آب بیتی الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ    -17- تجوری کی کنجی ۔۔۔ بقلم : عبد المتین منیری

Bhatkallys

Published in - Other

08:49PM Sun 1 Jul, 2018

            صابو صدیق مسافر خانہ بمبئی میں ایک ایسی جگہ تھی جہاں پر ہندوستان بھر سے علماء و مسلم قائدین آتے تھے۔ میرا آفس اس کے روم نمبر ۱۲؂ میں واقع تھا۔ یہیں پر میرا اٹھنا بیٹھنا ہوتا۔ احمد غریب اپنی دکان پر رہتے ، اسی دوران ہمیں خیال آیا کہ حاجیوں کو ہوائی جہاز سے بھیجنے کا انتظام ہونا چاہئے۔ اب تک ہندوستانی حاجی پانی جہاز سے حج پر جاتے تھے۔ ابھی ہوائی جہاز کا سلسلہ شروع نہیں ہواتھا ۔ احمد غریب کا کہنا تھا کہ یہ انتظام ہمیں اپنے ہاتھوںمیں لینا چاہئے۔ پھر کیا تھا میرے آفس میں بکنگ شروع ہوگئی ۔ ہوائی جہاز کی بڑی بڑی کمپنیوں سے بات چیت ہونے لگی ۔ اور بالآخر سابیناایرویز سے معاہدہ طئے پایا۔ حاجیوںکی بمبئی جدہ واپسی کا ٹکٹ ایک ہزار روپیہ مقرر ہوا۔ اور حکومت ہند کی اجازت سے سیکڑوں حاجیوں کو ہم نے ہوائی جہاز سے روانہ کیا ۔ ہم لوگ انہیں خود ہوائی جہاز تک چھوڑنے جاتے ، چائے ، پانی سے ان کی تواضع کرتے، ان کی ضرورتوں اور رہنمائی کا خیال رکھتے۔ احمد غریب مجھ پر بہت اعتماد کرتے تھے ۔ انہوںنے تجوری کی کنجی میرے ہاتھ میں رکھ چھوڑی تھی ۔ یہ کنجی اتنی بابرکت تھی کہ مسلسل پچیس سال تک میری جیب میں پڑی رہی ۔ میں جہاں بھی جاؤں یہ میرے ساتھ جاتی۔ ویسے احمد غریب کی تاکید بھی تھی کہ کسی بھی حال میں اسے ہاتھ نہ چھوڑوں۔ ٹکٹوں کی جملہ رقومات میرے پاس رہتیں ۔ احمد غریب کو صبح وشام جب بھی فرصت ملتی، میرے پاس انہیں جمع کرتے۔ اس زمانے میں مرحوم ایس ایم سید عبدالقادر بمبئی چھا کے ساتھ ناگ دیوی اسٹریٹ میں رہا کرتا تھا۔ زندگی سادہ تھی ، اس میں ٹھاٹ باٹ نہیں تھا، رہن سہن قلندرانہ تھا۔

            ایک مرتبہ کیا ہوا کہ میں تھکا ہارا جامع مسجد میںلکڑی کے تختہ پر لیٹا ہواتھا کہ پڑے پڑے نیند لگ گئی ، کرتہ جسم ہی پر تھا، بے خبری میں کنجی نیچے گرگئی ۔ رات کے بارہ بجے ہمیشہ کی طرح میں اپنے کمرے میں آکر سوگیا ۔ خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص آکر کہہ رہاہے کہ لاکھوں روپئے تمہاری تجوری میں ہیں اور تم مسجد کے تختہ پر تجوری کی کنجی چھوڑ آئے ہو۔ بھاگو اور جلدی سے اسے لے آؤ۔ میں یکدم گھبرا کر اٹھا، وہاں جاکر دیکھتاہوں کہ کنجی جیسے گری تھی ویسے ہی پڑی ہوئی ہے، اسے جیب میںڈال کر واپس آگیا۔

            اس ضمن میں ایک واقعہ اور بھی سن لیجئے۔ ایک مرتبہ میرے حساب میں پانچ ہزار روپئے کا فرق آیا ۔ اس زمانے کے پانچ ہزارآج کے ایک لاکھ کے برابر ہیں، میں غریب آدمی ، کل تنخواہ ماہانہ ڈیڑھ سوروپئے ، اور فرق اتنا بڑا۔ اُدھر سے سوال پر سوال کہ منیری ! کیاہوا، تحقیق کرو، پیسہ کدھر رکھاتھا؟ کسے دیا تھا؟ میری حالت ایسی کہ کاٹوتو خون نہیں ۔ اس زمانے میں نزدیک کوئی بنک بھی نہیں تھا۔ حاجی اپنی امانتیں میرے ہی پاس لاکر رکھتے تھے ۔ مجھے ہدایت تھی کہ حاجیوں سے امانتیں لے کر رکھوں اور جب بھی وہ واپس طلب کریں انہیں لوٹادوں۔ کسی حاجی کی امانت دوچار ہزار ہوتی تو ایک غلاف میں اسے بند کرتا، ان کے نام نمبر مبلغ وغیرہ لکھتا اور ایک چٹھی پر یہ سب تفصیلات لکھ کر بطور رسید دے دیتااور غلاف لمبی چوڑی تجوری میں پھینک دیتا۔ پھر مجھے یادنہیں رہتا کہ کس نے کیا دیا ہے۔ جب کوئی اپنی امانت واپس مانگنے کے لئے آتا تو گھبراہٹ طاری ہوتی، شک ہونے لگتا ، یہ چہر ہ تو دیکھا ہوا نہیں ہے، کہاں سے روپیہ مانگنے کے لئے آگیا۔ جب چٹھی کے مطابق غلاف مل جاتا تو اطمینان نصیب ہوتا ، خداکافضل ہے اس طویل عرصہ میں کبھی امانت میں خیانت نہیں ہوئی ۔ سبھوں کو ان کی امانتیں واپس مل گئیں۔

            میرے پاس جولوگ اپنی امانتیں چھوڑ جاتے ،ان میں بیجاپور سے قریبی گاؤںبنڈول کے محی الدین بھی تھے۔ دیہاتی بھولابھالا شخص، پڑھا لکھا کچھ نہیں ، گاؤں میں اپنی کھیتی باڑ ی پر گذران تھا ، ٹھیک سے بات کرنا بھی اسے نہیں آتا تھا۔ وہ میرے پاس روپیہ لاکر کہتا ،اتنا پیسہ لایاہوں ، مجھے حج کو بھیج دو۔ وہ دن بھر روزے سے رہتا اور رات کو بارگاہ خداوندی میں آہ و زاری کرتا۔ مجھے اس کے ساتھ بڑی ہمدردی تھی ، شاید اس کا تیسرا حج تھا۔

            جب میں گم شدہ پانچ ہزار کی فکر میں رات کے ایک بجے حیران و پریشان بیٹھاہوا تھا تو وہ میرے پاس آیا اور میری فکرمندی کا سبب دریافت کرنے لگا، کہ کیا ہوا، کیسے ہوا، میںنے ساری تفصیل اس کو سنائی کہ احمد غریب کا تھوڑے تھوڑے وقفہ سے باربار فون آرہاہے کہ منیری ! تحقیق کرو، تحقیق کرو، یہ سنتے ہی وہ رونے اور خداسے دعائیں ، مناجاتیں کرنے لگا۔ شاید اس نے میرے پاس اس وقت پانچ ہزار روپئے امانت رکھے تھے۔ اس نے میرے پیر پکڑ لئے اور التجا کرنے لگا کہ منیری صاحب! میری بات سن لو! وہ جو میری امانت ہے تم اپنے حساب میں ڈال دو، میں اپنا بوریہ بستر لے کر کنڈل چلاجاتاہوں۔ آئندہ سال جب پیسے جمع ہونگے حج کرلوںگا۔ یہ دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ ایک انجان گنوارنے اتنی بڑی قربانی پیش کردی تھی ۔ میں نے کہا تمہاری دعائیں میرے لئے کافی ہیں ۔ تم جاکر دعاکرو، انشاء اللہ رقم مل جائے گی۔ اس نے رات کو دعاؤں کا اہتمام کیا ۔ صبح کو احمد غریب کا فون آیا کہ پانچ ہزار روپئے کا حساب مل گیاہے۔ فلاں کھاتے میں گڑ بڑ ہوئی تھی ۔ میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر اداکیا۔ میری مصیبت کے وقت ایک اجنبی کے یہ جذبات تھے ، ایسے لوگ اب کہاں ملتے ہیں۔

            محی الدین اب بھی بار بار حج پر جاتے ہیں ، ابھی چند روز قبل میری اہلیہ کی رحلت کی خبر سن کر بھٹکل آئے تھے۔ ہفتہ دس روز یہاں پر رہے ، دن بھر روزہ رکھ کر مسجد میں پڑے رہتے، راتیں عبادتوںمیں کاٹتے ،یااللہ، یااللہ کا ورد زبان پر رہتا، میں نے ان کی کمزور حالت دیکھ کر روزوں سے منع بھی کیا، ڈانٹا بھی ، انہیں میری فکرپڑی رہتی تھی ۔ ابھی کچھ عرصہ قبل میرے نواسے داماد اشفاق سکری کا حادثہ ہوا تو باگل کوٹ میں کسی نے انہیں اس کی خبردی ۔بیمار تھے ۔ جیب میں ٹکٹ کے پیسے بھی نہیں تھے ، ادھر ادھر سے رقم اکٹھا کر کے بس پر سوارہوگئے اور سیدھے میرے گھر آکر رونے لگے۔ یہ ان کا اخلاص و محبت تھی۔

            ۱۹۵۳ء میں حکومتِ ہند کی طرف سے اگزیکٹیو آفیسر کے ساتھ حج کے بعد پھر چھ سال تک حج کا موقعہ نہ ملا ۔ اس دوران ہر وقت حرم شریف کا خیال دامن گیر ہوتا۔ ۱۹۵۹ء میں پھر حج کا موقعہ نصیب ہوا ، یہ حج میں نے اپنی گاڑھی کمائی سے کیا تھا۔ اس مرتبہ بھی حاجیوں کی خدمت بنا چین نہیں ملتا تھا۔ جان پہچان والے آتے ۔ اپنی تکلیفیں بیان کرتے ، دعائیں دیتے ، ابھی جوانی کے نشان باقی تھے ۔ ابھی خون گرم تھا۔