120 صفحہ، مجلد مع گرد پوش، قیمت دو روپیہ آٹھ آنے، ادراۂ فروغ اردو، امیں آباد پارک لکھنؤ۔
پاکستان میں: مبارک بک ڈپو، بندر روڈ، مقابل ڈینسو ہال، کراچی ۔ 2 ۔
آل انڈیا ریڈیو کے دہلی اسٹیشن کے ایک کارکن آوارہ مار ہروی مدت سے اپنی مزاحیہ تقریریں سناتے رہتے ہیں۔ زبان خصوصا دہلی کے محاورات کے گویا بادشاہ ہیں اور مزاح کے لفافہ میں پند لطیف بھی، یہ انکے 26 مزہ دار نشریوں کا مجموعہ ہے۔
ظرافت نگاری آسان چیز نہیں، جیسا کہ بہت سے نومشقوں نے سمجھ لیا ہے، فطری مناسبت اس کے لیے لازمی ہے۔ اس کے بعد پھر قلم اور ذوق دونوں کی پختگی بھی حاصل کرنا ہوتی ہے۔ جب یہ فطری اور اکتسابی دونوں قسم کی صلاحتیں جمع ہوجائیں، جب کہیں انسان صحیح معنی میں ظریف ہوسکتا ہے۔ "آوارہ" صاحب میں یہ سارے جوہر موجود ہیں۔ اور اس سب پر اضافہ ان کی حیرت انگیز قدرت زبان کا ہے۔ زبان دانی ان کی اس غضب کی ہے کہ اس پر اچھے اچھے اہل زبان رشک کر سکتے ہیں۔ محاوارت پر عبور کامل کے ساتھ ہر فن کے تلامذے اور پیشے کے مخصوص استعارے گویا انہیں نوک زبان ہیں !
اس دل و جگر کا انسان جب لکھنے یا بولنے پر آئے گا تو قدرتا اپنے قلم اور زبان کی دھاک بٹھادے گا۔ افسوس ہے کہ بیچارہ خود اشتہاری کے فن سے واقف نہیں، ورنہ آج اس میدان میں وہی وہ ہوتے-- ادبیات کے شوقین اور زبان کا چٹخارہ لینے والے ناظرین اگر اس کتاب کو ایک نظر دیکھ لیں۔ تو انہیں خود پتہ چل جائے گا کہ تضحیک و تمسخر و عریانی و فحاشی کے بغیر بھی کوئی تحریر کتنی پرلطف و نشاط انگیز ہو سکتی ہے!
ادارۂ فروغ اردو کی تازہ مطبوعات میں صحیح و شستہ زبان سکھانے والی کتاب " اپنی موج میں " کے بعد یہی ہے۔ بلکہ ایک لحاظ سے اس کا نمبر بڑھا ہوا ہے۔ جہاں تک زبان سیکھنے سکھانے کا تعلق ہے، " اپنی موج میں " صرف خواص کے لائق ہے اور کف گلفروش خواص و عوام دونوں کے ہاتھ میں جانے کے قابل ہے۔ فرقت کا نام اردو والوں کی دنیا میں کچھ ایسا نیا نہیں " ترقی پسندوں " کی تضحیک میں ان کی کتابیں " مداوا " اور " ناروا " خاصہ نام پیدا کرچکی ہیں۔ وہ ان کی شوخ نگاری کے سلبی و منفی پہلو کو پیش کررہی تھیں۔ یہ اس کے ایجابی و اثباتی رخ کا جلوہ دکھا رہی ہے۔
یہ کتاب ان کے 17 ہلکے پھلکے نوشتوں کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے کچھ تو یقینی ریڈیو کے نشریے ہیں۔ باقی ممکن ہے کہ رسالوں کے لیے لکھے گئے ہوں۔ عنوانات کچھ اس قسم کے ہیں: " دہلی اور لکھنؤ کے بانکے "، " ترقی پسند خواتین کا مشاعرہ "، "لکھنؤ اور دہلی کے بھائی"، " گاندھی جی اور ظرافت "،
" پرانی دنیا کے شہسوار "-
ایک قابل مطالعہ مضمون کا عنوان ہے۔ " جشن جمہوریت کی ایک دوپہر "۔ اس کے پڑھنے سے سرشار کا لطف تازہ ہوجاتا ہے۔ مجموعہ کا بہترین مضمون " ترقی پسند خواتین کا مشاعرہ " ہے۔ مشاعرہ کی سکریٹری ڈاکٹر مفید جہاں ہیں اور شاعرہ چھ ہیں۔ ایک میرا بائی ( میرا جی کے رنگ میں کہنے والی ) دوسری ڈاکٹر مس دلگیر جہاں ہیں جن کی نظم کا عنوان ہے
" سیبوں کی قربانی " اور جو نظم سناتے وقت فراک کے اوپر کے بٹن کھول دیتی ہیں۔ تیسری مس فیض بانو ہیں( جو شاید منٹو کی نام لیوا ہے) چوتھی ان،ام واحد، ہیں، جون، م ۔ راشد کے رنگ میں ڈوب کر شعر فرماتی ہیں۔ پانچوں مس ظفر بانو بھی میرا جی کا نام روشن کرنے والی ہے۔ اور چھٹی مس میخوار بانو کا کلام مخمور جالندھری کے رنگ میں رنگین ہے۔ فرقت پروڈی (تضحیک) میں کامل ہیں اور اسی مناسبت سے ان کا شاہکار بھی اس مجموعہ میں یہی مضمون ہے۔ لیکن جیسا کہ اکثر طنزیہ نظموں میں ہوتا ہے۔ اس مضمون کی نظمیں بھی دو دھاری تلوار کے حکم میں داخل ہیں۔ یعنی جہاں وہ عریاں نظموں کا بھر پور جواب ہیں وہیں وہ ناواقفوں کے لیے عریانی آموز بھی ہیں۔ اس لیے ایسی تحریریں ہر ہاتھ میں جانے کے قابل نہیں۔ اس ایک خطر ناک پہلو کو چھوڑ کر باقی اور حیثیت سے کتاب قابل دید ہے۔
کتاب کے شروع میں جو ایک معروف افسانہ نویس سید علی عباس حسینی کے قلم سے
" تعارف " ہے ( تعارف کتاب کا نہیں، کتاب نویس کی شخصیت اور کسی قدر عجیب شخصیت کا) بجائے خود پڑھنے کے قابل ہے۔