آب بیتی الحاج محی الدین منیری ۔20۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی علیہ الرحمہ سے تعلق بیعت

Bhatkallys

Published in - Other

07:56PM Mon 23 Jul, 2018

تحریر : عبد المتین منیری 

M : 00971555636151

             سہارنپور کے سفر میں حضرت رائے پوری کے یہاں رات گزارکر صبح کے وقت حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃاللہ  علیہ کی مجلس میں حاضر ہوا ، یہ ناشتے کا وقت تھا چالیس پچاس افراد گھیرا ڈالے بیٹھے تھے، پاکستان سے چند  مقتدر شخصیات بھی آئی ہوئی تھیں، بھوپال میں تبلیغی جماعت کے امیر مولاناعمران خان ندوی بھی موجود تھے حضرت شیخ نے مجلس میں مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا منیری صاحب! اس محفل میں کسی کے ساتھ اگرا متیازی سلوک کیا جائے تو کیا اس میں کوئی شرعی قباحت؟ جید علماء اوربڑے بزرگوں کی مجلس میں ایسے سوال کا میں کیا جواب دیتا۔ اتنی سکت مجھ میں کہاں تھی؟

            پانچ منٹ بعد تین رکابیوں میں اسپیشل ناشتہ لایاگیا ،یہی ٹوسٹ مکھن خشک کھانے کی چیزیں وغیرہ اس کے بعدحضرت شیخ نے ہدایت کی کہ ایک منیری صاحب کے پاس رکھو ایک مولانا عمران خان کے پا س اورایک پاکستان سے آئے ہوئے بزرگ کے پاس، اکابر کی مجلس میں ایک خورد کی ایسی  عزت، میری حالت یہ تھی کہ کاٹو تو خون نہیں ہے، یہ سب چیزیں میرے سامنے رکھی تھیں، اسے کھاؤںؤں تو کیسے کھاؤں، اس پر حضرت شیخ کا یہ فرمان کہ ا بھی تو فتویٰ دیا تھاکہ اگر اس مجلس میں امتیازی سلوک روا رکھا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ کھائیے ابھی کھائیے، رکابی میں ہاتھ ڈالنے کی ہمت مجھ میں کہاں تھی  قریب بیٹھے ہوئے بعض ساتھیوں کو میں  بارربار نا شتہ میں ہاتھ ڈالنے کو کہا ،پر کوئی تیار نہیں ہوا، ہر کسی کا یہی جواب تھا  کہ ہمارا ناشتہ آرہاہے ،ان کے لئے ایک ایک ٹوسٹ اورچائے آرہی تھی مجبوراً یہ ناشتہ کرنا پڑا۔

            حضرت شیخ رحمۃاللہ علیہ کے یہاں جب بھی میراجانا ہوتا امتیازی ومحبت کا سلوک کرتے، کھانے پر بیٹھتے تو منیری کے  پاس ڈالو ، منیری کویہ دودھ دو ،عصر کی مجلس میں خصوصیت کے ساتھ مجھے بلا بھیجتے ،سب سے پہلے مجھے  چائے پیش کرتے ،کہتے منیری صاحب کے لئے چائے لاؤ یہ بمبیٔ والے ہیں انہیں چائے کی بڑی عادت ہے، حضرت کی محبت کا یہ انداز میں عمر بھر نہیں بھلا سکتا، میں نے بہت سے علماء  کے دسترخوان دیکھے، لیکن حضرت شیخ کے دسترخوان کا ٹھاٹ باٹ کہیں نہیں دیکھا ، وہاں کے بہترین کھانے اور مزیدار روٹیاں کہیں اور نہیں ملیں،یہ اس اللہ والے کی شان تھی۔

            حضرت شیخ کے داماد سے میرے کاروباری تعلقات بھی تھے ،میں بمبیٔ سے انہیں کتابیں بھیجا کرتاتھا ،ایک مرتبہ ان کے گھرپر بھی دعوت ہوئی تھی، وہاں پر میں نے ایک دس سالہ بچے کو دیکھا تھا جس کے بارے میں باتوں باتوں میں لوگوں نے بتایا تھا کہ اس نے اب تک سہارنپور کا بازار نہیں دیکھا ، عوامی زندگی سے دور دنیا کی رنگینیوں سے الگ تھلگ نو نہالوں کی تربیت کا یہ بھی ایک انداز ہے ، ہم میں یہ جذبہ کہاں ،ہم میں تو کوئی تربیت کی تمییز نہیں کہ بچے کو کہاں لے جانا چاہیے کہاں نہیں ،ہم تو بچوں کو سب سے پہلے چوپاٹی اورکورنیش دکھانے کی فکر میں رہتے ہیں۔۔

            میرے دل میں مدت سے  یہ آرزو چٹکی لے رہی تھی کہ کسی بزرگ سے دینی اور روحانی تعلق قائم ہونا چاہیے، ایک مرتبہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی  سے بھی اس کا تذکرہ کیا کہ میں ایک گنہگار بندہ ہوں،  کوئی  ایسی سبیل پیدا کریں کہ کسی کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دوں، آپ  نے جوابا  فرمایا آپ حضرت مولانامحمد زکریا رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں جاکر بیعت ہوجائیں میں ان کے نام ایک خط لکھ دیتا ہوں، میں حضرت شیخ کی خدمت میں خط لیکر حاضر ہوا، خط دیکھ کر آپ نے فرمایا علی میاں اس سے زیادہ مستحق تھے، لیکن ان کا حکم ہے ، اسے ٹالا نہیں جا سکتا، اس طرح حضرت شیخ کے ہاتھ پر میں نے بیعت کی، اس کے بعد آپ نے بڑی محبت و شفقت کا سلوک کیا، بہت ساری نصیحتیں کیں، ڈھیر ساری دعائیں دیں،  آپ کی زندگی میں اس سلسلے میں زیادہ فیض اٹھانے کا موقع نصیب نہیں ہوا، کیونکہ سہارنپور بہت دور واقع ہے، باوجود اس کے کئی بار آپ کی مجالس میں حاضری کااتفاق ہوا ، حدیث کے درس میں بھی بیٹھنے کا موقع ملا، ان مجالس میں جب بھی شرکت کرتا ایسا محسوس ہوتا کہ رحمتوں اور برکتوں نے مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔