۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔--
ساغر صدیقی اپنی اجڑی پجڑی،لٹی پٹی،بے رونق اور سنسان زندگی کی صفیں لپیٹ کر 19 جولائی 1974ء کو اپنی زندگی کے تمام اچھے برے نقش،تمام محاسن و مصائب،تمام راز اور تمام اسرار اپنے دامن میں سمیٹ کر چپ چاپ قبر کی آغوش میں ہمیشہ کی نیند سو گیا تھا۔اس کے جاننے والوں کو اس سانحہ کی خبر اسوقت ملی جب وہ پیوند خاک ہو چکا تھا۔اب کوئی شخص اسے کالی چادر اوڑھے،ننگے سر،ننگے پاؤں،بکھرے بالوں اور پچکے گالوں کے ساتھ سگریٹ کے دھوئیں اڑاتا لاہور کی سڑکوں پر چلتا پھرتا نہیں دیکھ سکے گا۔یہ جسم فانی تھا،فنا کے گھاٹ اتر گیا۔
مگر حسین کار قدرت نے اسے ایک شاعر کا دل و دماغ اور شاداب ذہن بھی عطا کیا تھا جو اسے لافانی شعر کہنے پر مجبور کرتا تھا۔جو ظلمات شام میں ستارہ بن کر چمکتے تھے۔ساغرؔ کے فکر و خیال کے یہ روشن ستارے "غم بہار" ۔"لوح جنوں"،"شیشہ دل"۔شب آگہی" وغیرہ جھرمٹوں میں اب بھی جگمگا رہے ہیں اور اپنی تابانی سے مرنے کا نام تاابد روشن رکھیں گے۔
اپنی وفات سے پندرہ بیس برس پیشتر ساغرؔ ایک اچھا خاصا صحت مند نوجوان تھا۔اسکی رگوں میں زندگی کا جواں خون رقص کرتا تھا۔اس کے چہرے پر تازگی آنکھوں میں نور اور آواز میں ایک دلکش لوچ تھا اور وہ ہر ادبی محفل کی جان سمجھا جاتا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اپنی جان کو کچھ ایسا روگ لگا لیا کہ اس کی صحت اور جوانی برباد ہو کے رہ گئی۔وہ خود کہتے تھے۔
غم فروزاں ہو گۓ ہیں ہر خوشی لٹنے کے بعد
کتنی دلکش ہو گئی ہے زندگی لٹنے کے بعد
ساغرؔ میں یہ تبدیلی کیسے آئی؟کیا اس نے اپنی قبر خود کھودی یا ظالم معاشرے کی بدسلوکی نے اسے دنیا تج کر درویشانہ روش اختیار کرنے پر مجبور کیا؟یہ اور اس قسم کے کئی سوالات اس کے دوستوں اور ہمدردوں کے ذہن میں ابھرتے تھے مگر ساغرؔ ہمیشہ طرح دے جاتے تھے اور کسی کو کچھ نہیں بتاتے تھے۔سید م سلیم یزدانی بھی ایسے ہی ہمدردوں میں سے تھے۔جو حقیقت حال سے واقف ہونے کی ٹوہ میں لگے رہتے تھے۔ایک روز وہ اسی نیت سے ساغرؔ کی تلاش میں نکلے۔ایک جگہ ملاقات ہو گئی۔سلام دعا اور مزاج پرسی کے بعد باتوں باتوں میں انہوں نے ایک دو سوال کر ڈالے اور کئی راز اگلوانے میں کامیاب ہو گۓ۔انہوں نے ساغرؔ کی بکھری بکھری بے ربط باتوں کو معمولی سے پیونگ لگا کر ایک کڑی میں پرویا اور انہی کے الفاظ میں پیش کردیا۔اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ہم ان باتوں سے واقف نہیں ہو سکتے تھے۔
سید م سلیم یزدانی کے مختلف سوالوں کے جواب میں ساغرؔصدیقی نے بتایا:
میری زندگی زندان کی ایک کڑی ہے۔1928ء کے کسی ماہ میں پیدا ہوا ہوں۔گھٹنوں کے بل چلنے کا زمانہ سہانپور اور انبالہ کی آغوش میں گذرا۔انبالہ اردو اور پنجابی بولنے والے علاقے کا سنگم ہے۔ماں کی ممتا،باپ کی شفقت کہاں اور کیسے پیدا ہوا ہوں؟ یہ میرے لۓ کسی مقدس سراۓ کے غلیظ باڑے میں کے سوا کچھ بھی نہیں۔یا علی بابا چالیس چور کے پراسرار غار کی کہانی ہے۔میں نے دنیا میں خداوند رحیم و کریم سے بھائی بہن کا عطیہ بھی نہیں پایا۔یہ معلوم نہیں خداوند کو اس تنہائی سے یگانہ بنانا مقصود تھا یا بیگانہ؟بہرحال شاید میری تسکین قلبی کے لۓ کسی کا نام بھائی رکھ دیا ہو۔اس طرح ایک وجود کا تذکرہ میرے بارے میں لکھنے والوں نے کیا ہے جو سراسر غلط ہے۔دنیا کی چھ سمتوں پر نظر رکھنے والے صاحب فراست لاہور کی سڑکوں پہ مجھے جب چاہیں ٹوٹا ہوا بازو۔کالی کملی میں چھپاۓ،احساس کے الٹے پاؤں سے چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں۔اگر کوئی بھائی بہن ہوتا تو شاید یہ حال نہ ہوتا۔میں نے لوگوں سے اپنا نام محمد اختر سنا ۔البتہ ایک پرشکوہ ماضی کی سرسراہٹ میں نے اپنے پاؤں کے نیچے محسوس کی ہے۔
1936ء میں جب ذرا سوجھ پوجھ کا زمانہ آیا تو ایک ویراں مکان کی افسردہ دیواروں کے ساتھ لگے ہوۓ لکڑی کے پرانے صدوقوں میں دیمک چاٹتی ہوئی کتابیں دیکھیں۔شاید ان کے پڑھنے والے1857ء کی گھٹاؤں مین ڈوب چکے تھے۔ہاں رات کی تاریکی میں ایک کگر پر روشنی پھیلانے کی جستجو کرتا ہوا ایک دیا میرے مشاہدے کی پہلی چیز تھی۔اس گھر میں مجھ سے پہلے حاجی محمد حنیف اور حاجی محمد حسین نام کے دو بزرگ آباد تھے۔یہ کتابیں شاید انہیں کی تھیں۔یہ بزرگ انبالہ شہر کی سماجی زندگی میں اچھی خاصی شہرت کے حامل تھے۔ان کی پکی اور بیل بوٹوں والی قبر کا کوئی پتھر شاید آج بھی وہاں کے قبرستان کے کسی کونے میں موجود ہو۔
میں نے اردو اپنے گھر میں پڑھی۔ایک چالیس پچاس سالہ بزرگ جن کا نام حبیب حسن تھا۔بچوں کی تربیت و تعلیم کا بہت ذوق رکھتے تھے۔یہیں مجھ میں شاعری کا شوق پیدا ہوا۔میری عمر سات یا آتھ سال ہو گی کہ میں اردو میں اتنی مہارت حاصل کر چکا تھا کہ اکثر کہ اکثر خط لکھوانے والے اپنی گزارشات کو میرے انداز بیاں میں سن کر داد و تحسین سے نوازتے تھے۔میں نے بچپن کا دور بھی غربت میں صبر و شکر کے ساتھ گزارا ہے۔جو کچھ ملتا اس پہ بخوشی قناعت کرتا تھا۔اس وقت کے تمام اردو روزناموں۔زمیندار،احسان انقلاب کا مطالعہ میرا شغل تھا۔میں یقیں سے کہہ سکتا ہوں کہ شاید ہی میں نے آج تک اردو زبان کا کوئی لفظ غلط پڑھا یا لکھا ہو۔میں نے شروع میں ناصر حجازی تخلص رکھا تقریباۤ دو ماہ۔۔۔۔۔۔ پھر مجھے یہ تخلص واضحح دکھائی نہ دیا تب میں نے اپنا تخلص ساغرؔ صدیقی پسند کیا جو اب تک موجود ہے۔دس بارہ برس کی عمر میں،میں اپنے استاد حبیب حسن کے ساتھ امرتسر میں رہا کرتا تھا۔میں چھوٹی عمر میں بھی بیس بائیس سال کا سنجیدہ نوجوان معلوم ہوتا تھا۔میری عمر سولہ سال تھی جب 1944ء میں امرتسر کے جامع السنہ شرقیہ ہال بازار میں جو کہ علوم شرقیہ کی بہترین درسگاہ تھی۔ماہانہ طرح مشاعرے ہوتے تھے۔ان میں شرکت کرنا میرے لۓ سب سے بڑی خوشی کی بات تھی۔1944ء ہی میں اردو مجلس کے نام سے ڈاکٹر تاثیرؔ مرحوم اور شمس العلماء تاجورؔ نجیب آبادی(ویال سنگھ کالج میں پروفیسر رہے) کے زیر سایہ ایک بزم قائم ہوئی۔اردو زبان کی تریج و ترقی اس کے اغراض و مقاصد تھے۔اس کے مشاعروں میں بھی باقاعدہ شریک ہوتا رہا ہوں۔امرتسر میں عرشیؔ امرتسری،شمسؔ مینائی مرحوم،فرخؔ امرتسی،مرزا بیضاؔ خان مروی ایرانی،عیسیؔ امرتسری ان لوگوں نے میری صلاحتیوں اور خوبیوں کو سراہا۔
1945ء میں ولی صابر شاہ علیہ الرحمتہ کے مشہور کلیر کے عرس میں شرکت کی۔کلیر میں عرس مبارک کے موقع پر تقسیم ہند سے پہلے ہندوستان کے تمام اہل فن اکھٹے ہوتے تھے۔عرس کے آخری ایام میں کاشانہ احباب سہارنپور ایک بزم شعرو سخن منعقد کرتے تھے جس میں چیدہ چیدہ شعراءکرام شامل ہوتے تھے۔انورؔصابری نے اس محفل میں میرا تعارف کروا دیا۔دلی میں نواب سائلؔ قلعہ اردو معلٰی اردو کے نقش آخری تھے۔ان کو کلام سنایا۔تحسین کے پھول سمیٹے اور مرقد غالب کی زیارت کی۔
امرتسر میں دوسری جنگ عظیم کی باغی آزاد فوج کے تین جرنیلوں کے استقبال کے لۓ جلیانوالہ باغ میں تقریباۤ تیس چالیش ہزار کے مجمع میں ، میں نے زندگی میں پہلی بار سٹیج پر آ کر نظمیں پڑھیں۔ اس جلسہ میں پڑھی جانے والی نظم کا ایک شعر اور ایک مصرع مجھے یاد ہے جو یوں تھا۔
ہو جس کا رخ ہواۓ غلامی پہ گامزن
اس کشتی حیات کے لنگر کو توڑ دو
ع۔۔۔ تہذیب نو کے شیشہ و ساغر کو توڑ دو
امرتسر میں امینؔ گیلانی پہلے ادبی دوست تھے۔ نفیسؔ خلیل مرحوم،ظہیرؔ کاشمیری،احمدؔ راہی،مرزا جانبازؔ سے نشست و برخاست رہی۔
ساحرؔ لدھینانوی،نریش کمار شادؔ، لطیف انور گورداسپوری مرحوم جن کا میں علم و ادب کے میدان میں بے حد احتارام کرتا ہوں۔
سید عطااللہ شاہ بخاری جیسے جید عالم کے دست شفقت سے سرفراز ہوا۔لدھینانہ میں مولانا عزیز الدین عظامیؔ مرحوم سے ملا۔ جو مولانا گرامی مرحوم کے شاگرد اور فارسی کے بہت اچھے شاعر تھے۔جالندھر،لدھیانہ اور گورداسپور کے کئی مشاعروں میں شرکت کی۔
یہ ساغر صدیقی کی آب بیتی کا ایک مختصر سا ورق ہے۔افسوس کے اس سے زیادہ وہ کچھ نہ بتا سکے۔ان کی غزل کے چند اشعار شاید ان کی دلی جزبات کی ترجمانی کر سکیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رُودادِ محبّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
دو دِن کی مُسرّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے
جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں
اِک ہوش کی ساعت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گیے
اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مجروح ترنّم رقصاں ہے
بیدادِ مشیّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے
احساس کے میخانے میں کہاں اَب فکر و نظر کی قندیلیں
آلام کی شِدّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے
کُچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کُچھ ماضی کے عیّار سجن
احباب کی چاہت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے
کانٹوں سے بھرا ہے دامنِ دِل شبنم سے سُلگتی ہیں پلکیں
پُھولوں کی سخاوت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے
اب اپنی حقیقت بھی ساغرؔ بے ربط کہانی لگتی ہے
دُنیا کی کی حقیقت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساغرؔ عورت کو نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔شاید اپنی آوارہ مزاجی کے سبب زندگی کے سفر میں اسے رقیق نہ بنا سکے۔لیکن وہ فطری شاعر تھے،بنیادی طور پر وہ فنکار تھے، ان کے ذوق جمالی میں زندگی تھی اس لۓ کچھ عرصہ خوب رو نوجوانوں کے ساتھ نشست و برخاست میں مگن رہے۔
1947ء میں تقسیم ہند کے بعد ساغرؔ لاہور چلے آۓ اور جیسے تیسے ضالات پلٹا کھاتے رہے ان کا شعور پختہ ہوتا گیا۔یہاں تک کہ وہ اسرار کائنات کے رزاداں بن گۓ۔یہاں رہ کر انہوں نے صرف شعر کہے،شعر پڑھے،شعر کھاۓ اور شعر پیۓ۔یہ حالات صرف چند برس رہے۔معاشرے نے اس جوہر قبل کی قدر نہ کی اور وہ کشمکش حیات سے تنگ آ کر اپنی ہستی خود تباہ کرنے کے درپے ہو گۓ۔یوں ان کی صحت اور جوانی کیف و سرور کی بھینٹ چڑھ گئی۔
یہ تو حیات کی کہانی ہے فنا کا ایک ساغرؔ
تو لبوں سے مسکرا کے اسی جام کو لگا لے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساغرؔ کی غزلوں کے مجموعے
زہر الود ۔۔1960ء
غم بہار۔۔۔ 1964ء
لوح جنوں ۔۔۔ 1970ء
شیشہ دل اور شب آ گہی۔۔1972ء
مقتل گل۔۔1974ء
دیوان ساغر صدیقی اور کلیات ساغر صدیقی
انہوں نے 1965ء اور 1971ء میں پاک بھارت جنگوں میں بھی بہت سے ترانے لکھے نعتیں بھی کہیں جو "سبز گنبد" کے نام سے مجوعے کی صورت میں طبع ہوئیں نعتوں میں ۔۔۔
بزم کونین سجانے کے لۓ آپ آۓ۔۔ بہت مقبول ہوئی
ﷺ
35 کے قریب گیت فلموں کے لۓ لکھے جن کی موسیقی رشید عطرے مرحوم اور غلام حیدر مرحوم نے ترتیب دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بزمِ کونین سجانے کے لیے آپ ﷺ آئے
شمعِ توحید جلانے کے لیے آپ ﷺ آئے
ایک پیغام ، جو ہو دل میں اُجالا کردے
ساری دُنیا کو سُنانے کے لیے آپ ﷺ آئے
ایک مدّت سے بھٹکتے ہوئے انسانوں کو
ایک مرکز پہ بلانے کے لیے آپ ﷺ آئے
ناخدا بن کے اُبلتے ہوئے طوفانوں میں
کشتیاں پار لگانے کے لیے آپ ﷺ آئے
قافلہ والے بھٹک جائیں نہ منزل سے کہیں
دُور تک راہ دکھانے کے لیے آپ ﷺ آئے
چشمِ بید کو اسرارِ خدائی بخشے
سونے والوں کو جگانے کے لیے آپ ﷺ آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھول کی پنکھڑی سرراہے
بوند اک خون کی سرراہے
منزل آرزو کہاں آئی
آنکھ ان سے لڑی سرراہے
آپ گذرے کہ جوۓ مے گذری
مٹ گئی تشنگی سرراہے
جانے پتھر کدھر سے آیا
چوٹ دل پر لگی سرراہے
اے سمن بار کھڑکیوں والے
جھانک لینا کبھی سر راہے
بن گئی آج حسرتیں ساغرؔ
مجمعء بے کسی سرراہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جام و مینا ایاغ ہوتی ہے
ہرکلی باغ باغ ہوتی ہے
آپ کے انتظار کی دنیا!
لامکاں کا سراغ ہوتی ہے
ایک درویش کی نصیحت بھی
راستے کا چراغ ہوتی ہے
اہل وحشت کی زندگی ساغرؔ
کتنی عالی دماغ ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے غم کی تلاوت کر رہے ہیں
ستاروں سے شکایت کر رہے ہیں
جنوں کے تجربوں کی نگہداری
بہ انداز فراست کر رہے ہیں
ترے شانوں پہ تابندہ نشاطے
بہاروں کی سخاوت کر رہے ہیں
نہ دے تہمت ہمیں مدہوشیوں کی
ذرا پی کر عبادت کر رہے ہیں
سحر کے بعد بھی شمعیں جلاؤ!
کہ پروانے شرارت کر رہے ہیں
خداوندان گلشن!یہ شگوفے
بہاروں سے بغاوت کر رہے ہیں
مرتب غم کے افسانوں کو ساغرؔ
بہ انداز حکایت کر رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پریشان عکس ہستی،آئینہ بے نور دیکھا ہے
مری آنکھوں نے افسردہ چراغ طور دیکھا ہے
سرور و کیف کا معیار اپنی ذات ہے ساقی
شراب درد سے ہر جام کو معمور دیکھا ہے
بڑی مدت سے آشفتہ امیدیں یاد کرتی ہیں
کہیں اس بزم میں یارو دل مجبور دیکھا ہے
یہ دستور وفا صدیوں سے رائج ہے زمانے میں
صداۓ قرب دی جن کو انہی کو دور دیکھا ہے
کہیں لخت جگر کھانے سے ساغرؔ بھوک مٹتی ہے
لہو کے گھونٹ پی کر بھی کوئی مخمور دیکھا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بزرگوں کی دعائیں مل رہی ہیں
محبت کو سزائیں مل رہی ہیں
فروزاں ہیں تمھارے غم کے دیپک
بڑی روشن فضائیں مل رہی ہیں
حسیں گیسو ہیں شانوں پر پریشاں
گلے ان سے گھٹائیں مل رہی ہیں
شعور بزم تک جن کو نہیں ہے
انھیں رنگیں ادائیں مل رہی ہیں
ترا آنچل ہوا میں اڑ رہا ہے
ترانوں کو نوائیں مل رہی ہیں
چلو بادہ کشوں میں تیرہ بختو!
ستاروں کو ضیائیں مل رہی ہیں
قفاؤں کا صلہ ساغر وطن میں
بہت ارزاں جفائیں مل رہی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امید کے موتی ارزاں ہیں درویش کی جھولی خالی ہے
پھولوں سے مہکتے داماں میں درویش کی جھولی خالی ہے
احساس صفاتی پتھر ہے،ایماں سلگتی دھونی ہے!
بے رنگ مزاج دوراں ہیں،درویش کی جھولی خالی ہے
بے نور مروت کی آنکھیں بے کیف عنایت کے جذبے
ہر سمت بدلتے عنواں ہیں درویش کی جھولی خالی ہے
گدڑی کے پھٹے ٹکڑے ساغرؔ اجسام تخیل کیا ڈھانپیں
فریاد کے نقطے حیراں ہیں درویش کی جھولی خالی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرے جوڑے کے پھول مرجھاۓ
عشق کی بندگی کے کام آۓ
صبح تیرے جلو میں روشن ہے
میرے ہمراہ شام کے ساۓ
بے صدا ہے ترانہء منصور
عقدہء دار کون سلجھاۓ
روشنی تھی تو دور تھے احباب
اب اندھیروں میں ڈھونڈنے آۓ
موت کی گونجتی ہواؤں میں
بارہا نغمے موت کے گاۓ
اس درندوں کی بھیڑ میں ساغرؔ
کاش انسان کوئی کہلاۓ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تن سلگتا ہے من سلگتا ہے
جب بہاروں میں من سلگتا ہے
نوجوانی عجیب نشہ ہے
چھاؤں میں بھی بدن سلگتا ہے
جب وہ محو خرام ہوتے ہیں
انگ سرو سمن سلگتا ہے
جانے کیوں چاندنی میں پچھلے رات
چپکے چپکے چمن سلگتا ہے
تیرے سوزِ سخن سے اے ساغر
زندگی کا چلن سلگتا ہے
............
پاکستان کے سیاستدان
(ساغر صدیقی)
گرانی کی زنجیر پاؤں میں ہے
وطن کا مقدر گھٹاؤں میں ہے
اطاعت پہ ہے جبر کی پہرہ داری
قیادت کے ملبوس میں ہے شکاری
سیاست کے پھندے لگائے ہوئے ہیں
یہ روٹی کے دھندے جمائے ہوئے ہیں
یہ ہنس کر لہو قوم کا چوستے ہیں
خدا کی جگہ خواہشیں پوجتے ہیں
یہ ڈالر میں آئین کو تولتے ہیں
یہ لہجہ میں سرائے کے بولتے ہیں
ہے غارت گری اہل ایماں کا شیوہ
بھلایا شیاطین نے قرآں کا شیوہ
اٹھو نوجوانو! وطن کو بچاؤ!
شراروں سے حد چمن کو بچاؤ