حج کا سفر۔۔۔منی وعرفات میں (2)  ۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

11:39AM Fri 16 Jun, 2023

حج كا دن یہی وقوفِ عرفات كا دن ہے اگر آج كوئی حاجی كسی وجہ سے عرفات میں وقوف نہ كرسكا ‏، تو اس كا حج فوت ہوگیا ‏، اب آئندہ سال ہی اس كی قضا كرسكے گا اورتمام مناسك كی قضا ‏، یا تلافی اس سال كرسكتا ہے مگر وقوفِ عرفہ كا موقعہ ہاتھ نہ آیا ‏، تو اس كی تلافی نہ دم سے ہوسكتی ہے ‏، نہ صدقے سےنہ كسی اور دن وقوفِ عرفہ سے ‏، اب آئندہ سال جب نویں ذی الحجہ كو پھر وقوفِ عرفات ہوگا ‏،تو اس وقت وقوف كركے اس ركن ركین كی قضا ممكن ہوگی ۔

سنت تو دن بھر قیام كرنا ہے ‏، مگر وقوف كا حق صرف ایك لمحے  كے قیام سے بلكہ بغیرقیام كے صرف عرفات سے ہوكر گزرجانے سے ادا ہوجاتا ہے ‏، اگر بیہوش آدمی بھی آج كے دن عرفات  سے گزاردیا جائے ‏، تو اس كا وقوف ثابت ہے ‏، اگرچہ حج اكیلے وقوفِ عرفہ كانام نہیں ہے ‏، مگر عرفات میں قیام كے دن كو یوم الحج (حج كا دن ) كہتے ہیں اور جوں ہی یہ دن (نویں ذی الحجہ كا دن ) تمام ہونے آتا ہے ‏، ایك دوسرے كو حج كی مبارك بادیں عرفات میں دی جانے لگتی ہیں ‏وجہ یہی ہے كہ اگر ‘‘وقوفِ عرفہ’’ فوت ہوگیا ‏، تو اس كی تلافی اس سال نہیں ہوسكتی ‏، حج كے دوسرے فرائض و واجبات رہ جائیں گے ‏، تو ان كی ادائیگی كے لیے مواقع اسی سال مل جائیں گے ۔

ہمارے علماء كے درمیان اس رائے پر اتفاق ہے كہ سال كے تمام دنوں میں آج كا دن (عرفہ كا دن) سب سے افضل ہے ‏، اس میں ضرور بحث ہے كہ شبِ قدر افضل ہے ‏، یا یومِ عرفہ ‏، سمجھوتہ یوں كرلیاگياكہ دنوں میں یومِ عرفہ اور راتوں میں شبِ قدر افضل ترین اور مبارك ترین ہے ‏، حدیثوں میں آج كےدن كی بڑی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں ‏، آج كوئی دعا رد نہیں ہوتی ‏، آج حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہیں عرفات میں امت كی بخشش كی دعا مانگی تھی اور جہاں تك حقوق اللہ كا معاملہ ہے حضور انور نے دعا كو شرف ِ قبولیت حاصل ہونے كی خوشخبری حاضرین كو دے دی تھی ۔

آپ كے ارشاد كے مطابق آج كےدن سے زیادہ شیطان كبھی نامراد اور خاسر نظر نہیں آتا ہے ۔

تو ایسی فضیلت كادن جس میں جو مانگو ‏،ملے گا ‏،ہاتھ آجائے ‏، تو كیا كیا مانگنے كے لیے ہاتھ نہ اٹھیں گے ‏، یہ دوسری بات ہے كہ قسمت سے مانگنے كی جو چیز ہے ‏، وہ عین وقت پر یاد ہی نہ آئے ۔

حضرت ابان بن عثمان بن عفان نے كہا كہ میں نے اپنے والد (حضرت عثمانؓ) سے حضور انور ﷺ كا یہ ارشاد سنا ہے كہ جوشخص دن اور رات كو تین ‏، تین دفعہ ‘‘ بسم الله الذي لايضر مع اسمه شي ء في الأرض ولافي السماء وهو السميع العليم’’ پڑھے گا ‏، اسے كوئی چیز ضرر نہیں پہنچاسكے گی ۔

حضرت ابان یہ حدیث بیان كررہے تھے اور خود فالج میں مبتلاتھے ‏، سننے والے شخص نے گھور ‏، گھوركر ان كی طرف دیكھنا شروع كیا گویا وہ كہ رہا ہے كہ یہ حدیث آپ نے بیان كی ‏،تو اس پر عامل بھی ہوں گے اور اگر عامل ہیں ‏، تو پھر فالج نے كیسے ضرر پہنچادیا ؟ حضرت ابان نے اس شخص كی دلی كیفیت كا اندازہ كرلیا اور كہا ‘‘ یہ تم مجھے كیا دیكھ رہے ہو ‏، جو بات تم سے میں نے بیان كی وہ اپنی جگہ بالکل صحیح ہے ‏،ہاں جس دن مجھ پر فالج كا حملہ ہواہے ‏، اس دن یہ دعا پڑھنا مجھ سے رہ گیا تھا ؛تاكہ اللہ تعالٰی نے جو لكھاہے وہ پورا ہوجائے ’ ۔

یہی حال بہت سے مقدر كا لكھا پورا كرنے والوں كا آج ہوگا كہ ادھر ‏، اُدھر كی دعائیں مانگ رہے ہوں گے جو مانگنا چاہیئے‏، اسے شومئ قسمت سے بھولے بیٹھے ہوں گے۔

ہم تپش اور دھوپ كے جھلسے زوال سے كچھ پہلے اپنے خیمے میں پہونچے تھے ‏، وہاں بھی تمازت سے نجات نہیں مل پارہی تھی ‏، ارادہ یہی ہونے لگا كہ وضوكركے ظہر كی نماز خیمے ہی میں ادا كرلی جائے ‏، خدا معلوم كیا ہوا كہ خواتین كو خیمے میں چھوڑ كر ہم تینوں متین میاں ‏، عظیم بھائی اور ہم ‏، مسجد نمرہ كی طرف چل پڑے ۔

مسجد اور آس پاس سب كھچا كھچ بھرا ہوا تھا ‏، اندر پہونچنے كا كوئی سوال ہی نہ تھا ‏، راستے ہی میں چٹائیاں بچھاكر بیٹھ گئے ‏، اس وقت خطبہٴ حج ہو رہا تھا ‏، آج اگرچہ جمعہ نہ تھا مگر امام كو خطبہ دینا تھا ‏، اس كے بعد ہی دو ركعت ظہر كی پھر فوراً بلاوقفہ كے دو ركعتیں عصر كی اگرچہ عصر كا وقت ابھی بہت دور تھا‏، امام نے پڑھائیں ‏، آج یہی حكم ہے كہ عصر كی نماز امام كے ساتھ قبلِ وقتِ عصر ظہر كے بعد ہی پڑھ لی جائے ‏، دونوں وقت كی نمازیں ایك ساتھ پڑھ كر خیمے میں واپس آگئے ۔

اگر امام مسافرنہیں ہے مثلاً مكہ معظمہ كا باشندہ ہے ‏، تو احناف كے مسلك پر اسے پوری نماز پڑھنا ہوگی اور مقتدیوں كو خواہ وہ مسافر ہوں ‏، یامقیم امام كی اقتدا میں پوری نمازیں پڑھنا ہوں گی اور اگرامام مسافرہے‏، تو وہ قصر نمازیں پڑھائے گا اور مقتدیوں میں جو مقیم ہوں گے وہ باقی ركعتیں پوری كرلیں گے ۔

لیكن اُس فقہی مسلك پر جس كے ماننے والے شاہی افراد ہیں ‏، ہرصورت میں امام كو قصر نماز پڑھنا چاہیے ‏، اس فقہی اختلاف سے حنفی حاجیوں كے لیے بڑی زحمت تھی ‏، ظاہر ہے كہ عمل سعودی حكومت كے مسلك پر ہوتا ہے اور دوسرے فقہی مسلك اب وہاں نظرانداز كئے جاچكے ہیں ‏، تو غیرمسافر امام كی اقتداء میں قصر نماز پڑھنا ان لوگوں كے لیے جوصرف مسافرہی كے لیے یہاں قصر كی گنجائش پاتے ہیں بہت گراں ہوتا رہاہے ‏، معلوم ہوا كہ حكومت نے اس الجھن كو رفع كرنے كےلیے اس دفعہ عرفات میں امامت كے لیے راجدھانی ‘‘ریاض’’ كے امام كو مامور كیا تھا ‏، ریاض سے عرفات تك كی مسافت اتنی ہے كہ امام مسافركے درجہ میں آگیا جب كہ مكہ معظمہ كاامام عرفات میں مسافر نہیں ہوتا ہے۔

مسجدنمرہ میں امام كے پیچھے ظہراور عصر كی نمازیں ایك ساتھ اداكركے طبیعت كو شادمانی بہت ہوئی ‏، اسی لئے جب خیمے واپس آئے ‏، تو سفر كی صعوبتوں اور كلفتوں كے تصورات سے خالی الذہن تھے اور رحجان وقت اور مقام كی اہمیت اور افضلیت كی طرف غیرمعمولی طور پر ہوگیا تھا ‏، ایسی حالت میں دعائیں بھی جی لگاكر مانگنے كا موقع ہاتھ آگیا ۔

ہمارے ایسے لوگ جو ہمیشہ آگے كے بارے میں سوچنےكے عادی ہیں جو كچھ كرآئے ہیں ان كے محاسبہ اور احتساب كی ضرورت كو بالكل بھول چكے ہیں ‏، آج ماضی پر نظر ڈالنے اور اس پر جرح اور تنقید كرنے كی سوچیں تو اسے محض توفیقِ الٰہی كہیں گے ۔

اچانك محسوس ہونے لگا كہ عمر كا وہ حصہ جو شعور اور ہوش میں گزرا تفصیلات و جزئیات سمیت ربط اور تسلسل كے ساتھ نگاہوں كے سامنے سے گزررہاہے ‏، زندگی كے جن واقعات كو اپنی نگاہ میں اپنے لیے باعثِ خیر وبركت پایا وہ كلیتاً بزرگوں كا احسان نظرآئے ‏، ہماری نیت اور ارادے كا اس میں ذرا بھی دخل نہ تھا اور ڈائری كے وہ اجزاء جو بہرحال باعثِ تشویش تھے اور ہیں سب اپنے ہی كرتوت نكلے ‏، عام حالات میں اگریہ مناظر اس تفصیل كے ساتھ سامنے كہیں آجاتے ‏، تو ہول دل ہونے لگتا ؛لیكن یہاں عرفات میں طمانیتِ قلب كے ساتھ اس لیے دیكھتے رہے كہ حضور انور ﷺ نے آج نامہٴ سیاہ دھوئے جانے كی اس طرح بشارت دی ہے كہ دھلوانے والے سے كہیں زیادہ آج خود دھونے والے كو فكر معلوم ہوتی ہے ۔

فیض ہے یا شہ تسنیم نرالا تیرا

آج پیاسوں كے تجسس میں دریا تیرا

آج ہی حضورانور صلی اللہ علیہ وسلم كے طفیل میں بخشنے والے نے فرشتوں كو گواہ كركے ان سب لوگوں كی مغفرت كا اعلان كیا ہے جو ہرطرف سے گرد وغبار میں اٹے ہوئے لبیك لبیك كہتے یہاں جمع ہیں ۔

فرشتوں نے عرض كیا پروردگار! ان میں فلاں ‏،فلاں اور فلانی ‏، فلانی تو بد اعمالیوں كے مرتكب اورحرام باتون كے ذمہ دار ہیں ۔

پروردگارِ عالم  نے فرمایا : میں نے تو ان سب كی مغفرت كردی ہے۔

حضورانور ﷺ كے یہ كلمات بشارت اورمعافی كا یہ اعلان عام یاد آیا ‏، تودل خوشی سے رونے لگا اور شرمندگی بھی ہوئی كہ ایسے كریم سے سابقہ پھر بد اعمالیوں پر یہ اضطراب اور تشویش؟

شرمندہ ازانیم كہ دردار مكافات

اندر خور عفو تو كردیم گناہے

اب جبلِ رحمت كی طرف امام كے ساتھ جانے اور وہاں قیام كرنے كا ایك عظیم موقعہ تھا ‏، جبلِ رحمت میدان ہی میں ہماری قیام گاہ سے جو مسجد نمرہ كے قریب ہی تھی  دو ہی ‏، تین میل ہوگا ‏، علماء اور فقہاء نے تحریر كردیا ہے كہ اگر كوئی جبلِ رحمت تك نہ جاسكے ‏، تو میدانِ عرفات میں كہیں بھی قیام ووقوف كرلے ‏، نیا حاجی پرانے حاجیوں سے ضرور پوچھتا ہے كہ جبلِ رحمت تك اس ہجوم میں جانا اور خیریت سے واپس آجانا ممكن ہے ؟ اور عموماً جواب یہی ملتا ہے كہ جانا تو ٹھیك ہے واپس قیام گاہ تك آجانے كا اطمینان نہیں اور گم شدگی كے اندیشے میں فقہاء كی دی ہوئی آسانی بہت كام آتی ہے ‏، ہمارے بھی كام آئی كہ اپنے خیمے ہی میں وقوف پر قناعت كرلی اور اس مقام فضیلت تك نہیں پہنچ پائے جہاں حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اونٹنی ‘‘قصوٰی’’ پر تشریف لاكرنوعِ انسانی كی فلاح و نجات كا تاریخی منشور سنایا تھا ۔

‘‘تمہاری جانیں اور تمہارے مال ایك دوسرے كے لیے اس طرح واجب الاحترام ہیں جس طرح آج كا دن محترم ہے ‏، یہ مہینہ محترم ہے اور یہ شہر محترم ہے ‏، عورتوں كے حقوق كے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔

پھر حاضرین سے سوال فرمایا : تم لوگوں سے خداوند تعالٰی میرے بارے میں پوچھے گا ‏، تو تم كیا كہوگے ؟

سب نے ایك زبان ہوكر كہا : ہم گواہ ہیں كہ آپ نے تبلیغ كا حق ادا فرمایا اور خیر خواہی كے پہلو سے جو كچھ آپ پر لازم تھا اس كی تلقین فرمادی ہے۔

حضور انورﷺ نے انگشتِ شہادت كو آسمان كی طرف اٹھاكر اور حاضرین كی طرف اشارہ فرماكر  تین بار ارشاد فرمایا: اے پروردگار ! ان كے اقرار كا تو گواہ رہنا ۔

اللہ اكبر! یہ عبدیت كی شان نبوت و رسالت كی اس جلالت و رفعت كے باوجود !۔ خیمے میں بیٹھے ‏، بیٹھے یہ سب خیال میں آرہا تھا اور یہ بھی سوچ رہے تھے كہ دیكھو كتنےصاف اور صریح الفاظ میں جن میں تاویل كی ادنٰی گنجائش بھی نہیں دوسروں كے جان و مال كے احترام كا حكم دیا گیا تھا اور حال یہ ہے كہ اپنی جان كے ڈر سے تو ضرور دوسروں كی جان لینے سے ڈرتے ہیں ‏، دوسروں كی جانوں كااحترام كتنوں كی نظروں میں ہے ‏، پھر جہاں جان كا خطرہ نہیں جیسے دوسروں كے اموال تو اس سلسلے میں اگرچہ حكم وہی جان كے احترام كی طرح ہے ؛لیكن ہم میں سے اكثر كا طرزِ عمل احترام كے حكم كے یكسر منافی رہتا ہے ۔

اور آج كے حالات میں تو ایك قدم اور ہم آگے رہتے ہیں یعنی مال كے علاوہ جان پر بھی حملہ آور ہوتے رہتے ہیں بےشك شخص كے قتل سے ہاتھ آلودہ كم ہوتے ہیں ؛لیكن شخصیت كے قتل میں ہم كس قدر بےباك ہوچكے ہیں ‏، یہ جوبےبنیاد باتیں دوسرے قابلِ ذكر اشخاص كے سسلسلے میں كسی غلط فہمی كی بنیاد پر نہیں بلكہ محض بدنام كرنے كی نیت سے ہم اڑاتے پھرتے ہیں ‏یہی تو شخصیت كا قتل ہے ‏، اصطلاحی معنوں میں خوں ریزی نہ سہی ؛لیكن عملاً دوسروں كی جان كی بے حرمتی كا ارتكاب تو سراسر ہے ۔

اپنی ہی حالت پر غور كرتے ہیں تو اس ‘‘خوں ریزی’’ كا سینكڑوں بار ارتكاب كرچكے ہوں گے ‏، تو جس ذات گرامی كے حكم كی تعمیل میں لكھنؤ سے دوڑكر عرفات تك آئے ہیں اس كے ایك حكم كو جو اس عرفات میں اس نے برملا دیا تھا كہاں تك ہم نے مانا ہے ؟

یادآنے لگا كہ عرفات میں جب حضور انورﷺ نے ہم گنہگاروں كی مغفرت اور نجات مانگی تھی ‏، تو پرورگار نے اپنے حقوق كے سلسلے میں ہماری كوتاہیوں اور نافرمانیوں سے درگزر فرمانے كا وعدہ فرمالیا تھا ؛لیكن حقوق العباد كے سلسلے میں كوتاہیوں ‏، غفلتوں اور زیادتیوں كی معافی كا اعلان یہاں نہیں ‘‘مزدلفہ’’ كے قیام كے وقت ہوا تھا ۔

بڑی تسلی ہونے لگی اور دن گزرنے كا انتظار كرنے لگے كہ مغرب ہوجائے تو عرفات سے روانہ ہوكر مزدلفہ پہنچیں جہاں رحمت عام كا اعلان عام ہوا تھا ۔

عصر كی نماز پڑھ چكے تھے ‏، مسجدِ نمرہ میں مغرب كی نماز آج عرفات میں پڑھنا نہیں ہے ‏، چاہے وقت ہوجائے ‏، چاہے وقت گزر جائے ‏، جب مزدلفہ میں قیام كریں گے ‏، تو مغرب اور عشاء كی نمازیں جمع كركے پڑھیں گے ‏، چاہے آدھی رات كیوں نہ ہوجائے ‏، عرفات میں تو بس مانگے جائیے ‏، دینے والا دینے پرتلا ہوا ہے

ہمیں جب نہ پھیلائیں دامن ملے كیا؟

اُدھر سے تو ہردم گہرباریاں ہیں

لیجئے ‏، غلغلہ مباركبادبلند ہوا ‏، باہر ایك دوسرے سے كہ رہے ہیں ‏: ‘‘ حج مبارك‏، حج مبارك’’ اتنے میں معلوم ہوا كہ ہمارے معلم مولانا عبدالہادی سكندر عرفات كی دعائیں پڑھانے آرہے ہیں ‏، ان كے تمام حاجی خیموں ‏، ڈیروں سے نكل كر كھلے میں آگئے اور معلم صاحب نے بڑے پر اثر انداز میں دعائیں بلند آواز سے پڑھنا شروع كیںِ اور ہم سب نے دہرانا ‏، ان پر بھی رقت كی كیفیت طاری ہوگئی تھی اور دہرانے والوں میں بہتوں كا حال ویسا ہی تھا ‏، چلئے ! وقوفِ جبلِ رحمت كی كوتاہی كی تلافی ہمارے معلم كی پر اثر دعا سے پیدا ہونے والے خشوع و خصوع سے كسی نہ كسی حد تك ہوگئی مگر شرعاً یہ كوتاہی نہیں ہے ‏، علماء نے تو لكھ دیا ہے كہ میدانِ عرفات میں كہیں بھی قیام ہو وہ وقوف ہے ‏، ہم حصولِ سعادت كے لحاظ سے كوتاہی كہنے پر مجبور ہوئے ۔

گرمی تو سخت تھی ہی ‏، پانی كا قحط ہمارے لیے تھا ‏، یعنی ہمارے ایسے لوگ اس جگہ سے پانی نہیں لاسكتے تھے جہاں حاجیوں كے لیے سینكڑوں نل لگے ہوئے تھے اور وافر پانی حاصل كیا جاسكتا تھا ‏، اس جگہ ایسی بھیڑ مستقل رہتی تھی كہ اسی میں عافیت نظر آئی كہ پانی خرید لیاجائے ‏، ایك كنسٹر پانی پانچ ریال میں بك رہا تھا ‏، لوگ خرید رہے تھے ؛لیكن اكثریت اس خریداری كی متحمل نہیں نظر آرہی تھی اور شدت پیاس سے بے قراری سب كی یكساں اس وقت اپنا خریدا ہوا پانی جو اپنے ہی لیے ناكافی نظر آرہا تھا دوسروں كو دینا واقعی ایثار تھا‏، یہ واقعی ایثار مولانا شاہد فاخری كی روایت كے مطابق اجمیرشریف كے ایك مخدوم زادے الحاج محمد یوسف جی مہاراج نے كیا كہ پانچ ‏، پانچ ریال دے دے كر كنسٹر خریدتے جاتے تھے اور ہرطلب گار كو بےدریغ دیتے جاتے تھے ‏، برف بھی منگاكر ایك مٹكی میں ڈال دی تھی كہ جی بھر كر پیاسے سیراب ہوں۔

خود ہم نے حاجی فقرمحمد كو دیكھا كہ انہوں نے خیمے كے سامنے ٹھنڈی بوتلوں كی اور چائے كی سبیل لگاركھی تھی ‏، یہ معمول خرچ دہائیوں اور سینكڑوں كا نہیں ہزاروں كا تھا ‏، پھراجروثواب بھی بے حساب ! جو آئے بلاتكلف پیاس بجھائے ‏، ہم نے تو اس وقت حاجی صاحب كے یہاں چائے پی ‏، سرمیں ہلكا ‏، ہلكا درد ہورہا تھا اور پورے سفر میں بس وہیں یہ ہلكا سادردِسر ہوا تھا ‏، ورنہ آتے جاتے كہیں جو كوئی مرض لاحق ہوا ہو ‏، سوائے حلق كی تكلیف كے سو وہ اپنے ہاتھوں تھا ‏، سگریٹ پینے میں ہم نے كوئی كسر كب اٹھاركھی تھی ؟(جاری)

https://www.bhatkallys.com/ur/author/muftiraza/

مکمل سفرنامہ یکجا پڑھنے کے لئے بھٹکلیس ڈاٹ کام کی مذکورہ بالا لنک پر کلک کریں