تبصرات ماجدی(165)    لطائف السعادت۔ از انشاءاللہ خاں انشاء ۔۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:57PM Wed 23 Sep, 2020

تبصرات ماجدی(165)    لطائف السعادت۔               از انشاءاللہ خاں انشاء ۔۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

              مرتبہ ڈاکٹر آمنہ خاتون۔ایم اے، پی ایچ، ڈی۔ 180+19 صفحہ، مجلد، قیمت دو روپیہ، نمبر 2391۔ فسٹ عید گاہ، میسور۔

انشاء کی شہرت ایک فاضل و محقق زبان دان کی حیثیت سے اب تک دریائے لطافت کے دم سے تھی۔ اب میسور کی ڈاکٹر آمنہ خاتون نے جن کے تحقیقی نوادر اور واقعی ادبی تحقیق کی ایک نادر مثال ہے، کہیں سے ان کی ایک مختصر سی کتاب لطائف السعادت کے نام سے ڈھونڈ نکالی، اور اس میں اپنی محنت اور تلاش سے وہ اضافہ کیے اور اپنی ذہانت سے ایسی ایسی گلکاریاں کیں کہ بہ قول شخصے،

قصۂ زلف مختصر نہ ہوا

چھبیس صفحہ کا رسالہ کوئ دو سو صفحہ کی کتاب کی ضخامت تک پہنچا! اور جو ایک کچا گھروندا سا تھا، اس پر گمان قصر معلے کا ہونے لگا!

انشاء کے زمانہ میں اودھ کے فرمانروا نواب سعادت علی خاں تھے۔ انشاء ان کے درباری تھے۔ بادشاہ کی زبان سے چلتے ہوئے فقرے کبھی کبھی ارشاد ہوتے ہی تھے۔ انشاء نے درباری ہونے کا حق یوں ادا کیا کہ نطق شاہی کے ان نمونوں کو لطائف و ظرافت میں شمار کیا اور انہیں اپنی عبارت میں مرتب کرکے مجموعہ کا نام لطائف السعادت رکھ دیا۔ ایسے لطیفوں کی (اگر انہیں لطیفہ کہنا درست ہوں) تعداد 55 ہے۔ کتاب میں یہ کل 52 صفحوں ( ص:16۔67) میں آگئے ہیں، یعنی ان کا اصل فارسی متن کل 26 صفحہ کا رہتا ہے اور ان صفحوں میں بھی حاشیے کثرت سے ہیں مرتب صاحب کے کچھ خود لکھے ہوئے اور کچھ دوسروں سے لکھوائے ہوئے!

...... یہ منظر دیکھ کر دور قدیم  کے مصنفین یاد آجاتے ہیں جب دستور یہ تھا کہ متن اگر چند ورق کا ہے تو اس کی شرح بیسوں ورق میں ہو اور پھر شرح پر حاشیے اور تعلیقات کے اوراق کی میزان پچاسوں بلکہ سیکڑوں اوراق تک پہنچ جائے!۔

لیکن فاضل مرتبہ کی یہ سعی رائگاں نہیں، ان کے حواشی اور تبصروں ہی نے تو کتاب میں جان پیدا کردی ہے۔ ورنہ کتاب بجائے خود بے جان سی تھی، دو لطیفوں میں سے دو چار بھی ایسے نہیں جن سے کسی خاص ذہانت، برجستگی، حاضر جوابی کا پتا چلتا ہو۔ یہ اور بات ہے کہ ایک درباری کو اپنے بادشاہ کی ہر ہر بات میں کوئی نکتہ نظر آتا رہے۔ اور متعدد جگہ تو ان لطیفوں میں کھلا ہوا فحش ہے۔ مثلا

ص: 38  لطیفہ 20 اور 21

ص: 40  لطیفہ  آخر 23

ص: 58  لطیفہ  41

ص: 64  لطیفہ   آخر 51

کہیں تو فحش کے ساتھ چر کنیت کی بھی آمیزش ہے۔ ص: 50 لطیفہ 36 ۔

مرتبہ کی تلاش و تفحص یقینا قابل داد بلکہ قابل رشک ہے۔ خدا معلوم کہاں کہاں سے انہوں نے اپنے کام کی چیزیں ڈھونڈ نکالی ہے۔ ان کا ذوق ادب بھی اعلی اور قابل احترام ہے۔ اور یہ بھی لائق صد شکر ہے کہ بجائے ترقی پسند افسانہ نویس ہوجانے کے، کم سے کم ایک تعلیم یافتہ خاتون تو ہماری قوم سے ادبی تحقیق کے میدان کی طرف آئیں۔ لیکن اس پر بھی حیرت ہے کہ انہوں نے آخر ایسی کتاب کا انتخاب ہی کیوں کیا ...... یہ دین کی کوئی خدمت تو ظاہر ہے کہ نہیں ہے۔ لیکن دنیا کی بھی کسی خاص قیمتی اور مفید خدمت سے

ان کی اس تلاش و تعب کو تعبیر کرنا مشکل ہی ہے، گو اس میں ذرا شبہ نہیں کہ انہوں نے وسعت معلومات، ذوق تحقیق اور ادبی موشگافیوں کا ایک قابل قدر ذخیرہ پیش کردیا ہے۔ اور آزاد، شیفتہ، صغیر بلگرامی، تنہا میرٹھی غرض جس کسی نے بھی کوئی ایسی بات لکھ دی ہے جس سے انشاء کی کسر شان ہوتی ہو، محترمہ مرتبہ ایک ایک سے انشاء کی طرف سے لڑتی پھری ہے۔

مرتبہ کی مشقت اور سعی تحقیق کی داد اور پوری داد دیے بغیر چارہ نہیں، لیکن دوسری طرف یہ کہے بغیر بھی نہیں رہا جاتا، کہ کاش اتنی دماغ سوزی اور عرق ریزی کسی بہتر موضوع پر کی گئی ہوتی۔ ایسے " کوہ کندن" سے حاصل کیا، جس کا نتیجہ محض " کاہ بر آوردن" رہے۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/