زیادہ سے زیادہ ووٹنگ سیکولر امیدواروں کی فتح

از: ڈاکٹر محمد نجیب سنبھلی
۱۱ فروری سے ۸ مارچ تک سات مرحلوں میں ہندوستان کی سب سے زیادہ آبادی والے صوبہ میں ۱۷ ویں اسمبلی الیکشن کے لئے ہزاروں امیدوار اپنی جیت کے خواب کو حقیقت بنانے کے لئے عوامی جلسوں میں بڑے بڑے وعدے کرتے نظر آرہے ہیں۔ ان میں بیشتر ایسے ہیں جن کا گزشتہ پانچ سال میں اپنے انتخابی حلقوں کے عوام سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا ہوگا۔ ۲۲ کروڑ کی آبادی والے اترپردیش صوبہ کے ۱۵ کروڑ ووٹرس بھی ووٹ ڈالنے کے لئے انتخابات کی تاریخ کا شدت سے انتظار کررہے ہیں۔ بی جے پی پارٹی کو چھوڑکر سماج وادی، بہوجن سماج، کانگریس اور دیگر پارٹیاں یوپی الیکشن میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والے ۳ کروڑ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کررہی ہیں۔ جس کے لئے جھوٹے سچے وعدے بھی کئے جارہے ہیں۔ اچھے مستقبل کا خواب بھی دکھایا جارہا ہے۔ دوسری طرف بی جے پی کو اپنی اقلیتی دشمن پالیسیوں کی وجہ سے مسلمانوں کا ووٹ نہ ملنے کا پورا یقین ہے، اس لئے اس نے ۴۰۳ ممبران والی اسمبلی کے لئے ایک مسلمان کو بھی اپنا امیدوار نہیں بنایا۔ تین طلاق اور مسلم پرسنل جیسے مسائل پر بیان بازی کرکے وہ دراصل مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار نہیں کرتی بلکہ ان کو اشتعال دلاکر ہندو ووٹ بٹورنے کی کوشش کرتی ہے۔
مسلمانوں کے ساتھ سچی ہمدردی یہ ہے کہ ان کے تعلیمی اداروں مثلاً علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائیں۔ مسلمانوں کو تعلیمی مواقع فراہم کئے جائیں، ملازمتیں دی جائیں۔ دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری بند کی جائے ۔ مسلمان اور دوسری اقلیتوں کے دینی اداروں اور عبادت گاہوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
فرقہ پرست طاقتوں کی چناوی حکمت عملی روایتی طور پر اس بات پر مرکوز رہتی ہے کس طرح مسلم ووٹ تقسیم کیا جائے۔ اس کام کو کرنے کے لئے ان فرقہ پرست طاقتوں کو اسلام کے نام پر چلنے والے بعض افراد، گروپ اور پارٹیاں مل بھی جاتی ہیں۔ لیکن قوی امید ہے کہ ۲۰۱۲ میں یوپی اسمبلی اور ۲۰۱۵ میں بہار اسمبلی کے الیکشن کی طرح مسلمانوں کی اکثریت اپنی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی سے اُس امیدوار کو ووٹ دے گی جو سماج میں مذہب کے نام پر پھوٹ ڈالنے والی فرقہ پرست جماعت کے امیدوار کو شکست دے سکے اور اترپردیش میں ایک سیکولر حکومت قائم ہو۔
۲۰۱۴ کے پارلیمانی الیکشن کے بعد سے پورے ملک میں فرقہ پرست طاقتوں نے نفرت کے بیج بوکر ہندو مسلم یکجہتی کو کمزور کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ اقلیتوں، دلتوں، عوتوں اور کمزور طبقوں پر مظالم کئے جارہے ہیں۔ نوجوانوں کو گرفتار کرکے اُن کے خلاف دہشت گردی کے جھوٹے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ اقلیتوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی دے کر خوف کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ لیکن ہندوستان کے دستور اور جمہوری نظام کے تحت ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ الیکشن کے موقع پر اپنے ووٹ کے ذریعہ اپنی رائے کا استعمال کرے۔ سمجھداری کا تقاضا یہ ہے کہ اترپردیش کے اس اہم الیکشن میں فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دی جائے تاکہ ایک سیکولر حکومت کا قیام عمل میں آئے جو اقلیتوں اور دوسرے کمزور طبقوں کو تحفظ فراہم کرے اور ان کو یہ یقین دلائے کہ وہ حکومت اُن کی اپنی حکومت ہے۔ اس لئے ہر شخص کو اپنا ووٹ ضرور ڈالنا چاہئے خواہ اس کے لئے اپنے روز مرہ زندگی کے نظام میں تبدیلی کرنی پڑے۔ ایسے میں نہ صرف خود ووٹ ڈالنا ہے بلکہ ایسی کوشش بھی کرنی ہے کہ ہمارے گھر اور پڑوس کا ہر فرد ووٹ ڈالے تاکہ فرقہ پرست طاقتوں کو لگام دی جاسکے۔
بلاشبہ اس ملک میں ۲۰ فیصد مسلمانوں کا اپنی پارٹی بنانا یا تنہاالیکشن لڑنا بھی مسائل کا حل نہیں ہے۔آزادی کے بعد سے متعدد مرتبہ مسلمانوں کے بعض قائدین نے اس طرح کی کوشش کی مگر کامیابی نہیں مل سکی بلکہ مجموعی طور پر اُس سے نقصان ہوا۔ جس کا فائدہ اقلیت دشمن سیاسی جماعتوں نے اٹھایا۔ اس لئے ہمیں سیکولر پارٹیوں میں شامل ہوکر، اُن کے امیدواروں کو ووٹ دے کر سماجی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کومضبوط کرنا ہوگا۔
خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر لوگ ظالم کو دیکھ کر اُس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب نازل فرمائیں۔ (ترمذی) اگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ فرقہ پرست جماعت ہندوستانی عوام کے مزاج کے خلاف ہند ومسلم یکجہتی میں رکاوٹیں پیدا کررہی ہے، نفرت وعداوت کی سیاست کررہی ہے اور کمزوروں قوموں پر ظلم کررہی ہے تو ہماری ملّی وقومی واخلاقی ذمہ داری ہے کہ الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے اپنی گرانقدر خدمات پیش کریں۔ اس وقت اس سے بڑی کوئی خدمت نہیں ہوسکتی کہ زیادہ سے زیادہ ووٹنگ کرانے کا ہدف اپنے سامنے رکھا جائے۔
بعض حضرات سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کریں گے تو کیا نقصان ہوگا؟ تو وہ اچھی طرح جان لیں کہ ووٹ کے ذریعہ ہی حکومتیں بنتی اور گرتی ہیں، اس لئے ایک ایک ووٹ قیمتی ہے۔ ووٹ ڈالنا نہ صرف ایک اہم ذمہ داری ہے بلکہ ایک امانت بھی ہے، لہٰذا خود بھی ووٹ ضرور ڈالیں اور ایسی کوشش وفکر کریں کہ آپ کا کوئی بھی پڑوسی ایسا نہ بچے جس نے ووٹ نہ ڈالا ہو۔ یہی ایک ایسا کام ہے جو ہر شخص کرسکتا ہے، اس کے لئے نہ بہت زیادہ وسائل کی ضرورت ہے اور نہ دن رات کی جد وجہد درکار ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے علماء ودانشور حضرات لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی اہمیت بتاکر انہیں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کریں گے۔ جتنی زیادہ ہماری ووٹنگ ہوگی اتنا ہی اپنے مخالف کو شکست دینا ہمارے لئے آسان ہوگا۔ اس کے لئے ہمیں گھر گھر جاکر لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دینی چاہئے۔
۲۰ فیصد مسلمانوں کا ووٹ بظاہر ایس پی وکانگریس کے اتحاد، بہوجن سماج اور بعض دیگر مسلم پارٹیوں کے درمیان تین حصوں میں تقسیم ہوتا نظر آرہا ہے۔ بہوجن سماج نے سابقہ انتخابات کا رکارڈ توڑ کر ۹۷ یعنی ۲۴ فیصد مسلم امیدواروں پر پارٹی کے مستقبل کی بنیاد رکھی ہے، جبکہ سماج وادی پارٹی نے ۲۹۸ سیٹوں میں سے ۵۷ اور کانگریس نے ۱۰۴ میں سے ۹ مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین ۳۸ امیدواروں کو ٹکٹ دے کر بہار کی طرح یوپی میں بھی اپنا تجربہ کرنا چاہتی ہے۔ مسلم امیدواروں کی کثرت، ذات پات کی بنیاد پر الیکشن ہونے کی روایت اور بعض مسلم پارٹیوں کے میدان میں آنے کی وجہ سے مسلمانوں کا ووٹ کسی نہ کسی حد تک ضرور تقسیم ہوگا، لیکن ہماری سب سے پہلی اور اہم حکمت عملی یہ ہونی چاہئے کہ ہماری ووٹنگ زیادہ سے زیادہ ہو کیونکہ ووٹنگ کی کثرت ووٹ کی تقسیم کا کافی حد تک متبادل بن سکتی ہے۔ اُس امیدوار کو ہرگز ووٹ نہ دیا جائے جس سے صرف ووٹوں کی تقسیم ہورہی ہو، خواہ اس کا تعلق ہماری برادری سے ہی کیوں نہ ہو۔اگر ہم نے دیگر امور کے ساتھ ان دو امور کا خاص اہتمام کیا تو ان شاء اللہ فرقہ پرست جماعت کو بہار کی طرح یوپی میں بھی شکست سے دوچار ہونا پڑے گا، جس سے فرقہ پرست طاقتوں کو یقیناًدھچکا لگے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ۲۰۱۲ کے یوپی اسمبلی الیکشن میں ۶۷ مسلم امیدواروں کو فتح نصیب ہوئی تھی جو اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس وقت یوپی اسمبلی میں مسلم ممبران کی تعداد کا اضافہ مطلوب نہیں، بلکہ فرقہ پرست طاقتوں کو شکست سے دوچار کرنا ہندوستان میں امن وسکون کے قیام کی کوشش کرنے والے ہر شخص کی خواہش ضرور ہے ۔
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی