مذہب اور عدالتوں کا ٹکراؤ

Bhatkallys

Published in - Other

05:49AM Fri 15 Apr, 2016
حفیظ نعمانی ممبئی کا ایک مندر جہاں عورتوں کو جانے کی اجازت نہیں تھی اور جس پابندی کے خلاف عرصہ سے ہندو خواتین مورچہ لئے ہوئے تھیں وہاں وہ پابندی عدالت نے یہ کہہ کر ختم کردی کہ دستور نے مردوں اور عورتوں کو برابر حقوق دیئے ہیں۔ اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس پر پابندی لگائے کہ مرد جاسکتے ہیں عورتیں نہیں۔ ایک اور بہت بڑے مندر میں یہ پابندی ہے کہ وہاں دس سال سے کم اور پچاس سال سے زیادہ عمر کی عورتیں ہی جاسکتی ہیں یعنی جوان عورتیں نہیں۔ سنا ہے عدالت میں اس پابندی کے خلاف بھی اپیل زیرسماعت ہے۔ اور عدالت عظمیٰ کا انداز اشارہ دے رہا ہے کہ وہاں بھی اس پابندی کو ختم کردیا جائے گا۔ جس مندر میں ممبئی میں ہر عورت پر پابندی تھی وہاں کے منتظمین کا کہنا تھا کہ وہ جس بھگوان کا مندر ہے انہیں عورتوں سے قربت ناگوار ہوتی تھی۔ جگت گرو شنکر آچاریہ جی نے عدالت کے اس فیصلہ اور عورتوں میں اس کی خوشی پر بہت تشویش ظاہر کی ہے۔ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مہاراشٹر میں خشک سالی، فصلوں کی بربادی اور کسانوں کی خودکشی سب اسی وجہ سے ہورہا ہے کہ وہاں سائیں بابا کی بھی پوجا ہورہی ہے اور جس مندر میں چار سو برس سے عورتوں کا داخلہ بند تھا۔ وہ پابندی ختم کردی گئی ہے۔ اس طرح کی اس پابندی کے خلاف بھی جو سمندر کے اندر حاجی علی کی درگاہ میں عورتوں کے جانے پر ہے عدالت میں اپیل زیرسماعت ہے اور مسلمان عورتیں اب خوشی منارہی ہیں کہ عدالت انہیں بھی مزار پر جانے کی اجازت دے دے گی۔ مندروں کے بارے میں فیصلہ وہاں کے ٹرسٹ کرتے ہیں لیکن مزار کا معاملہ ٹرسٹ کا نہیں ہے۔ اگر حاجی علی کی درگاہ میں عورتوں کا میلہ لگنے لگے گا تو پھر 15 شعبان کو ملک بھر کے قبرستانوں میں جو ہوگا اسے سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے۔ کیونکہ مزار ممبئی کا ہو، اجمیر کا ہو، بہرائچ کا ہو یا دیویٰ کا ہر جگہ حفاظت کے انتظام بھی ہوتے ہیں اور ضرورت سے زیادہ روشنی بھی۔ لیکن قبرستان ایسا تو ہمیں کوئی یاد نہیں جہاں اتنی روشنی ہو کہ دور سے کوئی دیکھ سکے کہ کہاں کیا ہورہا ہے؟ اور کوئی قبرستان ایسا نہیں ہوتا جہاں درجنوں قبریں گری ہوئی نہ ہوں۔ اور ایسی پکی قبریں بھی ہوتی ہیں جو بند کمرہ کا کام دے سکتی ہیں۔ بیشک ہندو بھائیوں کے پاس کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے اور مسلمان کتاب و سنت کے حوالہ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب خدا کے آخری نبیؐ نے اس کی اجازت نہیں دی تو کون اجازت دے سکتا ہے؟ لیکن عدالت کے سامنے دستور ہے اب تک کے ہر فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ جب ہر وہ کام عورت کررہی ہے جو مرد کرتے ہیں تو پابندی کیسی؟ اور ان کاموں میں جن کا حوالہ دیا گیا ہے، صرف وہ کام ہیں جو انسان نے بنائے ہیں۔ عدالت نہ جانے اسے کیوں نظر انداز کررہی ہے کہ کوئی بھی عورت ہر وہ کام نہیں کرسکتی جس کی قدرت نے اسے طاقت نہیں دی ہے۔ وہ بغیر مرد کے بچہ پیدا نہیں کرسکتی اپنے چہرے پر بال نہیں اُگا سکتی اپنا قد اونچا اور آواز مردانہ نہیں کرسکتی اپنے سینے کو مردوں کی طرح سپاٹ نہیں بناسکتی۔ عدالت جن چیزوں کا حوالہ دے رہی ہے وہ وہ ہیں کہ وکیل بن سکتی ہے، جج بن سکتی ہے، وزیر بن سکتی ہے، فوجی اور پولیس افسر بن سکتی ہے کارچلا سکتی ہے۔ ہوائی جہاز اُڑا سکتی ہے۔ لیکن یہ سب وہ کام ہیں جو انہوں نے خود سیکھے ہیں یا مردوں نے سکھائے ہیں لیکن وہ کام جو قدرت نے صرف اس کے کرنے کے اسے بتائے ہیں اور جو مردوں کو نہیں کرنے کے بتائے ہیں وہاں وہ فیل ہوجاتی ہے۔ اب یہی بات طلاق کے معاملہ میں عدالتوں میں آنے والی ہے کہ جب مرد عورت کو طلاق دے سکتا ہے تو عورت مرد کو طلاق کیوں نہیں دے سکتی؟ یہ اس فتنہ کا نتیجہ ہے کہ خواتین مسلم پرسنل لاء بورڈ بن گیا ہے اس کے لئے بھی یہی دلیل ہے کہ جب مرد پرسنل لاء بورڈ بناسکتے ہیں تو عورتیں اپنا بورڈ کیوں نہیں بناسکتیں؟ اور دلچسپ مذاکرے وہ ہوتے ہیں جن میں ایک یا دو برقعہ والی خواتین ہوتی ہیں اور کوئی مکمل فیشن اور میک اپ کے ساتھ طلاق کے مسئلہ پر بحث کرتی ہیں بیشک طلاق کے مسئلہ میں علماء کے اندر بھی اختلاف ہے لیکن اس اختلاف کو ٹی وی کے مذاکروں میں بحث کا موضوع بنانا قرآن و حدیث کی نافرمانی ہے۔ اب عدالتیں جب میزان ہاتھ میں لے کر بیٹھ گئی ہیں کہ دستور نے مرد اور عورت کو جب برابر حق دیا ہے تو عورت کیوں مرد کو طلاق نہیں دے سکتی؟ یا دستور نے جب دونوں کو حقوق کے اعتبار سے برابر کا درجہ دیا ہے تو باپ کی وراثت میں بیٹے اور بیٹی کے حصہ میں فرق کیوں کیا جاتا ہے؟ جگت گرو شنکر آچاریہ جی کے اس فیصلہ اور دکھ کے اظہار سے ہندو عورتوں کا بڑا طبقہ سخت ناراض ہے۔ جبکہ وہ انہیں سب سے بڑا دھرم گرو مانتی ہیں۔ لیکن اب ہندو بھی وہیں آگئے جہاں مسلمان برسوں سے ہیں کہ اگر ان کے علماء وہ کہیں جو وہ سننا چاہتے ہیں تو ان کے لئے جان بھی حاضر ہے۔ اور اگر وہ کہیں جو نہیں کرنا چاہتے تو مخالفت پر آمادہ ہوجائیں گے۔ مندروں کی صدیوں پرانی روایت اب عدالت کے فیصلہ سے ختم ہوجائے گی اور وہ جو سیکڑوں بڑے چھوٹے مندر ایسے ہیں جہاں دلت نہیں جاسکتے وہاں بھی اب انہیں کوئی نہیں روک پائے گا۔ اور شاید اب ڈاکٹر امبیڈکر، گاندھی جی سے بڑے بنا دیئے جائیں گے۔ اس لئے کہ اب مقابلہ شروع ہوگیا کہ بابا صاحب کانگریس کے نہیں ہمارے تھے۔ اور اس کے بعد یکساں سول کوڈ کا نعرہ لگانے والے وکیل عدالت کے سامنے کھڑے ہوں گے کہ بالادستی دستور کیا رکھنا ہے تو مسلمانوں کو بھی دستور کا پابند کیا جائے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کا لحاظ اب ختم کیا جائے۔ ہندوستان میں ایسے سیکڑوں وکیل ہیں جنہیں اس کی تکلیف نہیں کہ ایک شریف اور بالکل بے قصور اخلاق کو ہندوؤں نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ اور اکھلیش یادو نے اس کی موت اس کے بیٹے کی زخموں سے چور زندگی اس کے گھر کا سارا سامان حد یہ کہ دروازوں کی بھی بربادی اور سب عورتوں کی چوٹیں اور بے عزتی کی شرمندگی مٹانے کے لئے جو معاوضہ دیا اس کے خلاف عدالت میں جاکر کھڑے ہوگئے۔ اور یہ نہ سوچا کہ کوئی مسلمان انہیں دوگنا معاوضہ دے کر انہیں پیٹ پیٹ کر مار ڈالے تو کیا وہ قبول کریں گے؟ اپنا ملک ایک چڑیا گھر ہے جہاں صرف سبرامنیم سوامی ہی نہیں ہزاروں اور بھی ایسے ہیں جن پر ٹکٹ لگنا چاہئے۔