ہم کے ٹہرے لکھنوی ۔ تحریر : فرزانہ اعجاز

اپنے پیارے شہر لکھنؤ کے بارے میں اچھی اچھی باتیں لکھنا یا کہنا ایسا ہی لگتا ہے جیسے کوئ ’اپنے منھ میاں مٹھو بن رہا ہو ، ‘ لیکن ، وہ جو ایک شعر ہے نا کہ ’دوری نے کردیا ہے ، تجھے اور بھی قریب ۔۔۔۔ تیرا خیال آکے نہ جاۓ تو کیا کروں ‘۔۔۔ کچھ ایسا ہی معاملہ لکھنؤ چھوڑکر جانے والے لکھنویوں کے ساتھ اکثر ہوتا رہا ہے ، وہ اپنی مرضی خوشی سے جایئں یا کسی مجبوری کے تحت ، لکھنؤ انکے ساتھ ساتھ ہر جگہ موجود رہتا ہے ،
دھیمے سروں میں بہنے والی دریاۓ گومتی کے اطراف بسا پرسکون اور خوبصورت شہر لکھنؤ ،وہ لکھنؤ کہ جسکا ذکر کئ سو سال قبل کی کتابوں اور یاد داشتوں میں نظر آتا ہے ، سیکڑوں سال کی بستی اور اجڑتی تاریخ کے صفحات میں بھی اور ترک دنیا کرنے والے جوگیوں اور صوفیاۓ کرام کے تذکروں میں بھی ،وہی لکھنؤ کہ جہاں اپنے بزرگ والد ملا قطب الدین سہالوی شہید کی شہادت کے بعد سہالی سے نقل مکانی کرکے ملا نظام الدین فرنگی محلی نے درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا اور بلا تفریق مذہب وملت اپنے شاگردوں میں علم کا نور تقسیم کیا اور ایک ایسا نظام تعلیم مرتب کیا جو عالم اسلام اور تمام دنیا میں ’درس نظامی ‘ کے نام سے آج بھی موجود ہے ، ، وہی لکھنؤ کہ جہاں گومتی کے ایک کنارے شاہ پیر محمد صاحب کی ٹیلے والی مسجد ہے تو دوسرے کنارے شاہ دوسی صاحب جیسے مجذوب کا ڈیرہ ، اور اسی پرسکون گومتی کے ایک طرف ہنومان جی کا مندر ہے ،اسی گومتی کے ساتھ ساتھ سفر کرتی سڑک کے کنارے ، یہاں سے وہاں تک نوابین اودھ نے اپنے مسکن بناۓ، شاندار امامباڑے،رہائشی محلات اور عالی شان عمارتیں تعمیر کروا کر اس سپاٹ سڑک کو کسی دلہن کی جگمگاتی افشاں بھری مانگ کی طرح سجا سنوار دیا ، اسی گومتی کے کنارے انگریزوں نے اپنا مسکن بنایا اور ’مارٹن صاحب ‘ نے ’مارٹن پوروہ ‘بسایا اور عالی شان اسکول قائم کیا ، وہی لکھنؤ کہ جو رواداری اور مروت کی جیتی جاگتی گنگا جمنی تہذیب میں آج بھی پور پور ڈوبا نظر آتا ہے ،ہمارے لکھنؤ کے مقتدر رہنے والوں میں سرفہرست کھن کھن جی ،روہتگی بھوشن بھنڈار کے مالکان ،امرت لال ناگر، لال جی ٹنڈن،ڈاکٹر ٹی بہادر ، کول صاحب ،اور ڈاکٹر پی ڈی کپور صاحب جیسے لوگوں کے نام شامل ہیں ،ہمارے خاندان میں پرانے زمانے سے آج تک زیورات کی خریداری پورے بھروسے کے ساتھ روہتگی بھوشن بھنڈار ہی سے ہوتی ہے، ڈاکٹر پی ڈی کپور صاحب جو جن سنگھ کے ممبر تھے ، لیکن ، ان کے مطب کے انچارج ’پنڈت جی ، سخت کانگریسی خیالات کے تھے ، اور کمپاؤنڈر ’عابد ‘ نامی شیعہ صاحب تھے ، یعنی کپور صاحب کا مطب ایک چھوٹا موٹا’سیکیولرہندوستان ‘ تھا ، ڈاکٹر صاحب کے دوستوں میں شہر کے مقتدر مسلم خاندان تھے ، جہاں غمی خوشی میں ڈاکٹر صاحب کا آنا جانا رہتا تھا ، انکے مریضوں میں بھی مسلمانوں کی بڑی تعداد تھی ، ہم کو تو سواۓ ڈاکٹر کپور صاحب کی دوا کے کسی کی دوا سے ’شفا ‘ ہی نہیں ملتی تھی ، یہ ہمارا اصل اور پرانا لکھنؤ تھا ،درحقیقت گومتی کے ’ ادھر ‘ کے باسی جب بھی شہر لکھنؤ کا ذکر کرتے ہیں تو انکی مراد ’پرانے لکھنؤ ‘ ہی سے ہوتی ہے ، ہمارا یہی لکھنؤ، صدیوں سے ایک کے بعد ایک آتے جانے والے اجنبیوں کو اپنے دامن میں سکون کی زندگی کی نوید سناتا رہا ہے ، وہی لکھنؤ کہ جہاں کے علمأ اپنا علم بلا تفریق مذہب وملت اپنے شاگردوں میں بانٹا کرتے تھے ، ویسے تو کوئ بھی شہر کسی خاص فرقے سے وابستہ نہیں ہوا کرتا ہے ،لکھنؤ میں بھی مختلف مذاہب کے لوگ میل جول سے رہتے رہے ہیں ، آپسی میل جول کی سیکڑوں داستانیں آج بھی سنائ اور دکھائ پڑتی ہیں ، آپسی تجارت ، خوشی غمی میں شرکت ،انسانوں کو ایک ہی لڑی میں رنگ برنگے خوشبو دار پھولوں کی طرح پرو دیا کرتی ہے ، وہ ہولی کا رنگ ہو، دیوالی کی جگمگاہٹ ہو ، یا شکر کے کھلونے ہوں یا ’راکھی ‘کی نازک سی ریشمی ڈوری ، رمضان کا تقدس ہو یا عید کی میٹھی میٹھی خوشی یا افسردہ کر دینے والا ماہ محرم ، سکون اور تحفظ کا متلاشی ہر فرد بشر یہاں ایک بار آکر ، کبھی غیریت محسوس نہیں کرتا ۔
جب نوابین اودھ نے لکھنؤ کو اپنا دارالخلافہ بنایا تو شہر لکھنؤ کی قسمت اور بھی چمک اٹھی اور شہر کے دور دراز محلوں اور علاقوں میں نہروں کا ایسا جال بچھایا کہ آج تک وہ محلے ان ہی نہروں کے نام سے یاد کۓ جاتے ہیں ، نوابین اودھ کے دربار میں بھی یہی گنگا جمنی منظر نظر آتا تھا ، نواب کے وزیر با تدبیر جھاؤلال،مشہور شاعر نواب فقیر محمدخان صاحب ’ گویا ‘ جو نواب نصیر الدین حیدر کی فوج میں رسالدار اور نواب کے دربار میں اثر ورسوخ رکھتے تھے ،آغا میر اور ’آتش لکھنوی ‘سے جنکی گہری دوستی تھی ،
اور جن کے نام کے اب بھی دو محلے موجود ہیں اور انکے ورثأ ملیح آباد میں سکونت پزیر ہیں ،’جوش میلح آبادی ‘ جیسا شاعر ، ان ہی کا پرپوتا ہے اور مائل ملیح آبادی ،خان محمد عاطف اور ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی بھی اسی خاندان سے ہیں ، جھاؤلال کا علاقہ بھی برقرار ہے ، گولہ گنج کے پاس پل جھاؤلال پربھیروں جی کا ایک مشہور مندر ہے جس کے بازو کے ایک مسلم گھرانے میں مندر کا ایک دروازہ کھلتا ہے ،ساتھ ہی بغل میں برجو اور لچھو مہاراج جیسے ’کتھک رقص ‘ کے ماہر رہتے رہے اورسنا ہے کہ اب یہں انکے نام کی کتھک ڈانس ایکاڈیمی قائم ہے ۔تالاب گنگی شکل اور ٹکیت گنج۔بھولاناتھ کے کنوئیں کو لکھنؤ والے کہاں بھول سکتے ہیں ، شہر لکھنؤکے دور دراز علاقوں کی پیاس بجھاتی نہریں ،تمام کے تمام شہر میں لہلہاتے خوشنما باغات اور ان کے گرد بسے محلے ، کیا کچھ نہیں تھا جو نوا بین اودھ کی آج بھی یاد نہ دلاتا ہو ، آج بھی ہمارے درمیان نوابین اودھ کے ایک وزیر باتدبیر’حکیم میر مہدی‘صاحب کہ جنکا مقبرہ تعلیم گاہ نسواں کالج کے سامنے ہے۔ کے پرپوتے میر جعفر عبدللہ ‘ صاحب ماشا اللہ موجود ہیں اور اپنی تہذیب کی نمائندگی کر رہے ہیں ، ہمارا لکھنؤ یہی تھا ، جس کی حدیں ٹھاکر گنج تا قیصر باغ اور تال کٹورہ تا لکھنؤ یونی ورسٹی یا تا گومتی ندی تھا ،اور یہی وہ لکھنؤ ہے جو بار بار خوابوں میں آجاتا ہے ،
یہی وہ لکھنؤ ہے کہ جہاں رتن ناتھ سرشار ، برج نرائین چکبست ‘ آنند نرائین ’ ملا‘جیسے اردو کے عاشق حضرات نے زندگی بسر کی ، اور یہیں منشی نول کشور نے اردو ،عربی اور فارسی کا مشہور ’نول کشور پریس ‘ قائم کیا ، رام بابو سکسینہ کی شہرۂ آفاق کتاب ’تاریخ اردو ادب ‘تو ذہنوں سےکبھی اوجھل ہی نہیں ہو سکتی ،یہیں ’میر تقی میر نے اردو کے گیسو سنوارے ،میر انیس اور مرزا دبیر کے اشعار گونجے اور آروز لکھنوی ، صفی لکھنوی اورخواجہ عزیزالدین ’عزیز ‘لکھنوی جیسے شعرأاور انکے سیکڑوں شاگردوں اور ساتھیوں نے مشق سخن جاری رکھی ، یہی وہ زمین ہے کہ جہاں ، آتش و ناسخ نے الفاظ کے نگینے جڑے ، یہی وہ لکھنؤ ہے کہ جہاں کی صبحوں کا افق پر ابھرتا نارنجی سورج دریاۓ گومتی کی خاموش سرمئ لہروں کو اپنے رنگ میں آج بھی رنگ لیتا ہے ، اور شام اودھ کی مدھم روشنی ، رات کی سیاہی کو اپنے دامن میں چھپا کر اپنے لکھنؤ کو رات کی تاریکیوں سے بچا لینے کی کوشش کرتی ہے ، یہی وہ لکھنؤ ہے کہ جہاں بازار حسن میں بھی اعلا درجے کے باذوق شایقین جایا کرتے تھے اور رقص وسرورکے ساتھ ساتھ ادب آداب کا خاص خیال رکھا جاتا تھا ، کبھی کبھی ایسی محفلوں میں کچھ سیاسی اور تاریخی الٹ پلٹ بھی ہوجایا کرتی تھی ، اسی شہر لکھنؤ میں اختری بائ فیض آبادی ’ بیگم اختر ‘ بنیں اور اپنے نغموں سے فضاؤں کو معطر کیا ، ’میر تقی میر ‘ کے الفاظ میں زرا ترمیم کے ساتھ ۔۔۔’لکھنؤ جو اک شہر تھا عالم میں انتخاب ، جسکو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا ۔۔۔ ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے۔‘
اشرافیہ کی بات تو بہت بلند ہے ، انکے گھروں سے وابستہ ملازمین اور عام دوکان دار ، یہاں تک گلی محلوں میں پھیری لگانے والے ، تانگہ اور یکہ چلانے والوں کی شستہ اردو اور الفاظ کی ادایئگی میں ’ لچک ‘ دور دور مشہور تھی ، انکے انداز نشست وبرخواست ، بزرگوں اور خوردوں سے انداز تخاطب، کیا کچھ نہیں تھا جو ہمارے لکھنؤ کو منفرد بناتا تھا ، یہی وہ ماحول تھا کہ جس میں ہماری اور ہمارے ساتھ کے لوگوں کی پرورش ہوئ ، ہم آج بھی اپنے کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ بہت اعلا نہ سہی ، لیکن ، ہم نے وہی زمانہ دیکھا اور ایسے ہی ادب آداب سیکھنے کی شعوری اور لا شعوری کوشش کی ، جہاں بزرگوں کو بہت ادب سے سر کو زرا سا خم کرکے ’ آداب یا تسلیم ‘ کہا جاتا تھا ، بزرگ خواہ کوئ بھی ہو ، اس کی بات درمیان میں کاٹی نہیں جاتی تھی ، اونچی آواز میں بولنا ناممکنات میں سے تھا ، گھر کے پرانے خدمتگاروں کو چچا، دادا ، بوا یا بوبو کہا جاتا تھا ، ان کا گھروں میں ایک خاص مقام تھا ، بازاروں میں کھڑے ہوکر کھانا پینا شرفأ کا شیوہ نہ تھا ،
ہم نے جب لکھنؤ شہر سے باہر کا ارادہ کیا تو اس وقت بھی ہمارا شہر صاف ستھرا تھا ،چوڑی چوڑی سڑکیں تھیں ، کھلے کھلے فٹ پاتھ تھے اورکہیں بھی گندگی کے ڈھیر نہیں تھے ،ٹیمپو جیسی عفریت شہر پر نازل نہیں ہوئ تھی شہر میں سرکاری بس سروس تھی جو شہر کے ہر کونے کو آپس میں جوڑے تھی ، امرأ اپنی موٹر گاڑیوں یا بگھییوں میں سفر کرتے تھے ، رات کے سناٹے میں سڑکوں پر چلتی بیل گاڑیوں میں جتے بیلوں کی گردنوں میں بندھے گھنگھروؤں اور یکہ تانگا کی مخصوص دل نشیں موسیقی سنائ دیا کرتی تھی ، ’بھرت ملاپ ’ کی بارات نکلتی تھی ،رام لیلا کا کھیل ہوتا تھا ، محرم کے سوگوار جلوس اور بارہ ربیع الاول کے پروگرام ہوتے تھے ،یہیں کے مسلم شاعر نے کہا تھا ،،، ’گویئاں ،ہولی میں کھیلوں گی ان ہی کے سنگ ۔۔۔۔۔ جنکے بال گھونگھر والے سانولا ہے رنگ ‘یعنی کرشن جی ،اور جہاں کے مشہور شاعر ’حسرت موہانی مرحوم ‘کرشن جی کے نام کے بعد’رحمت اللہ علیہ ‘کہا کرتے تھے ۔ ہمارے ابو حج کو جارہے تھے تو ابو کے ایک غیر مسلم دوست کی والدہ نے فرمایئش کی تھی کہ ’بھیا ، ہمارے لۓ وہاں کی زرا سی خاک شفا ‘ لیتے آنا ، رکشا بندھن میں مسلم منھ بولے بھایئوں کے غیر مسلم بہنیں پوری عقیدت سے راکھی باندھتی تھیں ، چوک کے صرافہ بازار کے ایک غیرمسلم بہت بڑے لچکا تاجر بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ احمد حسین دلدار حسین تمباکو والوں کے یہاں سے انکے بہت مراسم تھے کہ ایک بار سخت ضرورت پڑنے پر اپنے غیر مسلم دوست ’لالہ‘ کے سامنے ’ میر صاحب ‘ نے اپنی لبا لب بھری تجوری کھول دی تھی کہ جتنی ضرورت ہو ِ تم خود روپیہ اٹھا لو۔‘ صلاح الدین چچا ، مسیح چچا کی ہی طرح کرشن کمار چچا ، بندھو چچا بھی ابو کے مخلص دوست اور ہم سب کے چچا تھے ،کرشن کمار چچا’نوجیون اخبار‘ اور صلاح الدین عثمان چچا روزنامہ نیشنل ہیرالڈ مین کام کرتے تھے ، کرشن کمار چچا نوجیون سے مستفی ہوکر ، دلی کے ایک مشہور اخبار میں بہت بہتر تنخواہ پر جارہے تھے ، اسی درمیان صلاح الدیں صاحب نے کسی اختلاف کی بنا ٔ پر عجلت میں نیشنل ہیرالڈ سے استفعا دے دیا ، کرشن کمار چچا کے بضد ہوکر اپنی نئ اور بہتر جگہ صلاح الدین چچا کو بھیجا ،زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ فرنگی محل کے مرحوم ’یوسفی پریس‘کے ایک دالان میں محرم علی نام کا ایک سنی شخص رہتا تھا ، وہ کام تو کچھ اور کرتا تھا ، لیکن ، محرم شروع ہونے سے پہلے وہ لکڑی کی کھپچیوں اور رنگین کاغذوں اورموتیوں کی جھالر سے بہت خوبصورت تعزیۓ بناتا تھا ، جنکی بہت مانگ ہوتی تھی۔
ہم لکھنؤ چھوڑ کر دور دراز کے علاقوں میں گھومتے ضرور رہے، لیکن ، جہاں جہاں بھی گۓ ’ ہمارا لکھنؤ ‘ ہمارے ساتھ ساتھ گیا ، کسی اجنبی سے بات کی تو اس نے بیساختہ پوچھا ۔۔’ میڈم ، آپ کہاں کی رہنے والی ہیں ، ؟۔ آپ کی بول چال الگ سی ہے اور لہجہ نرم بھی ہے جو دوسروں سے جدا ہے ، سلطنت مسقط و عمان کی سڑکیں ہوں یا شکاگو کے یا لندن ،یا کہیں کے بھی اردو جاننے والے اجبنی لوگ ، ہمیشہ ٹھٹھک کر ایک بار یہی جملہ ضرور دہراتے تھے ،کپڑوں کی ایک دکان پر ایک صاحبہ نے ہم سے پوچھا ،’آپ کہاں کی ہیں جو فالسئ اور بنفشئ اور عنابیاورابرئ رنگ کہہ رہی ہیں ؟ یہ لہجہ، یہ زبان ، یہ انداز گفتگو ،یہ الفاظ اور جملوں کی ادائیگی میں لوچ ، بلا تفریق مذہب و ملت ہر اس شخص نظر آجاتی ہے جسکی پرورش لکھنؤ میں ہوئ ہو ،کرخت اور بھونڈے الفاظ لکھنؤ کی زبان میں ناپسندیدہ قرار پاتے ہیں ، لکھنؤ کا اصل شہر پرانے لکھنؤ میں آج بھی نظر آجاتا ہے ، ایک بار وہاں بجلی نہیں آرہی تھی گھپ اندھیرے میں ایک برقعہ پوش ضعیف خاتون ایک دوکان دار سے کہہ رہی تھیں ، ’ارے بیٹا ، اگر آپ کے پاس شمعیں ہوں تو زرا ہم کوبھی دے دیجیۓ ۔ایک بہت دراز قد صاحب خربوزے خرید رہے تھے ،انہوں نے کہا ’خربوزے زرا چھوٹے ہیں ‘ ، خربوزے والے نے برجستہ کہا ،’میاں ، خربوزے تواچھے بھلے ہیں زرا آپ ’نیچے کی منزل پر آکر ملاحظہ کیجیۓ ،آہ کسی شاعر نے کیا سچ بات کہی ہے
ہمارے شہر کی تہذیب ڈھونڈھنے والوں
جدھر ہیں ٹاٹ کے پردے ، ادھر گۓ کہ نہیں ؟‘
لیکن، کبھی کبھی اسکا الٹا بھی ہوجاتا ہے ، کئ سال ملک سے باہر ، دوسرے زبان اور کلچر والوں کے ساتھ رہنے کے بعد ایک بار جو ہم لکھنؤ آۓ اور کسی کام سے چوک کے ایک جاننے والے غیرمسلم لچکے گوٹے والے لالہ کی دوکان پر گۓ اور ان سے بات کرتے رہے، لیکن ، لالہ خاموشی سے ہم کو دیکھ رہے تھے ، ہمارے استفسار پر لالہ نے کہا ، ’ارے میری بٹیا ۔۔ یہ آپ نے اپنی زبان کو کیا کر لیا ہے ‘؟ ہم حیرت سے لالہ کو دیکھ رہے تھے ، غیر اردو داں اور غیر ہندی داں لوگوں سے مسلسل رابطے سے ہماری زبان پر جو اثر ہوا وہ لالہ نے شدت سے محسوس کیا لیکن ، ہم کو احساس تک نہ ہوا ، اس کے بعد سے آجتک اپنے لکھنؤ والوں کے سامنے ہم بہت سنبھل کر بات کرتے ہیں ،اور محسوس کرتے ہیں کہ وہ میٹھی میٹھی موسیقی سے لبریز اردو ہم سے جدا نہ ہوسکے کہ ’ ہم تو ٹھہرے لکھنوی ۔‘۔۔۔۔