نومبر 18 : اردو زبان کو علمی سرمائے سے مالا مال کرنے والے نامور ادیب علامہ شبلی نعمانی کی برسی ہے

Bhatkallys

Published in - Other

12:36PM Thu 23 Nov, 2017
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علامہ شبلی نعمانی کا اصل نام محمد شبلی تھا تاہم حضرت امام ابو حنیفہ کے اصل نام نعمان بن ثابت کی نسبت سے انہوں نے اپنا نام شبلی نعمانی رکھ لیا تھا۔ وہ 1857ء میں اعظم گڑھ کے ایک نواحی قصبے میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تعلیم بڑے اچھے ماحول اور اپنے عہد کے اعلیٰ ترین درس گاہوں میں ہوئی۔ 1982ء میں وہ علی گڑھ کالج کے شعبۂ عربی سے منسلک ہوگئے، یہاں انہیں سرسید احمد خان اور دوسرے علمی اکابر کی صحبت میسر آئی، جس نے ان کے ذوق کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ شبلی نعمانی کا ایک بڑا کارنامہ ندوۃ العلما کا قیام ہے۔ ان کی زندگی کا حاصل ان کی تصنیف سیرت النبی سمجھی جاتی ہے تاہم بدقسمتی سے ان کی زندگی میں اس معرکہ آرا کتاب کی فقط ایک جلد شائع ہوسکی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد یہ کام ان کے لائق شاگرد سید سلیمان ندوی نے پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ شبلی نعمانی کی دیگر تصانیف میں شعر العجم، الفاروق، سیرت النعمان، موازنۂ انیس و ادبیر اور الغزالی کے نام سرفہرست ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی کا مزار اعظم گڑھ میں واقع ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علامہ شبلی کی شخصیت اور فکر و فن کے بے شمار پہلوہیں۔ کسی ایک موقع پر انکا احاطہ ممکن نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی انکی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا ممکن ہو سکتا ہے۔ آپ ایک کامیاب سوانح نگار مورخ اور ادیب ہیں۔ آپ کی شخصیت کا صحیح اندازہ آپ کی تصا نیف کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ علامہ شبلی کی شخصیت کے نمایاں پہلوؤ ں میں سے ایک اہم پہلواردو شاعری کا ہے جس پر شبلی کے ناقدین ، تبصرہ نگار وں اور ریسرچ اسکالرس نے خاطر خواہ توجہ نہ دی ۔ یہ مضمون در حقیقت ایک ریسرچ کا موضوع ہے جس پر مضمون نگار کو لکھنؤ یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی۔ کی ڈگری تفویض کی گئی۔ اس میں شبلی کی منظومات ، انکی اردو اور فارسی غزلوں کا بھرپور جائزہ پیش کیا گیا ہے اور انکی شاعری نے جو کردار ادا کیا اس پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ مختصراً انکی حالاتِ زندگی نقوش او ر فن کا تذکرہ ذیل کی سطور میں پیش کر رہے ہیں۔ علامہ شبلی کا خاندانی پس منظر ’’شمس العلماء شبلی نعمانی کے مورث اعلیٰ شیوراج سنگھ نے چار سو سال قبل مسلم عہد حکومت میں اسلام قبول کیا اور ان کا اسلامی نام ’’سراج الدین‘‘ پڑا۔ وہ نسلاً ’’راجپوت‘‘ تھے اور ’’راوت‘‘ کہلاتے تھے۔ ‘‘۱؂ ’’مسلم دور حکومت میں جن راجپوتوں نے اسلام قبول کیا وہ بالعموم خان کہلائے۔ شبلی کے مورث اعلیٰ شیوراج سنگھ بھی اسی دور کی روایت کے مطابق قبول اسلام کے بعد سراج الدین خان ہوئے۔ آگے چل کر ان کے پوتے سہراب نے مذہبی معاملات اور روحانی کمالات میں اتنی ترقی کی کہ ان کے پیرو مرشد نے انہیں بیعت کی اجازت دے دی اور وہ شیخ سہراب کے نام سے مشہور ہوگئے اس کے بعد ہی سے اس خانوادے کے ساتھ شیخ کا لفظ آئندہ ہمیشہ کے لئے جڑگیا۔‘‘۔ ۲؂ شبلی کے جد اعلیٰ’’ شیخ‘‘ کریم الدین گورکھپور میں بندوبست کے محکمہ میں ملازم تھے۔ دادا منشی حسن علی عدالت کلکٹری اعظم گڑھ میں مختار تھے۔ (۱) شبلی کے مقالات کا تنقیدی جائزہ۔ از عبدالرحیم انصاری ص: ۱۱ (۲) ملاحظہ ہو’’شجرہ‘‘ حیات شبلی۔ از سید سلیمان ندوی ص:۵۹ والد بزرگوار شیخ حبیب اللہ ضلع کے نامور وکیل، ضلع میونسپلٹی کے آنریری سکریٹری، عوام میں مقبول اور حکومت وقت کی نگاہ میں محترم تھے۔ انہوں نے موروثی جائداد پر قناعت نہیں کی۔ بلکہ اپنی ذاتی صلاحیت اور لیاقت سے اس میں بہت کچھ اضافہ کیا۔ نیل کی کوٹھیاں بنوائیں اور دیشی شکر کے کارخانے بھی قائم کئے۔ شبلی کے والد محترم کو قدرت نے بہ یک وقت کئی نعمتوں سے نوازا تھا، قانونی لیاقت دنیاوی وجاہت اور مادی ثروت کے علاوہ انہوں نے اولاد بھی صالح اور سعادت مند پائی تھی۔ قانون کے علاوہ عربی اور فارسی میں بھی اچھی دستگاہ رکھتے تھے۔ علامہ شبلی کا خاندان بڑا تعلیم یافتہ خاندان تھا اسی لئے خود علامہ شبلی اور انکے دیگر تین بھائیوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی انکے چھوٹے بھائی مہدی حسن نے انگلستان سے بیرسڑی کی ڈگری حاصل کی تھی ۔ اور خاندان کے لوگوں کو ان سے بڑی امید تھی۔ لیکن ان کی حیات نے وفا نہ کی اور جواں سال ہی وفات پا گئے ۔ علامہ شبلی کی پید ائش اعظم گڑھ کے بندول نامی گاؤں میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی پھر مدرسہ عربیہ آعظم گڑھ میں داخلہ لیا، لیکن آپ کی حقیقی تعلیم کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب آپ مولانا فاورق صاحب چریا کوٹی کی ذات گرامی سے وابستہ ہو گئے اور انکے حلقۂ درس میں شامل ہوکر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے منہمک ہو گئے اور ان کے چشمۂ فیض سے سیراب ہوکر ایسے گوہر یگانہ بن کر نکلے کہ لوگوں کی نگاہیں خیرہ ہونے لگیں۔ یوں تو شبلی نعمانی نے درسیات کی تکمیل مولانا فاروق صاحب چریا کوٹی سے ہی کرلی تھی۔ لیکن ان کی علمی پیاس نے انہیں دوسرے خرمنوں سے بھی خوشہ چینی پر آمادہ کیا۔ چنانچہ انہوں نے رام پور جاکر مولانا ارشاد حسین رامپوری سے فقہہ کا علم حاصل کیا۔ شبلی نے دارالعلوم دیوبند میں بھی حاضری دی مگر باضابطہ متعلم نہیں بنے۔ مولانا فاروق صاحب چریاکوٹی کے بعد اگر کسی استاد نے شبلی پر گہرا نقش چھوڑا تو وہ تھے مولانا فیض الحسن سہارنپوری جو کہ اورینٹل کالج لاہور میں پروفیسر تھے۔ شبلی کے اندر علم و ادب کا صحیح مذاق انہیں کی صحبتوں سے ملا اور مرتبہ کمال کو پہونچا۔ ’’۱۸۷۶ء میں رسمی تعلیم مکمل کرکے ۱۹ سالہ نوجوان شبلی نے جب عملی زندگی کے میدان میں قدم رکھا تو وہ تلاش روزگار کے امتحان سے دوچار ہوئے۔ ہندوستان میں ہر نوجوان کو اپنی عملی زندگی کے اس امتحان سے دوچار ہونے پر چار، چھ تلخ تجربات کے ہفت خوان عام طور پر ضرور طے کرنے پڑتے ہیں۔ شبلی بھی کارزارِ حیات میں ۱۸۷۶ء سے جنوری ۱۸۸۳ء تک اسی کشمکش کے دور سے کم و بیش چھ سال تک تگ و دو کرتے رہے۔ شبلی اپنے غیر معمولی عملی ذوق کے لئے اپنے والد کے حکم پر وکالت، نیل کی تجارت اور معمولی ملازمتوں کے خارزار میں برسوں تک تگ و دو کرکے جب بری طرح ناکامیوں اور محرومیوں کی روح فرساں تاریکیوں میں گھرے ہوئے تھے تو ۱۸۸۳ء کے اوائل میں سرسید احمد خاں کے ایم اے او کالج (M.A.O.College) علی گڑھ میں عربی و فارسی کے اسسٹنٹ پروفیسر کی خالی جگہ ان کی ناکام زندگی کی تاریکیوں میں روشن زندگی کی بشارت ثابت ہوئی۔‘‘۱؂ علامہ شبلی اور اردو شاعری علامہ شبلی کی شاعری کی ابتدا علی گڑھ پہونچتے ہی شروع ہو گئی تھی۔ آپ نے یہاں مختلف مجلسوں اور محفلوں میں شعر گوئی کا شغل جاری رکھا اور آپ کے شعر و سخن کی دھوم مچ گئی۔ شاعری کی ابتدا ۱۹ سال کی عمر ہی سے ہو گئی تھی۔ اور اسی زمانہ میں آپ نے فارسی عربی اور اردو زبانوں میں باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔ عربی میں آپ کا کلام مختصر ہے ۔ فارسی زبان میں ۳۸ سال تک طبع آزمائی کی ۔ اور مختلف اصناف سخن میں آپ کا کلام موجود ہے۔ اردو میں ایک مشہور مثنوی ’’صبح امید‘‘ہے۔ شبلی کی اردو شاعری کے دور کو ہم دو حصوں میں منقسم کرسکتے ہیں۔ پہلا سن ۱۸۸۳ء سے پہلے کا اور دوسر اجس میں ۱۸۸۳ء سے لے کر ۱۹۱۴ء تک کے کلام شامل ہیں ۔ ۱۸۸۳ء اور ۱۸۸۴ء میں کہی جانے والی غزلوں میں ان تمام لوازمات کو ملحوظ رکھا ہے جو اس دور کی غزلوں یا پھر یہ کہا جائے حسن و عشق روایتی شاعری کے لئے مخصوص تھے۔ ان میں خیال بندی مبالغہ آمیزی شوخی اور خود سپردگی کا اظہار ہر جگہ موجود ہے ۔یعنی تغزل کا رچا ہوا روایتی اسلوب ان کی اردو غزلوں میں نمایاں ہے اور جابجا فارسی لطافت کی بھی جلوہ گری ہے۔ شبلی کی اردو غزلوں میں وہ شوخی و مدہوشی نہیں جو ان کی فارسی غزلوں میں موجود ہے۔ دراصل شبلی کی اردو شاعری کا بیشتر حصہ نظموں پر مشتمل ہے یہ نظمیں موضوعاتی ہیں جن کا تعلق اس عہد کی تحریکات سیاسی ہلچل اور بعض دوسرے قومی و ملی مسائل سے ہے مگر کچھ نظمیں ایسی بھی ہیں جنہیں ہم مذہبی یا اخلاقی شعری پارے قرار دے سکتے ہیں جو نصیحت و موعظت اور مقصد و افادیت سے لبریز ہیں۔ ان کے بیشتر اردو اشعار وقتی اور ہنگامی شاعری میں شمار ہوسکتے ہیں لیکن اس کی ادبی اہمیت اور تاریخی افادیت سے انکار مشکل ہی نہیں محال بھی ہے۔ شبلی کے اردو کلام میں موجود نظمیں بعض مخصوص موضوعات کے اردگرد ہی محدود ہیں جن میں سرسید تحریک ،مسلم لیگ اور احر ار لیگ وغیرہ۔ اگرچہ عمومی طور (۱) حیات شبلی۔ از سید سلیمان ندوی ص:۱۱۱ پر ان کی نظموں کی درجہ بندی قومی سیاسی اور مذہبی لفظوں میں کی جاتی رہی ہیں۔ لیکن کسی ایک موضوع یا زاویۂ نظر پر کسی شاعر کا مسلسل کچھ کہنا اس کے مخصوص نقطۂ نظر اور زاویۂ نگاہ کا پتہ دیتا ہے۔ علامہ شبلی کی شاعری کا دور اگر دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ وہ دور ہے جس میں ہندوستان اندرونی اور بیرونی طور پر آزمائش اور ابتلاء کے دور سے گزر رہا تھا ۔ اسی زمانہ میں آپ کی شاعری پر قومی اور سیاسی شاعری کی چھاپ زیادہ نظر آتی ہے۔ مسلمانوں کے مسائل کے حل میں آپ نے اپنی زندگی وقف کر دی۔ اور آپ نے شاعری کے ذریعہ ان مسائل کی اہمیت کو عام لوگوں میں اجاگر کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ سیاسی اور سماجی مسائل کے حل میں دیکھا یہ جاتا ہے کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ پہلے سامنے آتا ہے لیکن طبقہ علماء جو قدیم نظام د رس سے موسوم کئے جاتے ہیں۔ اگر جائزہ لیا جائے اور حقیقت پسند انہ نظروں سے دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو استحکام دلانے اور ان کی حیثیت عرفی کو قائم رکھنے میں علماء کا طبقہ ہی پیش پیش ہے ۔ با لخصوص علامہ شبلی نعما نی کا نام ان لوگوں میں سرِ فہرست ہے جنہوں نے مسلمانوں کو فرقہ واریت کے دلدل سے باہر نکا لا۔ علامہ شبلی کی شاعری کا رنگ و آہنگ شبلی کی شاعری میں اسلامی قصص و واقعات کی پوری چھا پ ہے۔ اخلاقی قدریں اسلامی اخوت و مساوات، ایثار و عدل ، حق و صداقت کو موضوع بنا کر نظم کیا ہے اور تاریخ پر ہمارا اعتماد بحال کیا ہے، سیرتِ رسول اکرم ﷺ کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ ایک جانب آپ کی شاعری اسلامی اخلاق و اقدار کی ترجمان ہیں وہیں دوسری جانب ہندوستانی سماج اور معاشرہ کی ترجمانی کرتی ہیں۔ آپ نے جس دور میں شاعری شروع کی وہ انگریزی سامراج کا زمانہ تھا ۔ دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک انگریزی سامراج کے چکی میں پس رہے تھے اور نئی مسلم تنظیمیں و تحریکیں اپنے سیاسی عزائم کے استحکام کی خاطر کوشاں تھیں ، مسلمان نت نئے مسائل کا شکار تھے، انگریزی سامراج کے ظلم و استبداد کو علامہ شبلی نے اپنی اردو شاعری کے ذریعہ اجاگر کیا۔ اس سمت شاعری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جوا د زیدی لکھتے ہیں : ’’وہ اردو کے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے برطانوی سامراج اور مغربی استعمار کے بین الاقوامی روپ کو دیکھا ۔ان پر مغربی سیاست کی تمام تر ریشہ دوانیاں بخوبی واضح ہوگئی تھیں۔ ‘‘۱؂ (۱) اردو میں قومی شاعری کے سو سال۔ از علی جواد سیدی ص:۴۳ آخرکار شبلی انگریزی حکومت کی آنکھوں کا کانٹا بن گئے ۔جب اگست ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو شبلی نے ایک نظم ’’جنگ یوروپ اور ہندوستان‘‘ کے عنوان سے لکھی جو انگریزوں کے خلاف شبلی کی نفرت کی غماز ہے۔ اسی نظم کی بنیاد پر انگریزی حکومت نے ان کی گرفتاری کا حکم صادر کیا لیکن اسی درمیان ان کی موت واقع ہوگئی جس کے سبب اس حکم گرفتاری کو عملی جامہ نہ پہنایا جاسکا۔ علامہ شبلی ترکی خلافت سے دل کی تمام گہرائیوں سے محبت رکھتے تھے اور جوں ہی کہیں ان کا ذکر آتا تو جذباتی ہو جاتے ، اور ماضی میں ان کی خدمات اور عظمت کے نقوش بیان کرنے لگتے ۔ شبلی کی ان سیاسی نظموں پر رائے زنی کرتے ہوئے نامور اردو کے نقاد پروفیسر آلِ احمد سرورلکھتے ہیں:۔ ’’شبلی نے اس زمانے کی سیاست پر اپنی نظموں میں اظہار خیال کیا ہے اور باوجود اس کے ان نظموں کے بہت سے موضوع وقتی ہیں مگر شبلی کا رنگین اسلوب، دلکش اشارے، پرزور لہجے اور مترنم زبان کی وجہ سے یہ نظمیں اب بھی مزہ دیتی ہیں۔‘‘۱؂ اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو محمد حسین آزاد اور خواجہ الطاف حسین حالیؔ وطنی شاعری کے سرخیل ہیں۔ آزاد اور حالی کی تمام شاعری میں ذہنی بیداری اور حالات کو موافق بنانے کا ایک جذبہ پورے شاعرانہ کمال کے ساتھ ملتا ہے۔ لیکن وہ انقلابی جوش، وہ للکار جو بعد میں ترقی پسند شعراء کے یہاں آئی اس کا درمیانی واسطہ شبلی کو ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر سید محمد ہاشم کہتے ہیں:۔ ’’سیاسی نظموں کی لے بہت تیز ہوگئی ہے اور متعدد نظمیں اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ ترقی پسند نظموں کو اپنا صحیح لب و لہجہ شبلی سے ہی ملا ہے۔‘‘۲؂ شبلی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ اگر ہم علامہ شبلی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ ان کی چند اصلاحی نظمیں اور اکثر قومی و سیاسی نظموں سے انکی شخصیت کے متعدد پہلو نظر آتے ہیں۔ اور اسی سے ان کے ذہن و فکر کے کئی گوشے ابھر کر سامنے آتے ہیں ۔ علامہ شبلی کی شاعری کے موضوعات میں جذباتیت نہیں نظر آتی، اگرچہ یہ موضوعات تقاضہ وقت اور سیاسی منظر نامہ کے حوالے سے ذکر کی گئی ہیں۔ (۱) بحوالہ تنقیدی اشارے۔ از آل احمد سرورص:۲۱۶ (۲) کاروان علی گڑھ از سید محمد ہاشم ص: ۱۰۳ جہاں تک شبلی کی شاعری اور اس کی ادبی وفنی قدر و قیمت کا سوال ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محمد حسین آزاد اور خوا جہ الطاف حسین حالی کے بعد اردو میں قومی شاعری کو حقیقی جذبات اور شور انگیز طرز ادا فارسی کی نغمگیت اور لطافت سے روشناس کرانے کا سہرا شبلی کے سر ہی جاتا ہے۔ مذہبی اور اخلاقی شاعری کے سلسلے میں بھی ان کا مقام بڑا ہی بلند ہے۔ اسلوب کی رنگینی بحر اور وزن کی ترنم آفرینی ردیف اور قافیے کی شگفتگی یہ سبھی ان کی شاعری کے نمایاں اوصاف ہیں جن کی بدولت ان کی شاعری شادابی اور جاذبیت سے لبریز ہوئی پروفیسر آل احمد سرور کہتے ہیں: ’’شبلی نے ہمارے علم میں گہرائی اور ادب میں تازگی پیدا کی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ بڑے ستھرے اور دلکش ذوق کے مالک تھے۔۔۔۔۔۔ افسوس کہ ان کے جانشینوں نے ان کی علمیت پر نظر رکھی ان کے ذہن کی لچک اور شعریت پر توجہ نہ کی۔۔۔۔۔۔ شبلی اگر نہ ہوتے تو محمد علی اور علامہ اقبال کہاں ہوتے۔‘‘۱؂ ناقدین ادب نے اسلوب کو شخصیت کا آئینہ دار مانا ہے اس طور پر کہ اس کے ذریعہ شاعری کی خصو صیات ، مزاج اور کردار کا عکس پڑتا ہے۔ اگرکلام شبلی کا ہم تجزیہ کریں تو ہمیں اس میں جابجا شبلی کے کردار کی معصومیت، سچائی، بے ریائی اور کھرے پن کے ثبوت ملتے ہیں مگر جلد ہی ان کے کلام میں ان کے کردار کا دوسرا رخ بھی سامنے آجاتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح فلموں میں کام کرنے والا ایک اداکار کسی ایک فلم میں بہت اچھا رول نبھاتا ہے اور جلد ہی دوسری فلم میں ایسا رول ادا کرتا ہے جو اس کے پہلے رول سے بالکل الگ ہوتا ہے لیکن یہ شبلی کے کمال فن کی دلیل ہے کہ انہوں نے پردۂ ادب کے لئے جس رول کا بھی انتخاب کیا اسے بخوبی نبھایا ہی نہیں بلکہ اسے بام عروج تک پہونچا دیا۔ علامہ شبلی نعمانی جہاں ایک طرف ایک بلند پایہ عالم دین اور اسلامی غیریت اور حمیت کے علمبردار تھے وہاں وہ مزاجی اعتبار سے نہایت خوش اخلاق، خوش مذاق اور حسن و جمال کے دلدادہ تھے۔ ان کی خوش مذاقی اور حسن و جمال کی دلدادہ د ہی غالباً کچھ دوسرے اسباب کے ساتھ ایک چنگاری بنی جو آگے چل کر بمبئی کی نرم و گداز اور رومان پرور فضاؤں میں اچانک دہک اٹھی تھی۔ علامہ شبلی نے فارسی زبان میں جو شاعری پیش کی وہ بہت شائستہ، ذوق و شوق اور فارسی شعرا کے گہرے اور عمیق مطالعہ کی آئینہ دار اور (۱) تنقیدی اشارے۔ از آل احمد سرورص:۲۱۹ ان کے کمال شاعری کی گواہ ہیں۔ شاعری کے رموز و نکات، زبان کی شیرینی اور حلاوت شبلی کی غزلوں میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ہویدا ہے ۔خیالات کی ندرت زبان کی شوخی، بندش کی نفاست دل آویزی و دلربائی کو شبلی نے رشتہ اشعار میں پرو دیا ہے۔ شبلی نے فارسی زبان میں غزلوں کے علاوہ دیگر اصناف شاعری پر بھی طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کی فارسی غزلیں لطافت و بلاغت میں بے مثال اور بلاشبہ فارسی ادب کا گراں بہا سرمایہ ہیں ۔ متفرق اشعارعلامہ شبلی نعمانی ( نظم: ہنگامیہ طرابلس و بلقان) حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشاں کب تک چراغ کشتہ محفل سے اٹھے گا یہ دھواں کب تک مراقش جاچکا فارس گیا اب دیکھنا یہ ہے کہ جیتا ہے یہ ترکی کا مریض سخت جاں کب تک ہاں یہ سیلاب بلا بلقان سے جو بڑھتا آتا ہے اسے روکے گا مظلوموں کی آہوں کا دھواں کب تک یہ وہ ہے نالۂ مظلوم کی لئے ان کو بھاتی ہے یہ راگ ان کو سنائے گا یتیم ناتواں کب تک *** یہ مانا گرمی محفل کے ساماں چاہئے تم کو دکھائیں ہم تمہیں ہنگامہ آہ و فغاں کب تک یہ مانا قصہ غم سے تمہارا جی بہلتا ہے سنائیں تم کو اپنے درد دل کی داستاں کب تک یہ مانا تم کو شکوہ ہے فلک سے خشک سالی کا ہم اپنے خوں سے سینچیں گے تمہاری کھیتیاں کب تک کہاں تک لوگے ہم سے انتقام فتح ایوبی دکھاؤگے ہمیں جنگ صلیبی کا سماں کب تک سمجھ کر یہ کہ دھندلے سے نشان رفتگاں ہیں ہم مٹاؤگے ہمارا اس طرح نام و نشاں کب تک *** زوال دولت عثماں زوال شرع و ملت ہے عزیزوں فکر فرزند و عیاں خواں و ماں کب تک خدارا تم یہ سمجھے بھی کہ یہ تیاریاں کیا ہیں نہ سمجھے اب تو پھر سمجھوگے تم یہ چستیاں کب تک *** پرستاراں خاک کعبہ دنیا سے اگر اٹھے تو پھر یہ احترام سجدہ گاہ قدسیاں کب تک جو گونج اٹھے گا عالم ناقوس کلیاں سے تو پھریہ نغمہ توحید گل بانگِ اذاں کب تک بکھرتے جاتے ہیں شیرازہ اوراق اسلامی چلے گی تند و بار کفر کی یہ آندھیاں کب تک کہیں اڑکر نہ یہ دامان حرم کو بھی یہ چھو آئے غبار کفر کی یہ بے محابہ شوخیاں کب تک حرم کی سمت تھی صیدافگنو کی جب نگاہیں ہیں پھر سمجھو کہ مرغان حرم کے آشیاں کب تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پوچھتے کیا ہو جو حال شب ِتنہائی تھا رخصت ِصبر تھی یا ترک ِشکیبائی تھا شب ِفرقت میں دل ِغمزدہ بھی پاس نہ تھا وہ بھی کیا رات تھی،کیا عالم ِتنہائی تھا میں تھا یا دیدہء خوں نابہ فشاں بھی شب ِہجر ان کو واں مشغلہء انجمن آرائی تھا پار ہائے دل خونیں کی طلب تھی پیہم شب جو آنکھوں کی مری ذوق ِخود آرائی تھا رحم تو ایک طرف پایہ شناسی دیکھو قیس کو کہتے ہیں ،مجنوں تھا ،صحرائی تھا آنکھیں قاتل سہی پر زندہ جو کرنا ہوتا لب میں ایحان تو اعجاز ِمسیحائی تھا دشمن ِجان تھے ادھر ہجر میں درد و غم و رنج اور ادھر ایک اکیلا ترا شیدائی تھا کون اس راہ سے گذرا ہے کہ ہر نقش ِقدم چشم ِعاشق کی طرح اس کا تماشائی تھا ہم نے بھی حضرت شبلی کی زیارت کی تھی یوں تو ظاہر میں مقدس تھا یہ شیدائی تھا