آب بیتی الحاج محی الدین منیری ۔ 18 ۔ نہ کچھ کام آئے جناب منیری ۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری


M:00971555636151
شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کا جب بھی حج کا سفرہوتا۔ صابو صدیق مسافر خانہ ضرور تشریف لاتے ، میری ان سے ملاقاتیں رہتیں ، ان کی مجالس میں اٹھنا بیٹھنا ہوتا۔ آپ کے ایک خلیفہ تھے مولانا عبدالمنان صاحب۔ دہلی میں کوئی دینی مدرسہ چلاتے تھے۔ ایک مرتبہ جب حضرت مدنی ؒ سفرِ حج پر جانے لگے تو انہیں بھی حضرت کی معیت میں سفر کا شوق چراّیا۔ ان کی زبان میں بڑی روانی تھی ، عربی اور اردو دونوں زبانوں میں یہ شعر کہتے تھے۔ ایسا چرب زبان شخص اپنی عمر میں میں نے کم ہی دیکھا ہے۔ انہوںنے جہاز کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے بڑے پاپڑ بیلے تھے۔ بڑے بڑے آفیسروں کی منت سماجت کی ، حج کمیٹی کے چیرمن سے ملے، مغل لائن کے ڈائرکٹر کو نہیں چھوڑا، ادھر ادھر شور مچاتے پھر رہے تھے کہ حضرت کے ساتھ جاناہے ٹکٹ نہیں ملتا۔ تو کسی نے ان سے کہدیا۔ ۔ ۔ تمہیں عقل نہیں ، بارہ (۱۲) نمبرکمرے میں منیری بیٹھے ہوئے ہیں جاؤ ان سے ملو تمہارا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ یہ سننا تھا کہ السلام علیکم یا منیری صاحب! آپ کا نام سن کر آیا ہوں ، آپ بڑے لوگوں کی حاجت روائی کرتے ہیں ، میری بھی سن لو ، مجھے بھی ایک ٹکٹ دلادو، آپ کا بہت مشکور رہوں گا۔ میں مغل لائن کے ڈائرکٹروں کے پاس گیا، حج کمیٹی کے چیرمن کے پاس گیا ، بکنگ مینجر کے پاس گیا، ہرجگہ سے نامراد لوٹا۔ ابھی کسی نے مجھ سے کہا ہے کہ منیری کے پاس جاؤ، تمہارا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ یہاں سے تمہیں مایوسی نہیںہوگی ، کہتے ہوئے میرے کمرے میں وارد ہوئے ۔
میں نے کہا تم تو بڑے عقل مند ہو ، سمجھ بوجھ رکھتے ہو، حج کمیٹی کے چیر مین سے لے کر مغل لائن کے جنرل مینجر تک سے مل آئے ہو، جہاز پر ان لوگوں کی حکومت چلتی ہے۔ میں تو اس کا مالک نہیں ہوں، آخر میں کیا کرسکتاہوں ، جتنے وسائل ہوسکتے تھے یہ سارے تو تم آزما چکے ہو۔ یہ سننا تھا کہ وہ رونے لگے اور برجستہ ایک قطعہ کہہ دیا جس کا ایک شعر تھا
سفر سخت دشوار ، مجھ پر اندھیری نہ کچھ کام آئے جناب منیری
یہ سنتے ہی میں ہکا بکا رہ گیا۔ میں بھی کیا کرتا؟ آخری جہاز کی روانگی قریب تھی۔ مسافر خانہ میں ایک ہجوم تھا، یہاں پر تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی ۔ دور درازعلاقوں سے آئے ہوئے تین سو عازمین ٹکٹوں سے محروم تھے ۔ یہ سب غمگین اور روتے ہوئے در در پھر رہے تھے ، اور یہ بڑے میاں شاعری کر کے منار ہے تھے۔ میں نے ان کی یہ حالت دیکھ کر انہیں میرے آفس میں کچھ دیر بیٹھنے کو کہا ،تاکہ کچھ کوششیں کرکے دیکھ لوں۔ وہ میرے پاس زمین ہی پر دوزانو ہوکر بیٹھ گئے۔ اور میں قریب ہی واقع مغل لائن آفس میں مشورہ کی غرض سے چلاگیا۔ وہاں کے مینجر مرچنٹ تھے ، جن سے میرے اچھے تعلقات تھے ، انہوںنے دیکھتے ہی کہامنیری ! ادھر آؤ، ابھی ابھی ایک ٹکٹ کینسل ہواہے، اگرمیں اس کا اعلان کردوں گا تویہ لوگ میری بوٹیاں نوچ ڈالیں گے ، تین سولوگ بغیر ٹکٹ پڑے ہوئے ہیں، تم چپکے سے ایک آدمی کا پیسہ لاکردو، میں خاموشی سے کام کرکے بھیجتاہوں۔ اس شاعر کی قسمت جاگ اٹھی ، میں پاس گیا اور کہا کہ مولوی صاحب آج تو آپ کا ٹکٹ نہیں ہوسکتا ، البتہ خاموشی سے کسی سے کچھ کہے بغیر میرے پاس ٹکٹ کے پیسے چھوڑ جاؤ۔ پھر چھپ چھپا کر میں نے پیسے جمع کئے اور ٹکٹ بک کیا۔ سفر حج کی یہ پہلی منزل تھی جو اگرطے ہوجاتی تو پھر آئندہ تمام منزلیں خود بخود آسان ہوجاتیں۔ ویزہ ، انجکشن وغیرہ میں پھر کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ انہوںنے دونوں ہاتھ اُٹھائے ،
بہت ساری دعائیں دیں ، فارسی کا ایک قطعہ بھی کہا جس کا ایک مصرعہ تھا ۔ الہٰی رحمت بکن برحال منیری
اور دوسرے روز حضرت مدنی ؒ کی رفاقت میں وہ حج بیت اللہ کے سفرپر روانہ ہوئے۔