ستمبر 17:-:معروف شاعر اور ادیب کمار پاشی کا یومِ وفات ہے

Bhatkallys

Published in - Other

04:30PM Sun 17 Sep, 2017
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ------------------------------------------------------ کمار پاشی ایک منفرد شاعر ، افسانہ نگار اور سنجیدہ ادیب تھے ۔ آپ کا اصل نام شنکردت کمار تھا کمار پاشی قلمی نام تھا ۔ آپ بہاولپور میں 03 جولائی 1935 ء کو پیدا ھوئے ۔ آپ کا خاندان 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد دلی چھوڑ کر بہاولپور آن بساتھا ۔ لیکن تقسیم برصغیر کے بعد وہ دوبارہ دلی چلے گئے ۔ اس وقت کمار پاشی کی عمر تقریبا 12 برس تھی ۔ اس کم سنی میں ھجرت کے دکھ کی وجہ سے سنجیدگی کا عنصر ان پر شروع ھی سے غالب رھا ۔ تعلیم و تربیت دلی میں ھی ھوئی ۔ تمام عمر اسی شہر سے جڑے رھے ۔ دلی شہر سے انہیں بہت انسیت اور لگاؤ تھا ۔ ملازمت کیلئے بھی انہوں نے دلی شہر کا ھی انتخاب کیا تھا ۔ وہ دلی سے باھر جا کر رھنا پسند نہیں کرتے تھے ۔ ان کی شاعری دلی میں ھی پروان چڑھی اور ایک دن پرانے موسموں کی آواز نے تمام اردو دنیا میں شور برپا کر دیا ۔ یہ آواز سبھی کو چونکا دینے والی تھی ۔ انہیں ھندوستانی اساطیر کا شاعر قرار دیا جاتا ھے ۔ کمار پاشی نے بحیثیت افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار بھی اپنی صلاحیتوں کا لوھا منوایا ھے ۔ سہ ماھی ادبی رسالے " سطور " کی ادارت کے فرائض بھی انجام دئیے ۔ 16 سپتمبر کو وہ اپنا دفتری کام ختم کر کے گھر جا رھے تھے کہ راستے میں بیہوش ھو کر گر پڑے ۔ رات بھر وہ بیہوش رھے اور 17 سپتمبر کی صبح کو ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تصانیف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرانے موسموں کی آواز ۔ 1966ء خواب تماشا ۔ 1968ء انتظار کی رات ۔ 1973ء رو بہ رو ۔ 1976ء اک موسم میرے دل کے اندر ، اک موسم میرے باھر ۔ 1979ء زوالِ شب کا منظر ۔ اردھانگنی کے نام ۔ 1987ء چاند چراغ ۔ ( بعد از مرگ ۔ 1994ء ) پہلے آسمان کا زوال ۔ افسانوی مجموعہ ۔ 1972ء جملوں کی بنیاد ۔ یک بابی ڈراموں کا مجموعہ ۔ 1974ء کلیاتِ کمار پاشی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو رہی تھی گفتگو آج ممکنات پر لا کے پھول رکھ دیا اس نے میرے ہاتھ پر ہم سدا نبھائیں گے چھوڑ کر نہ جائیں گے آ گئی ہمیں ہنسی آج ان کی بات پر آپ ہی بتایۓ ہم سے مت چھپایۓ آپ بھی تو تھے میاں جاۓ واردات پر ہجر کی شبیں سبھی صبحیں ساری درد کی کتنا بوجھ رکھ لیا ہم نے اپنی ذات پر سب نراس کیوں ہوۓ دل اداس کیوں ہوۓ سارے مل کے سوچیے ان معاملات پر کوئی کیا سمجھ سکے ان کی اہمیت ہے کیا غور کر رہا ہوں میں آج جن نکات پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیں سارے انکشاف اپنے ہیں سارے ممکنات اپنے ہم اس دنیا کا سارا علم لے جائیں گے ساتھ اپنے چمک ویسی نہ ماتھے پر دمک ویسی نہ چہرے پر ستارے کس کے گھر جانے لٹا آئی ہے رات اپنے نہ ہو گی دل کشی دنیا میں اک دن وہ بھی آۓ گا کہ سارے راز اگل دے گی کسی دن کائنات اپنے نہیں گر دیکھ سکتی موت سے لڑتے ہوۓ مجھ کو تو پھر اے زندگی لے جا تو سارے التفات اپنے کھلا ہے عمر کی شام حزیں میں راز یہ پاشیؔ کہ ہر دم موت کو بھی ساتھ رکھتی ہے حیات اپنے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ جب جشن بہاروں کا منانے نکلے ہم بیابانوں میں تب خاک اڑانے نکلے کھل گیا دفتر صد رنگ ملاقاتوں کا حسن کے ذکر پہ کیا کیا نہ فسانے نکلے عشق کا روگ کہ دونوں سے چھپایا نہ گیا ہم تھے سودائی تو کچھ وہ بھی دوانے نکلے جب کھلے پھول چمن میں تو تری یاد آئی چند آنسو بھی مسرت کے بہانے نکلے شہر والے سبھی بے چہرہ ہوۓ ہیں پاشیؔ ہم یہ کن لوگوں کو آئینہ دکھانے نکلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظم: رجائیت کی حمایت ۔۔۔۔۔۔۔۔ بے ارادہ چلیں گے تو لا حاصلی کے مصائب سے بچ جائیں گے تم کہو گے کوئی پھول رکھ دوسرے ہات پر دل ہی دل میں میں رو دوں گا اس بات پر میں کہوں گا نہیں کچھ نہ کہہ پاؤں گا قہقہہ مار کر بس ہنسوں گا تمھیں بھی ہنسی آۓ گی بے ارادہ یوں ہی بے ارادہ ہنسیں گے یوں ہی دیر تک پھر خیال آۓ گا: تم نے اک بات مجھ سے کہی تھے بتاؤ: وہ کیا بات تھی تم کہو گے ہٹاؤ بھلا دو اسے آؤ چل دیں یوں ہی بے ارادہ کہیں بھول جائیں کہ اس کے گناہ گار ہیں اس کے قاتل ہیں ہم بھول جائیں کہ اپنی سزا موت ہے