حج کاسفر۔۔۔ جہاز کی روانگی  (  2)۔۔۔مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

03:06PM Thu 7 Jul, 2022

 جہاز ساحل پہ کھڑا تھا، اس لئے گرمی بھی ہورہی تھی بیشتر افراد تہ خانوں کی نشتیں چھوڑ کر کھلی چھت پر ہی گھوم پھر رہے تھے۔ ہم نے اپنے ہال کی نشستوں کا جائزہ لیا، جن میں کم وبیش سو مسافر ہوں گے، تو صرف ایک شناسا صورت مولانا عید الحفیظ بلیاوی  (مدرس دار العلوم ندوۃ العلماء) کی نظر پڑی، نیچے کے تہ خانوں میں واقف کار صورتیں تلاش کرنے کے بجائے جہاز کی بالائی نشتوں کے درمیان اس جستجو کو ہم نے کچھ زیادہ موزوں سمجھا۔ 11بجے جہاز چھوٹنے والا تھا، ایک بج گیا، ابھی کچھ آثار نظر نہیں آرہے تھے، اس کے برعکس کسٹم ہاؤس کے دروازے سے نکل کر جہاز کی طرف مسافروں کی آمد جاری تھی۔ جو سوار ہو چکے تھے ان کو ظاہر ہے کہ جہاز کے چھوٹنے میں زیادہ دلچسپی تھی، گرمی الگ ہورہی تھی، ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ آخر کب چلے گا جہاز؟یہ دیر کیوں ہورہی ہے؟ شام کو روانہ ہونا تھا تو صبح سے کیوں بلاکر یہاں باندھ دیا؟

  ایک باخبر نے خبر دی کہ کچھ امیدوار عازمینِ حج ہیں جن کے لئے اس جہاز پر جگہ نکالنے کی تدبیریں ہورہی ہیں؛ اس لئے تاخیر ہورہی ہے۔   پھر نظر آیا کہ کشمیری حاجیوں کی ایک تعداد کسٹم ہاؤس سے چھوٹ کر تیزی کے ساتھ جہاز کی طرف آرہی تھی سو سوا سو سوار ہوں گے، جو مایوس ہو چکے تھے، اب جو مایوسی کے بعد کامرانی نصیب ہوئی تو انہیں خود یقین نہیں آرہا تھا، ایسے دوڑے چلے آرہے تھے جیسے جہاز ان کے لئے رکا ہی نہیں ہے۔   ہم اپنی نشستوں پرسامان کی ترتیب میں لگے تھے کہ پتہ چلا نائب وزیر خارجہ شری دنیش سنگھ جہاز پر حاجیوں کو رخصت کرنے اور ان کا احوال دیکھنے آئے ہیں، نائب وزیر خارجہ سے ہمارے بارے میں ہمارے اڈیٹر حیات اللہ انصاری صاحب خط و کتابت کر چکے تھے، جب حج کمیٹی کے ایک ممبر مولانا حامد الانصاری غازی نے ہمارا تعارف ان سے کرایا تو ہم نے یاد دلایا کہ حیات اللہ انصاری صاحب نے ہماری واپسی میں ترجیح کے سلسلے میں آپ کو لکھا تھا ۔انھوں نے کہا میں نے اپنے سفارت خانے کو لکھ دیا ہے آپ وہاں مل لیجیے گا۔ دفع دخل مقدم کرتے ہوئے ہم نے کہا: میں اخبار نویس کی حیثیت سے نہیں جا رہا ہوں، اپنی والدہ کو لے کر حج کرنے جارہا ہوں۔  شری دنیش سنگھ نے برجستہ کہا ”بہت اچھا ہے، یہی حج تو اصلی ہے“۔

  ان کے اس جواب سے بھی بہت خوش ہوا، اور پھر جب معلوم ہوا کہ دنیش سنگھ صاحب دلی سے محض اس لئے آج یہاں آئے ہیں کہ جو عازمینِ حج رہ گئے ہیں ان کے لئے کسی طرح گنجائش نکالی جائے، تو ان کی قدر اور بڑھ گئی۔

بلاشبہ انھوں نے بڑا کام کیا، جتنے نامراد عازمین حج پڑے ہوئے اپنی قسمت کو رو رہے تھے، ان سب کے لئے انھوں نے حد سے گزر کر انتظام کیا، ہمارے جہاز پر کئی سو حاجیوں کو جگہ دلائی، کپتان نے گنجائش سے زیادہ اتنے ہی حاجی لئے جتنی فاضل ”لائف جیکٹ“(سان بچانے والی پٹیاں) اس کے پاس تھیں، پھر بھی ایک سو پینتیس امیدوار باقی بچے، دنیش سنگھ صاحب نے ان ”شوق بے حد کے گناہگاروں“ کے لئے بھی انتظام کیا، وہ اس طرح کہ اگر وہ ہوائی جہاز کا ایک طرف کا کرایہ اداکرنے پر تیار ہوں تو ایک مخصوص”بوئنگ“( تیز رفتار ہوائی جہاز) کا انتظام کردیا جائے، ادھر سے بوئنگ سے جائیں، واپس بحری جہازوں سے ہو اور ہوائی جہاز کا کرایہ واپسی پر آکر ادا کریں ۔

تقریباً سب ہی تیار ہو گئے،اور بوئنگ کے ذریعہ تین چار گھنٹے کے اندر وہ بمبئی سے جدّہ پہنچ گئے،جب کہ حج ہوائی سروس سے جانے والوں کو اس سال جده پہنچنے میں 11-11 گھنٹے لگے۔نائب وزیر خارجہ کے ساتھ مرکزی حج کمیٹی کے سکریٹری اور وزارت خارجہ کے ڈپٹی سکریٹری مسٹر وراثت علی قدوائی بھی دلی سے بمبئی آئے تھے اور جہاز پر بھی انہیں کے ساتھ آئے۔جن کو نائب وزیر خارجہ کے کہنے سے جہاز پر جگہ ملی تھی اب ان کی آمد شروع ہوئی اس طرح کوئی چار بج گئے۔

 پیش کش: حذیفہ رحمانی