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں رکھا گیا لیکن ڈاکٹروں کو کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں ۔ حرکت قلب بند ہو جانے سے 20 نومبر سہ پہر ڈیڑھ بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔