ستمبر 17:  کوممتاز نغمہ نگار اور شاعر حسرتؔ جے پوری کی برسی ہے

Bhatkallys

Published in - Other

04:33PM Sun 17 Sep, 2017
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس کنڈکٹر سے نامور غزل گو اور گیت نگار بننے والے بھارتی شاعر حسرت جے پوری کی داستان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان کی طرح ہندوستان میں بھی اعلیٰ پائے کے نغمہ نگار پیدا ہوئے جنہوں نے ایسے شاندار گیت تخلیق کئے کہ ان کا نام تاریخ کے صفحات میں درج ہو گیا۔اگر پاکستانی فلمی صنعت کو قتیل شفائی ،سیف الدین سیف ،فیاض ہاشمی،مسرور انور،سرور بارہ بنکوی،اختر یوسف،احمد راہی،وارث لدھیانوی،بابا عالم سیاہ پوش جیسے نغمہ نگار ملے تو ہندوستانی فلمی صنعت کو بھی ایسے گیت نگار ملے جو اپنے فن کے بادشاہ تھے۔ ان میں شکیل بدایوانی ،ساحر لدھیانوی، آنند بخشی،مجروح سلطانپوری ،شیلندر ،اندیور ،گلشن باورا اور انجان شامل ہیں۔تنویر نقوی وہ شاعر تھے جنہوں نے پہلے ہندوستانی فلموں کے گیت لکھے اور پھر تقسیم کے بعد جب وہ پاکستان منتقل ہوئے تو یہاں کی فلمی صنعت سے وابستہ ہو گئے۔ وہ ایک انتہائی بلند پایہ نغمہ نگار تھے ، جنہوں نے نہ صرف اردو بلکہ پنجابی فلموں کے لیے بھی ایسے گیت لکھے جو امر ہو گئے۔ان سب گیت نگاروں کی عظمت اپنی جگہ بجا لیکن ایک نغمہ نگار ایسا ہے جس نے بس کنڈکٹر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا اور پھر بعد میں ہندوستانی فلمی صنعت میں ایک شاندار گیت نگار کی حیثیت سے اپنے نام کا ڈنکا بجایا، ان کا نام ہے حسرت جے پوری۔ 15اپریل 1922ء کو بھارتی شہر جے پور میں پیدا ہونے والے حسرت جے پوری کا اصل نام اقبال حسین تھا۔انہوں نے ارد و اور فارسی کی تعلیم اپنے دادا سے حاصل کی۔بیس سال کی عمر سے ہی انہوں نے شعر کہنے شروع کر دیے۔1940ء میں وہ ممبئی آئے اور بس کنڈکٹر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کر دیا۔اس وقت ان کی تنخواہ گیارہ روپے ماہوار تھی۔وہ اکثر مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ایک مشاعرہ میں پرتھوی راج کپور نے انہیں سنا اور اپنے بیٹے راج کپور سے سفارش کی کہ اس نوجوان سے فلمی نغمات لکھوائے جائیں۔راج کپوران دنوں اپنی فلم ’’برسات ‘‘پر کام کر رہے تھے۔ ان کی اس فلم کے سنگیت کار شنکر جے کشن تھے۔راج کپور نے حسرت جے پوری سے اپنی فلم ’’برسات ‘‘کے چھ گیت لکھوائے ۔ان کے ساتھ شیلندر نے بھی اس فلم کے نغمات لکھے۔حسرت جے پوری کا جو پہلا گیت ریکارڈ کیا گیا وہ کچھ یوں تھا’’جیا بے قرار ہے، آئی بہار ہے‘‘ اور دوسرا گانا تھا ’’چھوڑ گئے بالم‘‘۔ یہ دونوں گیت انتہائی مقبول ہوئے۔اس فلم کے بعد ہی راج کپور کی ٹیم بن گئی۔موسیقار شنکر جے کشن ،گیت نگار حسرت جے پوری اور شیلندر اور مرد گلوکاروں میں مکیش۔شیلندر کے ساتھ ملکر حسرت صاحب نے 1971ء تک راج کپور کی ساری فلموں کے گیت لکھے۔ جے کشن کی موت کے بعد اور’’ میرا نام جو کر‘‘اور’’ کل ، آج اور کل ‘‘کی باکس آفس پر ناکامی کے بعد راجکپور نے حسرت جے پوری کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا اور انہوں نے نئے نغمہ نگاروں کی تلاش شروع کر دی۔شیلندر پہلے ہی وفات پا چکے تھے اور حسرت جے پوری ایک مخلص دوست سے محروم ہو چکے تھے ۔ شیلندر نے اپنی ذاتی فلم’’ تیسری قسم ‘‘کے نغمات حسرت جے پوری سے لکھوائے تھے۔کئی برسوں بعد راج کپور نے حسرت جے پوری سے اپنی فلم ’’رام تیری گنگا میلی‘‘ کے گیت لکھوائے اور حسرت صاحب نے ایک بار پھر اپنے فنی عظمت کا لوہا منوا لیا، اس کے بعد راج کپور نے پاکستانی اداکارہ زیبا بختیار کو لے کر’’ حنا ‘‘پر کام شروع کیا۔اس فلم کے نغمات کے لیے بھی انہوں نے حسرت صاحب سے کہا۔اسی دوران راج کپور چل بسے۔ان کے انتقال کے بعد حسرت جے پوری نے الزام عائد کیا کہ’’ حنا ‘‘کے موسیقار رونیدر جین نے ایک سازش کے تحت ان کے نغمات کو حنا سے الگ کر دیا اور اپنے گیت شامل کر لیے۔نغمہ نگار کی حیثیت سے ان کی آخری فلم ’’ہتیا‘‘ تھی جو 2004ء میں ریلیز ہوئی۔وہ سکرپٹ رائٹر بھی تھے ۔ 1951ء میں ریلیز ہونے والے فلم’’ ہلچل‘‘ کا سکرپٹ انہوں نے ہی لکھا تھا۔انہوں نے اپنی بیوی کی ہدایت پر جائیداد کا کاروبار کیا اور اس کاروبار سے انہیں مالی استحکام نصیب ہوا ،وہ کبھی معاشی تنگدستی کا شکار نہ ہوئے، پھر وہ ایک نغمہ نگار کی حیثیت سے اتنے متحرک نہ رہے۔انہوں نے دو فلم فیر ایوارڈ حاصل کیے جن میں ایک ایوارڈ فلم ’’سورج‘‘ کے گیت ’’بہارو پھول برسائو‘‘اور دوسرا فلم’’ انداز‘‘ کے گیت ’’زندگی اک سفر ہے سہانا‘‘پر دیا گیا۔ یہ دونوں فلمیں 1966ء اور 1972ء میں ریلیز ہوئیں۔حسرت صاحب کو اُردو کانفرنس نے جوش ملیح آبادی ایوارڈ سے نوازا ۔اس کے علاوہ انہیں ڈاکٹر امبیدکر ایوارڈ بھی دیا گیا۔انہیں ورلڈ یونیورسٹی رائونڈ ٹیبل کی طرف سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی عطا کی گئی۔ذیل میں حسرت جے پوری کے چند یادگار گیتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے: 1۔جیا بے قرار ہے،آئی بہار ہے(برسات) 2۔ تیری پیاری پیاری صورت کو(سسرال) 3۔پنکھ ہوتے تو اُڑ آتی میں(سہرا) 4۔تم مجھے یوں بھلا نہ پائو گے(پگلا کہیں کا) 5۔احسان تیرا ہو گا مجھ پر(جنگلی) 6۔زندگی اک سفر ہے سہانا(انداز) 7۔دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی(تیسری قسم) 8۔دل کے جھروکے میں تم کو بٹھا کر(برہمچاری) 9۔آج کل تیرے میرے پیار کے چرچے(برہمچاری) 10۔سن صابا سن پیار کی دھن(رام تیری گنگا میلی) یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ حسرت جے پوری ایک اعلیٰ پائے کے نغمہ نگار ہی نہیں بلکہ ایک عمدہ غزل گو بھی تھے۔انہوں نے ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں شاعری کی اور ان کی شاعری کی کئی کتابیں شائع ہوئیں ،ان کے شعری کلیات’’آبشار غزل ‘‘کے عنوان سے شائع ہوئے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہندی اور اردو سگی بہنوں کی طرح ہیں جنہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ان کی غزلوں کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے: یہ کون آ گئی دلربا مہکی مہکی فضا مہکی مہکی ہوا مہکی مہکی وہ آنکھوں میں کاجل وہ بالوں میں گجرا ہتھیلی پہ اس کی حنا مہکی مہکی ……………… وہ اپنے چہرے میں سو آفتاب رکھتے ہیں اسی لیے تو وہ رخ پہ نقاب رکھتے ہیں وہ پاس بیٹھے تو آتی ہے دلربا خوشبو وہ اپنے ہاتھوں پہ کھلتے گلاب رکھتے ہیں وہ بہت رومانیت پسند تھے اور انہیں شہنشاہ رومانس (King of Romance)بھی کہا جاتا تھا۔ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ نوجوانی میں انہیں ایک ہندو لڑکی سے عشق ہو گیا اور انہوں نے اس کے لیے ایک نظم لکھی’’ یہ میرا پریم پتر پڑھ کر کہیں ناراض نہ ہونا‘‘اس عشق کا کیاانجام ہوا اس کے بارے میں تو کچھ علم نہ ہو سکا البتہ 1964ء میں ان کی یہ نظم گیت کی شکل میں راج کپور کی مشہور فلم سنگم میں شامل کر لی گئی۔ اسے محمد رفیع نے اپنی لافانی آواز میں گایا اور اس گیت کی عظمت اب تک برقرار ہے۔ شاعر اور نغمہ نگار کی حیثیت سے انہوں نے بہت شہرت حاصل کی لیکن وہ ہمیشہ سادہ زندگی بسر کرتے رہے، وہ اپنے آپ کو ایک معمولی آدمی سمجھتے تھے اور عاجزی اور انکساری کو اپنا زیور خیال کرتے تھے۔ مالی طور پر مستحکم ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ ٹرین پر سفر کرتے تھے۔17ستمبر 1999ء کو اس بے مثل شاعر اور نغمہ نگار کا سلسلہ ٔحیات منقطع ہو گیا۔ انہوں نے 77برس کی عمر پائی ۔حسرت صاحب اپنی غزلوں اور گیتوں کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ٭…٭…٭ بشکریہ:عبدالحفیظ ظفرؔ منتخب کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم راتوں کو اٹھ اٹھ کے جن کے لیے روتے ہیں وہ غیر کی بانہوں میں آرام سے سوتے ہیں ہم اشک جدائی کے گرنے ہی نہیں دیتے بے چین سی پلکوں میں موتی سے پروتے ہیں ہوتا چلا آیا ہے بے درد زمانے میں سچائی کی راہوں میں کانٹے سبھی بوتے ہیں انداز ستم ان کا دیکھے تو کوئی حسرتؔ ملنے کو تو ملتے ہیں نشتر سے چھبوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺷﻌﻠﮧ ﮬﯽ ﺳﮩﯽ ﺁﮒ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁ ﭘﮭﺮ ﻃُﻮﺭ ﮐﮯ ﻣﻨﻈﺮ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁ ﯾﮧ ﮐﺲ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮬﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﺑﻨﺎ ﺩﮮ ﺁ ﺍﭘﻨﮯ ﮬﯽ ﮬﺎﺗﮭﻮﻥ ﺳﮯ ﻣﭩﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁ ﺍﮮ ﺩﻭﺳﺖ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﺮﺩﺵِ ﺣﺎﻻﺕ ﻧﮯ ﮔﮭﯿﺮﺍ ﺗﻮ ﺯﻟﻒ ﮐﯽ ﮐﻤﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮬﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﺳﮯ ﺭﺍﮬﻮﮞ ﺳﮯ ﮬﭩﺎ ﺩﮮ ﮬﺮ ﺭﺳﻢ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﻣﭩﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁ ﻣﻄﻠﺐ ﺗﯿﺮﯼ ﺁﻣﺪ ﺳﮯ ﮬﮯ ﺩﺭﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺣﺴﺮﺕ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺩﻝ ﮬﯽ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁ ـــــــــــــــ ــــــــــــــــ ــــــــــــ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺭﺥ ﭘﮯ ﻧﻘﺎﺏ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﻭﮦ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﻮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺩﻟﺮﺑﺎ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﮧ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮔﻼﺏ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮬﺮ ﺍﯾﮏ ﻭﺭﻕ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﮬﯽ ﺗﻢ ﮬﻮ ﺟﺎﻥِ ﻣﺤﺒﻮﺑﯽ ﮬﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﺟﮩﺎﻥِ ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﮬﻨﯽ ﮐﮩﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﮬﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﮯ ﭼﻨﺎﺏ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮬﯿﮟ ــــــــــ ــــــــــــ ـــــــــــ ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﺁ ﮔﺌﯽ ﺩﻟﺮﺑﺎ ﻣﮩﮑﯽ ﻣﮩﮑﯽ ﻓﻀﺎ ﻣﮩﮑﯽ ﻣﮩﮑﯽ ' ﮬﻮﺍ ﻣﮩﮑﯽ ﻣﮩﮑﯽ ﻭﮦ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﺟﻞ ' ﻭﮦ ﺑﺎﻟﻮﻥ ﻣﯿﻦ ﮔﺠﺮﺍ ﮬﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﻨﺎ ﻣﮩﮑﯽ ﻣﮩﮑﯽ ﺧﺪﺍ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺲ ﮐﺲ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺟﺎﻥ ﻟﮯ ﮔﯽ ﻭﮦ ﻗﺎﺗﻞ ﺍﺩﺍ ﻭﮦ ﺻﺒﺎ ﻣﮩﮑﯽ ﻣﮩﮑﯽ ﺳﻮﯾﺮﮮ ﺳﻮﯾﺮﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﭘﮯ ﺁﺋﯽ ﺍﮮ ﺣﺴﺮﺕ ﻭﮦ ﺑﺎﺩِ ﺻﺒﺎ ﻣﮩﮑﯽ ﻣﮩﮑﯽ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب پیار نہیں تو بھلا کیوں نہیں دیتے خط کس لۓ رکھے ہیں جلا کیوں نہیں دیتے کس واسطے لکھا ہے ہتھیلی پہ مرا نام میں حرف غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے للہ شب و روز کی الجھن سے نکالو تم میرے نہیں ہو تو بتا کیوں نہیں دیتے رہ رہ کے نہ تڑپاؤ اے بے درد مسیحا ہاتھوں سے مجھے زہر پلا کیوں نہیں دیتے جب اس کی وفاؤں پہ یقیں تم کو نہیں ہے حسرتؔ کو نگاہوں سے گرا کیوں نہیں دیتے