آب بیتی الحاج محی الدین منیری ۔19-حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری کی خدمت میں ۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری


M:00971555636151
اس کے واقعہ کے کچھ عرصہ بعد حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا کاندھلوی ؒ کی خدمت میں سہارنپور حاضری ہوئی ۔ وہاں پرمجھے معلوم ہوا کہ حضرت مولانا رائے پوری ؒبے ہٹ ہاؤ س میں ٹہرے ہوئے ہیں۔ مولانا رائے پوری اس دور میں روحانیت کے امام تسلیم کئے جاتے تھے ، بڑے بڑے جید علماء آپ کے سامنے زانو تہہ کرتے تھے۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے آپ کے حالات زندگی پر ایک کتاب لکھی ہے۔ حضرت کی یہاں پرموجودگی کی خبر سے مجھے آپ کی ملاقات کا شوق پیدا ہوا۔ چونکہ میں حضرت شیخ کا مہمان تھا لہذا آپ سے حضرت سے ملاقات کی اجازت چاہی۔ حضرت رائے پوری کے حلقہ میں میری کوئی جان پہچان نہیں تھی، ابھی میں انجان آپ کی رہائش گاہ پر جاہی رہا تھا کہ دروازے پر مولانا آزاد سے ملاقات ہوگئی ، (نام سے اشتباہ نہ ہو یہ مولانا ابوالکلام آزاد نہیں ہیں)، ان سے حاجیوں کے جہاز پر ہمارا سابقہ ہواتھا۔ یہ جگر مراد آبادی مرحوم کو حج بیت اللہ لے گئے تھے۔جگر مرحوم سے میرا بڑا یارانہ تھا، ان کی ایک نعت سلطان مدینہ اس زمانہ میں کافی مشہو ر ہوئی تھی ، ان کی زبانی جب میں یہ نعت سنتا تو بڑا مدہوش ہوتا۔ جگرصاحب کا مزاج تھا کہ ہرکسی کی فرمائش پر وہ شعر نہیں سناتے تھے، لیکن جب بھی میں نے ان سے شعر سنانے کی درخواست کی انہوںنے کبھی اسے رد نہیں کیا ،سلطان مدینہ کی تو میں ان سے بار بار فرمائش کرتا۔ مولانا آزاد انہیں دنیا کے جھمیلوں سے دور گناہ دھلوانے کے لئے حج بیت اللہ لے جارہے تھے، آٹھ دس روز ہمارا جہاز کا ساتھ رہا۔ اس میں ہم لوگوں نے ایک مجلس مشاعرہ بھی کرڈالی ، جگر مرحوم نے بڑے پیارے پیارے شعر سنائے۔
جب انہی مولانا آزاد نے مجھے حضرت رائے پوری کے یہاں آتے دیکھا تو لپک پڑے، کہنے لگے منیری صاحب ! آپ یہاں کیسے آئے ہو؟میں نے کہاحضرت سے ملاقات کا شوق یہاں لے آیاہے، انہوںنے کہا۔ ۔ ۔ ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ بالکل نہیں جانتا۔ ۔ ۔ حضرت سے ملاقات کرادو۔ جہاز کے روابط تھے ، اپنا ساراکام کاج چھوڑا اور میرا ہاتھ پکڑ کر حضرت کے پاس لے گئے۔
اس وقت حضرت بیمار چل رہے تھے ، چارپائی پرلیٹے ہوئے تھے، ان میں اٹھنے بیٹھنے کی سکت نہیں تھی ۔ دو تین سو مریدین انہیں اپنے گھیرے میں لئے ہوئے تھے ، ایک شخص کتاب پڑھ رہاتھا ، جیسے ہی مجھے حضرت کے قریب بٹھایا گیا کتاب پڑھنی بند کی گئی ۔ جب بتایا گیا کہ منیری صاحب آئے ہیں تو حضرت دفعتاً چونک پڑے ، کہنے لگے منیری صاحب! کیا وہی عبدالمنان والے منیری صاحب ! ہاں وہی آئے ہیں۔ مجھے بٹھلادو، حضرت کو اٹھا کر بٹھلایا گیا ، مجھے اپنے بالکل قریب بٹھایا۔ حالات وغیرہ دریافت کئے ، بڑی محبت کا سلوک کیا، سرپر ہاتھ رکھا ، دعائیں دیں، کہنے لگے عبدالمنان نے خواہ مخواہ تمہیں بدنام کیا ، حالانکہ تم نے تو ان کا کام کردیا تھا۔
واقعہ یوں تھا کہ عبدالمنان کا حضرت سے تعلق تھا، وہ حضرت کی خدمت میں وقتاً فوقتاً شعر لکھ کر بھیجا کرتے تھے ۔ انہوںنے سفرِ حج کا سارا قصہ حضرت کو لکھ دیا تھا ، جس میں یہ شعر بھی شامل تھا۔ شعر نے اپنا کام کردکھایا۔ اور وہ حضرت کو اتنا پسند آیا کہ جب بھی عبدالمنان مجلس میں حاضر ہوتے یا ان کا کوئی تذکرہ آتا تو حضرت دریافت فرماتے عبدالمنان کا منیری صاحب سے متعلق وہ کیا شعر تھا۔
سفر سخت دشوار، مجھ پر اندھیری نہ کچھ کام آئے جناب منیری
حضرت کے بعد حاضرین مجلس جن کی تعداد دو تین سو سے کیا کم ہوگی ایک ساتھ یہ شعر گنگنانے لگتے ، اس طرح یہ شعر حضرت کے متعلقین کو زبانی یاد تھا۔ ملاقات کے بعد حضرت نے رات یہیں پر گذارنے کے لئے کہا، اور اپنے خادم کو ہدایت کی کہ میرے آرام و راحت کا خیال رکھے ۔ کچھ دیر بعد حضرت شیخ بھی وہاں پہنچ گئے ۔
وہاں میری ملاقات مولانا جمیل الرحمن سے ہوئی ۔ ہم نے ۱۹۵۱ء میں ایک ساتھ معلم عبد الرزاق کی معلمی میں حج کیا تھا۔ مولانا نے مجھے رات کے کھانے پر دعوت دی ، چونکہ میں حضرت شیخ کا مہمان تھا لہذا عصر کی نماز کے بعد کھڑے کھڑے آپ کو اس کی اطلاع دے دی کہ حضرت رائے پوری نے آج رات اپنے یہاں بستر کرنے کو کہا ہے اور مولانا جمیل الرحمن نے کھانے پر بلایا ہے ، حضرت شیخ کہنے لگے تم تو میرے مہمان ہو ، تمہیں تو میرے پاس رہنا چاہئے اور کھانا کھانا چاہئے، میں تو تمہیں کہیں جانے نہیں دوں گا ، مین نے کہا اچھا مولانا۔۔۔ مجھے کہیں نہیں جاتا ۔۔۔ آپ کے یہاں ہی رہوںگا ۔کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے اپنے قریب کیا اور پھر فرمانے لگے ، وہ تو ہمارے ہی آدمی ہیں ۔ میں نے ایسے ہی مذاق سے کہا تھا ، وہاں ضرور جاؤ۔ میں بھی جمیل الرحمن سے کہوں گا کہ اچھے سے اچھا آپ کو کھلائیں ۔
جب حضرت رائے پوری کو اس کا علم ہوا کہ رات کے کھانے پر مولانا جمیل الرحمن کے یہاں جانے والا ہوں تو میرے لانے لے جانے کے لئے ایک خادم مقرر کردیا ۔ مغرب کے فورا بعد وہ ایک رکشہ لے کر آیا اور اطلاع دی کہ آپ کو مولانا جمیل الرحمن کے گھر پہنچانے کا حضرت نے حکم دیا ہے ، مولانا نے سہارنپور کے خوشبودار چاؤلوں کی بہترین بریانی کھلائی ۔ میری ان کے گھر آمد سے وہ پھولے نہیں سما رہے تھے ۔
ابھی وہ حضرت رائے پوری کے یہاں لے جا کر چھوڑنے ہی والے تھے کہ خادم نے آ کر اطلاع دی حضرت نے بلایا ہے ،عشاء کی نماز پڑھ کر ابھی میں کچھ سستا ہی رہا تھاکہ خادم نے آکر کہا حضرت نے آپ کو سونے کی جگہ بتانے کو کہا ہے ،وہاں پر تمام مریدین اپنی چارپائی بچھا کر سوتے تھے، میرے لیے بھی ایک چارپائی تیار کی گئی، بستر بچھایا گیا، لوٹا پانی تیار رکھا گیا، اور کہا گیا کہ نیند آئے تو یہاں پر آرام کروں ،میں کچھ تھکا ہوا تھا جا کر فورا چارپائی پر لیٹ گیا ابھی تھوڑی دیر بھی نہیں ہوئی تھی کہ جھٹ پٹ ایک شخص نے آکر میرے پاؤں دبانے شروع کردیے، میں نے کہا یہ کیا حرکت ہے؟ اسے بند کردیں اس نے جواب دیا حضرت کا حکم ہے آپ کے مکمل آرام کا خیال رکھیں، آپ کے کہنے سے ہم رک نہیں سکتے، حضرت کا حکم ہے انہیں سے کہہ کر پیر دبوانا بند کرائیں، رات بھر ہر پانچ دس منٹ کے بعد آکر یہ ٓکر میرا پاؤں دباتا رہتا اور اپنی خدمت سے مجھے تنگ کرتا رہتا۔
بے ہٹ ہاؤس میں میں نے یہ منظر دیکھا کہ رات کے ایک بجے سارے لوگ جاگ گئے ،چاروں طرف سے الااللہ کا ذکر شروع ہوا میں بھی ان لوگوں کے ساتھ اٹھ بیٹھا اس رات ذکر الٰہی میں جو لذت محسوس ہوئی ایسی لذت کہیں اورنصیب نہیں ہوئی اس کی تمازت آج تک محسوس کر رہا ہوں ،ویسے لوگ دور سے اس قسم کی باتوں پر اعتراضات کرنے لگتے ہیں لیکن جن لوگوں نے جاگتی آنکھوں سے اسے دیکھا ہے ،وہی جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔
خدا نے ان بزرگوں کی مجالس میں بیٹھنانصیب کیا ورنہ میں کہاں اس قابل تھا؟ان مجالس میں دلوں پر عجیب کیفیات طاری ہوتی تھی