*1857 کی آزادی میں میرٹھ کا  خوں چکاں واقعہ۔۔۔از: عبداللہ دامدابو ندوی

Bhatkallys

Published in - Other

09:22AM Wed 10 May, 2017
دس مئی کی مناسبت سے لکھا گیا مضمون جب جب بھی 10 /مئی کی تاریخ آتی ہے تو ہمیں سن ستاون میں ہوا میرٹھ کا وہ عظیم واقعہ یاد آتا ہے جو دراصل ہنگامۂ رستاخیر اور آزادئ ہند کا پیش خیمہ اور افتتاحیہ ثابت ہوا تھا. سن 1775 کو پلاسی کے میدان میں بنگال کے حکمراں سراج الدولہ کو شکست فاش کے بعد سن 47 ء  تک گو بہت سی بغاوتیں ہوئیں، وہ تمام تر بغاوتیں اپنی جگہ اہم اور قابل ذکر ہیں لیکن میرٹھ کی بغاوت نے جو اہم کردار ادا کیا اور اپنے دیر پا نقوش ثبت کیے وہ بلاشک وہ مختلف بغاوتوں کا محرک ثابت ہوا، میرٹھ کے واقعہ نے غلامی کی طوق میں جکڑے ہندوستانیوں کو آزادی کی دھندلی سی تصویر اور امید کی ایک نئی کرن دکھائی_ بقول خلیل احمد داؤدی  (مشہور محقق ومصنف)..."اگرچہ 1857 کی جنگ آزادی کا آغاز میرٹھ سے ہوا، لیکن یہ لاوا بہت سے مقامات میں کھول رہا تھا، اور پھوٹ پڑنے کے لیے بے چین تھا،میرٹھ نے اسے جنبش دی اور یک لخت سب ابل پڑا *"(صحیفہ، لاہور 1857 نمبر، مرتب :رفاقت علی شاہد،ص 326) انگریز ہر اس بد سے بدترطریقے سے گریز نہیں کرتے تھے جس سے ہندوستانیوں کو اذیت پہنچے، کبھی ہندومسلم فسادات کی چنگاری بھڑکانا، کبھی خلاف فطرت اور خلاف شریعت آئین و قانون کا نفاز، کبھی جائدادوں پر ناجائز قبضہ، کبھی گاؤں دیہاتوں میں جاکر عیسائی مشنریس کا پرچار اور کبھی ہندوستانیوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی- سن ستاون کے اوائل میں انگریزوں نے ہندوستانیوں کے قلب و جگر پر ایک سخت وار کرنے کا فیصلہ کرلیا_اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہوں نے ایسے نئے کارتوس ایجاد کیے جس کو سور اور گائے کی چربی سے لیپ دیا گیا تھا، جس کی نحوست نہ صرف قلب و جگر کو مضطرب و بے چین کرتی تھی بلکہ ہندوستانیوں کے عقیدے پر بھی کاری ضرب تھی_ اس موضوع پر لکھنے والے سبھی مصنفین اور مورخین نے ایک واقعہ یہ لکھا ہے کہ اسلحہ خانے کے ایک ملازم نے ایک برہمن سے پانی مانگا، برہمن نے اس کی ذات کے متعلق پوچھا،اس نے مضحکانہ لہجے میں کہا: "اجی ذات پات کیا پوچھتے ہو، چند دن بعد جب سور اور گائے کی چربی لگے کارتوس کاٹیں گے  آپ کا دھرم بھی باقی نہ رہے گا "اس کی یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیلی،گھر گھر اس کے چرچے ہونے لگے، ہندوستانی سپاہیوں نے فیصلہ کر لیا کہ جو بھی گد بنے کسی صورت اس کارتوس کا استعمال نہیں کریں گے - 26 /فروری کو برہام پور کی رجمنٹ 19 نے کارتوس لینے میں پس و پیش کیا،اور اپنا شبہ ظاہر کیا، پھر ایک عرضی کلکتہ ڈویژن کے میجر جنرل کو بھیجی،جس میں اپنے خیالات کا عاجزانہ اظہار کیا، مگر ان انگریز افسروں کے دماغ غرور و نخوت سے بھرے تھے،انہوں نے حکم دیا کہ کارتوس نہ کاٹو گے تو سخت سزا دی جائے گی، چناں چہ ایسا ہی ہوا، سپاہیوں کے انکار پر ان کے ہتھیار چھین لیے گئے،اور برطرفی کا حکم ہوا - *(اصلاحی و احیائی تحریکیں حصہ دوم، سید قاسم محمود،ص 92 )* *اس سزا کے متعلق سرسید مرحوم لکھتے ہیں کہ :* "اس کا رنج جو کچھ فوج کے دل پر گزرا بیان سے باہر ہے،وہ اپنے نغموں کو یاد کرتے تھے اور بجائے اس کے بیڑیوں کو پہنے ہوئے دیکھ کر روتے تھے، وہ اپنی وفاداریوں کا خیال کرتے تھے، پھر اس صلہ میں جو کچھ ان کو انعام ملا تھا دیکھتے تھے-علاوہ اس کے ان کے لیے انتہائی غرور جو ان کے سر میں تھا اور جس کے سبب وہ اپنے تئیں ایک بہت ہی بڑا سمجھتے تھے ان کو زیادہ رنج دیتا تھا "- *(اسباب بغاوت ہند -سرسید احمد خاں،ص 153، مطبوعہ کتب خانہ انجمن ترقی اردو جامع مسجد،سن اشاعت 1971 )* سزا یہ تجویز ہوئی کہ دیسی سپاہ کے پچاسی لیڈروں کو دس دس سال قید بامشقت -ان افسروں کی عمر بھر کی خدمات، ان کی ضعیفی، ان کا بہترین کردار، وفاداریاں،اچھا رکارڈ، غرض سب کچھ نظر انداز کیا گیا، صرف گیارہ آدمیوں کے ساتھ ان کے بڑھاپے کے پیش نظر سزا میں کسی قدر نرمی کردی گئی - *(تاریخ جنگ آزادی 1857-از سید خورشید مصطفے رضوی،ص 228 -ناشر:رضا لائبریری رامپور)* 9 /مئی کو جن سپاہیوں کے متعلق فیصلہ سنایا گی،بتایا جاتا ہے کہ ان سپاہ میں بہت سے ایسے تھے جنہوں نے بہت مرتبہ اپنی جانوں پر کھیل کر کئی معرکے سرکیے،اور بہت سے اونچے عہدوں پر فائز تھے - *انگریز مؤرخ مارش مین* کے بقول "ان میں سے بعض تو تمام فوج کی ناک تھے "- قابل غور بات یہ کہ ان 85 سپاہیوں میں 49  سپاہی مسلمان تھے. بعضوں نے مسلمان کی تعداد 52 بتائی ہے-یہاں پر سرسید کی کتاب "اسباب بغاوت"کے مقدمے کا ایک اقتباس پیش کرتے ہیں : "جب پہلے پہل انقلاب کا شعلہ میرٹھ سے بھڑکا تو اس میں پچاسی مسلمانوں میں 49 مسلمان اور 36 غیر مسلم تھے،اور پھر ان سپاہیوں کے جرم کا فیصلہ کرنے کے لیے جو فوجی عدالت قائم ہوئی ہے اس میں انگریزوں کو اپنے اعتماد کے 9 ہندو اور 6 مسلمان افسر ملتے ہیں،لہذا انگریزوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ بغاوت کے محرک صرف مسلمان ہیں" *(فوق کریمی، مقدمہ اسباب بغاوت ہند(سرسید)ص 43 )* سپاہیوں کے بار بار انکار پر ان فوجیوں کی سر عام  تذلیل کی گئی، اور دوسرے ہندوستانی حالات سے مجبور اس درد ناک منظر کو بے چینی کے عالم میں دیکھ کر کوٹتے رہے،وہ کر بھی کیا سکتے تھے، سپاہی ہتھہار سے لیس ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھے اور توپ خانے کا منھ کھلا ایک اشارے پر انسانوں کے چتھڑے اڑا سکتا تھا- جب تماشہ ختم ہوا اور سبھی حزن و ملال کی کیفیت میں گھر لوٹےتو گھروں کی عورتیں اس ذلت و رسوائی سے تنگ آ کر مردوں پر برس پڑیں، جذبات اور غیرت سے سرشار عورتوں نے کہا کہ "تم مرد ہو؟ تم سے تو ہم عورتیں اچھی،تم کو شرم نہیں آتی کہ تمھارے سامنے تمھارے افسران کو ہتھگڑیاں پہنائی گئیں،اور تم کھڑے تماشائی بنے دیکھتے رہے،تم سے کچھ نہ ہوسکا،لو یہ چوڑیاں پہن لو،اور ہتھیار ہمیں دو، ہم افسران کو چھڑالائیں گے- عورتوں کی باتیں دل پر اثر کرنے لگیں، لوگوں میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی، اب انھوں نے پختہ عزم کرلیا کہ یا تو مارنا ہے یا آزادی کی راہ میں  مرجانا ہے- اسی غرض سے تمام رات رجمنٹ 11 اور 20 سپاہیوں سے مشورہ کرتے رہے - چناں چہ دس مئی کو اتوار کی شام ہندوستانی سپاہیوں کی دو پلٹنوں اور ایک رسالہ نے بلواکر کرکے لائن میں آگ لگادی،اور جو انگریز سامنے آیا اسے قتل کرنا شروع کر دیا *(صحیفہ 1857 نمبر )* چونکہ وہ اتوار کا دن تھا اور انگریز اسی دن چرچ جاتے تھے، اس موقع کو غنیمت جان کر ایک گروہ نے ان پر حملہ کردیا- ایک دستہ قیدیوں کو چھڑا لایا، ان کے علاوہ جیل خانے سے 1400 قیدیوں کو قیدوبند کی صعوبتوں سے آزادی دی- انگریزوں پر یہ حملہ اس شدت اور جوش و جذبے سے ہوا تھا کہ سب کے سب حواس باختہ ہوگئے،کیونکہ ان کے تصور میں بھی نہ تھا کہ ہندوستان کی سادہ عوام اور ہر طرح سے جکڑے ہوئے چند سپاہی اس طرح کا اقدام کرسکیں گے،اگر چہ 5 /مئی سے ہر شب آتش زنی کی چھوٹی موٹی وارداتیں پیش آئی تھیں- اس کامیاب کاروائی کے بعد میرٹھ کے جانبازوں نے دہلی کی طرف کوچ کرلیا،اس میں میرٹھ اور قرب و جوار کے کئی نامور بہادر اور عہدیداران بھی شریک تھے - فتح مندی کا گیت گاتے بالآخر یہ کاروان عزیمت دہلی پہنچا، *بقول طفیل احمد منگلوری* "11 /مئی کو یہ لوگ زبردستی قلعہ میں گھس گئے اور بہادر شاہ کو سردار بننے پر مجبور کر دیا، دہلی میں سپاہیوں کے زور اور عام ناراضی کی وجہ سے رائے عامہ کا غلبہ تھا،اس لیے بہادر شاہ کے لیے کوئی چارہ کار نہ رہا تھا" *(مسلمانوں کا روشن مستقبل،ص 88، مطبوعہ کتب خانہ عزیزیہ دہلی،1945)* پی سی  جوشی  اس واقعہ پر تجزیہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ : "یہ میرٹھ کے باغی سپاہیوں کی عقل سلیم کا کرشمہ تھا کہ انہوں نے ریاست جمنا کو پار کیا، ہمارے قدیم ملک کی روایتی دارالسلطنت کو برطانوی غلامی کے جوئے سے آزاد کیا،اور اکبر کے محروم وارث بہادر شاہ ظفر کے سر پر شہنشاہ ہندوستان کا تاج رکھا "- *(سہ ماہی تاریخ لاہور، خاص نمبر 1857ء،ص 243-مطبوعہ:تاریخ پبلیکشنز،2007)* یہ ہے میرٹھ میں ہوئی بغاوت کی مختصر تاریخ جو دراصل آزادی کی پہلی نوید تھی،جس واقعہ نے انگریزوں کو ذلیل کیا اور حریت و آزادی کی ایک جنگ چھیڑ دی، اس واقعہ کے بعد سے سن 47 تک جو واقعات ہوئے ان کا سرا کہیں نہ کہیں میرٹھ میں ہوئے اس واقعے سے مل ہی جائے گا- اہم بات یہ ہے کہ اس میں ہندوستانیوں کے درمیان انگریزوں کے خلاف اخوت اور بھائی چارگی کے عجب مناظر دیکھے گئے، جو دیر تلک باقی رہے- (مضمون نگار ماہنامہ بچوں کا پھول کے مدیر ہیں)