یکم نومبر:  جدید شاعری کے پیش رو معروف اصلاح پسند بچوں کے شاعر اسمٰعیل میرٹھی کا یومِ وفات ھے

Bhatkallys

Published in - Other

01:28PM Thu 2 Nov, 2017
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاریخ پیدائش : 12 نومبر 1844ء تاریخ وفات : 01 نومبر 1917 ء مولانا اسمٰعیل میرٹھی،12نومبر 1844 عیسوی کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ اب یہ محلہ اسمٰعیل نگر کے نام سے موسوم ہے۔ آپ کے والد کا نام شیخ پیر بخش تھا اور یہی آپکے پہلے استاد بھی تھے۔ اس دور کے رواج کے مطابق مولانا نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی ۔ پہلے فارسی اور پھر دس برس کی عمر میں ناظرہ قرآن مجید کی تعلیم مکمل کی۔1857 کی جنگِ آزادی کی تحریک کے وقت 14سالہ اسمٰعیل نے محسوس کرلیا تھا کہ اس وقت اس مردہ قوم کو جگانے اور جگائے رکھے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اسی مقصد کے تحت اس نے دینی علوم کی تکمیل کے بعد جدیدعلوم سیکھنے پرتوجہ دی، انگریزی میں مہارت حاصل کی، انجنیئرنگ کا کورس پاس کیا، مگر ان علوم سے فراغت کے بعد اعلیٰ ملازمت حاصل کرنے کی بجائے تدریس کا معزز پیشی اختیار کیا تاکہ اس راہ سے قوم کو اپنے کھوئے ہوئے مقام تک واپس لے جانے کی کوشش کریں۔ 1857 سے پہلے اردو شاعروں نے خیالات کے میدان میں گھوڑے دوڑانے کے علاوہ کم ہی کام کیا تھا، مگر اسمٰعیل میرٹھی نے، اپنے ہمعصروں، حالی اور شبلی کی طرح اپنی شاعری کو بچوں اور بڑوں کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنایا۔ مولانا نے 50 پچاس سے زیادہ نظمیں لکھی ہیں جو صرف بچوں کیلئے ہیں۔ان میں سے کچھ ایسی ہیں جن کا انہوں نے انگریزی شاعری سے ترجمہ کیا ہے مگر اس کے باوجود یہ نظمیں اپنی زبان اور بیان کے لحاظ سے انتہائی سادہ اور پر اثر ہیں۔اردو کے علاوہ مولانا نے فارسی ریڈریں بھی ترتیب دیں اور فارسی زبان کی گرامر کی تعلیم کیلئے کتابیں لکھیں۔ مولانا کے دو ہندو دوستوں نے جو سرجن تھے، اردو میں اناٹومی اور فزیالوجی یعنی علمِ تشریح اور علم افعال الاعضا پر کتابیں لکھی تھیں۔ مولانا نے ان دوستوں کی درخواست ہر ان کتابوں پر نظرِ ثانی کی اور ان کی زبان کو ٹھیک کیا۔ اپنے روحانی استاد اور پیر کی حالات پر ایک کتاب ’’ تذکرہ غوثیہ‘‘ کے نام سےلکھی۔ دہلی کے مشہور عالم اور ادیب منشی ذ کاء اللہ نے بھی سرکاری اسکولوں کیلئے اردو ریڈروں کا ایک سلسلہ مرتب کیا تھا، ان کی ان کتابوں مں مولانا اسمٰعیل کی نظمیں شامل تھیں۔مولانا نے جغرافیہ پر بھی ایک کتاب لکھی جو اسکولوں کے نصاب میں داخل رہی۔ مسلمانوں کے اس عظیم خدمت گزار مصلح نے 73 سال کی عمر میں یکم نومبر 1917 کو وفات پائی۔ مولانا نے مدرسۃ البنات کے نام سے 1909 میں لڑکیوں کا ایک اسکول میرٹھ میں قائم کیا، یہ درس گاہ آج بھی قائم ہے اور اس کا نام اسماعیلیہ ڈگری گرلز کالج ہے۔ ان تمام تعلیمی اور علمی مصروفیات کے باوجود آپ مسلمانوں کی سیاسی تربیت سے غافل نہیں رہے، انہی سیاسی خدمات کے پیشِ نظر انہیں 1911 میں میرٹھ شہر کی مسلم لیگ کا نائب صدر منتخب کیا گیا تھا، اسی طرح وہ انجمن ترقی اردو کی مجلسِ شوریٰ کے رکن بھی رہے۔ ہندوستان کی ابتدائی اردو کی تعلیم میں مولانا  اسمٰعیل میرٹھی کی خدمات بہت اہم ہیں۔ اردو کی ابتدائی کتابوں میں مولانا کی کہی ہوئی آسان نظمیں ہوا کرتی تھیں۔  اُن نظموں کی خصوصیات انکی آسان اور عام فہم زبان ہوتی تھی  اور دوسری صفت یہ کہ اُن  میں ایسی باتیں نظم کی گئی ہیں جن سے روز مرّہ کی زندگی کی  عکّاسی ہوتی ہے اور بچوں کو ان باتوں میں بے انتہا دلچسپی ہوتی ہے۔ در اصل اردو زبان میں یہ نظمیں نرسری رائمز کا نعم البدل ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد ان نظموں کو طاقِ نسیاں کی نظر کر دیا گیا لیکن صحیح معنوں میں اُن نظموں کا کوئی بدل نہ آ سکا جو نئی پود کی ذہنی نشو نما کی پرداخت کرتا۔ اس سے نقصان یہ ہوا کہ نہ بچوں کو ٹھیک سے اردو لکھنا پڑھنا آیا اور نہ ان میں بنیادی شہری ذمہ داریاں پیدا ہوئیں۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ کتابیات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُردو کی پہلی کتاب ۔ لاہور،شیخ غلام علی اینڈ سنز،1956ء ، 48 ص (ٹکسٹ بُک) ادیب اُردو سدرشن کا میلہ رسالہ نما ریزۂ جواہر قند ِ پارسی ترجمان ِ فارسی تذکرۂ غوثیہ مرقع زمین فکر ِ حکیم۔مثنوی طلسم ِ اخلاق اُردو کی درسی لغت نوائے زمستاں جریدۂ عبرت اُردو کورس کُمک ِ اُردو توزک ِ اُردو سفینۂ اُردو ۔ لاہور،سنگِ میل پبلی کیشنز ، 2002ء ، 190 ص (شعری اور نثری ادب کے منتخبات) (1)== مملوکہ:- (ڈ) ڈیرہ نواب صاحب ، گورنمنٹ صادق عباس پوسٹ گریجویٹ کالج 10870 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ منتخب کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا کیسی زمیں بنائی ،کیا آسماں بنایا پانو تلے بچھایا کیا خوب فرشِ خاکی اور سر پہ لاجوردی اِک سائباں بنایا مٹی سے بیل بوٹے کیا خوشنما اگائے پہنا کے سبز خلعت ان کو جواں بنایا خوش رنگ اور خوشبو گُل پھول ہیں کھلائے اِس خاک کے کھنڈر کو کیا گلستاں بنایا میوے لگائے کیا کیا، خوش ذائقہ رسیلے چکھنے سے جن کے مجھ کو شیریں دہاں بنایا سورج سے ہم نے پائی گرمی بھی روشنی بھی کیا خوب چشمہ تو نے اے مہرباں بنایا سورج بنا کے تُو نے رونق جہاں کو بخشی رہنے کو یہ ہمارے اچھا مکاں بنایا پیاسی زمیں کے منہ میں مینہ کا چوایا پانی اور بادلوں کو تُو نے مینہ کا نشاں بنایا یہ پیاری پیاری چڑیاں پھرتی ہیں جو چہکتی قدرت نے تیری اِن کو تسبیح خواں بنایا تنکے اٹھا اٹھا کر لائیں کہاں کہاں سے کس خوبصورتی سے پھر آشیاں بنایا اونچی اُڑیں ہوا میں بچوں کو پر نہ بھولیں اُن بے پروں کا اِن کو روزی رساں بنایا کیا دودھ دینے والی گائیں بنائی تو نے چڑھنے کو میرے گھوڑا کیا خوش عناں بنایا رحمت سے تیری کیا کیا ہیں نعمتیں میّسر ان نعمتوں کا مجھ کو ہے قدر داں بنایا آبِ رواں کے اندر مچھلی بنائی تو نے مچھلی کے تیرنے کو آبِ رواں بنایا ہر چیز سے ہے تیری کاری گری ٹپکتی یہ کارخانہ تونے کب رائیگاں بنایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پن چکی نہر پر چل رہی ہے پن چکی دھن کی پوری ہے کام کی پکی بیٹھتی تو نہیں کبھی تھک کر تیرے پہیہ کو ہے سدا چکر پیسنے میں لگی نہیں کچھ دیر تو نے جھٹ پٹ لگا دیا اک ڈھیر لوگ لے جائیں گے سمیٹ سمیٹ تیرا آٹا بھرے گا کتنے پیٹ بھر کے لاتے ہیں گاڑیوں میں اناج شہر کے شہر ہیں ترے محتاج تو بڑے کام کی ہے اے چکی کام کو کر رہی ہے طے چکی ختم تیرا سفر نہیں ہوتا نہیں ہوتا مگر نہیں ہوتا پانی ہر وقت بہتا ہے دھل دھل جو گھماتا ہے آ کے تیری کل کیا تجھے چین ہی نہیں آتا کام جب تک نبڑ نہیں جاتا مینہ برستا ہو یا چلے آندھی تو نے چلنے کی شرط ہے باندھی تو بڑے کام کی ہے اے چکی ؛ مجھ کو بھاتی ہے تیری لے چکی علم سیکھو سبق پڑھو بچو اور آگے چلو بڑھو بچو کھیلنے کودنے کا مت لو نام کام جب تک ہو نہ جائے تمام جب نبڑ جائے کام تب ہے مزہ کھیلنے کھانے اور سونے کا دل سے محنت کرو خوشی کے ساتھ نہ کہ اکتا کے خامشی کے ساتھ دیکھ لو چل رہی ہے پن چکی دھن کی پوری ہے کام کی پکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔